ذاتِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نعمت عظمیٰ ہے

اللہ جلّ جلالہ نے بنی نوع انسان کو بے پایاں و بے حساب نعمتوں سے سر فراز فرمایا ہے۔ جن کو شمار کرنا یا گننا نہ صرف دشوار ہے بلکہ ایک محال اور ناممکن عمل گردانا جاتا ہے۔ جیساکہ اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:

وَآتَاکُم مِّن کُلِّ مَا سَأَلْتُمُوهُ وَإِن تَعُدُّواْ نِعْمَتَ اللّهِ لاَ تُحْصُوهَا إِنَّ الْإِنسَانَ لَظَلُومٌ کَفَّارٌ.

اور اس نے تمہیں ہر وہ چیز عطا فرما دی جو تم نے اس سے مانگی، اور اگر تم اللہ کی نعمتوں کو شمار کرنا چاہو (تو) پورا شمار نہ کر سکو گے، بیشک انسان بڑا ہی ظالم بڑا ہی ناشکرگزار ہے۔

(ابراهیم، 34: 14)

اسی طرح ارشاد فرمایا:

وَإِن تَعُدُّواْ نِعْمَةَ اللّهِ لاَ تُحْصُوهَا إِنَّ اللّهَ لَغَفُورٌ رَّحِیمٌ.

اور اگر تم اللہ کی نعمتوں کو شمار کرنا چاہو تو انہیں پورا شمار نہ کر سکو گے، بیشک اللہ بڑا بخشنے والا نہایت مہربان ہے۔

(النحل، 18: 16)

اگر ہم ان نعمتوں میں سے چیدہ چیدہ کا تذکرہ زیرِ بحث لائیں تو یہ بات روز ِروشن کی طرح واضح اور آشکار ہوجا تی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرتِ انسان کو سکونت و رہائش کیلیے گھر جیسی نعمت عطا فرمائی ہے پھر اس کی زندگی کے مختلف مراحل میں نگہداشت و حفاظت اور تقویت کے لیے والدین، عزیز و اقارب، رشتہ داروں اور دوستوں جیسی لازوال و کمال نعمتوں کا بندوبست فرمایاہے اور اس کی غذا و خوراک کے لیے اناج،پھل اور گوشت جیسی نعمتیں مہیا فرمائیں ہیں۔

دوسری طرف خالق کائنات نے ایک ایسا صاف ستھرا، سرسبز و شاداب اور نعمتوں سے مالامال کرہ ارضی تخلیق فرمایا ہے،جو حیاتِ انسانی کی ضروریات و احتیاجات کو پوراکرنے اور تفریح و راحت دینے والی بے شمار نعمتوں کا مرقع ومرکب ہے، اس کرہ ارضی پر زندگی اپنی تمام تر رعنائیوں کے ساتھ ظہور پذیر ہے چنانچہ انسان کو مجموعی طور پر مادی وحسی اور فکری و نظریاتی سطحوں پر نعمتوں کی فراوانی عطا کی گئی۔

اگر انفرادی و شخصی سطح پر غورو تدبر کیا جائے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ انسانی زندگی خود ایک نہایت اعلیٰ اورذی شان نعمت ہے جس کا کوئی مد مقابل نہیں ہے یہی وجہ ہے کہ انسان اپنی زندگی کو ہر چیز پر مقدم رکھتا ہے،اور ہمیشہ اس کے تحفظ کے لیے سرگرداں رہتا ہے۔ خالق کائنات نے حیاتِ انسان کے تقاضوں کے مطابق اس کے حسی و مادی ذوق، نظریاتی و فکری اساسوں کو جلا بخشنے کی خاطر چمن دنیا کو بے شمار خوبصورتیوں، رعنائیوں، ندرتوں اور دلکش اشیاء و محسوسات سے سجایا ہے۔ پھر ان سے مستفید ہونے کیلیے حضرت انسان کو مضبوط صلاحیتوں، ملکات اور استعدادات سے مزین فرمایا ہے۔ لہذا انسان ازل سے تاحال اس زندگی کے ہر پہلو سے حسب ِاستعداد لطف اندوز ہوتا چلا آرہا ہے۔

