قرآنی انسائیکلو پیڈیا سے نسلِ نو میں مطالعہ قرآن کا ذوق پیدا ہوا

ڈاکٹر شفاقت علی البغدادی الازہری

تعلم و تعلیمِ قرآن وہ عظیم شرف ہے جو اللہ رب العزت اپنے چنیدہ اور منتخب بندوں کو عطا فرماتاہے۔ خاص بات یہ ہے کہ یہ شرف و سعادت بہت عظیم و بالا ہے مگر ہر فردکو یہ نصیب حاصل نہیں ہے۔ قرآن کریم کے ساتھ تعلق ایسی رفعتوں، عظمتوں اور برکات و خیراتِ لازوال کا ذریعہ ہے جو انسان کو دونوں جہانوں میں غیر متوقع فوائد و فیوضات عطاکرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایسے شخص کو جو قرآن کریم کی تعلیمات کی افہام و تفہیم، درس و تدریس کا اہتمام کرتا ہے اسے انسانی معاشرہ کا بہترین فرد قرار دیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

خیرکم من تعلم القرآن وعلمه. (صحیح بخاری)

تم میں سے بہترین شخص وہ ہے جو قرآن کو (کماحقہ) سیکھتا ہے اوراسے سیکھاتا ہے۔

یعنی بہترین انسان وہ ہے جو قرآن کے ظاہری احکام اور مفاہیم کے ساتھ ساتھ باطنی اسرار و معارف میں غوطہ زن ہوتا ہے۔ اس کے غیر محدود معانی و مطالب کے سمندر سے اپنے دامن کی آبیاری کرتا ہے۔ اس کا باطن اس کے الوہی نور سے منور و روشن ہوجاتا ہے بلکہ وہ منبع نور بن جاتا ہے۔ اس کا ظاہر باطنی نور کا دلپذیر پر تو اور مظہر بن جاتا ہے۔ یعنی اس کے احکام کی معرفت کے بعد اور اس کے صحیح اطلاقات کی کاوش کرتا ہے۔ بگڑی راہوں کو سیدھا کرتا ہے۔ غلط مفاہیم کو درست کرتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ معاشرے کی ضرورت سے آگاہ ہوکر اس کے تقاضوں کا نباض و شناس ہو جاتا ہے۔

اصلاح معاشرہ اور احیاء دین کے لیے ضروری ہے کہ چاہے مصلح ہو یا مفکر وعالم وہ افراد معاشرہ کی ضرورتوں کو جانتا ہو۔ وقت کے تقاضوں سے شناسا ہو اور پھر اس کے اندر یہ صلاحیت و استعداد بھی ہو کہ وہ اس معاشرہ کی ضرورت و احتیاج کے مطابق علمی وعملی کارنامے سرانجام دے سکے۔ اسی تناظر میں دور حاضر کی شخصیات کا جائزہ لیں تو ہمیں علم ہوتا ہے کہ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کاشمار بھی ایسی عظیم ہستیوں میں ہوتا ہے جو نہ صرف آیات قرآنیہ سے استنباط و استدلال کا ملکہ رکھتی ہیں بلکہ لاتعداد قرآنی موضوعات سے معاشرتی مسائل کے تدارک کا فن بھی جانتی ہیں۔ بلاشبہ شیخ الاسلام ایک نبض شناس شخصیت ہیں جو حالات حاضرہ اور تغیرات زمانہ سے بخوبی واقف ہیں۔ جدیدیت کی تیز چلتی لہر اور مغربی فکری موشگافیوں پر عقابی نظر رکھتے ہیں۔ تیز رفتار ترقی، ٹیکنالوجی اور سائنسی ایجادات سے اسلامی معاشرے پر مرتب ہونے والے اثرات سے بخوبی آگاہ ہیں۔

ان منطقی حالات میں اسلامی معاشرے کی بقاء کیسے ممکن ہے ؟ نوجوان نسل کو کیسے تیار کرنا ہے ؟ انہیں کونسے چیلنجز کا سامنا ہے اور کون کونسے علوم و فنون سے انہیں مزین کرنے کی ضرورت ہے ؟جیسے اٹھنے والے سوالات کے حل کے لیے شیخ الاسلام کی شخصیت اعلیٰ صلاحیتوں کی مالک ہے۔ چنانچہ ان تمام جہتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے اپنی تمام تر علمی زندگی میں قرآنی آیات کے گہرائی سے مطالعہ کرنے کے بعد ان میں موجود ہزارہا موضوعات کو قرآنی آیات کی روشنی میں ترتیب دیا۔ آٹھ جلدوں پر مشتمل 5ہزار سے زائد موضوعات کو قرآنی انسا ئیکلو پیڈیا کے نام سے موسوم کیا گیا۔

