فکر شیخ الاسلام: اسلام میں مرد اور عورت مساوی کردار کے حامل ہیں

خصوصی خطاب: شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری
مرتبہ: نازیہ عبدالستار

کرہ ارضی پر جو کائنات آباد ہے یہ مرد کی وجہ سے نہیں بلکہ عورت کی مرہون منت ہے۔ اگر حوا نہ ہوتیں تو آدم علیہ السلام کو کس نے جنت سے زمین پر بھیجنا تھا۔ اگر وہ زمین پر نہ آتے تو انسانی نسل کیسے چلنی تھی۔ زمین پر انسانی زندگی کا آباد ہونے کا ذریعہ بھی حضرت حوا رضی اللہ عنہا بنی تو گویا اس دنیا کی آبادی کا سہرا بھی عورت کو جاتا ہے۔ حضور علیہ السلام کی بعثت سے قبل جو انبیاء اور رسول ہوئے ان کی تاریخ کے چند نمونے پیش درج ذیل ہیں:

حضرت نوح علیہ السلام کا ذکر سورۃ ھود میں آتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح کو حکم دیا کہ ایک کشتی تیار کرو جب کشتی تیار ہوگئی تو سوال ہوا کہ اس میں کون لوگ سوار ہوں گے۔

اللہ رب العزت نے فرمایا سارے جوڑے برابری ساتھ میل اور فی میل سوار کرائیں تفاسیر میں آتا ہے کہ جانور الگ تھے انسانوں میں 80 افراد تھے۔ اس میں 40مرد اور 40 عورتیں تھیں پہلے سفر میں عورتوں کی تعداد مردوں کے مقابلہ میں برابر تھی۔

اسلام کی صحیح تعلیم یہ ہے کہ مرد اور عورت کی برابر شمولیت ہونی چاہئے سوسائٹی اس کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتی۔ اس کے بعد حضرت ابراہیم علیہ السلام ہیں۔ مسلمان حج پر جاتے ہیں۔ کعبہ کا طواف کرتے ہیں، صفا و مروہ کی سعی کرتے ہیں۔ ارکان حج کی تکمیل و تشکیل بھی خاتون کی مرہون منت ہے۔ اگر خاتون کا رول نہ ہو تو حج بھی نہیں ہوسکتا۔ وہ خاتون سیدہ حضرت ہاجرہ علیہا السلام ہیں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام ان کو اور ان کے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو بے آب و گیاہ ریگستان میں چھوڑ گئے۔

حضرت ہاجرہ علیہا السلام نے شہر مکہ آباد کروایا۔ جب حضرت اسماعیل علیہ السلام کو پیاس لگی تو آپ نے ایڑھیاں رگڑیں تو حضرت ہاجرہ علیہا السلام پانی کی تلاش میں دوڑیں صفا اور مروہ دو پہاڑیوں کے سات چکر لگائے۔ ان کا چکر لگانا کعبہ کے طواف کے بعد حج کا رکن سعی بن گیا۔ اب حاجی حضرت ہاجرہ علیہا السلام کے دوڑنے کی سنت پوری کرتے ہیں۔ اللہ رب العزت نے ایک خاتون کے عظیم عمل کو اتنا محفوظ کرلیا کہ اس کو حج کا حصہ بنادیا۔ اس عورت کے کردار کے بغیر حج کی تکمیل نہیں ہوتی۔

حضور علیہ السلام نے فرمایا یہ ہماری ماں حضرت ہاجرہ کا احسان ہے۔ اگر وہ پانی کے چشمے کو زم زم نہ کہتیں تو پانی چلتا رہتا اور ساری زمین پھر پانی سے بھر جاتی۔ گویا جزیرہ عرب کو اور انسانوں کو پانی میں ڈوبنے سے بچایا بھی عورت نے ہے۔ یہ ساری چیزیں صحیح بخاری و مسلم میں درج ہیں پھر حضرت ابراہیم علیہ السلام کا ہی ذکر سورۃ ہود میں ہے۔

