شیخ الاسلام مفسرِ قرآن، نامور فقیہ، عظیم مصلح

محمد ابوبکر فیضی

قدرت کو یہ ڈھنگ نجانے کیوں مرغوب ہے وہ کھردرے علاقوں سے نفیس لوگ پیدا کرتی ہے۔ دور دراز خطوں سے دل کے قریب بسنے والے آدمی اٹھا لاتی ہے، ویرانی سے ذرخیز دماغ سامنے لاتی ہے، بنجر زمنیوں سے شاداب شخصیتیں نمودار کرتی ہے اور گمنام قصبوں سے نامور افراد کا انتخاب کرتی ہے۔ زمانہ ماہ وسال کے حال بنتا ہوا صدیوں کی مسافتیں طے کرتا رہتا ہے وقت مدتوں زندگی کے مرکب پر سوار کسی دانائے راز کی تلاش و جستجو میں محوو مصروف رہتا ہے۔

تاریخ ماضی کے عبرت کدوں کا مشاہدہ کرتی ہے عہد حال کی تمناؤں، آرزؤں سے کھیلتی ہے۔ زمانہ مستقبل کے رازی، غزالی، ابو علی سینا، فارابی، ابن خلدون، جامی، رومی کے لیے محو آرزو رہتی ہے۔ اور پھر جب زندگی قضا و قدر کی ہمہ گیریت کے پس منظر میں اپنا مقصود مدعا ڈھونڈتی ہے تو شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کی صورت میں ایک ہمہ صفت موصوف شخصیت اس حقیقت کا مصداق بن کر عطا ہوتی ہے۔

ہمہ صفت موصوف، بظاہر ایک ادبی ترکیب ہے۔ ناممکن حد تک مشکل اور بہت حد تک نا قابل یقین مگر جب یہی ترکیب شیخ الا سلام پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہر القادری کی خداداد صلاحیتوں کی وسعتِ بے کراں میں اپنا محل استعمال ڈھونڈتی ہے تو فطرت کے نا ممکنات علم و عمل کے ممکنات میں ڈھل جاتے ہیں۔ اور اسلام کی نشاۃ ثانیہ کا نقیب و ترجمان بن کر صورت خورشید جلوہ گرہو نے لگتا ہے۔ اس خورشید جہاں تاب کی منتشر کرنیں جو کم و بیش ایک ہزار سے زائد کتب پر محیط ہیں۔

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری ایک نام ایک تاریخ، ایک تحریر، ایک حقیقت، ایک صداقت، نا قابل تردید سچائی، آفاقی قائد، نامور فقیہ، عظیم المرتبت محدث علوم اسلامیہ پر کامل دسترس رکھنے والے دانشور حالات کی گھتیاں سلجھانے والے نابغہ روزگار جلیل القدر عالم دین، زندگی کی نقاب کشائی کرنے والا مدبر رفیع المرتبت مفسر قرآن، تاریخ کے اسرار و رموز منکشف کرنے والا دانائے راز، ملت اسلامیہ کے دور زوال کو شکوہ ماضی بخشنے والا بطلِ جلیل، امام ابو حنیفہ کے فکرو تدبر کی پہچان بن کر ابھرنے والا رجل رشید، دلوں پر حکومت کرنے والا بے تاج بادشاہ، علوم جدیدہ و علوم قدیمہ پر یکساں دسترس رکھنے ولا عبقری ایک ذات میں انجمن کا وجود لیے، ایک قلب میں لاتعداد علوم کا بحرِ ذخار لیے اور سب سے بڑھ کر عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سرشاری لیے ہوئے علامہ کے لفظوں میں:

