بعثتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بنی نوع انسانیت کے لیے اللہ کا احسان عظیم

ماہ ربیع الاول کی آمد آمد ہے اور ہر سال تمام عاشقان رسول عید میلادالنبی کا خوشی و مسرت سے جھوم کر استقبال کرتے ہیں۔ ہر سو عید کا سماں ہوتا ہے۔ گلیاں اور محلے سجائے جاتے ہیں، گھروں اور عمارتوں کو لائٹس سے روشن کیا جاتا ہے۔ ہر طرف جلسے جلوس اور محافل میلاد مصطفی کا انعقاد دکھائی دیتا ہے، ہر شہر، گائوں قریہ قریہ بلکہ ہر گلی محلے میں درود و سلام اور محافل نعت کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ یہ تہوار ایمان کے لیے ایک اہم مذہبی فریضہ کا درجہ رکھتا ہے بلکہ محافل نعت و ذکر سالانہ، روحانی مذہبی اور اجتماع اور روح پرور مقدس تقریب کا روپ دھار چکی ہے۔

ان محافل کا انعقاد پر بھی مختلف آراء اور مختلف اختلاف رائے سے پایا جاتا ہے۔ اس کی وجہ سے کچھ مسالک کے اپنے عقیدے کی خرابی یا دین سے دوری بھی ہوسکتی ہے لیکن ان محافل کے لیے انعقاد کے جو روحانی اور مذہبی فوائد ثمرات ہیں ان سے انکار کسی کو ممکن نہیں۔ مگر محفل میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو محض ایک رسم بنانے کی بجائے ہمیں اس کی روح کو سمجھنا چاہئے کہ ہم جو اپنے گھر اور محلے کی سطح پر یا بازار میں سب مل کر حضور علیہ السلام کے جشن میلاد کی محفل سجارہے ہیں تو اس عظیم مذہبی فریضے کی اہمیت از روئے قرآن و حدیث کیا ہے؟ اس کا مقصد اور بہترین طریقہ کار کیا ہے۔ ہمارے ہاں کچھ مادیت پرستی اور بدعقیدگی کی وجہ سے معصوم اور سادہ لوح انسان کو یہ کہہ کر گمراہ کیا جاتا ہے کہ دیکھو محفل میلاد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وغیرہ جیسے سوال کرکے لوگوں کو ابہام کا شکار کرتے ہیں۔ میلاد منانا ایک بدعت، شرک ہے یہ صحابہ کرام کب مناتے تھے۔

درحقیقت یہ سارا فساد جہالت اور بدعقیدگی کی وجہ سے ہے اول تو قرآن کی وہ آیات یاد کریں اور اپنے بچوں کو بھی یاد کروادیں کہ جس میں اللہ رب العزت نے واشگاف الفاظ میں اپنے محبوب کی بعثت اور ولادت پر احسان جتلایا کہ کہیں اسے کوئی معمولی نعمت نہ سمجھ لیں کیونکہ میرے مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وجود رحمت ہی میری سب سے بڑی نعمت عظمیٰ ہے میرے سارے خزانوں میں سب سے انمول اور قیمتی ترین خزانہ ہے اس لیے جب میں 12 ربیع الاول کی شب وہ در یتیم سیدہ آمنہ کی گود میں محمد بناکر عطا کردیا گیا اور اس نبی رحمت کی ولادت کی گھڑی آن پہنچی وہ کہ:

جس سہانی گھڑی طیبہ کا چاند
اس دل افروز ساعت پر لاکھوں سلام

سورہ آل عمران میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:

لَقَدْ مَنَّ اﷲُ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ بَعَثَ فِیْهِمْ رَسُوْلاً مِّنْ اَنْفُسِهِمْ یَتْلُوْا عَلَیْهِمْ اٰیٰـتِهٖ وَیُزَکِّیْهِمْ وَیُعَلِّمُهُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَةَج وَاِنْ کَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِیْ ضَلٰـلٍ مُّبِیْنٍ.

