زندگی ایک امتحان

نازیہ عبدالستار

بسم اللہ الرحمن الرحیم

وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِّنَ الْخَوفْ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الأَمْوَالِ وَالْأَنفُسِ وَالثَّمَرَاتِ وَبَشِّرِ الصَّابِرِينَO

’’اور ہم ضرور بالضرور تمہیں آزمائیں گے کچھ خوف اور بھوک سے اور کچھ مالوں اور جانوں اور پھلوں کے نقصان سے، اور (اے حبیب!) آپ (ان) صبر کرنے والوں کو خوشخبری سنا دیں‘‘۔

(البقرة،2: 155)

اہل اللہ پر جب کوئی مصیبت آتی ہے تو وہ کہتے ہیں کہ یہ اللہ کی طرف سے ہے اور ہمیں اس کی طرف ہی پلٹ کر جانا ہے انہیں افراد کے لئے اللہ کی طرف سے صلوۃ اور رحمت ہے اور یہی ہدایت یافتہ ہیں۔

مالی اور جانی نقصان ہوتا ہے تو فرمایا کہا کرو: ’’إِنَّا لِلّهِ وَإِنَّـا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ‘‘ کیونکہ اس نقصان کے بدلے رحمت اور صلوات کا وعدہ فرمایا ہے تاکہ انسان ہر مادی نقصان اور خسارے کے لئے آمادہ رہے اور یہ احساس رہے کہ یہ مادی نقصان اور خسارہ نہیں بلکہ رحمت اور صلوات کا ذریعہ ہے۔ جب انسان میں یہ شعور بیدار ہوجائے تو اس میں قوت تحمل پیدا ہوجاتی ہے۔ یہ قوت عظیم قوت ہے جو اخلاق حسنہ کو جنم دیتی ہے جس سے ہر انسان آنے والی مصائب و پریشانی کو فراخ دلی سے قبول کرتا ہے۔ قرآن مجید میں قوت برداشت پید اکرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

انسان کی طبیعت میں امتحان ہمیشہ سے ہی ایک ناپسندیدہ شے ہے۔ انسان کی اس ناگواری کا سبب یہ ہے کہ اس کو دوران امتحان، چستی، باہمی ہوشیاری، محنت اور ذمہ داری سے متصف ہونا پڑتا ہے جبکہ انسان اپنی زندگی لاپرواہی اور غیر ذمہ دارانہ طور پر گزارنا چاہتا ہے لیکن اگر وہ جان لے کہ امتحان کے بعد اس کو کیا کچھ حاصل ہونے والا ہے تو پھر وہ امتحان سے نفرت نہیں بلکہ محبت کرنے لگے۔ دیکھا جائے تو امتحان بہت بڑی نعمت ہے۔ جس کو امتحان سے گزارا نہیں جاتا درحقیقت قدرت اس کو کوئی نعمت عطا کرنے کے لئے راضی نہیں ہوتی۔

ایک طالب علم کی بھی آزمائش ہوتی ہے وہ دن رات محنت کرتا ہے، رات کو جاگتا ہے اور اپنے پیپرز کی تیاری کرنا۔ یہ وقت اس کو بڑا مشکل محسوس ہوتا ہے۔ رات دن کی محنت شاقہ سے وہ جب امتحان دیتا ہے۔ آخرکار وہ پاس ہوتا ہے تو اسے ایک عجیب سے خوشی ہوتی ہے جوکہ ناقابل بیان ہوتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اس کو نئی کلاس میں Promote بھی کردیا جاتا ہے۔ اس کی پرموشن ہوجاتی ہے۔ کلام ربانی ہے ’’ہر مشکل کے بعد آسانی ہے‘‘۔

إِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًاo

یقیناً (اس) دشواری کے ساتھ آسانی (بھی) ہے۔

الشَّرْح، 94: 6

حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا سب سے زیادہ سخت امتحان نبیوں کا ہوتا ہے پھر صالح لوگوں کا پھر اس سے نچلے درجے والوں کا۔ روایت میں درج ہے ہر شخص کا ایمان اس کے دین کے اندازے سے ہوتا ہے اگر کوئی دین میں مضبوط ہو تو امتحان بھی سخت تر ہوتا ہے۔