بخشے ہیں مجھے حق نے جوہر ملکوتی
خاکی ہوں مگر خاک سے رکھتا نہیں پیوند

جس کی زبان وبیان محبت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تاثیر سے فیض ترجمان بن چکی ہے آپ کے نزدیک عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک ایسا مرکز و محور ہے جس کے گردروح ارضی و سماوی طواف کرتی ہے۔ ملت اسلامیہ کے د لوں کو ادب و تعظیم رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آداب سے آشنا کرنے کے لیے آپ اپنی تمام فکری، نظری، علمی، عملی، روحانی، قلبی صلاحتیوں کو بروئے کار لا رہے ہیں۔

آپ کے ارادوں میں سنگ خاراکی سختی اور سمندروں کی فرابی ہے آپ کا حوصلہ پہاڑوں سے سر بلند اور فہم انسانی کی وسعتوں سے ماوراء ہے آپ کی شخصیت میں خانقاہوں کا حال اور درسگاہوں کا قال، وہاں کی حرارت، اور یہاں کی روشنی دنیا بھر میں عام کر رہے ہیں۔ آپ نے دلوں کی بجھتی انگیٹھیاں دوبارا دہکادی ہیں، افسردہ دلوں کو ایک بار پھر سے گرما دیا ہے دنیا بھر میں شرق سے غرب تک دین کی لگن او ر تڑپ کی آگ لگا دی ہے۔ آپ نے متضاد عناصر، مختلف مزاجوں اور مقابل طبائع کو آپس میں جوڑ کر ان کے اختلاف وتنوع سے نئی قوت حاصل کی ہے اور ان کو شیرو شکر کر دیا ہے۔

آپ نے شعراء کی شاعری کو مصطفویٰ انقلاب کے دفاع میں، علماء کی قوت استدلال کو دماغوں کی سلوٹ دور کرنے میں اہل نظر کی قلبی قوت کو دین کے سپاہیوں اور کارگزاروں کا تزکیہ نفس اور دلوں کے قفل توڑ نے میں اہل قلم کی تصنیفی قابلیت و قوت تحریر کو توحید و رسالت کے باہمی ربط و تعلق اور اصلاح احوال کی ترغیب و تحریض میں، معززین کی گویائی و خطابت کو دین کی دعوت عام کرنے میں دولت مندوں کی دولت کو اشاعت دین میں صرف کروایا ایسی ہمی جہت شخصیت کے متعلق ہی اقبال ؒنے کہا تھا:

تُو نے پُوچھی ہے امامت کی حقیقت مجھ سے
حق تجھے میری طرح صاحبِ اَسرار کرے

ہے وہی تیرے زمانے کا امامِ برحق
جو تجھے حاضر و موجود سے بیزار کرے

اب آپ محض ایک شخص نہیں بلکہ آپ کا نام لیتے ہیں تو رومی اور جامی کی داستان عشق و عقیدت کا ایک ایک ورق ہماری عقیدتوں کا خراج لیکر آپ کا وجود پوری صدی پر محیط کر دیتا ہے۔

اللہ تعالیٰ نے اس مرد حق کو وہ مقام سر بلند عطا کر دیا ہے جس کی بلندی کے تصور سے ہمہ صفت موصوف کی ترتیب اپنا وجود کھو بیٹھی ہے۔ اس مختصر سے مضمون میں ان کی شخصیت کے متعلق چند موتی جمع کیے ہیں۔ میں یہ جانتا ہوں کہ یہ موتی ان کی شخصیت کا کما حقہ عکس تو نہیں پیش کر سکتے لیکن میری طرف ان کی بارگاہ میں یہ عقیدت کے پھول تصور کرکے ضرور پڑھیئے گا۔