بلاشبہ قرآنی انسائیکلو پیڈیا بے شمار جہتوں کا حامل ہے۔ معاشرے کے مختلف طبقات کو ان کی ضرورت کے مطابق راہنمائی دینے والی صلاحیتوں سے مالامال ہے۔ اگر اسے علماء ومفکرین، خطبا ومبلغین، اساتذہ و مدرسین کے علاوہ بے شمار طبقات معاشرہ کے لیے ذریعہ ہدایت و رواہنمائی قرار دیا جائے تو مبالغہ نہ ہو گا۔

اسی طرح نوجوان نسل ایک اہم طبقہ ہے جو قوموں کی ترقی کا حتمی ذریعہ ہوتی ہے، قوموں کی بقاء اور روشن مستقبل کا انحصار انہی کے کندھوں پر ہوتا ہے۔ نوجوان نسل ہر قوم کی ریڑھ کی ہڈی کی مانند ہے۔ جو قوم کو اپنی نئی نسل کو مستقبل کے چیلنجز و تحدیات کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار نہیں کرتا تو زوال اس کا مقدر بن جاتا ہے۔

قرآنی انسائیکلو پیڈیا میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے نسل نو کی اخلاقی، علمی وعملی،سیاسی و فکری اور نظریاتی و اعتقادی تربیت کے حوالہ سے بے شمار مضامین کو نصوص قرآنیہ سے اخذ کیا ہے۔ مشکل نصوص اور دقیق عبارتوں سے براہ راست راہنمائی لینے کا موقع فراہم کیا ہے اور مشکل و پیچیدہ امر کو قرآنی انسائیکلو پیڈیا کے ذریعہ آسان و سہل بنادیاہے۔

دور حاضر کا نوجوان قرآن حکیم کی تعلیمات سے دور ہو رہا تھا۔ ترقی کے جدید دور میں اس کا رجحان سائنس اور ٹیکنالوجی کے علوم کی طرف بڑھ رہا تھا۔ مطالعہ قرآن کا ذو ق و شوق یکسر ختم ہو رہا تھا اس صورت حال کے تناظر میں اور ان مسائل کے حل کے لیے کوئی مسیحا درکار تھا۔ جو قرآن حکیم سے ٹوٹے ہوئے تعلق کو جوڑ دے۔ ان کے علمی رجحان کو سائنسی اور دینی امتزاج سے ہمکنار کردے۔ اور قرآن سے راہنمائی کا آسان راستہ دے دے۔ تو اللہ کے فضل کی بدولت ایسے انسانوں کے لیے قرآنی انسائیکلوپیڈیا سائبان رحمت بن کر ظہور پذیر ہوا۔ جس نے ہر سطح و جہت سے متعلق راہنمائی کا بیش بہا اور قابل قدر سامان مہیا کیا۔

یوں تو یہ نسل نو کی کردار سازی کے حوالے سے بے شمار موضوعات و مضامین پر مشتمل ہے مگر درج ذیل موضوعات اور پہلو ایک مسلم نوجوان اور نسل نو کی کردار سازی میں بہت زیادہ اہمیت کے حامل ہیں:

  • ایمان و عقائد میں پختگی
  • عبادات و تقوی میں ذوق
  • حقوق و فرائض کی ادائیگی
  • سائنس اور ٹیکنالوجی
  • باہمی رواداری و تحمل کی ترویج
  • ایمان و عقائد میں پختگی