یزید بن سیرہ فرماتے ہیں جب حضرت ایوب کی آزمائش شروع ہوئی تو گھر والے سب داغ مفارقت دے گئے، مال فنا ہوگیا، کوئی چیز نہ رہی۔ آپ اللہ کے ذکر میں اور بڑھ گئے۔ فرماتے: اے اللہ تو نے مجھ پر بڑے احسان کئے، مال دیا اولادیں دیں اس وقت میرا دل ان کی طرف مشغول تھا وہ سب کچھ چھوٹ گیا ہے اب میں فکر سے آزاد ہوں میرے دل میں اور تیرے درمیان کوئی چیز حائل نہیں رہی۔ لہذا اللہ کے ذکر کیوں نہ کروں۔ راوی کہتے ہیں کہ جسم میں کیڑے پڑگئے تھے صرف آپ کی ایک بیوی صاحبہ تھیں جو ہر وقت آپ کے پاس رہتی تھیں۔ آپ کو کھلاتی پلاتی تھیں۔ ایک دن شیطان بصورت طبیب مل گیا۔ اس نے آپ سے کہا کہ آپ کا شوہر سخت بیمار ہے فلاں بت کے نام خیرات کرو یا مکھی ہی مارو تو شفا ہوجائے گی۔ جب آپ کی بیوی نے آپ کے پاس یہ واقعہ بیان کیا تو کہنے لگے کہ شیطان کس کس انداز سے گمراہ کرتا ہے۔ ایک دن دعا کی مولا! تو نے مجھے اس آزمائش سے ڈالا ہے تو ہی مجھے اس آزمائش سے نکال اور تو رحم فرمانے والا ہے۔

روایت ہے کہ ایک روز بنی اسرائیل کے چند لوگ آپ کے پاس سے گزرے اور آپ کو دیکھ کر کہنے لگے کہ ضرور اس آدمی نے کچھ بڑے گناہ کئے ہیں جو اتنی بڑی بیماری لگی۔ آپ نے یہ سنا تو خدا کی بارگاہ میں التجا کی مولا! تو سب کچھ جانتا ہے اور سجدے میں گر پڑے آخر اللہ کی طرف سے ندا آئی کہ اپنی ایڑی زمین پر مارو، وہاں سے پانی نکلے گا وہی پی لو اور اس سے نہا بھی لینا۔ حضرت ایوب علیہ السلام نے ایسا ہی کیا۔ آپ تندرست ہوگئے اور جنت سے لباس آیا جس کو آپ نے زیب تن کیا۔ جب بیوی نے انہیں دیکھا تو نہیں پہچانا۔ بعد ازاں اللہ تعالیٰ نے سب مال و اسباب بھی عطا کردیا۔

حضرت ایوب علیہ السلام نے صبرو ہمت سے کام لے۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اس کا اجر یہ دیا کہ صحت یابی کے بعد ایک روز حضرت ایوب سے پوچھا۔ اے ایوب! بتائو، حالت بیماری کے دن اچھے تھے یا اب کے دن۔ تو حضرت ایوب نے بتایا کہ بیماری میں دوبار تیری ندا آتی تھی اے ایوب تیرا کیا حال ہے؟ تو میرا سارا دن اس خوشی میں گزر جاتا کہ مولا نے مجھ سے میرا حال پوچھا ہے تو سارا وقت مجھے تکلیف کا احساس ہی نہ ہوتا۔ ایک بار رات کو پوچھا جاتا اے میرے بندے تیرا کیا حال ہے؟ تو رات بھر اسی خوشی میں گزر جاتی کہ میرے مولا نے میرا حال پوچھا ہے لیکن اب وہ ندا آنا بند ہوگئی ہے تو مغموم رہتا ہوں۔

اس واقعہ سے ثابت ہوا کہ جب مولا کسی کو مصیبت میں مبتلاکرتا ہے تو اس کا مقصد اس بندے کو نوازنا ہوتا ہے تکلیف دینا نہیں ہوتا۔ اس بندے کو کندن بناکر تیار کرکے ایک عظیم کام سونپنا ہوتا ہے۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام کا واقعہ