انقلابی مفکر

شیخ الاسلام کی شخصیت میں ایک حسین امتزاج ہے انقلاب اور فکر کا، اس لیے وہ ایک انقلابی مفکر بھی ہیں، یعنی ان کے دامن میں انقلاب اور فکر دونوں کی دولت موجود ہے، وہ محض ایسے انقلابی نہیں کہ جن میں فکر نہ ہو اور ایسے مفکر بھی نہیں جس میں انقلاب کا گھلاؤ نہ ہو، فکر انہیں صحیح راستہ بتاتی ہے اور انقلاب ان کی انگلی پکڑ کر منزل پر پہنچا دیتا ہے، فکر و انقلاب دونوں ہم آغوش ہوں تو کارِ نبوت کا تسلسل اور فلسفہ سمجھ میں آتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے دنیا میں کئی پیغمبر ایسے مبعوث کیے جن پر کتاب نازل نہیں کی لیکن کوئی کتاب ایسی نہیں اُتاری جس کا حامل پیغمبر موجود نہ ہو گویا جب انقلاب سے آشنائی ہوئی ہے۔ جب ہم شیخ الاسلام کی فکر کو دیکھتے ہیں تو وہ پوری طرح بنی ٹھنی اور سچی سنوری نظر آتی ہے کیونکہ اس میں حسنِ انقلاب کا ہر رنگ جھلکتا نظر آتا ہے۔

شیخ الاسلام کی انقلابی فکر کا مفہوم یہ ہے کہ دولت، طاقت اور ذرائع ابلاغ کے زور پر ظالم کا وضح دار اور مظلوم کو آوارہ گرد ثابت نہ کیا جائے، بونے کو قدآور اور صاحب قامت کو بے وقوف نہ بنایا جائے، اہلیت اور عزیمت کے مقابلے میں دولت اور طاقت کا معیار نہ بنایا جائے، علم اور تقویٰ کی جگہ بیساکھی اور کلفی کو رواج نہ دیا جائے۔ آپ کا کہنا ہے کہ انقلاب میں کسی بیساکھی، کلفی، کسی کی گنجائش نہیں ہوتی بلکہ اس کی بارگاہ میں صرف ایمان محبت مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، تقویٰ علم، عزیمت، ایشار، روشن ضمیری، راست فکری اور خود آگہی کو شرف ملتا ہے۔

آچشم آرزو کی گہر باریاں تو دیکھ
لٹتے ہیں صبح وشام خزانے نئے نئے

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کا فکری، نظریاتی اور فلسفیانہ پہلو انہیں یہ صرف اپنے معاصرین سے ممتاز کرتا ہے بلکہ میں وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ پچھلے تین سو سال میں ملت اسلامیہ کو کوئی ایسا انقلابی مفکر میسر نہیں آسکا تھا جس نے قرآن کو بطور دستور انقلاب پیش کیا ہو اور فلسفہ انقلاب کی عملی راہنمائی پیغمبر انقلاب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اسوہ حسنہ سے لی ہو۔ جہاں تک فکرو فلسفہ کے صرف سمجھنے یا اس پر کتاب لکھ دینے کا تعلق ہے وہ تو ہر باشعور اور بیدار مغز انسان کر سکتا ہے۔ مگر اس فلسفے کی کامل معرفت کے بعد عملاً ایک تحریک کی صورت دے کر اس فکرو نظریہ کو نتیجتاً ثابت کر کے دکھادینا اور بات ہے۔

ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی تجدیدی خدمات

حق و باطل کا تضاد تقابل اور کفرو اسلام کی آویزش ایک ناقابل انکار حقیقت ہے۔ تاریخ عالم کا کوئی لمحہ اور کارگاہ حیات کا کوئی واقعہ ایسا نہیں جس میں اس کشمکش اور تنازع کی داستان زیب عنوان نہ ہو۔ البتہ اس کشمکش کا اسلوب و انداز، وقت، ماحول فریق کے اختلاف کے لحاظ سے مختلف ضرور رہا ہے۔ اسلام کے جفاکش مجاہدین، ایسی استعماری اور طاغوتی قوتوں کے خلاف نبرد آزما ہو جاتے ہیں۔ ان ہی مجاہدین اور عالی ہمت افراد میں حضرت شیخ الاسلام پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہر القادری صاحب کا شمار ہوتا ہے جنہوں نے ہر وقت کے فرعون کو دنداں شکن جواب دیا ہے۔