نسل نو کے مضبوط کردار کی تشکیل کے لیے انتہائی ضروری ہے کہ ان میں ایمانی و نظریاتی پختگی پیدا کی جائے جب ان کا ایمان پختہ ہو جائے گا تو وہ ایک مضبوط افراد معاشرہ میں کردار ادا کریں گے۔ قرآنی انسائیکلو پیڈیا کی پہلی دو جلدیں اس پہلو کی بہت گہرائی سے وضاحت کرتی ہیں۔ درحقیقت قوت ایمانی وہ اسلحہ اور ہتھیار ہے کہ اگر بندہ مؤمن اس سے لیس ہو جائے تو مد مقابل چاہے کثرت میں بھی ہو اہل ایمان کو شکست نہیں دے سکتا۔ کامیابی و فتح پختہ ایمان والے لوگوں کا مقدر بن جاتی ہے۔ قرآن حکیم میں اللہ رب العزت نے طالوت کے لشکر اور جالوت کے لشکر کا واقعہ سورۃ بقرۃ میں بیان کرتے ہوئے ایمانی طاقت کا امتیاز یوں بیان فرمایا۔ ارشاد باری تعالی ہے۔

فَلَمَّا فَصَلَ طَالُوْتُ بِالْجُنُوْدِ قَالَ اِنَّ ﷲَ مُبْتَلِیْکُمْ بِنَهَرج فَمَنْ شَرِبَ مِنْهُ فَلَیْسَ مِنِّیْج وَمَنْ لَّمْ یَطْعَمْهُ فَاِنَّهٗ مِنِّیْٓ اِلَّا مَنِ اغْتَرَفَ غُرْفَةًم بِیَدِهٖج فَشَرِبُوْا مِنْهُ اِلَّا قَلِیْـلًا مِّنْهُمْط فَلَمَّا جَاوَزَهٗ هُوَ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَعَهٗلا قَالُوْا لَا طَاقَةَ لَنَا الْیَوْمَ بِجَالُوْتَ وَجُنُوْدِهٖط قَالَ الَّذِیْنَ یَظُنُّوْنَ اَنَّهُمْ مُّلٰقُوا ﷲِلا کَمْ مِّنْ فِئَةٍ قَلِیْلَةٍ غَلَبَتْ فِئَةً کَثِیْرَةًم بِاِذْنِ ﷲِط وَﷲُ مَعَ الصّٰبِرِیْنَ.

پھر جب طالوت اپنے لشکروں کو لے کر شہر سے نکلا، تو اس نے کہا: بیشک اﷲ تمہیں ایک نہر کے ذریعے آزمانے والا ہے، پس جس نے اس میں سے پانی پیا سو وہ میرے (ساتھیوں میں) سے نہیں ہوگا، اور جو اس کو نہیں پئے گا پس وہی میری (جماعت) سے ہوگا مگر جو شخص ایک چُلّو (کی حد تک) اپنے ہاتھ سے پی لے (اس پر کوئی حرج نہیں)، سو ان میں سے چند لوگوں کے سوا باقی سب نے اس سے پانی پی لیا، پس جب طالوت اور ان کے ایمان والے ساتھی نہر کے پار چلے گئے، تو کہنے لگے: آج ہم میں جالوت اور اس کی فوجوں سے مقابلے کی طاقت نہیں، جو لوگ یہ یقین رکھتے تھے کہ وہ (شہید ہو کر یا مرنے کے بعد) اﷲ سے ملاقات کا شرف پانے والے ہیں، کہنے لگے: کئی مرتبہ اﷲ کے حکم سے تھوڑی سی جماعت (خاصی) بڑی جماعت پر غالب آجاتی ہے، اور اﷲ صبر کرنے والوں کو اپنی معیّت سے نوازتا ہے۔

(البقرة، 2: 249)

اس آیت میں حضرت طالوت کے لشکر کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ ان کا لشکر چھوٹا تھا اور مد مقابل دشمن جالوت کا لشکر بہت بڑا تھا۔ حضرت طالوت کے لشکر میں اہل ایمان شریک تھے۔ بعض کا ایمان مضبوط تھا اور قوت ایمانی سے مالامال تھے جبکہ کچھ کمزور ایمان والے تھے ان کے مابین مکالمہ ہوا۔ کمزور ایمان والوں نے جالوت کے لشکر کی کثرت دیکھی تو مرعوب ہو گئے اور کہنے لگے آج ہم ہلاک کردیے جائیں گے۔ ہم میں ان کا مقابلہ کرنے کی طاقت نہیں ہے۔ پختہ ایمان والوں نے انہیں جواب دیا کہ بات کثرت و قلت کی نہیں فتح و نصرت کا انحصار ایمان و نظریہ پر ہے۔ اور کہا کَم مِّن فِئَةٍ قَلِیلَةٍ غَلَبَتْ فِئَةً کَثِیرَةً بِإِذْنِ اللّهِ.