’’بے شک اللہ نے مسلمانوں پر بڑا احسان فرمایا کہ ان میں انہی میں سے (عظمت والا) رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھیجا جو ان پر اس کی آیتیں پڑھتا اور انہیں پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے اگرچہ وہ لوگ اس سے پہلے کھلی گمراہی میں تھے‘‘۔

(آل عمران: 164)

دوسری جگہ پر سورہ یونس میں اللہ رب العزت نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وجود کو اپنا سب سے بڑا فضل اور سب سے بڑی رحمت قرار دیتے ہوئے بعثت مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اس وجود مسعود کو اپنا سب سے بڑا فضل قرار دیتے ہوئے خوشیاں منانے کا حکم دیا ہے جیسا کہ ارشاد ہے:

قُلْ بِفَضْلِ ﷲِ وَبِرَحْمَتِهٖ فَبِذٰلِکَ فَلْیَفْرَحُوْاط هُوَ خَیْرٌ مِّمَّا یَجْمَعُوْنَ.

’’فرما دیجیے: (یہ سب کچھ) اللہ کے فضل اور اس کی رحمت کے باعث ہے (جو بعثتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعے تم پر ہوا ہے) پس مسلمانوں کو چاہیے کہ اس پر خوشیاں منائیں، یہ اس (سارے مال و دولت) سے کہیںبہتر ہے جسے وہ جمع کرتے ہیں‘‘۔

(یونس: 58)

دنیا کا بھی یہی قاعدہ اور دستور ہے کہ جب ہمیں کوئی خوشی ملتی ہے تو ہم اسے منایا کرتے ہیں۔ کوئی اپنے بیٹے کی ولادت پر مسرور ہے تو کوئی بیٹے کی شادی پر، کہیں شادی کی سالگرہ منائی جارہی ہے تو کہیں بچوں کی شادی کی تقریبات پر لاکھوں روپے لگاکر فنکشن ارینج کیے جاتے ہیں بلکہ اب تو منگنی کی رسم بھی کسی بڑے شادی ہال میں بڑے اہتمام سے منعقد کی جاتی ہے۔ ان سارے کاموں پر خرچ کرنا تو ان کے نزدیک کوئی فضول خرچی نہیں جبکہ اسلام کے نزدیک یہ سب اسراف کے زمرے میں آتا ہے لیکن یہی لوگ جب محفل میلاد پر اہتمام و انصرام کیا جائے تو فتوے لگاتے نظر آتے ہیںجبکہ یہ اتنا ناگزیر ہے کہ اتنی تاکید اللہ نے کسی کام کے لیے نہیں کی جتنی اس عظیم نعمت عظمیٰ اور فضل عظیم جو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وجود مسعود کی صورت میں امت کو عطا کرنے پر خوشیاں منانے کے حکم کو دے کر فرمائی ہے۔

گویا زبان خداوندی میں قرآن یہ اعلان ببانگ دہل کررہا ہے کہ اور کوئی خوشی منائو نہ منائو مگر ولادت مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خوشی کو ضرور منائو۔ اسی نعمت عظمیٰ کے عطا ہونے پر خوشی سے جھوم جھوم جائو۔ گھر بار سجائو، لنگر پکائو محفل میلاد کا انعقاد کرو۔ ضیافت میلاد کرو عید میلاد النبی آمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مرحبا مرحبا اور صلی علی کی صدائوں سے فضائیں گونج اٹھیں۔ کیونکہ:

عید نبوی کا زمانہ آگیا
لب پہ خوشی کا ترانہ آگیا

ہر طرف صلی علی کی دھوم ہے
موج میں ہر اک دیوانہ آگیا

ہر زبان پر مدحت مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہو ہر دل آمد مصطفی پر اپنے پروردگار کی بارگاہ میں جذبہ تشکر پیش کرنے میں مشغول ہو۔ ہر زبان پر درود و سلام کے نغمے جاری ہوں۔