اگر ہم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حوالے سے بات کریں تو یہ کہنا خلاف حقیقت نہیں ہو گا کہ ذات مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نعمت عظمیٰ ہے بلکہ کائنات میں جملہ موجودات کی صورت میں ملنے والی سب نعمتوں کی اصل وجہ اور سبب ہیں یعنی آپ وجہ تخلیق کائنات ہیں۔ نہ صرف حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جمیع انسانیت کو مختلف حوالوں سے فیض یاب فرما رہے ہیں بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی پاک و صاف سیرت اور صفت معلمیت کے فیوض و برکات سے اپنی امت کی فکری و نظریاتی اورعملی بنیادوں کو پائیدار و مضبوط رکھنے کا اعلیٰ انداز سے سامان مہیا فرما رہے ہیں۔ اللہ رب العزت نے بھی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نعمت ِ عظمیٰ قرار دیا ہے۔ جس کے بارے میں ارشاد فرمایا:

لَقَدْ مَنَّ اللّهُ عَلَی الْمُؤمِنِینَ إِذْ بَعَثَ فِیهِمْ رَسُولاً مِّنْ أَنفُسِهِمْ یَتْلُواْ عَلَیْهِمْ آیَاتِهِ وَیُزَکِّیهِمْ وَیُعَلِّمُهُمُ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَةَ وَإِن کَانُواْ مِن قَبْلُ لَفِی ضَلَالٍ مُّبِینٍ.

بیشک اللہ نے مسلمانوں پر بڑا احسان فرمایا کہ ان میں انہی میں سے (عظمت والا) رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھیجا جو ان پر اس کی آیتیں پڑھتا اور انہیں پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے، اگرچہ وہ لوگ اس سے پہلے کھلی گمراہی میں تھے۔

(آل عمران، 3: 164)

قرآن کریم میں اللہ رب العزت نے بے شمار نعمتوں کا ذکر کیا مگر کسی نعمت پر احسان نہیں جتلایا۔ احسان اسی نعمت پر جتلایا جاتا ہے جو نعمت عظمیٰ ہو۔ چنانچہ مذکورہ بالاآیت مبارکہ میں اللہ رب العزت نے لقد من اللہ فرما کر ذات مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جمیع انسانیت،جملہ موجودات و حیاتیات، عوالم اور کائنات کے لیے نعمت عظمیٰ قرار دیا ہے چونکہ اس مقام پر لفظ لقد من اللہ میں احسان جتلانے کے معنی کو بطور خاص ذکر کیا گیا ہے تاکہ جس عظیم نعمت کے صدقے ساری کائنات اور کل موجودات کو پیدا فرمایا اس کی عظمت کا اظہار فرمایا جائے اور دیگر انعامات سے ان کی ممتاز و نمایاں حیثیت کو بیان کر دیا جائے۔

مذکورہ بالا شاہد دلیل سے یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ ہمارے پیارے نبی بلاشک و شبہ کائناتِ ہست و بود کے لیے نعمت عظمی ہیں۔ ہم خوش نصیب ہیں جن کو اللہ رب العزت نے آپ کی امت میں پیدا فرمایا اور آپ کی محبت عطا فرمائی۔ آپ کی سیرت پر چلنے اور زندگی گزارنے کا شعور عطا فرمایا۔

اللہ رب العزت نے حصول نعمت کے بعد تحدیث نعمت کے طور پر چرچا کرنے کا حکم دیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے

وَأَمَّا بِنِعْمَةِ رَبِّکَ فَحَدِّثْ.

اور اپنے رب کی نعمتوں کا (خوب) تذکرہ کریں۔

(الضحیٰ، 93: 11)

اس آیت میں یہ امر بتایا گیا کہ جب تمہیں کوئی نعمت ملے تو اس کا چر چا کرو، لوگوں میں تحدیث نعمت کے طور پر اظہار مسرت کرو۔ میلاد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کائنات کے لیے نعمت عظمیٰ ہے۔ جشن میلاد منانا نہ صرف تحدیث نعمت کے حکم کو بجالانا ہے بلکہ اس عمل کے ذریعے اللہ رب العزت کی بارگاہ سے مزید نوازشات او ر خیرات کا سبب بھی ہے۔