گذشتہ دو اڑھائی صدیوں سے جوں ہی اسلام زوال کا شکار ہوا اس کے ساتھ ہی ہمارے بنیادی تصورات بھی بری طرح مسخ ہوئے۔ مرور زمانہ کے ساتھ ان تصورات میں تبدیلی آتی گئی تمام اسلامی تصورات میں سب سے بڑا اور مرکزی اسلام کا تصور دین بھی تبدیلی سے نہ بچ سکا۔ اس کی حقیقی صورت کو مسخ دی گیا۔

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں جو تصور دین دیا ہے اس کی رو سے جہاں مسجد کے اندر کی زندگی دین ہے وہیں مسجد سے باہر کی زندگی بھی عین دین ہے۔ جہاں نماز، روزہ، حج، زکوۃ جیسے معاملات دین کا حصہ ہیں وہیں ناپ تول، لین دین، تجارت کاروبار اور اقتصادیات، سیاست سبھی دین کا حصہ ہیں۔ ان کے مابین کوئی فرق و امتیاز نہیں۔ گویا دین کے دو جزو ہیں۔ وہ جزو جو آخرت سنوارتا ہے اسے مذہب کہتے ہیں اور وہ حصہ جو دنیا سنوارات ہے اسے سیاست کہتے ہیں۔

ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے اسلام کے اس حقیقی تصور کو عملاً زندہ کیا ہے اس پر پڑنے والی گرد و غبار کو صاف کیا ہے اور اس اصل تصور کی تجدید کی ہے۔ اگرچہ یہ بڑا مشکل کام تھا لیکن آپ نے اس تصرو کو بڑے عمدہ طریقے سے لوگوں کے ذہنوں میں جاگزیں کیا ہے اور تاریخ اسلام سے مثالیں دے کر سمجھایا ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مدنی دور عملی سیاست کا آئینہ دار ہے اور مکی دور خالصتا مذہبی دور ہے۔ اسی طرح یزیدی سیاست کے مدمقابل حسینی اور مصطفوی سیاست کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ تصور دین کی اس حقیقی صورت کو پیش نظر رکھتے ہوئے قائد محترم کا تجدیدی کام یہ ہے کہ آپ نے اس تصور کو عملاً معاشرے میں قائم کیا ہے۔

زوالِ امت کے اسباب میں سے ایک بڑا سبب یہ بھی تھا کہ امت کو اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے قلبی، حبی اور عشقی طور پر دور کر دیا گیا تھا آپ نے امت کے اس خطر ناک مرض کی تشخیص کی اور عوام و خواص کے دلوں میں عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بھانبڑ دیئے۔ آپ نے روح محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مسلمانوں کے جسموں میں دوبارہ لٹا دیا ہے ان کے مردہ اور بے حس لاشوں کو عشق مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نور سے زندہ کیا۔ اسی طرح جب امت کا تعلق قرآن سے کتاب ہدایت کا نہ رہا اور عملاً قرآن کی تعلیمات کو ترک کر دیا گیا تھا تو آپ نے آگے بڑھ کر قرآن کے ساتھ امت کے تعلق کو از سر نو زندہ کرنے کیلئے قرآن کے ساتھ پانچ جہتی دائمی تعلق اختیار کرنے کے لیے ترغیب بھی دی۔

سحر البیان خطیب

قدرت نے شیخ الاسلام کو زبان و بیان کی بے بہا خوبیوں سے نوازا ہے، جس کا اعتراف نہ کرنا بہت بڑا بخل ہے۔ خطابت کے میدان میں ایک عرصے سے قحط الرجال کا سماں تھا۔