ملائکہ قوم لوط کی نافرمانیوں پر عذاب کے لیے آئے۔ ابراہیم علیہ السلام سمجھے کہ میری قوم کے لیے آئے ہیں تو آپ کو تھوڑا سا خوف محسوس ہوا۔ فرشتوں نے کہا کہ آپ گھبرائیں نہیں۔ ہم حضرت لوط علیہ السلام کی قوم کے لیے آئیں ہیں۔ تو قرآن کہتا ہے آپ کی بیوی جو آپ کے ساتھ کھڑی تھی وہ گھبرائیں نہیں بلکہ ہنس پڑیں۔ اس قوم پر فرشتوں کا آنا عذاب کی بات کرنا۔ یہ ساری چیزیں خوف کی کیفیت پیدا کرتی ہیں مگر عورت کی جوانمردی، جرأت مندی اور کردار کی مضبوطی ہے کہ وہ اس صورتحال میں ہنسی رہی ہیں۔ ان کی اس کیفیت کو قرآن نے بیان کیا ہے کہ ایسی جوانمرد خواتین تھیں جس کی سنگت نے انبیاء کے مشن کو مکمل کروایا۔ یہ حضرت سارہ علیہا السلام تھیں۔ جن کو بشارت دی فرشتے نے کہ آپ کا بیٹا اسحاق ہوگا پھر ان کا بیٹا یعقوب ہوگا۔

شیخ الاسلام اس مقام کو اس انداز سے بیان کرتے ہیں۔ ابراہیم علیہ السلام بھی موجود تھے۔ ان کی زوجہ حضرت سارہ علیہا السلام بھی موجود تھیں۔ بیٹا تو دونوں کا ہے مگر مبارکبادی حضرت سارہ علیہا السلام خاتون کو دے رہے ہیں۔ گویا اللہ رب العزت عورت کے وجود کو اہمیت دینا چاہتے ہیں۔

دو لڑیاں چلی ہیں۔ ایک بنی اسماعیل علیہ السلام جو حضرت ہاجرہ علیہا السلام سے چلی۔ دوسری حضرت بنی اسرائیل جو حضرت سارہ علیہا السلام سے چلی۔ ادھر بھی رول خاتون کا ہے۔ حضرت ہاجرہ علیہا السلام کا مکہ آباد کرکے آقا علیہ السلام کی ولادت تک پوری تاریخ مرتب کرنے کا۔ حضرت سارہ علیہا السلام کو بشارت دی۔ حضرت اسحاق علیہ السلام اور یعقوب علیہ السلام کی ان کا ٹائیٹل اسرائیل ہے۔ قرآن کا یہ جو اسلوب ہے اس کے پیچھے ایک مقصد ہوتا ہے کہ عورت کے مقام کو نمایاں کیا جائے۔ اگر یہ رول آج بھی ادا ہو تو پیغمبرانہ سنت ہے۔

حضرت موسیٰ علیہ السلام جب پیدا ہوئے چھوٹے بچے ہیں۔ آپ کے والد گرامی بھی تھے ان کے والد کا نام موسیٰ بن عمران آپ کی والدہ بھی تھیں۔ والدہ کا نام یوحبط ہے۔ انہیں خطرہ ہوا کہ فرعون موسیٰ علیہ السلام کو مروادے گا۔ اللہ رب العزت نے ایڈریس باپ کو نہیں کیا حضرت یوحبط موسیٰ علیہ السلام کی والدہ کو کیا وہ القاء والد کو بھی ہوسکتا تھا مگر والدہ کو کہا ہے گویا والدہ کے رول کو پرموٹ کیا۔