جب اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ چھوٹی چھوٹی نعمتوں پر بھی شکر بجالایا جاتا ہے، تو ایک طرف تقاضا ئے عبودیت و بندگی پورا ہوتا ہے دوسرا اس شکر کی وجہ سے اللہ رب العزت مزید خیر و برکات میں اضافہ فرماتا ہے۔ جیسا کہ قرآن کریم میں اس حکمت کو یوں بیان فرمایا ہے۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے۔

لَئِن شَکَرْتُمْ لَأَزِیدَنَّکُمْ وَلَئِن کَفَرْتُمْ إِنَّ عَذَابِی لَشَدِیدٌ.

اگر تم شکر ادا کرو گے تو میں تم پر (نعمتوں میں) ضرور اضافہ کروں گا اور اگر تم ناشکری کرو گے تو میرا عذاب یقیناً سخت ہے۔

(ابراهیم: 7)

اس آیت کریمہ میں نعمتوں پر شکر بجالانا مزید نعمتوں کے حصول کا پیش خیمہ قرار دیا گیا ہے یعنی جشن میلاد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منانا مزید نعمتوں کے حصول کا پیش خیمہ ہے۔ نعمت کے شکرانے کے طور پر باقاعدگی کے ساتھ بالاہتمام خوشی و مسرت کا اظہار اس لیے بھی ضروری ہے تاکہ آئندہ نسلوں کو اس نعمت کی قدرو قیمت اور اہمیت سے آگہی ہوتی رہے۔ اور ان کے دلوں میں اس نعمت کی قدرو قیمت جاگزیں ہوتی رہے۔

یوں تو ہر انسان انفرادی سطح پر قدم قدم پر اللہ کی بے انتہا نعمتوں کا شکر بجالاتا ہے لیکن اگر کسی نعمت کی تذکیر مقصود ہو اور نعمت بھی عظمٰی یعنی خاص ہو تو اجتماعی شکل میں اس پر اظہار تشکر کیا جاتا ہے۔ جب گردشِ ایام سے انسان پر حصول نعمت کا دن دوبارہ آتا ہے جس میں من حیث القوم اس پر اللہ تعالیٰ کا کرم ہوا اور مذکورہ نعمت اس کے شریک حال ہوئی تو خوشی کی کیفیات خود بخود جشن کی صورت اختیار کر لیتی ہیں۔

مثال کے طور پر اللہ رب العزت نے نعمت پر شکر بجا لانے اور خوشی و مسرت کا اظہار کرنے کے بارے میں ہمیں سورۃ مائدہ میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ایک خوشی کی مثال اور طریقہ ملتا ہے۔ جب آپ کی قوم نے اللہ تعالیٰ سے نعمتِ مائدہ طلب کی تو ساتھ اللہ کی بارگاہ میں یہ درخواست پیش کی کہ اگر ہمیں اس نعمت سے نوازاجائے گا تو ہم اس کا شکر بجا لاتے ہوئے اس دن کو بطور عید منائیں گے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔

اللَّهُمَّ رَبَّنَا أَنزِلْ عَلَیْنَا مَآئِدَةً مِّنَ السَّمَاءِ تَکُونُ لَنَا عِیداً لِّأَوَّلِنَا وَآخِرِنَا وَآیَةً مِّنکَ وَارْزُقْنَا وَأَنتَ خَیْرُ الرَّازِقِینَ.

اے اﷲ! اے ہمارے رب! ہم پر آسمان سے خوانِ (نعمت) نازل فرما دے کہ (اس کے اترنے کا دن) ہمارے لئے عید ہوجائے ہمار ے اگلوں کے لئے (بھی) اور ہمارے پچھلوں کے لئے (بھی) اور (وہ خوان) تیری طرف سے نشانی ہو، اور ہمیں رزق عطا کر اور تو سب سے بہتر رزق دینے والا ہے۔

(المائدة، 5: 114)

قرآن مجید نے اس آیت کریمہ کے ذریعے امتِ مسلمہ کو یہ تصور دیا کہ جس دن نعمتِ الٰہی کا نزول ہو اس دن من حیث القوم جشن منانا اور تذکرہ نعمت کرنا، شکرانہ نعمت کی ایک مستحسن صورت ہے۔

