رہبرِ ترقی و کمال

اقراء یوسف جامی

اس تحریر کے عنوان کے انتخاب کو سوچنے اور سمجھنے میں شاید مجھے ہفتوں کاوقت لگا۔ بچپن سے اب تک جب بھی قومی ترانہ پڑھا اور سنا تو یہ سوچ دماغ میں ابھری کہ وہ کیسا رہبر ہوگا جو ترقی اور کمال کا پیکر ہوگا۔قائدِ اعظم محمد علی جناح اور حضرتِ علامہ اقبال بلاشبہ وہ شخصیات تھیں جنہیں ہم ترقی و کمال کا پیکر کہہ سکتے ہیں مگر آج کے دور میں یہ نوجوان نسل، جو امتِ مسلمہ کا مستقبل ہے، اس کا وہ رہبر کون ہے؟ جو ترقی و کمال کا منبع ہو۔جب سر زمیں پاک بھی ہے اور کشورِ حسین بھی، وہ ارضِ پاک جو عالی شان عزم کا نشان ہو، جو یقین کا مرکز بھی ہو جس سر زمیں کا نظام، قوت، اخوت اور عوام ہو اور جس کی قوم، ملک اور سلطنت زندہ و پائندہ باد ہوں جس کی منزلِ مراد شاد باد ہو اور اس کا پرچم ستارہ و ہلال سے مزین ہو تو رہبر، رہبرِ ترقی و کمال ہی ہوتا ہے۔ مگر آج کے اس پرفتن دور میں جب ہم نے لفظ رہبرکو ہی غلط تشریحات سے سمجھنا اور سمجھانا شروع کر دیا ہے تو رہبر کی پہچان کیونکر ہو گی۔شاعر نے اسے یوں بیان کیا کہ

خودی کو جس نے فلک سے بلند تر دیکھا
وہی ہے ملک صبح و شام سے آگاہ

اس کائنات میں بہت مشکل سے ایسے دیدہ ور ہیں جو اک ایسی فطرت اور جبلت لے کر اس خاکدانِ عالم میں آتے ہیں جو ابتداء سے ہی اپنا ایک کردار اور نقطہ نظر رکھتے ہیں۔ اور پھر وقت ثابت کرتا ہے کہ انہی کا کردار اور نقطہ نظر وقت کی ضرورت بھی ہے اور مسلمہ حقیقت بھی۔ہزاروں سال بعد جب ایسے مشاہیر پیدا ہوتے ہیں تو ان کی زندگیوں کا مقصد فقط اپنی زندگی سنوارنا نہیں ہوتا بلکہ وہ اپنی زندگی اک فکر کے تحت گزارتے ہیں جس کی بنیاد ہی یہ ہوتی کہ مخلوقِ خدا کی زندگی سنوار کر اپنی زندگی کو گزارا جائے۔ ہمارے ہاںرہبر یا لیڈر کے متعلق جو عمومی تصور پایا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ ہم سیاست سے منسوب شخصیات یا کسی سیاسی عہدہ پر مسند نشین کو ہی لیڈر سمجھتے ہیں۔ اور یہ تصور جزوی طور پر غلط ہے۔بہترین رہبر کی مختصراً اور جامعاً تین خوبیوں کو فہرست میں ترتیب دیا جائے تو وہ یہ ہوں گی۔

  1. سیاستِ خاصہ
  2. سیاست حامہ
  3. سیاستِ عامہ

سیاستِ خاصہ سے مراد انسان کے اپنے نفس کی سیاست ہے۔ کہ وہ کیسے اپنے نفس کو اپنے قابو میں لا کر خدا کے حضور اسے پیش کرتا ہے اور پھر کیسے اس کودوسروں کو سنوارنے کے لئے استعمال کرتا ہے۔ رہبر ہی نہیں عام انسان کے اندر اپنے نفس کی سیاست کے لئے لازم ہے کہ اسے تمام برے کام، برے اخلاق، حیوانی عادات اور مزموم خواہشات سے روکے۔تعلیم کی روشنی کے ساتھ ساتھ چلتے نفس کو ہرا کر خودی کو اپنا ہمراہی کرے۔

سیاستِ حامہ سے مراد انسان کے اپنے اہلِ خانہ کی سیاست ہے۔ امورِ خانہ داری کی نگرانی سے لے کر اولاد کی تربیت اور معاشر تی امور اور تعلقات کا تعلق سیاستِ حامہ سے منسوب ہے۔

