حقوقِ نسواں اور آزادیٔ نسواں

ام حبیبہ اسماعیل

عصر حاضر میں عورت کی حیثیت پر بات کرنا ایک عام موضوع بن چکا ہے۔ ویسے تو یہ موضوع پورا سال میڈیا کی توجہ کا مرکز رہتا ہے مگر 8 مارچ عالمی یوم خواتین کے موقع پر یہ بحث شدت اختیار کر جاتی ہے خصوصا گزشتہ چند سالوں سے feminism نظریات کی حامل نجی تنظیموں نے اس دن کو باقاعدہ پلاننگ کے تحت منانا شروع کر دیا ہے اور اپنے feminist نظریات کا پرچار پورے اعتماد کے ساتھ کرتی نظر آتی ہیں ایسا ہی ایک مارچ گزشتہ برس دیکھنے میں آیا جس میں شریک خواتین کے نعروں نے معاشرے میں غصہ کی فضا پیدا کر دی ،تعداد میں بہت تھوڑی ہونے کے باوجود ان نظریات کی حامل خواتین بہت تیزی سے اپنا اثر و رسوخ قائم کر رہی ہیں۔ یقینا اس سال بھی خواتین کے عالمی دن کے موقع پر یہ طبقہ کچھ نیا اور مضحکہ خیز لے کر آئے گا ،ایسے میں خواتین کے لئے بہت ضروری ہے کہ وہ یہ جانیں کہ بنیادی طور پر feminism کی اصطلاح کب استعمال ہونا شروع ہوئی،وہ کیا وجوہات تھیں کہ خواتین کو اپنے حقوق کی آواز بلند کرنا پڑی اور سب سے اہم ہے یہ جاننا کہ کب خواتین کے حقوق کے لئے لڑی جانے والی جنگ آزادی نسواں کے نعرے میں تبدیل ہو گئی۔

بات چونکہ حقوق نسواں سے شروع ہوئی تھی لہذا پہلے دیکھنا یہ ہے کہ حق سے کیا مراد ہے حق کی ایک تعریف یہ ہے کہ جو شے انسان کے فائدہ کیلئے ہوتی ہے وہ حق کہلاتی ہے اور جو اُس کے ذمہ عائد ہو اُس کا نام فرض ہے اور یہ دونوں لازم و ملزوم ہیں اس لیے ہر ایک حق ایک نہیںبلکہ دو فرض کا حامل ہوتا ہے پہلا یہ کہ دوسروں پر اس حق کا احترام فرض ہے۔ دوسرا یہ کہ صاحب حق کا یہ فرض ہے کہ وہ اپنے حق کو امنِ عام اور جماعتی فلاح کیلئے استعمال کرے۔  یہ تو تھی حق کی تعریف اب دیکھنا یہ ہے کہ آزادی سے مراد کیا ہے؟

آزادی ہر جاندار کا فطری حق یعنی کوئی ذی روح اپنے ارادوں کو جس طرح چاہے پورا کرے اس پر کوئی دباو یا پابندی نہ ہو لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ ایسا ناممکنات میں ہے۔ اگرچہ انسان کو آزادی کا حق حاصل ہے لیکن شرط یہ ہے کہ وہ دوسرے انسانوں کی آزادی پر دست درازی نہ کرے کیونکہ آزادی صرف اُسی صورت برقرار رہ سکتی ہے جب دوسروں کی آزادی کو مجروح نہ کیا جائے۔ مغربی مفکرین کے نزدیک آزادی یہی ہے کہ ایک قوم اپنے ملک اور نسل کے زعماء کے بنائے ہوئے قوانین کا اتباع کرے لیکن ایک پرندہ دوسرے پرندے کے قوانین کا اتباع کیوں کرے۔ سابقہ تاریخ کے تجربات سے واضح ہے کہ انسان اپنا واضح قانون بنانے سے قاصر ہے۔ اس لیے اللہ کو حاکمِ اعلیٰ سمجھنے سے انسان اللہ کے بنائے ہوئے قوانین پر چلتا ہے جن کا حکم دیا گیا یہی انسان کی آزادی ہے۔ فطری آزادی کے ساتھ ساتھ آزادی کا ایک مفہوم غیروں سے آزاد ہونا اور ایک قوم کی حیثیت سے خود اپنے ملک میں آزاد ہونا بھی ہے۔