حضور آپ آئے تو دل جگمگائے
ورنہ لاچاروں کا کیا حال ہوتا
اسیروں، کنیزوں پہ کیا کچھ گزرتی
اور غم کے ماروں کا کیا حال ہوتا

ہر امتی کو چاہئے کہ اپنے گھر میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جشن میلاد کی خوشی میں محفل کا انعقاد کروائیں چاہے وہ چند خواتین یا مرد حضرات پر مشتمل ہی کیوں نہ ہو۔

پھر اگر آپ کسی وجہ سے اکیلے اپنے گھر میں محفل میلاد کا اہتمام نہیں کرواسکتے تو چند محلے کے افراد مل کر اپنی گلی میں یا کسی بڑے گھر میں محفل کا اہتمام کریں۔

جس طرح رمضان میں تلاوت قرآن اور درس قرآن کے بغیر روزوں کا مزا نہیں اسی طرح ربیع النور میں سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محافل میلاد کے بغیر سرکار کی بارگاہ میں درود و نعت کے نذرانے پیش نہ کریں تو اس مہینے کا حق ادا ہوتا نظر نہیں آتا۔ یہ مہینہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ نسبت غلامی اور تعلق محبت کو مضبوط کرنے کا طریقہ ہے۔ یہ عشاق مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے موسم بہار ہے۔ عشق مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فروغ اور استحکام کے لیے محافل نعت و میلاد کا اہتمام بہت اہمیت کا حامل ہے۔ جہاں نعت خواں ہمارے دلوں میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت کی شمع جلانے میں وہاں عالم دین اور سکالر حضور کی سیرت اور کردار کی خوبیاں آپ کی عظمتوں اور فضائل کے بیان سے ہمارے دلوں میں حضور کی والہانہ محبت و عقیدت کے جذبات ابھار کر ہمارے دلوں میں ایمان کو مزید جلا بخشتے ہیں۔

اس لیے ربیع الاول کے پر نور مہینے میں خواتین کو بڑھ چڑھ کر اپنے اپنے گھروں میں محافل میلاد سجانے کا اہتمام کرنا چاہئے لیکن اسے محض ایک رسم نہ بنالیا جائے بلکہ اس کے ذریعے مکمل اخلاقی اور روحانی تربیت کا سامان مہیا کرنا چاہئے۔ ہمارے ہاں بس قرآن کے سپاروں کی تلاوت اور صرف نعت و دعا کو ہی کافی سمجھا جاتا ہے۔ ہمیں کوشش کرنی چاہئے کہ جہاں نعت خواں مدعو کیے جاتے ہیں وہاں کسی معلمہ یا سکالر کو بھی درس قرآن یا خطاب و بیان کے لیے دعوت دینی چاہئے تاکہ قرآن و حدیث کی روشنی میں عظمت مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور سیرت مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مختلف پہلوئوں کو بیان کیا جائے آج کل جو سب سے بڑا المیہ ہے کہ خواتین ایسی محافل میں شرکت کو وقت کی کمی کے سبب نظر انداز کردیتی ہیں جہاں عقائد کی درستگی کے لیے وعظ کا اہتمام بھی کیا جاتا ہے۔

آپ کو جب بھی جہاں بھی محفل کی دعوت آئے آپ اس محفل میلاد بھی شرکت کریں۔ کیونکہ:

محبوب کی محفل کو محبوب سجاتے ہیں
آتے ہیں وہی جن کو سرکار بلاتے ہیں

محفل میلاد میں شرکت کرنا جہاں ہمارے ایمان میں تازگی اور عشق مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں اضافے اور ترقی کا باعث بنتا ہے وہاں اس سے محرومی ہمارے لیے باعث عذاب بھی ہوسکتی ہے۔