سیاستِ عامہ شہروں اور ملکوں کی سیاست ہے۔ اور ایسی سیاست عوام کی اصلاح اور زندگی کی حفاظت کے لئے کی جاتی ہے اور یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ جو شخص سیاستِ خاصہ میں کامیاب نہیں ہوسکتا وہ سیاستِ حامہ میں بھی کامیاب نہیں ہے۔ اور جو ان دو منازل میں کامیاب نہ ہوسکے وہ تیسری منزل یعنی سیاستِ عامہ کا نہ اہل ہے اور نہ ہی حقدار۔ اِن تینوں مراحل سے گزرنے کے لئے ایک لیڈ ر کے لئے جو خصوصیات اور خوبیاں بطور ہتھیار کام آتیں ہیں وہ تعلیم و شعور، صداقت و امانت اور علاقائی تعصب اور فرقہ و نسل پرستی سے ماوراء ہونا ہے۔

تمہید کو اتنا طول دینے کی ضرورت اس لئے پیش آئی کہ ہم آج کے رہبر کو پڑھنے سے پہلے رہبر کے پیمانوں کی بات کر کے ذہن سازی کر لیں۔ موجودہ دور کو پھر سے عروج آشنا کرنے کے لئے اور اس پاک سر زمیں کو، ارضِ عالی شان بنا کر منزلِ مراد تک پہنچانے کے لئے جس رہبرِ ترقی و کمال کی ضرورت ہے اس کی ذات دین اور دنیا کے کسی اک پہلو پر اکتفا کیے ہوئے نہ ہو۔ بلکہ وہ مربی و رہنما و رہبر ایسا ہو جو زندگی کے تمام گوشوں کا احاطہ کیے ہوئے ہو اور وہ دینِ اسلام کے تمام پہلووں کو اپنی جدوجہد کے احاطے میں لے کرمیدانِ عمل میں آئے۔ اور اس حوالے سے اگر عالمِ اسلام کی موجودہ علمی و فکری، اعتقادی و نظریاتی اور سیاسی و انقلابی قیادتوں پر طائرانہ نظر ڈالی جائے تو اس میں ہمیں دعوت دین کی وسعت، جامعیت اور ہمہ گیریت کے اعتبار سے ایک ایسی قیادت نظر آتی ہے جن کی زندگی مسلسل محنت، جدوجہد اور عزمِ مصمم کی خوبصورت کڑی ہے اور وہ شخصیت اور کوئی نہیں بلکہ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کی ہے۔ان کی زندگی کا مشاہدہ سیاستِ خاصہ سے شروع کریں توشعور، علم، ادب، تصوف اور روحانیت میں ایسی شخصیت کی مثال آج کے دور میں ملنا نا ممکن نہیں تو بہت مشکل ضرور ہے۔ اپنے تعلیمی ریکارڈ کے ساتھ ساتھ زندگی کے باقی شعبوں میں غیر معمولی خدمات سر انجام دیتے ہوئے انہوں نے جس طرح اپنی زندگی میں اپنے نفس کو رب کی رضا کے تابع کیا ہے اور خود کو آج کے دور میں موجودتین نسلوں کے لئے عملی نمونہ بنا کر پیش کیا ہے اس کی مثال آج کی دنیا میں موجود دیگر انسان پیش کرنے سے قا صر ہیں۔ ’’توبہ ہر مقام کی کنجی ہے‘‘ سفرِ توبہ، تقوی ولایت کی کنجی ہے، ذکرِ قلبی، روحانیت اور مقناطیسیت، تقوی، نفس اور روح کی باہمی جنگ، دینِ اسلام ایک جامع حقیقت، ذاکر اور ذاکرین، تربیت کا روحانی منہاج اور تقوی، زہد و ورع، قلب کی اقسام، امراض اور علاج، اخلاقِ حسنہ، حیاتِ قلبی اور صحبتِ نافع اور علمِ نافع ایمان جیسے ہزاروں موضوعات پر ہزاروں لیکچرز اور سینکڑوں کتب اس بات پر موجود ہیں کہ کیسے ہم اپنے نفس کے ساتھ لڑنے والی جنگ میں باطل کو پاش پاش کرکے حق کا منہاج پا سکتے ہیں۔توبہ سے سفر کا آغاز کروا کر اخلاق کو سنوارتے ہوئے ادب کا شاگرد بناتے ہوئے علمِ نافع کی طرف راغب کیا اور جب اخلاق پختہ ہوتے ہوتے ادب کو بھی مضبوط کر گیا تو اسی عہد ساز شخصیت نے اس نسل کو وجہ تخلیقِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا شیدائی بنادیا۔ کبھی گھنٹوں لفظ ''محبت''پر گفتگو کر کے کبھی جمالِ یارِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قصے سنا کر، کبھی ''بن دیکھے عشقِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ''کے عنوان سے گفتگو کر کے، کبھی محبتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پہ بات کر کے، کبھی محبتِ رسول کی آنچ عشق پر بات کر کے کبھی ’’ایمان محبت و ادب مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نام ہے‘‘ پر بات چھیڑ کر، کبھی ’’قرآنی قسمیں اور عظمتِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم‘‘ پر دلائل دے کر، کبھی ’’بلندی ذکرِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم‘‘ سمجھا کر اور کبھی فلسفہ عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ان سارے اسفار سے گزار کر ہمیں یہ سمجھادیا کہ ''ایمان کی سلامتی محبتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں ہے۔المختصر، رہبر ہونے کی جو پہلی شرط ہے وہ کماحقہ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کی شخصیت کا خاصہ ہے۔ سیاستِ حامہ کی بات کریں تو اس سیاست پربات کرنے سے پہلے ڈاکٹر طاہر القادری نے اپنی عائلی زندگی کو اک بہترین مثال بنا کر پیش کیا۔ عصری و دینی علوم پر عبور اور پھر والد کے تمام اوصاف کی جھلک اگر بیٹوں میں نظر آنے لگے تو سمجھ لیں وہ انسان گھر اور باہر اک ہی زندگی جی رہا ہے اور وہی زندگی سچی ہے۔ اور اس طریقہ کار کو سکھانے کے لئے تحریر و تقریر شروع ہوتی ہے کہ ''اسلام اور ہماری زندگی (حقوق و فرائض میں توازن)''، غیر مسلموں کے حقوق، ہمسایوں کے حقوق، رشتہ دارں کے حقوق، مزدوروں کے حقوق، حقوقِ اولاد اور تاریخ کی ورق گردانی کیجئے تو معلوم ہوگا کہ کوئی بھی مبلغ، اور حقوق کا داعی جس نے زوجین کے حقوق کی بات کی ہو اور ان کے حقوق و فرائض کو قرآن و سنت کی روشنی میں بیان کیا ہو وہ اکلوتی شخصیت ڈاکٹر محمد طاہر القادری کی ہے۔ اس کے بعد اگر ہم بات کریں سیاستِ عامہ کی، تو نہ صرف ریاستِ پاکستان بلکہ عالمی سطح پرجو پذیرائی ڈاکٹر صاحب کے موقف اور نظریہ کو ملی اس کا کوئی ثانی نہیں۔ پاکستان میں بیداری و شعور کی تحریک ہو یا جنوری کی یخ بستہ سردی میں آئین کا سبق پڑھانے کے لئے اسلام آبا د کی سڑکوں میں منعقد کی گئی کلاسز، یا پھر وہ اگست کے تپتے سورج میںسڑکوں پہ بٹھا کر نظامِ باطل سے بغاوت کا سبق، وہ پاکستان کی معاشی و سیاسی صورتِ حال پر گفتگو ہو، مسئلہ کشمیر ہو یا مسئلہ سود یا پھر دنیا میں موجود ریاستوں میں پروپیگنڈا کے طور پر اسلام کو بدنام کرنے کی سازشیں ہوں، ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے ہر محاذ پر استدلال اور حکمت سے ہر مسئلے کا حل دیا۔ مغرب کی سرزمیں پر کھڑے ہو کر اسلام کے پرامن چہرے سے گندگی ہٹائی اور دنیا سے یہ منوایا کہ ہاں ! اسلام سراسر دینِ محبت و امن ہے۔ ایشیا کے رہائشیوں بالخصوص پاکستانیوں نے رہبر اور رہبری کی جو تعریف گھڑ رکھی کہ رہبر یا لیڈر وہ ہے جو کسی سیاسی پارٹی سے منسلک ہو یا صرف ایک سیاسی پارٹی کا سربراہ ہو، ایم این اے یا ایم پی اے منتخب ہو کر لاکھوں کے فنڈز لے کر گلیوں کی تعمیر کروائیں، یا گیس پائپ لائن کی فراہمی کو یقینی بنائیں۔مگر اک مسلمہ حقیقت یہ بھی ہے کہ یہ تعریف اور کام آپ کے منتخب نمائندے کے تو ہوسکتے ہیں رہبری اور لیڈر شپ کو بس یہیں تک محدود نہیں کیا جاسکتا۔