غرض آزادی سے مراد معاشرے میں رہتے ہوئے تقریر و تحریر، رائے ، ملکیت میں تصرف ہر قسم کی آزادی حاصل ہونا ہے۔ آزادی کی ایک اور تعریف یہ ہے کہ انسان اگر ایک ارادہ کرے اور ارادہ کے مطابق جس طرح چاہے اس کو پورا کرے اس کے ارادے اور عمل دونوں میں کوئی حائل نہ ہو سکے یہ آزادی مطلق ہے یہ آزادی صرف اللہ کا حق ہے۔ اس لیے جب ہم انسان کی آزادی پر بحث کریں تو اس جگہ یہ معنی کسی طرح نہیں اپلائی نہیں ہوتے انسان کیلئے تو آزادی مقصد ہی ممکن ہے اور موزوں بھی۔ اس آزادی کی تعریف فرانس کے مشہور انسانی حقوق کے اعلان 1784ء میں اس طرح کی گئی تھی۔

’’انسان کیلئے ان تمام اختیارات کی آزادی جو دوسروں کیلئے نقصان کا باعث نہ ہو‘‘۔

اسی آزادی کا نعرہ عورت نے بھی لگایا جب سترہویں صدی عیسوی میںمغربی معاشرے میں رہنے والے افراد نے ظالمانہ بادشاہی نظام کے خلاف علم بغاوت بلند کرتے ہوئے بنیادی حق آزادی کا نعرہ بلند کیا کہ ہمیں قول ، فعل ، عمل میں ہر طرح آزادی ہونی چاہیے بحیثیت انسان ہم اپنی زندگی کسی کے تابع گزارنے کے پابند نہیں بلکہ آزاد ہیں یہ آزادی کا نعرہ آہستہ آہستہ اسقدر زبان زدِ عام ہوا کہ ظلم و ستم کا شکار عورت بھی اپنے اس بنیادی حق کیلئے اٹھ کھڑی ہوئی۔اسی آزادی کا نعرہ عورت نے بھی لگایااور آزادی نسواں کا نعرہ زبان زد عام ہو۔

آزادی نسواں سے عموماً مراد خواتین کو بنیادی حقوق کی فراہمی لیا جاتا ہے۔ آزادی نسواں کی اصطلاح ابتداء میں عورت کو اُن تمام سیاسی، سماجی حقوق کے حصول سے متعلق تھی جس سے مرد بہرہ ور ہو رہا تھا۔یہاں یہ بات غور طلب ہے کہ جن حالات میں عورت نے اپنے حقوق کی جنگ کا آغاز کیا وہ وقت ،حالات اور مطالبات سب ہی موزوں اور جائز تھے کیونکہ وہ مطالبات اُن حقوق کی فراہمی پر مبنی تھے جو بحیثیت انسان ہر شخص کا بنیادی حق ہیں۔ لہذا ایسے حالات میں عورت کے حقوق کے لئے بلند ہونے والی حقوق نسواں کی تحریک بالکل درست منزل کی طرف گامزن ہوئی۔ عورت نے اگرچہ مختلف وقتوں میں اپنے حقوق کے لیے جنگ لڑنے کی کوشش کی مگر خاطر خواہ اضافہ نہ ہوا پھر 1792ء میں میری وولٹسن کرافٹ کی کتاب نے باقاعدہ عورتوں کے حقوق کی جنگ چھیڑدی۔

مغربی عورت تدریجاً اپنے حقوق کیلئے آواز بلند کی مگر مغربی عورت نے اپنی نجات کے جس تحریک کا آغاز کیا تھا اس ماحول اور معاشرے میں بلاشبہ اس تحریک کا جواز موجود تھا۔

