عورت کو تحفظ فراہم کرنے والے قوانین کہاں ہیں؟

ڈاکٹر فوزیہ سلطانہ

پاکستان میں 30 مئی 2018ء کو ایک اور حکومت اپنے 5 سال مکمل کرکے فارغ ہوئی۔ اس حکومت کی پانچ سالہ کارکردگی کو مختلف پہلوئوں سے جانچا جاسکتا ہے مثلاً مہنگائی، بے روزگاری کے خاتمے، وسائل کی منصفانہ تقسیم، عام آدمی کی فلاح و بہبود کے حوالے سے کیا اقدامات کئے گئے مگر حال ہی میں ملتان کی بس ہوسٹس مہوش کے قتل نے پاکستانی معاشرے میں خواتین کی حیثیت پر ایک بار پھر سوالیہ نشان کھڑا کردیا ہے جس نے یہ سوچنے پر مجبور کردیا ہے کہ کیا کسی حکمران کی پیش نظر حقیقتاً خواتین کی فلاح و بہبود ہے؟ کیا کسی حکومت نے کبھی ایسے اقدامات کئے کہ ایسے واقعات کی روک تھام کی جاسکے تو جواب میں قوانین تو بنتے نظر آتے ہیں مگر ان پر عمل درآمد نہیں۔ گذشتہ حکومت کی مثال ہی دیکھ لیں 17 جون 2014ء کا دن کس کو یاد نہیں جب 14 لوگوں کو ناحق قتل کیا گیا جن میں دو خواتین شازیہ مرتضیٰ اور تنزیلہ امجد بھی تھیں اب یہاں کس سے انصاف مانگا جاتا جب قاتل خود حکمران تھے کون خواتین پر تشدد کے حوالے سے بنائے گئے قوانین پر عمل کرواتا جب ریاستی عناصر خود ایسے واقعات میں ملوث ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ پانچ سالوں میں خواتین کے قتل، تشدد اور زیادتی کے واقعات میں تیزی سے اضافہ دیکھنے میں آیا خاص طور پر پنجاب میں ایسے واقعات کی بھرمار نظر آتی ہے۔

معصوم زینب کے قتل پر اگر مجرم قاتل کیفر کردار کو پہنچایا جاتا تو اس کے بعد بھی وہی واقعات رونما نہ ہوتے مگر نام نہاد خادم اعلیٰ نے زینب کیس پر مجرم کو پکڑنے پر اپنے چہیتے افسران کو تمغے تو سجادیئے اور داد تحسین بھی خوب دی کہ بس اب ایسا کوئی واقعہ رونما نہیں ہوگا مگر کیا ہوا اگلے دن سے پھر وہی واقعات شروع ہوگئے۔

ایسے واقعات کی مثالیں بھی کم نہیں جہاں خواتین کو تشدد کرکے قتل کیا گیا ہو۔ گزشتہ برس خواتین کو چھریوں کے وار سے زخمی کرنے والا گینگ بھی متحرک رہا مگر مجال ہے جو ہمیں کوئی مجرم سزا پاتا نظر آجائے صرف ایک خبر آتی ہے کہ ملزم گرفتار ہوگیا اب گرفتاری کے بعد سزا ملی یا نہیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا شاید ہمارے حکمرانوں نے جرم پر گرفتار کرنا ہی حمتی سزا مقرر کردیا ہے انہیں واقعات کے تسلسل میں حال ہی میں قتل ہونے والی بس ہوسٹس مہوش کا قتل بھی ہے جو غربت سے تنگ روزگار کے لیے باہر نکلی تو ہمارے معاشرے کے حاکمانہ نظام کے ہتھے چڑھ کر مرگئی۔ کیوں اکیسویں صدی میں بھی عورت محفوظ نہیں؟ کیوں عورت کے حقوق کے لیے کی جانے والی جدوجہد کے باوجود ملک کا 52فیصد طبقہ جو بچوں کی تعلیم و تربیت اور خانگی امور کی انجام دہی کے ساتھ ساتھ معاشرتی فلاح و بہبود کے کاموں میں پیش پیش ہوتا۔ ذہنی، نفسیاتی و جسمانی تشدد کا شکار ہے؟ اسلام نے تو عورت کو تحفظ فراہم کرنے کی مثال قائم کی۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عربوں کی جاہلانہ رسوم کا خاتمہ کرکے عورت کے لیے محفوظ معاشرے کی بنیاد رکھی مگر اسلام کے نام پر بننے والے ممالک اپنے ہی ملک میں اسلامی قوانین کے مطابق عورت کو تحفظ دینے میں ناکام ہیں۔

ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں سالانہ 5000 خواتین گھریلو تشدد کا شکار ہوتی ہیں جن میں سے کچھ جان کی بازی ہار جاتی ہیں اور کچھ خود موت کو گلے لگالیتی ہیں۔ اسی طرح تیزاب گردی کے واقعات ہیں جس کا شکار بھی خواتین ہوتی ہیں غرض ایسے بہت سے واقعات ہیں جو ہماری نظر سے اکثر و بیشتر گزرتے ہیں مگر یہاں اس ساری بحث کا مقصد یہ ہے کہ اس حوالے سے قوانین سازی کہاں ہے؟ جو عورت کو تحفظ فراہم کرے اگر قوانین ہیں تو ان پر عملدرآمد کیوں نہیں۔ لمحہ فکریہ یہ ہے کہ ایسے واقعات کا شکار زیادہ تر خواتین بیرونی امداد پر چلنے والی سماجی تنظیموں کے ہتھے چڑھ کر اسلامی تعلیمات سے منحرف ہورہی ہیں ایسے میں اسلامی نظریاتی کونسل کا کلیدی کردار ہونا چاہئے اور عورت کے تحفظ کے لیے ایسے قوانین بنانے چاہئیں جو تشدد کتنا ہو تو سزا کیا ہوگی یا تشدد سے ہڈی نظر آئے تو سزا ہوگی جیسے مضحکہ خیز قوانین کی بجائے ایسے قوانین بنائے جو عورت کے لیے تحفظ کے ضامن بن سکیں۔

معزز قارئین! 25 جولائی کو ایک بار پھر ملک میں عام انتخابات ہونے والے ہیں۔ ہر سیاسی پارٹی اپنا منشور عوام کے سامنے پیش کررہی ہے مگر ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ کیا آنے والے حکمران بھی خواتین کے تحفظ کو لے کر اتنے ہی سنجیدہ ہیں جتنے سابقہ حکمران تھے گو عورت کی حیثیت میں کوئی فرق نہیں آئے گا حکمرانوں کو ملک کے 52 فیصد طبقہ کی فلاح و بہبود کے لیے واضح حکمت عملی اختیار کرنی چاہئے۔ اوپر تو عورت پر تشدد کی صورتحال کو بیان کیا گیا ہے اگر دیگر شعبہ جات بھی دیکھیں تو عورت کی فلاح و بہبود کے لیے ناکافی اقدامات نظر آتے ہیں۔ لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ خواتین کی فلاح و بہبود کو آنے والی حکومت ترجیحی بنیادوں پر پیش نظر رکھے۔ عورت کے تحفظ سے متعلق اسلامی تعلیمات کی روشنی میں قانون سازی کی جانی چاہئے اور ایسا نظام بھی وضع کرنا چاہئے جس سے بنائے گئے قوانین پر عملدرآمد کو بھی یقینی بنایا جاسکے۔ یہ اسلامی تعلیمات کے مطابق حکمرانوں کا اولین فریضہ بھی ہے۔

ماخوذ از ماہنامہ دخترانِ اسلام، جولائی 2018ء

تبصرہ