وہ رہبر، جو ترقی وکمال کے اوج کو پاتے ہیں اور جو اپنے معاشروں کو ترقی اور اوج تک لے جاتے ہیں رہبر تو وہ ہے جو آپ کو، اپنے علم وحکمت اور بالخصوص اپنے عمل سے متاثر کرے، کسی اک فکر پر اکٹھا کرے اور اس فکر کوآپ کی زندگی کا مقصد بنا کر بے مقصدیت کی راہ سے اٹھا کر مقصدیت کے دروازے پر لا کھڑا کرے۔ سوشل میڈیا اور اپنی آنکھ سے مشاہدہ کیجئے۔ گرد و نواح کو کھنگالئے اور پھر شکر ادا کیجئے اللہ پاک کا کہ جس نے آپ کو اور ہمیں اس رہبر کا شعور عطا کیا ہے کہ جو سیاستِ خاصہ، سیاستِ حامہ اور سیاستِ عامہ پر ایک عمدہ مثال ہے۔ جو نہ صرف خودد تعلیم یافتہ ہے بلکہ اپنے معاشرے کو تعلیم یافتہ بنانے کا عزم ہی تھا کہ ہزاروں سکولز، کالجز اور یونیورسٹی کا قیام عمل میں لایا گیا۔ ہمیں ایسا رہبر میسر ہے جو نہ صرف خود مقصدیت کی زندگی گزار رہا ہے بلکہ امتِ مسلمہ کو بھی دینِ حق کے غلبہ کا مشن عطا کیا۔ ایسا رہبر جو جنگ و جدال کی بات نہیں کرتا بلکہ محبت کرتا اور محبوبِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کرنا سیکھاتا ہے۔ ہمیں ایسا رہبر میسر ہے جس نے ہمیں جنت اور جنت کی حوروں کے لالچ سے نکال کر رب کی رضا کا لالچ دیا اور یقینا یہ سب سے حسین لالچ ہے۔ہمیں ایسا رہبر میسر ہے جس نے علم کے میدان میں تحقیق کے دیئے جلائے اور پھر آج کی نوجوان نسل کو بھی مصطفوی سٹوڈنٹس موومنٹ کے بینر تلے اکٹھا کر کے ان کے لئے بھی علم و حکمت اور تحقیق کی راہیں کھول دیں۔جس معاشرے میں نوجوان اور طلبہ کا طبقہ جدت اور قدامت کی انتہاوں کو چھو رہا ہے اور پِس رہا ہے وہیں اس رہبر نے ہمیں قدامت اور جدت کا حسین امتزاج بنا دیا۔ وہ قافلہ خوش نصیب ہوتا ہے جسے ایسا رہبر میسر ہو جو اس موجودہ دور میں کسی اک میدان کی رہبری نہ جانتا ہو بلکہ زندگی کی سارے پہلووں کی راہنمائی کا پیکر ہو۔ معیارِ قیادت، قیادت کے لئے وصفِ صداقت، صفتِ قیادت، وصفِ شجاعت، نگاہ کی بلندی اور قیادت کی عظمت، سخن کی دلنوازی اور قیادت کی دلبری، قائد کا جذبِ دروں، حاضر و موجود سے بیزاری اور قوم کی رہبری، اقبال کے تصور قیادت کا مصداقِ اتم، قیادت مثلِ ماہتاب و آفتاب ان تمام خوبیوں کا منبع رہبر ہی رہبرِ ترقی و کمال ہوتا ہے۔ اور جو رہبر ہمیں میسر ہے وہ رہبرِ ترقی و کمال ہی ہے۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کو ان کی انہترویں سالگرہ کے موقع پردخترانِ اسلام بصد احترام انہیں ہدیہ عقیدت پیش کرتیں ہیںاور دعاگو ہیں اللہ تبارک و تعالٰی ہمارے قائد کو صحت و سلامتی عطا فرمائے اور اس پر امن سبز انقلاب کو ساحلِ مراد نصیب ہوجائے جس کا خواب ہمارے قائد نے دیکھا ہے۔ اپنے قائد سے محبت کا دعوی ہم سے یہ تقاضہ کرتا ہے کہ ہمارے اخلاق اعلی ہوں، ہم اللہ اور اس کے پیارے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے احکامات کے باغی نہ ہوں، ہم پر امن اور انسانیت سے محبت کرنے والے ہوں۔ رہبری کی تمام صفات اور درج بالا مشاہدات کو جمع کیا جائے تو اس نابغہ روزگار شخصیت کے لئے یہ ہی کہنا پڑے گا کہ

اسے پڑھو، زندگی ملے گی اسے سنو، آگہی ملے گی
یہ ارتقاء کا پیام بھی ہے ضمیرِ نو کا امام بھی ہے
یہ قوم سے ہمکلام بھی ہے جو کھو چکی ہے شعورِ دوراں
اے عظیم قائد... اے عظیم انسان
تمہیں سلام... تمہیں سلام

ماخوذ از ماہنامہ دخترانِ اسلام، فروری 2020ء

تبصرہ