عورت نے انقلاب فرانس کے بعد اپنی جدوجہد حقوق کے حصول کے لیے جاری رکھی اگرچہ ابتداء میں تحریک عورتوں کے بنیادی حقوق کے حصول سے متعلق تھی جو کہ مغربی معاشرہ نے اسے نہیں دیئے تھے جن کی تفصیل آزادی نسواں کے پس منظر میں گزر چکی ہے۔ لہذا ابتداء میں آزادی نسواں کی اصطلاح نہ تھی بلکہ حقوق نسواں کا نعرہ بلند کیا گیا تھا جو بعد ازاں آزادی نسواں کا نعرہ بن گیا بہر حال مغرب میں عورتوں نے اٹھارویں صدی میں باقاعدہ اپنے حقوق کیلئے آواز بلند کی۔ عورتوں کو مردوں کی غلامی سے نجات دلانے کے تصور سے برپا کی جانے والی یہ تحریک بہت جلد اپنے رنگ ڈھنگ بدلنے لگی یورپ کا خاندانی نظام تباہ و برباد ہونا شروع ہوگیا معاشرتی برائیوں نے تیزی سے جنم لینا شروع کر دیا پھر سب سے زیادہ جو تبدیلی عورت کی سوچ میں آئی وہ یہ تھی کہ یورپ میں جنگ عظیم دوم سے قبل عورت کا اصل مقام گھر تصور کیا جاتا تھا اور وہ بچوں کی پرورش اور نگہداشت پر توجہ دیتی لیکن مساوی حقوق کا مطالبہ کرتے کرتے عورت اس نہج پر سوچنا شروع ہو گئی کہ بچوں کی ذمہ داری سے کیسے جان چھڑائے پھر عورتوں کے حقوق کیلئے جو تحریک اُٹھی اس میں کئی گروہ بن گئے کچھ کا مطالبہ مساوی حقوق تھے کچھ نے تو مرد کے وجود سے ہی انکار کر دیا۔

آزادی نسواں سے متعلق مختلف ادوار میں نظریات بھی مختلف رہے ہیں جیسے آغاز میں جب آزادی نسواں کا نعرہ بلند کیا گیا تو یہ عورت کے بنیادی حقوق کی فراہمی کیلئے تھا مگر آہستہ آہستہ یہ نعرہ حقوق سے آگے مردوں کے مساویانہ حقوق کے مطالبہ پر چلا گیا اور پھر اس سے اگلا قدم مردوں کی صنف سے نفرت اور انکار تھا یوں آزادی نسواں جسے تحریک نسائیت (Feminism) کا نام بھی دیا گیا ہر دور میں اس کے تقاضے بدلتے رہے اس کے ساتھ ساتھ نسائیت سے متعلق نظریات بھی بدلنا شروع کئے یہ وہ موضوع ہے جس پر ہر دور میں قلم اُٹھایا گیا کچھ نے اس تصور کے حق میں اور کچھ نے اس تصور کے خلاف مگر حقیقت یہ ہے کہ نسائیت کے مختلف مکاتب فکر نے جو نظریات پیش کیے وہ ہر طبقے کیلئے قابل قبول نہ تھا۔ عصر حاضر میں بھی دیکھا جائے تو مغربی اور اسلامی معاشرے میں تصور آزادی نسواں سے متعلق دو قسم کے طبقات پائے جاتے ہیں۔

رجعت پسند گروہ:

مغربی معاشرہ میں جہاں نسائیت کی تحریک پروان چڑھی وہاں اب بھی ایسا طبقہ موجود ہے جو عورتوں کو آزادی تو درکنار بنیادی انسانی حقوق کی فراہمی بھی ضروری نہیں سمجھتا۔ باوجود اس کے کہ اس وقت آزادی نسواں کی تحریک کو بہت سے مغربی ممالک میں حکومتی سرپرستی بھی حاصل ہے بعض ممالک میں عورت کو ابھی بھی بنیادی حقوق سے محروم رکھا گیا ہے۔ اسلام جیسے آفاقی مذہب سے تعلق رکھنے والے کچھ افراد میں بھی یہی رجعت پسندی کا عنصر پایا جاتا ہے جس کے تحت الہامی تعلیمات سے قطع نظر لڑکیوں کو بنیادی ضروریات سے محروم رکھا جاتا ہے۔ اس وقت بلاشبہ پاکستانی معاشرہ میں ایسے طبقات موجود ہیں جو آج بھی لڑکی کی شادی قرآن سے کر دیتے ہیں تاکہ جائیداد کو گھر میں ہی رکھا جا سکے۔ پھر پسند کی شادی کرنے پر اُسے کارو کاری کے جرم میں موت کی بھینٹ بھی چڑھا دیا جاتا ہے مگر یہ اسلام کی تعلیمات کے کلیتا منافی ہے۔ ان تمام معاملات کو اسلام کے ساتھ جوڑنا سراسرغلط ہے۔ اسی طرح مغربی معاشرہ میں بھی عورت ابھی تک ظلم کا شکار ہے۔