شیخ الاسلام نے اس خلاء کو خوبصورتی سے پر کیا، ان کے خطاب میں علم و فضل کے ساتھ ساتھ عشق و تصوف کی چاشنی ملتی ہے، ان کا انداز تقریر فرقہ پرستانہ نہیں بلکہ دلربایا نہ ہے آپ شعلے اگلنے کے قائل نہیں بلکہ لوگوں کے ذہن اور مزاج بدلنے کے قائل ہیں، ان کی تقریر ہر بار بار پٹی ہوئی لکیر نہیں ہوتی سچی بات یہ ہے دلپذیر ہوتی ہے۔ ان کی خطابت میں تصوف شعرو سخن کی چاشنی اور علم کا وقار سبھی موجود ہ۔

اگر کوئی خطیب تصوف کارمز آشنا، بازی گر ہے۔ ہزار الٹ پھیرے کے باوجود اس کے لہجے میں تاثیر پیدا نہیں ہو سکتی اور وہ کوشش کے باوجود الفاظ و حروف کی ناموس کا تحفظ نہیں کر سکتا۔ جس بھی شخص کو کوچہ خطابت سے کبھی گزرنے کا موقع ملا ہے وہ اس امر کی تصدیق کرے گا کہ موصوف شہر خطابت کی اونچی مسند پر بیٹھائے جانے کے قابل ہیں۔ شیخ الاسلام ایک جادو بیان خطیب، درد اور سفیر، اسلاف کی روایت کا امین، بستان فریدی کا بلبل، عشق و محبت کا پیکر، مثنوی مولانا روم ؒ کے خاموش الفاظ کو نطق آشنا کرنے والا مرد قلندر ہے۔

بطورِمصنف

شیخ الاسلام کا انداز تصنیف بھی پیچھے نہیں آپ کے سر میں دماغ عالمانہ، سینے میں دل صوفیانہ، انداز محققانہ اور ہاتھ میں قلم ادیبانہ تھا، انسائیکلو پیڈیا، سیرتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور جامع السنہ سے علوم جھکتا ہے۔ آپ کی صحبت سے تصوف چھلکتا ہے اور آپ کے نوک ِقلم سے ادب برستا ہے۔ آپ کا اسلوب تصنیف محققانہ، طرز زیست قلندرانہ اور انداز نگار ش ہمیشہ ساحرانہ رہا ہے۔ جو فقط عالم ہو وہ خشک مزاج ہوتا ہے مگر شیخ الاسلام اتنہائی رقیق القلب ہیں، جو محض صوفی ہو وہ گوشہ گیر ہوتا ہے۔ مگر شیخ الاسلام مرد میدان ہیں، اور جو فقط ادیب ہو وہ صرف لفظ و حروف کی مشق کرتا ہے مگر شیخ الاسلام معنیٰ و معارف سے عشق کرتے ہیں۔

آپ کا علم تصوف کی چاشنی، عہد رواں کی ہر ایک خوبی یہ بھی ہے اگر کوئی دینی رنگ رکھتا ہے تو دنیوی آہنگ سے بے خبر ہے، کوئی قدیم سے جڑا ہوا ہے تو توجدید ہے کٹا ہوا، کوئی خبر رکھتا ہے تو نظر سے محروم ہے اگر کوئی رازی کا فلسفہ جانتا ہے تو رومی کا لہجہ نہیں رکھتا۔ کوئی سائنسدان ہے تو مذہب سے لاتعلق، دینیات کا عالم ہے تو سائنسی رجحانات سے بیگانہ، سیاست کا آدمی ہے تو اخلاقیات سے بے خبر، معلم اخلاق ہے تو علم کے نئے آفاق سے نا آشنا، ماہر معاشیات ہے تو انسانی نفسیات سے بے تعلق اور فلسفہ دان ہے تو تمدنی علوم (Social Science) سے بے بہرہ ہے۔