اسی طرح احادیث میں یوم عاشورہ کے حوالے سے ذکر ہے کہ اس دن کو یہودی بطور عید مناتے ہیں اور یہ وہ دن ہے جب حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوم کو بنی اسرائیل کے جبر و استبداد سے نجات ملی۔ اس طرح یہ دن ان کے لیے یوم فتح اور آزادی کا دن ہے جس میں وہ بطور شکرانہ روزہ رکھتے ہیں اور خوشی مناتے ہیں۔ حدیث مبارکہ ہے:

عن ابن عباس، قال: لما قدم النبی صلی الله علیه وسلم المدینۃ وجد الیهود یصومون عاشوراء، فسئلوا عن ذلک. فقالوا: هذا الیوم الذی اظهر الله فیه موسی علی فرعون، ونحن نصومه تعظیما له. فقال رسول الله صلی الله علیه وسلم: نحن اولی بموسی منکم." وامر بصیامه.

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو یہودیوں کو یوم عاشورہ کا روزہ رکھتے ہوئے پایا، اس کے متعلق جب ان سے دریافت کیا گیا تو انہوں نے بتایا کہ یہ وہ دن ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے موسیٰ وضاحت کو فرعون پر فتح نصیب کی تھی، چنانچہ تعظیم کے طور پر ہم اس دن کا روزہ رکھتے ہیں، (یہ سن کر) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہم موسیٰ علیہ السلام کے تم سے زیادہ حقدار ہیں، اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس دن روزہ رکھنے کا حکم فرمایا۔

(مسلم،الجامع الصحیح، رقم: 2444)

اگر یہود فرعون سے نجات اور آزادی کو نعمت خداوندی سمجھ کر اظہار تشکر کرتے ہیں بطور شکرانہ روزہ رکھتے و خوشی مناتے ہیں اور ہر سال اس دن کی یاد میں من حیث القوم شکر بجالاتے ہیں تو امت مسلمہ جن کے وجود مسعود کے ذریعے کفر و شرک، بت پرستی، بے راہ روی اور جبر و استحصال سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے نجات ملی لہذا آپ کی آمد کو نعمت عظمی سمجھ کر جشن اور خوشی کا اظہار کیوں نہ کرے۔ قرآن و حدیث اور آثار سے یہ بات ثابت ہے کہ آپ کی ولادت پوری امت کے لیے نعمت ہے اور آپ کے وجود کا نعمت عظمیٰ ہونے سے کسی طبقہ کو انکار نہیں ہے تو پھر قرآن کے اس فرمان فلیفرحوا کی عملی صورت سوائے خوشی اور مسرت اور جشن مولودِ مصطفی کے اور کیا ہو سکتی ہے۔

ان ٹوٹے ہوئے دلوں کو پھر سے جوڑنا اور گروہوں میں بٹی ہوئی انسانیت کو رشتہ اخوت و محبت میں پرو کر نفرت و عداوت کی دیوار کو گرا دینا اتنا بڑا واقعہ ہے جس کی کوئی نظیر تاریخ عالم انسانی نہیں ملتی۔

انسانی زندگی کا ایک رخ اور پہلو روحانی و فکری اور نظریاتی ہے جو اس کے افکار و نظریات اور عقائد سے متعلق ہے جبکہ دوسرا رخ اس کی مادی ضرورتوں اور محسوسات اور مدرکات سے متعلق ہے۔ یاد رہے حیات انسان کے عمل کو درست سمت اور مثبت رویہ کی ترویج و ارتقاء کے لیے نظریاتی طور پر مضبوط و راسخ ہونا ضروری ہے کیونکہ یہی مثبت عمل آگے بڑھ کر مؤثرانہ احوال کی صورت اختیار کرتا ہے۔ دوسرا رخ مادی یعنی اشیائے محسوسات کا صحیح استعمال اور اعمال کے انجام کی صحیح معلومات بھی ہونا ضروری ہے۔ اگر ان دونوں پہلوؤں کو تجزیاتی انداز میں دیکھا جائے تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ شریعت اسلامی نے حسی و مادی رخ کے دائرہ کار کو محرمات و منھیات اور حلال و مباحات کی تقسیم کے ساتھ ساتھ بیان فرمادیا ہے جبکہ نظریاتی پہلو یعنی عقیدہ کو تمام اعمال کی بنیاد اور اصل قرار دیا ہے۔