ہم نے موسیٰ علیہ السلام کی والدہ کو پیغام بھیجا کہ دودھ پلاتی رہیں، گھبرائیں نہیں جب آپ کو خطرہ محسوس ہو تو صندوق میں ڈال کر دریا میں ڈال دینا۔ گھبرانا نہیں۔ یہاں تین خواتین کا ذکر کیا اور کسی کا ذکر نہیں پہلا رول موسیٰ علیہ السلام کی والدہ کا۔ دوسرا رول فرعون کی زوجہ حضرت آسیہ بنت مزاحم کا ہے جب صندوق محل کے قریب پہنچا یہاں حضرت آسیہ کی با ت کو قرآن کی آیت بنایا۔ فرعون کی زوجہ آسیہ نے کہا :لگتا ہے کہ اس صندوق کے اندر جو کچھ ہے وہ میری اور تمہاری آنکھوں کی ٹھنڈک بن جائے گا۔

دراصل یہاں عورت کے رول کو نمایاں کرکے بیان کیا جارہا ہے۔ بیٹا گود میں اور خاتون کہہ رہی ہے شاید ہمیں اس سے فائدہ پہنچے ہماری آنکھوں کی ٹھنڈک ہو۔ ہم اسے اپنا بیٹا بنالیں۔ اسی مقام پر تیسرا رول موسیٰ علیہ السلام کی بہن کا ہے۔ ان کا نام حضرت مریم تھا یہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی والدہ نہیں۔

قرآن نے عورت کے رول کو کتنی اہمیت دی ہے۔ پھر حضرت شعیب علیہ السلام کا ذکر ہے جب موسیٰ علیہ السلام کچھ عرصہ پناہ لینے کے لیے مصر گئے وہاں بھی دو خواتین کا ذکر آیا ہے۔ شعیب علیہ السلام کی بیٹیاں پانی بھرنے کے لیے کھڑی تھیں جب ان سے پوچھا گیا کہ آپ پانی کیوں نہیں بھرتی تو وہاں ان کے وقار کا ذکر ہے۔ انہوں نے کہا کہ مردوں کا ہجوم ہے ہم ا س ہجوم میں نہیں آتیں جب مرد پانی بھر کر فارغ ہوجائیں گے تو پھر ہم پانی بھر لیں گے پھر موسیٰ علیہ السلام نے ان کو پانی بھر کردیا۔ وہ عورتیں موسیٰ علیہ السلام کو پناہ کی جگہ پر لے گئیں پناہ دلوائیں پھر ان کا زیرک ہونا کہ انہوں نے اپنے والد سے ذکر کیا کہ موسیٰ علیہ السلام کے رویے سے دیکھ کر لگتا ہے۔ وہ بہت پرہیزگار اور نیک و صالح انسان ہے۔ پھر عیسیٰ علیہ السلام کا ذکر ہے ان کے والد تو نہیں تھے تو سارا رول ان کی والدہ حضرت مریم علیہا السلام کا ہے۔ اس میں بھی خواتین کا مقام نمایاں کیا جارہا ہے۔

قرآن مجید کی 114 سورتیں ہیں جس میں 2 سورتیں خاتون کے نام پر ہیں۔ سورۃ النساء اور سورۃ مریم باقی 112 سورتوں میں سے ایک سورت بھی مرد کے نام پر نہیں۔

کوئی سورۃ النساء کے ساتھ الرجال کے نام پر نہیں ہے۔ سورۃ انبیاء ہے۔ پیغمبر کو Exclude کردیا ہے۔ آل عمران فیملی کو کہتے ہیں اس میں بیٹے، بیٹیاں سب شامل ہیں۔

دراصل اس معاشرہ میں قرآن نازل ہورہا ہے جہاں عورت کا کوئی مقام نہیں تھا۔ بچی کو پیدا ہوتے ہی دفن کردیتے۔ عورت وراثت کا مال تھی۔ اس کے حقوق نہیں تھے۔ وہ انسان تصور نہیں کی جاتی تھی۔ ایسی سوسائٹی تھی جہاں ضرورت تھی کہ اللہ رب العزت جو وحی اتاریں اس میں عورت کے مقام کو مرکوز کریں تاکہ سوسائٹی کا مائنڈ سیٹ بدل جائے۔ ان کے سوچ کی روایات تبدیل ہوجائیں۔