جدیدیت پسند گروہ:

اوپر آزادی نسواں سے متعلق ایک انتہا کا ذکر کیا گیا ہے یہ طبقہ دوسری انتہاء پر کھڑا ہے وہ طبقہ عورت کو بنیادی حقوق کی فراہمی بھی ضروری نہیں سمجھتا یہ طبقہ غیر ضروری آزادی کو بھی جائز سمجھتا ہے۔ اس طبقہ کے نزدیک عورت کو وہ آزادی میسر ہونی چاہیے جو مرد کو حاصل ہے۔ یہ طبقہ عورت کیلئے مادر پدر آزادی کا خواہاں ہے جو کہ اصل الہامی ادیان کی تعلیمات کے بھی خلاف ہے۔

عورت کی آزادی کے تصور کو لے کر عصر حاضر میں بھی معاشرہ الہام کا شکار ہے اس ابہام کو دور کرنا اس لیے بھی ضروری ہے کہ معاشرہ جس بگاڑ کی طرف جارہا ہے اس بگاڑ کو دور کیا جاسکے رجعت پسندی اور جدیدیت کے درمیان ایک متداول پسند سوچ کا ہونا بہت ضروری ہے اور یہ سوچ اسلام میں پائی جاتی ہے۔ ذیل میں نسائیت کے چند مکاتب فکر کے نظریات پیش کیے جا رہے ہیں۔ جنہوں نے آزادی نسواں کے تصور کو مختلف جہتوں سے بیان کیا۔

تصور آزادی نسواں سے متعلق مکاتب فکر کے نظریات کا جاننا اس لیے بھی ضروری ہے کہ اس بات کا اندازہ لگایا جاسکے کہ تحریک نسواں کے اصل میں مقاصد کیا ہیں وہ کیا حقوق ہیں جنہیں حاصل کیا جانا مقصود ہے عمومی طور پر تحریک نسائیت کے تین مکاتب فکر مشہور ہیں جو کہ درج ذیل ہیں۔

i) بنیاد پرست مکتبہ فکر (Redical Feminism):

اس مکتبہ فکر کے نظریات کے مطابق عورت مرد کے ہاتھوں استحصال کا شکار رہی ہے اور مردوں کے معاشرے میں عورت مظلوم و محکوم ہے۔ مرد عورت کو تشدد کے ذریعے محکوم رکھنا چاہتا ہے۔

ان کے نزدیک مرد عورت کا دشمن ہے یہ معاشرے کیلئے (Patraichy) کی اصطلاح استعمال کرتی ہیں جس کا مطلب ہے مردوں کا معاشرہ یہ طبقہ مردوں کے معاشرہ کو عورت کے معاشرہ میں تبدیل کرنا چاہتاہے اور ہم جنس پرستی سے ہی مردوں سے مکمل آزاد ہوا جا سکتا ہے۔

بہر حال عورت کا آزادی کے بارے میں یہ انتہاء پسند سوچ کا مالک مکتبہ فکر ہے۔ ان کے نزدیک مرد کی امتیازی حیثیت کو ختم ہونا چاہیے

مارکسی نسائیت کا حامل طبقہ:

مارکسی یا اشتراکی مکتبہ فکر کارل مارکس کا مرہون منت ہے جو اشتراکی نظام معیشت کا بانی تصور کیا جاتا ہے کارل مارکس نے اشتراکی نظام معیشت کی بنیاد رکھی تو عورت کی مظلومیت کا سارا بوجھ سرمایہ دارانہ نظام پر ڈال دیا۔

مارکسی اور اشتراکی نقطہ نظر رکھنے والے مرد یا عورت محکوم معاشرے کو مکمل طور پر عورت کے استحصال کا ذمہ دار قرار نہیں دیتے ان کے نزدیک عورت کی مظلومیت کا ذمہ دار سرمایہ دارانہ نظام ہے اُن کے نزدیک عورت کو بحیثیت ماں یا خاتون خانہ کے کام کرنا دراصل استحصال ہے کیونکہ اس کام کا کوئی معاوضہ اُسے نہیں ملتا۔