یاد رہے کہ جس طرح توحید، وجود باری تعالیٰ، ملائکہ پر ایمان بنیادی نظریات و عقائد میں سے ہے اسی طرح اللہ کے رسولوں پر ایمان لانا ان کے اپنے اپنے زمانہ میں ظہور و میلاد ہونے کا اقرار کرنا ان کی نبوت و رسالت کی تصدیق کرنا بھی بنیادی و اصلی عقائد میں شامل ہے۔

جشن میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی برکات اور انعامات:

جشن میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا انعقاد و اہتمام کرنا ذات مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد و ظہور پر خوشی و مسرت سے عبارت ہے۔ نہ صرف یہ اپنے حبی تعلق کا اظہار ہے بلکہ یہ عمل شافع اور نفع بخش بھی ہے۔ یہ ایسا عمل ہے جس کا نفع آخرت میں بھی ہوتا ہے اور ہر انسان کو ایمان و عقیدہ کی قید سے بالاتر ہو کر عطا ہوتا ہے۔

ابو لہب ایک بدترین دشمن رسول اور معاند اسلام تھا جس کی مذمت میں اللہ رب العزت نے قرآن کریم میں ایک مکمل سورت سورۃ الہب نازل فرمائی۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

تَبَّتْ یَدَا أَبِی لَهَبٍ وَتَبَّ. مَا أَغْنَی عَنْهُ مَالُهُ وَمَا کَسَبَ. سَیَصْلَی نَارًا ذَاتَ لَهَبٍ. وَامْرَأَتُهُ حَمَّالَةَ الْحَطَبِ. فِی جِیدِهَا حَبْلٌ مِّن مَّسَدٍ.

(اللهب، 5: 11-1)

ابولہب کے دونوں ہاتھ ٹوٹ جائیں اور وہ تباہ ہو جائے (اس نے ہمارے حبیب پر ہاتھ اٹھانے کی کوشش کی ہے)۔ اسے اس کے (موروثی) مال نے کچھ فائدہ نہ پہنچایا اور نہ ہی اس کی کمائی نے عنقریب وہ شعلوں والی آگ میں جا پڑے گا۔ اور اس کی (خبیث) عورت (بھی) جو (کانٹے دار) لکڑیوں کا بوجھ (سر پر) اٹھائے پھرتی ہے، (اور ہمارے حبیب کے تلووں کو زخمی کرنے کے لئے رات کو ان کی راہوں میں بچھا دیتی ہے)۔ اس کی گردن میں کھجور کی چھال کا (وہی) رسّہ ہوگا (جس سے کانٹوں کا گٹھا باندھتی ہے)۔ یعنی اس سے ثابت ہے کہ ابولہب دوزخی اور جہنمی ہے اور ہمیشہ سے دوزخ کے عذاب میں رہے گا اور اب بھی عالم برزخ میں عذاب میں ہے۔

اس سورت میں ابو لہب کو ہمیشہ (دوزخ ) میں رہنے والا قرار دیا گیا ہے اور اس کا مال و دولت، جاہ و منصب اور دنیاوی کمائی اسے جہنم سے نہیں بچا سکے گی۔ اسے قبر میں بھی عذاب ہے اور آخرت میں بھی عذاب ہوگا۔ لیکن پیر کے دن اس کے عذاب میں کمی ہوتی ہے کیونکہ اس نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کی خوشی میں اپنی لونڈی ثویبہ کو آزاد کیا تھا۔

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود بھی اپنے یوم ولادت کی تعظیم فرماتے تھے اور اللہ تعالیٰ کی اس نعمت کبریٰ پر اللہ کا شکر فرماتے تھے۔ اور آپ کے وجود مسعود نے جملہ موجودات کو فضیلت بخشی اور آپ کی ساعت میلاد پر کل موجودات نے خوشیاں اور مسرتیں منائیں۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے یوم ولادت کی تعظیم انتہائی خوبصورت اور اچھے انداز میں فرمائی۔ آپ اپنے مولد کی اتنی زیادہ تعظیم فرماتے کہ ہر پیر کے دن روزہ رکھتے۔ آپ کی تعظیم کا عالم یہ ہے کہ آپ ہر ہفتہ میں ایک دفعہ اس نعمت خداوندی پر شکر ادا فرمارہے ہیں۔