اللہ نے عورت کو اپنے رول ادا کرنے میں برابری دی ہے۔ شیخ الاسلام نے تسلسل کے ساتھ اس فکر کا پرچار کیا ہے۔ قرآن مجید نے نہ صرف مشترکہ شمولیت کی بات کی ہے بلکہ برابری تخلیقی وحدت کی صورت میں بھی بیان کی ہے۔ تخلیقی وحدت میں برابری ہے۔بننے کے اعتبار سے دونوں ایک وحدت سے نکلے ہیں۔ اللہ رب العزت نے ان رول برابر بنایا ہے۔

لہذا سوسائٹی کو عورت کے لیے ایسے مواقع پیدا کرنے چاہئے۔ اللہ تعالیٰ نے جو تخلیقی خوبی عورت میں رکھی ہے اس کو استعمال کرکے سوسائٹی کو بہتر بنانے میں اپنا بھرپور کردار ادا کرسکیں۔ اس کے برعکس خواتین کو گھریلو کام کاج، بچوں کی دیکھ بھال کے لیے سمجھا جاتا ہے۔ قرآن و حدیث نے عورت کے فرائض و واجبات میں یہ چیزیں کہیں بیان نہیں کیں۔ عورت اگر یہ کام کرتی ہے تو مرد پر احسان کرتی ہے۔ یہ عورت کی شرعی ذمہ داریوں میں سے نہیں ہے۔

اس لیے کہ حضور علیہ السلام ازواج کے ساتھ گھریلو کام کاج میں ہاتھ بٹاتے تھے یہ بتانے کے لیے یہ جو کررہی ہیں احسان کررہی ہیں۔ میں اس میں شریک ہورہا ہوں۔

لہذا عورت کے پاس مساوی مواقع ہونے چاہئیں یورپ میں ہر جگہ ریسپشنسٹ عورت ہے کیونکہ وہ ڈیل مرد کے مقابلہ میں زیادہ بہتر طریقے سے کرتی ہے جہاں خواتین کو مواقع میسر آتے ہیں وہ اپنی صلاحیتوں کا لوہا منواتی ہیں۔

اِنَّ الْمُسْلِمِیْنَ وَالْمُسْلِمٰتِ وَالْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ وَالْقٰنِتِیْنَ وَالْقٰنِتٰتِ وَالصّٰدِقِیْنَ وَالصّٰدِقٰتِ وَالصّٰبِرِیْنَ وَالصّٰبِرٰتِ وَالْخٰشِعِیْنَ وَالْخٰشِعٰتِ وَالْمُتَصَدِّقِیْنَ وَالْمُتَصَدِّقٰتِ وَالصَّآئِمِیْنَ وَالصّٰئِمٰتِ وَالْحٰفِظِیْنَ فُرُوْجَهُمْ وَالْحٰفِظٰتِ وَالذّٰکِرِیْنَ اﷲَ کَثِیْرًا وَّالذّٰکِرٰتِ اَعَدَّ اﷲُ لَهُمْ مَّغْفِرَةً وَّاَجْرًا عَظِیْمًا.

’’بے شک مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں، اور مومن مَرد اور مومن عورتیں، اور فرمانبردار مرد اور فرمانبردار عورتیں، اور صدق والے مرد اور صدق والی عورتیں، اور صبر والے مرد اور صبر والی عورتیں، اور عاجزی والے مرد اور عاجزی والی عورتیں، اور صدقہ و خیرات کرنے والے مرد اور صدقہ و خیرات کرنے والی عورتیں اور روزہ دار مرد اور روزہ دار عورتیں، اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرنے والے مرد اور حفاظت کرنے والی عورتیں، اور کثرت سے اللہ کا ذکر کرنے والے مرد اور ذکر کرنے والی عورتیں، اللہ نے اِن سب کے لیے بخشِش اور عظیم اجر تیار فرما رکھا ہے‘‘۔

(الاحزاب، 33: 35)