مگر شیخ الاسلام صاحب ہمارے پاس اللہ کا ایسا انعام ہیں کہ آپ نے ہر موضوع پر لکھا سائنس ہو فلسفہ ہو،فقہ ہو، علم الکلام، حدیث، سیاسیات، معاشیات آپ نے دور حاضر میں جس بھی فتنے نے کسی طرح بھی عقائد پر، حدیث پر ختم نبوت پر دہشتگردی پر اسلام کے کسی بھی پہلو پر سر اٹھانے کی کوششیں کی آپ نے اس کا پوری قوت کیساتھ صرف مقابلہ ہی نہیں کیا بلکہ قلع قمع کر دیا۔ اگر آپ کی تصنیف کو دیکھے تو سورۃ فاتحہ و بقرہ کی تفسیر کو پڑھتے تو آپ میں امام فخرالدین رازی کا عکس اگر آپ کی حدیث پر المنہاج السوی کو دیکھے تو سیوطی کا آئینہ دار آپ کی سیرت الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھے تو ابن ہشام اور قاضی عیاض کا اسلوب اور سب سے بڑھ کر آپ کی کتاب قرآنی انسائیکلو پیڈیا جو آپ نے تالیف فرمائی تمام علوم کو قرآن سے ثابت کیا گو آپ نے جس بھی مو ضوع پر قلم اٹھایا اس کو دوام تک پہنچایا۔

شیخ الاسلام کا ترجمہ قرآن کو اگر ہم دیکھیں تو آپ کا ترجمہ قرآن عالمانہ بھی ہے اور عاشقانہ بھی اگرچہ دیگر مترجمین نے بھی ترجمہ کے ساتھ حواشی لکھے ہیں لیکن آپ نے وضاحت طلب بات کو ترجمے کے دوران قوسین میں سمو دیا ہے۔ شیخ الاسلام کے ہاں وارفتگی زیادہ ہے۔ عالمانہ اور عاشقانہ ترجمے کی مثالیں عرفان القرآن میں ہمیں جا بجا نظر آتی ہیں۔

بلاشبہ یہ ترجمہ قرآن اکیسویں صدی میں اردو دان طبقے کے لیے ایک تحفہ ہے جس میں ترجمہ اور تفسیر دونوں کی تاثیر یکجا نظر آتی ہے۔ آپ کے اندازِ تحریرکی خوبی ہے کہ آپ کی تحریرہر دینی سطح کے قاری کیلیے آسان ہوتی ہے۔ اس ترجمے میں یہ جو بھی موجود ہے۔

اسی طرح شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے علم حدیث پر ایک جامع ذخیرہ اس امت کو دیا اہلسنت میں کئی عرصہ سے جو ایک خلا محسوس کیا جا رہا ہے تھا آپ نے اس کو احسن انداز میں پر کیا آپ کی کتاب منہاج السوی الحدیث النبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں آپ نے ایک ہزار صحیح احادیث کاترجمہ جمع کیا آپ کی یہ تالیف عرب دنیا میں بہت اہمیت کی حامل ہے۔

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کی بلند یا یہ تالیف ایسے احادیث ذخیرہ پر مشتمل ہے جن سے ہر مسلمان اپنے نفس و روح کی اصلاحی، تعمیرِ شخصیت و اصلاح معاشرہ اور اپنے رب کے ساتھ تعلق بندگی قائم کرنے میں رہنمائی لے سکتا ہے۔ آپ نے مختلف موضوعات پر احادیث پرمشتمل اربعینات تیار کیں اور آئندہ چند عرصہ میں آپ کی احادیث پر مایہ ناز تالیف جامع الا حکام کے نام آنے والی ہے جس میں آپ نے فقہ حنفی پر ہے آپ نے جس بھی موضوع پر قلم اٹھایا اس کاحق ادا کر دیا۔