اغیار کا احسان اٹھایا نہیں جاتا
آتے ہیں وہی جن کو سرکار بلاتے ہیں

آپ کی ناراضگی سے رائیگاں اعمال سب
اور جنتوں کی سند ہے مسکرانا آپ کا

آج خواتین بالخصوص دین سے غفلت برت رہی ہیں۔ ہم سارا دن جس اولاد اور گھر کے کاموں کے لیے خود کو وقف کئے ہوئے ہیں صبح و شام ہم دنیاوی کاموں اور دولت کمانے کے چکروں میں مشغول رہتے ہیں ہمارے پاس وقت نہیں ہے۔ اللہ کے دین کے لیے کسی درس قرآن کی محفل میں جانے کے لیے کسی محفل میلاد میں حاضر ہونے کے لیے یہ سب ہماری دین سے غفلت و لاپرواہی ہے۔

میں سجاتی تھی سرکار کی محفلیں
مجھ کو ہر غم سے رب نے بری کردیا

نجانے ہم کیوں بھول جاتے ہیں کہ موت برحق ہے۔ یہ دنیا فانی ہے اور مومن کے لیے یہ ایک قید خانے سے کم نہیں۔ ہماری دنیا کی زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں حد بھی مقرر نہیں جو اخروی زندگی کے مقابلے میں بہت مختصر اور عارضی اور حقیر ہے اس کے آرائش و آرام اور کامیابی کے لیے ہم کتنی محنت کرتے ہیں کیا یہ دنیا کا مال و دولت ہمارے کام آئے گا بالکل نہیں جب امتی سے قبر میں تیسرا سوال ہوگا اور حضور کا چہرہ مبارک سامنے ہوگا اور پوچھا جائے گا بتا اے بندے دنیا میں اس نبی کے بارے میں کیا کہتے تھے؟

ماتقول بحق بهذا الرجل؟

اس وقت سب سے ضروری سوال یہی ہوگا جس کو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پہچان نصیب ہوگی وہ جنتی اور جس کے لب خاموش ہوگئے اسے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شفاعت نصیب نہ ہوئی وہ دوزخی قرار پائے گا وہاں بات مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تعلق اور غلامی مصطفی کام آئے گی اگر اس وقت حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہی پہچاننے سے انکار کردیا تو کون بچائے گا۔ اگر حضور علیہ السلام نے اپنا رخ انور پھیر لیا تو کون داد رسی کرے گا؟

اس کے برعکس وہ خوش نصیب غلامان مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وہ عاشقان مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جن کی زندگی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یاد میں محفل سجاتے سجاتے گزر گئی اور ذکر سرکار میں جن کی زبانیں نعتیں پڑھتے پڑھتے اور درود و سلام کرتے کرتے تھکتی نہ تھیں وہ تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا چہرہ مبارک دیکھتے ہی پکار اٹھیں گے۔ ان کے بارے میں پوچھتے ہو ارے یہ تو ہمارے آقا تاجدار کائنات حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں۔ جن کی یاد میں زندگی گزاردی جن کے دیدار میں تڑپتے رہتے تھے۔

پہچان کے لیے جاننا ضروری ہے اور جانتے تو ہم سب مسلمان ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارے نبی برحق ہیں مگر یہاں بات پہچان پر ختم ہوگی اور پہچان کے لیے تعلق اور روابط بھی بہت ضروری ہے مثلاً آپ کو کسی نے بتادیا کہ میرا دوست فلاں جگہ پر رہتا ہے اس سے آپ کو علم ہوگیا جان تو گئے مگر پہچان کے لیے آپ کی ملاقات میل ملاپ ہونا، بات چیت اور تعلق کا قائم ہونا بہت ضروری ہوتا ہے اور ساری بات ہی تعلق کی ہوتی ہے جان کر انجان تو ہم بن جاتے ہیں مگر جہاں تعلق ہو، محبت ہو، الفت ہو، چاہت اور عشق کا تعلق ہو ان کو آپ کبھی نہیں بھول سکتے۔