سارے رول کو ایک آیت میں اکٹھے کردیئے ہیں۔ پوری آیت میں میل اور فی میل کے رول کو جوڑے کے طور پر بیان کیا ہے۔ یہ متعین کرتا ہے کہ عورت پر ذمہ داریاں کیسی ہیں؟ کس طرح اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چاہتے ہیں کہ وہ معاشرے میں اپنا اہم کردار ادا کریں۔ جب وحی اترتی لامحالہ سفر کے علاوہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم گھر میں ہی تشریف فرما ہوتے۔ جس کا بھی گھر ہو خواہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا گھر ہے خواہ حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا جن کا بھی گھر ہو۔ مگر کس طرح سے خواتین کے مقام کو نمایاں کیا جارہا ہے۔

تم ان آیات کو سنت و حکمت کو جو تمہارے گھروں میں تلاوت کی جاتی ہیں ان کو یاد رکھا کرو۔ وحی اتری ہے حضور علیہ السلام پر مگر ذکر کیا جارہا ہے۔ ازواج کا جو تمہارے گھر میں پیغام آئے ہیں۔ اس کو یاد کرو۔ ازواج کے مقام کو اہمیت دی جارہی ہے۔ دین اسلام کے احکام پر عمل درآمد کے لیے فرمایا:

کنتم خیر امۃ تم سب مرد یا عورتیں اچھی امت ہو نیکی کا حکم دینا، نیکی کو فروغ دینا، امت کی جتنی فضیلتیں بیان کی اس میں مرد اور عورتیں برابری کے ساتھ شامل ہیں۔ امت صرف مردوں کی نہیں، امت عورتوں کی بھی ہے یومنون باللہ تم ایمان لانے والے ہو۔ ایمان جس طرح مردوں پر فرض ہے اس طرح عورتوں پر بھی ہے۔

سوسائٹی باہمی تعاون سے چلتی ہے۔ اس میں مرد اور عورتیں باہمی تعاون کے ساتھ اس امت کے فرائض ادا کرتے ہیں۔ اس لیے جو پہلی شہادت اسلام میں ہوئی ہے وہ حضرت سمعیہ رضی اللہ عنہا کی ہے۔ جب حضور علیہ السلام مکہ میں تھے مدینے سے جو وفد آیا جن کو ٹرینر بناکر بھیجا اور امن کی تعلیم دی تاکہ وہ مدینہ میں اسلام کے لیے فضا ہموار کریں۔ اس وفد میں بھی خواتین شامل تھیں جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بیعت کرکے تعلیم لے کر گئیں۔ جب جہاد ہوتے اس میں خواتین شریک ہوتیں۔ مسجد نبوی وہ سوشل، پولیٹیکل کلچر، ڈینفس کی اکٹوئی کا سنٹر بھی تھا۔ مسجد ہیڈ کوارٹر تھی اور رات دن خواتین کے لیے دروازہ کھلا رہتا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: خبردار کوئی بھی کسی بھی خاتون کو میرے اس مرکز پر آنے سے منع نہ کرے۔

حضور علیہ السلام تعلیم دیتے تو صحابہ کے ساتھ صحابیات مل کر بیٹھی ہوتیں۔ نماز پڑھتے تو خواتین شریک ہوئیں۔ چھوٹے بچے پیچھے بیٹھے ہوتے۔ کسی بچے کے رونے کی آواز آتی تو حضور علیہ السلام نماز مختصر کردیتے۔ اس کے رونے سے اس کی ماں کا دل دکھ رہا ہوگا۔ میں نماز مختصر کروں تاکہ بچے کو گود میں اٹھالے۔ جہاد پر خواتین جاتیں۔ سیکیورٹی کی ڈیوٹی دیتی۔ مریضوں کی تیمارداری کرتیں زخمیوں کی مرہم پٹی کرتیں۔ حنین اور احد میں خواتین حضور علیہ السلام کا دفاع کررہی تھیں پھر تعلیم کے اعتبار سے بھی اپنا کردار ادا کرتیں۔ جب حدیث امت کو پہنچائیں تو حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے 2200 سے زیادہ احادیث امت کو پہنچائیں۔ سو صحابہ کے قریب آپ کے شاگرد ہیں۔ حضرت ام سلمیٰ رضی اللہ عنہا ، حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا ، حضرت جویریہ رضی اللہ عنہا ، حضرت سودہ رضی اللہ عنہا سات سو سے زائد صحابیات ہیں۔ جنہوں نے علم کو امت تک پہنچایا۔