تاریخ مثالوں سے بھری پڑی ہے کہ چھوٹے گروہوں نے اپنے ایمان اور سچے نظریہ کی بدولت بڑی بڑی جماعتوں اور لشکروں کو اللہ کے اذن سے شکست دی ہے۔

قرآن حکیم نے قدیم اقوام کے واقعات میں سے ایک واقعہ بیان فرمایا اور قوت ایمانی کی شان کو بیان فرمایا ہے۔ جبکہ میدان بدر میں اللہ رب العزت نے امت مسلمہ کو بھی قوت ایمانی کے فقید المثال اور روح پرو رمظاہر سے روشناس فرمایا۔ اس کی طرف اللہ رب العزت نے سورۃ آل عمران میں ارشاد فرمایا:

قَدْ کَانَ لَکُمْ آیَةٌ فِی فِئَتَیْنِ الْتَقَتَا فِئَةٌ تُقَاتِلُ فِی سَبِیلِ اللّهِ وَأُخْرَی کَافِرَةٌ یَرَوْنَهُم مِّثْلَیْهِمْ رَأْیَ الْعَیْنِ وَ اللّهُ یُؤَیِّدُ بِنَصْرِهِ مَن یَشَاءُ إِنَّ فِی ذَلِکَ لَعِبْرَةً لِّأُوْلِی الْأَبْصَارِ.

بیشک تمہارے لئے ان دو جماعتوں میں ایک نشانی ہے (جو میدانِ بدر میں) آپس میں مقابل ہوئیں، ایک جماعت نے اﷲ کی راہ میں جنگ کی اور دوسری کافر تھی وہ انہیں (اپنی) آنکھوں سے اپنے سے دوگنا دیکھ رہے تھے، اور اﷲ اپنی مدد کے ذریعے جسے چاہتا ہے تقویت دیتا ہے، یقینا اس واقعہ میں آنکھ والوں کے لئے (بڑی) عبرت ہے۔

(آل عمران، 3: 13)

جنگ بدر میں مسلمان قلت میں تھے دوسری طرف دشمن اسلحہ و سپاہ اور ظاہری طور پر طاقت ور اور قوی نظر آرہا تھا لیکن مسلمان قلت میں ہونے کے باجودایمان کی دولت سے مالال مال ہونے کی وجہ سے ان پر غالب رہے فتح و نصرت سے ہمکنار ہوئے۔ قوت ایمانی ہی تھی جس سے کامیابی ملی۔ قوت ایمانی اللہ کی مدد و نصرت کا سبب بنتی ہے اگر آج ہماری نسل نو وہی جذبہ اور ایمان کی کیفیت پیدا کر لیں تو ان سے ٹکرانے کی جسارت روئے زمین پر کوئی نہ کرسکے گا۔ افسوس صد افسوس ہم اس سیرت و اسوہ کو بھلا بیٹھے۔ اس راہ کو چھوڑ چکے۔ نام کے مؤمن رہ گئے۔ حقیقت سے دور ہو گئے۔ جس بنا پر آج ہم زوال پذیر ہیں اور عزت و شرف سے محروم ہیں۔ اس بات کی غمازی علامہ کے اس شعر سے بخوبی ہوتی ہے۔

وہ معزز تھے زمانے میں مسلمان ہو کر
تم خوار ہوئے تارک قرآن ہو کر

نسل نو میں قوت ایمانی بیدار کرنے اور اسے مضبوط و پختہ کرنے کے حوالے سے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے قرآنی انسائیکلو پیڈیا میں سینکڑوں مضامین باندھے ہیں۔ جن میں سے بطور نمونہ چند ایک درج ذیل ہیں:

  • قوت ایمانی کے باعث چھوٹے لشکر کی بڑے لشکر پر فتح
  • اخروی کامیابی کے لیے ایمان و عمل شرط
  • عدم ایمان کے باعث کفار کے سارے اعمال رائیگاں
  • اللہ تعالیٰ حقیقی حاجت روا اور حقیقی مشکل کشا ہے
  • اللہ تعالیٰ مخلوقات سے بے نیاز ہے