امام مسلم نے اپنی الجامع الصحیح میں کتاب الصیام میں حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نقل فرمایا ہے کہ:

عن ابی قتادة وسئل عن صوم یوم الاثنین؟ قال: "ذاک یوم ولدت فیه، ویوم بعثت او انزل علی فیه"

حضرت ابو قتادۃ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پیر کے دن کے روزہ کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میں اسی دن پیدا ہوا ہوں اور اسی دن نبی ہوا ہوں یا فرمایا: اسی دن مجھ پر وحی اتری ہے۔

(مسلم، الجامع الصحیح، رقم الحدیث: 2747)

یعنی روزہ رکھ کر آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا میلاد منایا کرتے تھے آپ کے عمل مبارک سے یہ بات ثابت ہوئی کہ تذکرہ میلاد خودسنت رسول ہے اور یوم میلاد کو اچھے اعمال کرنا بھی سنت رسول ہے جیسے روزہ رکھنا، صدقہ و خیرات کرنا، لوگوں کو کھانا کھلانا وغیرہ۔

اس طرح اس دن محافل قراء ت، وعظ و نصیحت کا اہتمام، اجتماعات کا انعقاد کرنا سب اچھے کام اور ثواب حاصل کرنے کا ذریعہ ہیں۔

اسی طرح یوم میلاد مصطفیٰ پر خوشی منانا اور اظہار مسرت کرنا شریعت اسلامیہ کی پیروی کرتے ہوئے اور اس کے دائرہ کار کے اندر رہتے ہوئے خوشی کرنا کا حکم قرآن مجید کا حکم ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔

قُلْ بِفَضْلِ اللّهِ وَبِرَحْمَتِهِ فَبِذَلِکَ فَلْیَفْرَحُواْ هُوَ خَیْرٌ مِّمَّا یَجْمَعُونَ.

فرما دیجئے: (یہ سب کچھ) اللہ کے فضل اور اس کی رحمت کے باعث ہے (جو بعثتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعے تم پر ہوا ہے) پس مسلمانوں کو چاہئے کہ اس پر خوشیاں منائیں، یہ اس (سارے مال و دولت) سے کہیں بہتر ہے جسے وہ جمع کرتے ہیں۔

(یونس، 10: 58)

لہذا اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس آیت مبارکہ میں حکم دیا ہے جو ذات مصطفی کی صورت میں اس نے ہم پر فضل کیا اور رحمت فرمائی ہے ہمیں اس پر خوشیاں منانی چاہیے جشن و محافل،جلسے و جلوس کے ساتھ شان عظمت مصطفیٰ کے چرچے کرنے چاہیے۔ کیونکہ اللہ رب العزت نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو رحمت عظمٰی بھی قرار دیا ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے:

وَمَا أَرْسَلْنَاکَ إِلَّا رَحْمَةً لِّلْعَالَمِینَ.

اور (اے رسولِ محتشم!) ہم نے آپ کو نہیں بھیجا مگر تمام جہانوں کے لئے رحمت بنا کر۔

(الانبیاء، 21: 107)

مذکورہ بالا بحث سے یہ بات ثابت ہوئی کہ میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کائنات کے لیے نعمت عظمیٰ ہے اس موقع پر جشن منانا، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اوصاف و کمالات کا تذکرہ کرنا آپ کی سیرت پر گفتگو کرنا اور آپ کے فضائل کو بیان کرنا، اسی طرح جتنے اچھے کام ان کا آقا علیہ السلام کے میلاد کی نسبت سے کرنا یہ باعث برکت اور مستحسن عمل ہے۔ اس پر اللہ رب العزت دنیا و آخرت میں خیرات و برکات سے نوازتا ہے۔ اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ ہمیں اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا میلاد منانے اور اس کا حق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ سیدالمرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

تبصرہ