عاشق کو اپنے محبوب کی یاد ستاتی ہے وہ عشق و محبت و اظہار کے بہانے دھونڈتا ہے وہ تو سارا سال حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گیت گاتا رہتا ہے۔ اس کے شب و روز ذکر محبوب میں بسر ہوتے ہیں اس کا مقصد محبوب کو راضی کرنا ہوتا ہے۔ وہ زبان حال سے کہتا ہے۔

نعت سرکار کی پڑھتی ہوں میں
بس اسی نام سے گھر میں میرے رحمت ہوگی

اک تیرا نام وظیفہ ہے میرا
رنج و غم میں بھی اسی نام سے راحت ہوگی

محفل میلاد کے انعقاد پر صرف ثواب ہی نہیں ملتا بلکہ جواب ملتا ہے یعنی بارگاہ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں آپ کی حاضری قبول ہوجاتی ہے خود تاجدار کائنات جہاں محفل ہوتی ہے وہاں توجہات فرماتے ہیں بارگاہ الہٰیہ سے براہ راست انوار و تجلیات برستے ہیں ملائکہ اپنے نورانی پروں سے تمام محفل نعت و ذکر کو ڈھانپ لیتے ہیں۔ سب کی دعائیں بارگاہ الہٰیہ میں قبول ہوتی ہیں کہ:

جہاں ذکر حبیب ہوتا ہے
خود خدا بھی قریب ہوتا ہے

محفل میلاد کی روحانی برکات و فیوضات تو بے شمار ہیں ہی جبکہ سیرت و کردار سازی میں بھی یہ بے پناہ کردار سرانجام دیتی ہیں۔ ان محافل میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمکے چند فوائد درج ذیل ہیں:

  • محفل میلاد کے اہتمام سے حضور علیہ السلام سے محبت و عشق کا تعلق پیدا ہوتا ہے جس سے منافقت ختم ہوتی ہے اور نئی نسل کو حضور علیہ السلام سے جذباتی تعلق استوار کرنے کے لیے ایک نہایت مثبت سرگرمی میسر آتی ہے۔
  • فکر آخرت اور دینی فہم حاصل ہوتا ہے۔ قرآن خوانی سے تلاوت قرآن کا ذوق اور رغبت کو فروغ ملتا ہے۔
  • دوران محفل کسی اچھی معلمہ یا سکالر کے درس قرآن سے حضور علیہ السلام کے اخلاق حسنہ اور سیرت مبارکہ سے آگہی ملتی ہے جس سے اخلاق سنوارنے میں مدد ملتی ہے۔
  • نئی نسل کا رجحان فلموں اور گانوں سے ہٹانے میں فن نعت اور خطاب کا ذوق ودیعت کرنے میں آسانی میسر آتی ہے۔
  • عقیدے کی اصلاح اور کردار کی اعلیٰ اخلاقی خوبیاں اجاگر کرنے کا ذریعہ ہیں۔
  • محفل میلاد پر کھانے کا اہتمام یا لنگر و تبرک پر جو خرچ آتا ہے اس سے دین کے لیے مالی قربانی مالی جہاد اور انفاق فی سبیل اللہ کا جذبہ بیدار ہوتا ہے۔
  • غریبوں اور کمزور لوگوں کو کھانا کھلانے کا جذبہ ہمدردی و سخاوت پیدا ہوتا ہے۔
  • محفل میلاد کی تیاری کے لیے گھر بار یا گلی محلہ کی صفائی کا اہتمام کریں گے جس سے فکری طہارت کے ساتھ ماحولیاتی صفائی کا ثمر بھی ملے گا۔
  • محفل میلاد سے نعت خوانی اور خطابت اور درس قرآن کے کلچر کو فروغ ملتا ہے۔

الغرض محفل میلاد کی فضیلت و اہمیت بیان کرنا ممکن نہیں بس اللہ کی رضا اور خوشنودی کا اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے والہانہ محبت و عشق کے حصول کا بہترین ذریعہ محفل میلاد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اہتمام و انعقاد ہے۔ اللہ پاک ہمیں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔

تبصرہ