عبادات و تقوی میں ذوق

عبادت و تقوی قرب خداوندی کا ذریعہ ہے۔ اعلیٰ شخصیت اور پرامن و پر وقار نوجوان کی تشکیل کے لیے تقوی کا اختیار کرنا اور عبادت الٰہی میں ذوق پیدا کرنا انتہائی اہم امور میں سے ہے۔ اس سلسلے میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے قرآنی انسائیکلو پیڈیا میں لاتعداد موضوعات کو قرآنی آیات کے تحت ترتیب دیا ہے۔ جن میں چند ایک درج ذیل ہیں:

  • تمام انبیاء ورسل نے لوگوں کو تقوی کی تعلیم دی
  • اللہ متقین سے پیار کرتا ہے
  • تقوی اللہ کی رحمت کا موجب ہے
  • نظام صلوۃ قیام اخوت اسلامی کی بنیادی شرط ہے
  • نماز جسمانی و قلبی طہارت کا سبب ہے

حقوق و فرائض کی ادائیگی

اگر نوجوان نسل اپنے حقوق و فرائض سے آگاہی حاصل کر لے تو ان کی بجاآوری احسن انداز میں ہوسکتی ہے۔ یہ ایسا عمل ہے کہ جس کی وجہ سے انسانی معاشرے میں مثبت رویے جنم لیتے ہیں۔ جبکہ حقوق و فرائض کی ادائیگی میں عدم توازن سے پورے معاشرے پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اسلام نے ہرطبقہ کے لیے حقوق و فرائض متعین کر دیے ہیں۔ جن میں بالخصوص نوجوان نسل کے حقوق و فرائض قابل ذکر ہیں۔ اس مقصد کے لیے قرآنی انسائیکلو پیڈیا میں حضور شیخ الاسلام نے کثیرتعداد میں مضامین کا احاطہ کیا ہے۔ جن میں سے چند ایک درج ذیل ہیں:

  • اسلام میں مرد و عورت کے مساوی حقوق
  • عورتوں کے حقوق
  • مردوں کے حقوق
  • بندوں کے حقوق
  • والدین کے حقوق
  • رشتہ داروں کے حقوق
  • یتیموں کے حقوق
  • فقراء کے حقوق
  • ہمسایوں کے حقوق
  • ملازموں اور خادموں کے حقوق

سائنس اور ٹیکنالوجی

سائنس اور ٹیکنالوجی دور حاضر کا اہم اور لازمی مضمون ہے جس کے نتیجے میں نت نئی ایجادات و تحقیقات سامنے آرہی ہیں۔ بعض تحقیقات انسان کی تخلیق سے متعلق ہیں، بعض کائناتی حقائق سے متعلق ہیں۔ الغرض سائنس اور ٹیکنالوجی نے انسان کے لیے بے شمار نئے آفاق اور راستے کھولیں ہیں۔ دور حاضر میں ان مضامین سے صرف نظر کر کے کر زندگی گزارنا ناممکن ہے۔ قوموں کی بقاء اور غلبہ کے لیے یہ اشد ضروری ہے کہ وہ قومیں تمام جدید علوم میں مہارت اور ثقاہت حاصل کریں۔ چانچہ قرآنی انسائیکلو پیڈیا نے نوجوان نسل کو اسلام سے قریب لانے اور اس کی تعلیمات کو جاننے کے لیے سائنسی حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے بے شمار مضامین پیش خدمت کیے ہیں۔ ان میں سے بعض انسانی جسم کے کیمیا ئی ارتقا ء اور بعض حیاتیاتی ارتقاء سے متعلق ہیں۔ علاوہ ازیں بہت سارے مضامین جن میں علم طبیعیات، جغرافیہ، علم ارضیات، دھاتوں کی مصنوعات، دریاؤں اور سمندروں کے علم، موسمیات، پانی کے علم اور نباتات و حیوانات و حشرات شامل ہیں قرآنی انسائیکلوپیڈیا میں پیش کیے گئے ہیں۔ جن کا مطالعہ کرکے ایک نوجوان اپنی شخصیت کے اندر تخلیقی جذبہ پیدا کر سکتا ہے اور اپنی قوم وملت کا سر فخر سے بلند کر نے کا ذخیرہ جمع کر سکتا ہے۔