شیخ الاسلام کا منہج دعوت و تبلیغ

مفکر وہ ہوتا ہے جو زمانے کی نبض پر ہاتھ رکھ کر مرض کی تشخیص کرنا جانتا ہو۔ تشخیص کے بعد مرض کے جاننے کے لیے کامیاب نسخہ تجویز کر سکتا ہو۔ شیخ الاسلام اس صدی کے وہ مسلم مفکر ہیں جنہوں نے نہ صرف اس اُمت کے مرض کی تشخیص کی بلکہ نسخہ تجویز کر کے خود اپنے ہاتھوں سے مریض کو استعمال کروا کر اس کی تجرباتی توثیق کر دی۔ ان کے نزدیک آج کا مسلمان بالخصوص مسلم نوجوان نسل اسلام کی تعلیمات کے حوالے سے ذہناً، عملاً اور قلباً عدم اطمینان اور تذبذب کا شکار ہے اس لیے اس کو تینوں پہلوؤں سے اسلام کی حقانیت کا یقین دلانا ضروری ہے اوران تینوں پہلوؤں سے اسلام کی نمائندگی وقت کی پیکار ہے۔ لہذا حالاتِ حاضرہ کے تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اور ادْعُ إِلَیٰ سَبِیلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَۃِ کے اصول کو سامنے مدِنظررکھتے ہوئے لوگوں کو اسلام کی دعوت دی جائے۔ ڈاکٹر محمد طاہر القادری صاحب نے انہی تقاضوں کو پوراکرتے ہوئے دعوت کے تین پہلو بیان کیے ہیں۔

  1. سائنسی منہج
  2. عملی منہج
  3. روحانی منہج

تحفظ عقیدہ ختم نبوت

تحفظ عقیدہ ختم نبوت کے لیے سب سے پہلے بارِ غار و بدرو حنین سیدنا ابو بکر صدیقؓ نے ہر قسم ک مصلحت کو بالائے طاق رکھتے ہوئے جھوئے مدعیان نبوت کے خلاف جہاد بالسیف کیا حالانکہ اوائل اسلام کے اس زمانے میں کئی فتنے سر اٹھا رہے تھے لیکن خلیفہ اول سیدنا ابو بکر صدیق اکبرؓ فقید المثال جرات و پامردی سے منکرین ختم نبوت کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے اور اس وقت تک چین سے نہ بیٹھے جب تک اس فتنے کی سرکوبی نہ ہوگی۔

دورِ حاضر میں انکار ِ ختم نبوت کا سب سے بڑا فتنہ، فتنہ قادیانیت ہے جس کو ان تمام اسلام دشمن قوتوں کی مکمل حمایت اور تائید حاصل ہے جو اللہ تعالیٰ کے آخری اور کام دین اسلام میں رختہ اندازی کے لیے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کرتے اور اسلامی جذبہ جہاد کو سرد کرنے کے لیے برطانوی استعمار کے قائم کردہ اس گروہ کو ماضی کی طرح تقویت دینے کا عمل اب بھی شدومد سے جا ری رکھے ہوئے ہیں۔

تحریک منہاج القراآن تحفظ ناموس رسالت اور عشق رسول کی تحریک ہے بانیِ تحریک شیخ الا سلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری مدظلہ العالی کے شب و روز افرادِ امت کے دلوں میں موجود عشق مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی چنگاری کو شعلہ جوالہ بنانے کے لیے وقف ہیں۔ ان کی تمام جدوجہد کا مرکز محور ذات مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں۔ آپ نے تحریر و تقریر، تصنیف و تالیف، کا مرکز و محور بھی اسی نقطہ کے گرد گھومتا نظر آتا ہے۔ اس حوالے سے تحفظ ناموس رسالت آپ کی اولین ترجیح رہی ہے۔ حرمتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خاطر خود اور ان کا ہر کارکن قربانی کے بے مثال جذبے سے سرشار ہے۔ عقیدہ ختم نبوت کے لیے آپ نے ہر میدان میں خواہ قانونی ہو یا تحریر، تقریری ہو بین الاقوامی ہر سطح سے آپ نے تاریخ میں مثال رقم کر دی۔

ماخوذ از ماہنامہ دخترانِ اسلام، فروری 2020ء

تبصرہ