حضرت ابراہیم علیہ السلام اللہ کے نبی تھے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں مختلف آزمائشوں سے گزارا۔ اولاد تو سب کو پیاری ہوتی ہے اگر کوئی اس کو تکلیف پہنچائے تو اس کا دکھ برداشت نہیں ہوتا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے خواب میں دیکھا کہ وہ اپنے بیٹے اسماعیل علیہ السلام کو ذبح کررہے ہیں۔ نبی کا خواب کیونکہ سچ ہوتا ہے تو آپ نے اپنے بیٹے سے کہا کہ میں نے خواب دیکھا ہے کہ اپنے بیٹے کو ذبح کررہا ہوں۔ بیٹا کیونکہ فرمانبردار تھا۔ کہنے لگے ابا جان! آپ کو جو حکم ملا ہے آپ کر گزریئے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے بیٹے کی آنکھوں پر پٹی باندھی اور ذبح کرنے کے لئے لٹادیا۔ جیسے ہی انہوں نے اپنے بیٹے اسماعیل علیہ السلام کو ذبح کرنے کے لئے چھری چلائی تو اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے جبریل علیہ السلام کو حکم دیا اے جبرئیل جائو میرے ابراہیم علیہ السلام کے لئے دو بکرے لے جائو اور انہیں کہنا کہ تم نے اپنا خواب سچ کر دیکھا اب اسماعیل علیہ السلام کی جگہ ان کی قربانی دو۔ ہم آپ سے راضی ہیں اور ہم نے آپ کو اپنا خلیل بنالیا ہے۔ اسماعیل کی اسی فرمانبرداری کے بارے میں کہا گیا:

یہ فیضان نظر تھا یا مکتب کی کرامت تھی
سکھائے کس نے اسماعیل کو آدابِ فرزندی

اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام سے ان کی اولاد کی آزمائش کروائی۔ ان کو اولاد کے ذریعے امتحان میں ڈالا کہ اس کے دل میں اپنے بیٹے کی محبت مجھ سے زیادہ تو نہیں ہوگئی۔ مولا چاہتا ہے کہ بندے کے دل میں سب سے زیادہ محبت اللہ کی ہو پھر اس کی رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی۔ حدیث قدسی ہے تم مومن ہی نہیں ہوسکتے جب تک میری محبت تم سب کی محبت پر غالب نہ ہوجائے۔

اس دنیا میں اگر کوئی مفلس و نادار ہے یا کوئی اگر امیر ہے اگر کوئی بڑے درجے یا مرتبہ والا ہے اس میں اس کا کوئی کمال نہیں ہے۔ ہر بندے کی آزمائش اس کے درجے کے مطابق ہوتی ہے کیونکہ دینے والی ذات اللہ تعالیٰ ہے۔ اگر اس نے آپ کو دیا تو وہ اس مفلس کو بھی دینے پر قادر ہے لہذا کسی کو حقیر نہ جانو بلکہ اللہ کے بندوں سے پیار کرو۔ اگر آپ کے نیچے کوئی کام کررہا ہے اور اس سے غلطی سرزد ہوجاتی ہے آقا علیہ السلام کی تعلیمات کو پیش نظر رکھنا چاہئے کہ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں آقا علیہ السلام نے مجھے کبھی نہیں کہا تھا کہ یہ کام کیوں نہیں؟ اور فلاں کو کیوں کیا؟ دراصل اللہ آپ کو کچھ دے کر اور کچھ نہ دے کر دونوں طرح آزماتا ہے۔ اس آزمائش میں کامیاب ہونے کا ایک طریقہ ہے کہ آپ اللہ کے بندوں پر رحم کرنا سیکھیں۔ اگر آپ انسانوں پر رحم کریں گے تو اللہ آپ پر رحم کرے گا۔ بقول شاعر

کرو مہربانی تم اہل زمین پر
خدا مہرباں ہوگا عرشِ بریں پر

حضرت امام حسین علیہ السلامکی آزمائش

شہادت امام حسین علیہ السلام تو کسی سے اوجھل نہیں کہ خانوادہ نبوت کے 72 تن کس طرح راہ خدا میں شہید ہوئے۔ حضرت امام حسین علیہ السلام کو نیزے پر اٹھایا گیا اور کوفہ کی گلیوں میں پھیرا گیا۔ اگر وہ چاہتے تو یزید کی سلطنت کو پارہ پارہ کردیتے لیکن اللہ تعالیٰ کی مشیت کو سامنے رکھتے ہوئے حضرت امام حسین علیہ السلام نے عزیمت کا راستہ اختیار کیا اور جام شہادت نوش کیا۔ ان کی شہادت سے دشمن کی صفوں میں کھلبلی مچ گئی وہ رہتی دنیا کے لئے ذلیل و رسوا ٹھہرا۔

حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جس نے حسین علیہ السلام کو اذیت دی اس نے مجھے اذیت دی گویا یزید نے امام حسین علیہ السلام کو شہید کرکے ذلیل و رسوائی مول لے لی اور امام حسین علیہ السلام نے شہادت کو سینے سے لگاکر دنیا و آخرت میں سرخروئی حاصل کرلی۔ اللہ تعالیٰ امام حسین علیہ السلام سے جان کی قربانی مانگی تو انہوں نے اپنی جان راہ خدا میں دے کر اللہ کے ہاں کامیاب و کامران ٹھہرے۔ اللہ تعالیٰ کا شہید کے بارے میں فرمان ہے:

وَلاَ تَقُولُواْ لِمَنْ يُقْتَلُ فِي سَبِيلِ اللّهِ أَمْوَاتٌ بَلْ أَحْيَاءٌ وَلَكِن لاَّ تَشْعُرُونَo

’’اور جو لوگ اﷲ کی راہ میں مارے جائیں انہیں مت کہا کرو کہ یہ مُردہ ہیں، (وہ مُردہ نہیں) بلکہ زندہ ہیں لیکن تمہیں (ان کی زندگی کا) شعور نہیں۔‘‘

(البقرة، 2: 154)

امیرالمومنین سیدنا علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم فرماتے ہیں:

إِنَّ الْبَلَاءَ لِلظَّالِمِ أَدَبٌ وَ لِلْمُؤْمِنِ امْتِحَانٌ وَ لِلْأَنْبِيَاءِ دَرَجَةٌ وَ لِلْأَوْلِيَاءِ كَرَامَةٌ.

’’انسان پر پڑنے والی یہ مصیبتیں ظالم کے لئے سزا، مومنین کے لئے امتحان اور پیامبروں کے لئے درجات کی بلندی اور اولیاء اللہ کے لئے کرامت و بزرگی ہوتی ہیں‘‘۔

المجلسي, بحار الأنوار، 64: 235

لیکن وہ لوگ جن کے ظرف کم ہے ان کا امتحان بھی ان کے ظرف کے مطابق ہوتا ہے اور اگر وہ اس امتحان میں کامیابی کے ساتھ نکل جائیں تو بعد والے امتحانوں کی باری آتی ہے۔ تمام امتحان ایک طرح کے نہیں ہوتے کسی کا امتحان فقر سے لیا جاتا ہے۔ کسی کا صحت و سلامتی بخش کر امتحان لیاجاتا ہے۔ کسی کا امتحان بیماری سے کسی کا علمی کامیابیوں سے کسی کا عبادت و ریاضت کی توفیق عطا کرکے۔ ہر انسان کسی نہ کسی امتحان سے دوچار ہے وہ اس سے فرار حاصل نہیں کرسکتا۔ گو کہ امتحان ایک نعمت ہے یہ انسان کو محنت، ریاضت اور مستعدی کا خوگر بناتی ہے۔ یہ آخرت کی یاد پیدا کرتی ہے اور اللہ کی یاد میں اضافہ کرتی ہے لیکن ہمیں اللہ رب العزت سے اس کی محبت اور عنایت طلب کرنی چاہئے۔ وہ ذات بہت بڑی ہے اس کی چھوٹی سی آزمائش بھی بندہ برداشت نہیں کرسکتا۔ اس لئے اس اعلیٰ وبابرکت ذات سے اس کا رحم و کرم طلب کرنا چاہئے۔ اس سے بھلائی اور نیکی کی توفیق طلب کرتے رہنا چاہئے۔ وہ ذات ہمیں آزمائش میں نہ ہی ڈالے بلکہ دست گناہگار کو پکڑ کر منزل مقصود پر پہنچادے۔ اس لئے کہ ہمارے ناتواں کندھے اس کی آزمائش کا بوجھ اٹھانے کے قابل نہیں۔ اس سے بخشش کے طلبگار بن کر زندگی گزارنی چاہئے۔

حوالہ: ماخوذ از ماہنامہ منہاج القرآن، اکتوبر 2015

تبصرہ