باہمی رواداری و تحمل کی ترویج

انسانی معاشرہ چونکہ مختلف اقسام کے افراد کا مجموعہ ہوتا ہے جن کے خیالات و افکار کو متحد کرنا ایک ناممکن امر ہے۔ مگر یہ تمام افراد ایک ہی معاشرے میں اکٹھے زندگی گزارتے ہیں۔ اگر برداشت، رواداری اور تحمل کا عنصر نہ ہو تو وہ انسانی معاشرہ مثالی قرار نہیں دیا جاسکتا کیونکہ آئے دن وہاں پر لڑائی جھگڑے، رسہ کشی، باہمی نفرتیں دیکھنے کو ملیں گی۔

انسانی معاشرے کو ایک مثالی، پرامن معاشرہ بنانے کے لیے انتہائی ضروری ہے کہ افراد معاشرہ کے مابین رواداری کو رواج دیا جائے۔ ایک دوسرے کے نقطہ ہائے نظر کو سننے اور اسے برداشت کرنے کی کیفیات پیدا کی جائیں۔ اختلافاتِ افکار کو لڑائی اور جھگڑے کا سبب نہ بنے دیا جائے۔ بلکہ خندہ پیشانی، وسعت نظری اور وسیع قلبی جیسے عالی مرتبت مظاہر کو معاشرے کے ہر طبقات ِافراد میں راسخ کیا جائے۔ بالخصوص نوجوان نسل کو ان اخلاق حسنہ اور صفات عالیہ سے ظاہراً اور باطن روشناس کیا جائے۔

قرآنی انسائیکلو پیڈیا میں اس فکر کے زیر نظر ہزارہا مضامین درج کیے گئے ہیں۔ جس میں عدم تشدداور انتہا پسندی کے خاتمے کا درس ہے اور آداب معاشرت یا سماجی زندگی کے عظیم الشان آداب کو بیا ن کیا گیا ہے۔ چند ایک مضامین درج ذیل ہیں:

  • دین اسلام کا سب سے اہم اور بنیادی مقصد معاشرتی فلاح و بہبود ہے۔
  • انتقام کی طاقت کے باوجود در گزر کرنے کا درس
  • ظالم شخص کسی بھی ہمدردی کا مستحق نہیں
  • انسانی قتل شرک کی طرح ظلم ِ عظیم ہے
  • ایک انسانی جان کا ناحق قتل پوری انسانیت کا قتل ہے
  • باہمی جھگڑوں سے وقار اور شان و شوکت ختم ہو جاتی ہے۔
  • باہم متحارب فریقین میں صلح کروانے کا حکم
  • بین المذاہب رواداری کا حکم

اسی طرح آداب معاشرت کے حوالے سے پانچویں جلد میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے سینکڑوں معاشرتی مسائل کے حل پیش کیے ہیں اور نوجوان نسل کو زندگی گزارنے کے لیے اسلامی راہنما اصول و ضوابط عطا کیے ہیں۔ جو ایک نوجوان کے لیے آداب معاشرت سے آگاہی حاصل کرنے کا بہترین ذریعہ ہیں۔ جن میں سے چند ایک پیش خدمت ہیں:

  • معاشرتی زندگی میں باہمی تعاون و ہمدردی
  • دوسروں کے گھروں میں داخل ہونے کے آداب
  • مہمان نوازی
  • تحائف کا تبادلہ
  • حصول رز ق کے لیے محنت کی تلقین
  • اعمال صالح فراخی رزق کا سبب
  • ذخیرہ اندوزی کی ممانعت
  • سود کی حرمت و مذمت

جیسے کثیر دوسرے مضامین نمایاں اور پروقار زندگی گزارنے، معاشرے کو استقرار اور ترقی کی راہ پر ڈالنے میں نسل نو کی راہنمائی کا ذریعہ ہیں۔ اگر نوجوان نسل قرآنی انسائیکلو پیڈیا کو زیر مطالعہ لائے تو یہ ان کے لیے مشعل راہ ہوگا اور کسی مرحلہ میں بھی انہیں مایوس نہیں ہونے دے گا۔ دعا ہے کہ اللہ رب العزت ہماری نوجوان نسل کو مثالی کردار عطا فرمائے اور انہیں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اسوہ حسنہ پر چلنے کی اپنی بارگاہ ایزدی سے توفیق خاص عطا فرمائے۔ آمین بجاہ سید المرسلین

ماخوذ از ماہنامہ دخترانِ اسلام، فروری 2019ء

تبصرہ