بخاری و مسلم سمیت کتابیں ہیں پھر تابعین میں عمرہ بنت عبدالرحمن ام علی تقیہ محمد زینب، خلدیہ بنت جعفر ایسے محدثات ہیں امام عسقلانی کہتے ہیں۔ امام بخاری کی اسانید میں سے کچھ شیخ خواتین ہیں۔ صحیح مسلم کی سند میں سے کچھ شیخ خواتین ہیں ابودائود اور ترمذی میں خاتون شیخ سے سندیں لی ہیں۔ حضرت نفیسہ مصر میں محدثہ تھیں۔ امام شافعی دیوار کے ساتھ کھڑے ہوکر ان کا درس حدیث سن کر نوٹس لیتے تھے۔ بڑی بڑی خواتین علم حاصل کرنے کے لیے سفر کرتی تھیں۔ ہزاروں مرد، علمائ، فقہاء کئی محدث خواتین کی مجالس میں شریک ہوکر علم لیتے۔

80 خواتین ابن عساکر کی استاذ ہیں ان سے یونیورسٹیاں آباد تھیں۔ اسلام اس طریق سے پھیلا جب حضور علیہ السلام نے مدینہ میں تعلیم کا نظام واضح کیا تو لکھنے، پڑھنے کے لیے اساتذہ مقرر کیے۔ امام بلازی لکھتے ہیں۔ 50% میل تھے جن کو پڑھانے اور لکھانے کا بندوبست کیا تھا۔ 50 فیصد عورتیں تھیں۔ اسلام کی تاریخ برابری کے تصور سے شروع ہوئی۔ خواتین کے حلقات تھے وہ اسلام کے کلچر کو عام کرتیں، روحانیت، سائنسی علم کو فروغ دینے میں برابر حصہ لیتی رہیں اور ذمہ داریاں حضور علیہ السلام نے مقررکی تھیں۔

میل آفیسرز دیئے۔ خواتین ان کی انچارج تھیں۔ سیدنا فاروق اعظم کے دور میں خواتین پارلیمنٹ کی ممبر تھیں۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ ایک Legistation لانے لگے کہ مہر کو متعین کردیتے ہیں تو خاتون ممبر پارلیمنٹ صحابیہ کھڑی ہوگئیں۔ اے امیرالمومنین قرآن نے مہر کی حدود متعین نہیں کی آپ کون ہوتے ہیں حدود مقرر کرنے والے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ یہ کہتے ہوئے اپنا بل واپس لے لیا مرد نے خطا کھائی اور عورت صحیح نتیجہ پر پہنچی۔ امریکہ میں پچھلی صدی میں عورت کو ووٹ کا حق ملا ہے۔ امریکہ میں عورتوں نے جنگ لڑ کر اپنے حقوق منوائے ہیں۔

مغربی دنیا جو اسلام کو طعنہ دیتے ہیں۔ انہوں نے پچھلی صدی میں عورت کو ووٹ کا حق دیا ہے۔ 14 سو سال قبل عورت حضور علیہ السلام کی پارلیمنٹ کی ممبر تھیں۔ لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ آج خواتین وہی تاریخی کردار ادا کریں تاکہ مائیں، بہنیں، بیٹیاں اس فکر کو فروغ دینے میں اور ملک کو دہشت گردی سے بچانے میں اور اگلی نسلوں کو سنوارنے میں پہلے سے بھی بہتر کردار ادا کرسکیں۔

ماخوذ از ماہنامہ دخترانِ اسلام، مارچ 2019ء

تبصرہ