لبرل نسائیت کا مکتبہ فکر:

تیسرا مکتبہ مغرب کے ہاں آزادی پسند گروہ کا ہے۔ یہ طبقہ عورت کو انفرادی حیثیت میں حقوق دینے پر زور دیتا ہے۔

لبرل نسائیت کا مکتبہ فکر آزادی کو شخصی آزادی کے طور پر اخذکرنا ہے کہ ہر شخص اپنی مرضی کی زندگی گزارے۔ لبرل نسائیت پسند یقین رکھتے ہیں کہ شخصی آزادی کی مشق کچھ خاص اہلیت والے حالات پر منحصر ہے جو خواتین کی زندگیوں میں ناکافی حد تک موجود ہیں یا پھر معاشرتی انتظامات خواتین کی شخصی آزادی کی عزت کرنے میں اکثر ناکام ہو جاتے ہیں اور خواتین کی فعالیت کے دوسرے عناصر لبرل نسائیت پسند یقین رکھتے ہیں کہ ریاست خواتین کی شخصی آزادی کی ترویج کی تحریکیں ختم کر سکتی ہیں۔

لبرل مکتبہ فکر کے نزدیک عورت کو مردوں کے مساویانہ حقوق میسر آنے چاہیں۔ ان کے نزدیک عورتوں کے اندر یہ صلاحیت موجود ہے کہ وہ بحیثیت قانون اپنے آپ کو مختلف شعبہ جات میں منوا سکیں۔

جو مسائل لبرل نسائیت پسندوں کیلئے اہم ہیں ان میں بچوں کی پیدائش اور اسقاط کے حقوق، جنسی تشدد، حق رائے دہی، تعلیم، یکساں روز گار کی یکساں اجرت، بچوں کی قابل استطاعت دیکھ بھال اور خواتین کے خلاف ہونے والا گھریلو اور جنسی تشدد کو منظر عام پر لانا شامل ہے۔

یہ طبقہ بنیاد پرست اور مارکسی مکاتب کی طرح کسی دوسرے کو عورتوں کی محکومیت کا ذمہ دار قرار نہیں دیتا بلکہ انفرادی حیثیت میں حقوق کی فراہمی پر زور دیتا ہے۔

ڈاکٹر خالد علوی اس سلسلہ میں رقمطراز ہیں:

لبرل نسائیت پسند گروہ کے ہاں نظریات کا کوئی مرتب مجموعہ نہیں اس لیے وہ انقلابی واشتراکی نظریات سے قدرے مختلف ہے۔ ان کا ہدف جنسی مساوات کا حصول ہے لیکن تدریجی طور پر ان کے خیال میں معاشی، معاشرتی اور سیاسی تبدیلی کا ایک تدریجی عمل کام کرتا ہے۔ اسی کے اندر سرگرم رہنا چاہیے اور اسی کے ذریعے مقاصد حاصل کرنے چاہیں یہی وجہ ہے کہ اس گروہ کیخلاف مغرب میں کوئی رد عمل نہیں اس گروہ کا خیال ہے کہ جنسی عدم مساوات سے معاشرے میں کوئی فرق نہیں پہنچ رہا۔ بعض باصلاحیت خواتین معاشرے میں کوئی کردار ادا نہیں کر پاتیں کیونکہ انہیں موقع نہیں ملتا اور بعض مرد اپنے بچوں سے قریبی تعلق نہیں رکھ پاتے کہ وہ بے حد مصروف ہوتے ہیں۔ (خالد علوی، (2004ء)، اسلام کا معاشرتی نظام، ص: 561)

لہذا اس طبقہ کے نزدیک معاشرتی عدم مساوات کی بجائے انفرادی سطح پر حقوق کی فراہمی بنایا جائے۔

درج بالا نظریات کی ترویج واشاعت ہوتی رہی اور آزادی نسواں سے متعلقہ تمام مکاتب نے عورت کی آزادی سے متعلق جدوجہد جاری رکھی۔ مغربی معاشرہ میں تصور آزادی نسواں نے زیادہ تر انہیں مکاتب کے زیر اثر پرورش پائی۔ اس ساری جدوجہد میں عورت جزوی طور پر حقوق حاصل کرنے میں کامیاب رہی مگر عائلی سطح پر عورت کو نہ تو حقوق دیئے گئے اور جو حقوق اُسے میسر تھے وہ بھی آزادی کے نام پر اُس سے چھین لیے گئے اس صورتحال پر ڈاکٹر محمد طاہر القادری رقمطراز ہیں۔

عورت کے حقوق کے تحفظ کا مفہوم انفرادی، معاشرتی، خاندانی اور عائلی سطح پر عورت کو ایسا تقدس اور احترام فراہم کرنا ہے جس سے معاشرے میں اس کے حقوق کے حقیقی تحفظ کا اظہار بھی ہو اگر ہم حقائق اور اعداد و شمار کی روشنی میں مغربی معاشرے میں عورت کے حقوق کا جائزہ لیں تو انتہائی مایوس کن صورتحال ہے خاندان جو کسی بھی معاشرے میں انسان کے تحفظ و نشوونما کی اکائی کی حیثیت رکھتا ہے عورت کے تقدس کے عدم احترام کے باعث مغربی معاشرے میں شکست و ریخت کا شکار ہے۔ (قادری، محمد طاہر، ڈاکٹر (2010ء)، اسلام میں انسانی حقوق)

غرض حقوق نسواں کی تحریک اپنے تدریجی سفر میں آزادی نسواں کی تحریک میں بدل کر اپنا رنگ ڈھنگ بدل چکی ہے۔ اب حقوق کی جنگ بہت پیچھے اور مردوں پر سبقت لینے کی سوچ بہت آگے آچکی ہے۔ نتیجتاً یہ بات تو کسی سے چھپی نہیں کہ اس وقت مغربی معاشرہ میں عائلی نظام تباہ و برباد ہو چکا ہے۔ اعداد و شمار اٹھا کر دیکھیں تو طلاق کی شرح میں اسقدر اضافہ ہو چکا ہے ماں باپ خاندان نہیں بنا پا رہے تو اولاد جرائم کی طرف جا رہی ہے۔ تصویر کا ایک رخ اگر عورت کو آزادی نسواں کے نام پر حقوق دکھا رہا ہے تو دوسرے رخ پر وہ تباہی کے دہانے پر کھڑی ہے۔ آزادی نسواں کے تصور کو فروغ دینے میں بہر حال این جی اوز NGOs نمایاں کردار ادا کیا ہے عصر حاضر میں عورت کے حقوق کی بحث ختم نہیں ہوئی بلکہ زیادہ زور و شور سے جاری ہے۔ لہذا اگر حقوق سے مراد معاشی، معاشرتی، سیاسی حقوق مراد ہیں تو یقیناً ہر طبقہ دین اس سے اختلاف نہیں کرے گا دورِ حاضر میں اگر ماضی میں مختلف ادیان عورت کو حقوق نہیں دے رہے تھے تو اس وقت وہ بھی عورت کے حقوق کے علمبردار ہیں۔ اگر آزادی نسواں کی تحریک کے اثرات کی صورت میں خواتین کیلئے ایکٹ بن بھی گئے تو کتنوں پر عمل ہوا؟ تیسری دنیا کے ممالک میں سے ابھی بھی بہت سے ممالک میں سے عورت بنیادی حقوق سے محروم ہے۔ عورت کو اس کے پیکرِ حجاب سے نکال کر اُسے آزاد تصور نہیں کیا جاسکتا جب جس ملک نے عورت کو بے جا آزادی دی اُسی وقت سے اس ملک میں عائلی نظام خراب ہوتا چلا گیا۔ اس وقت ہمارے ہاں اگر عورت کی بے جا آزادی پر بات کی جائے تو تنگ نظر ممالک کی صف میں لا کھڑا کر دیا جائے گا پاکستان کی مثال ہی لے لیجئے یہ ایسا ملک تصور کیا جاتا ہے کہ جہاں عورت پر بہت ظلم و ستم ہو رہے ہیں اور اگر حقائق کو سامنے رکھا جائے تو پاکستان میں ایسے علاقے موجود ہیں جہاں آج بھی عورت بنیادی حقوق سے محروم ہے لیکن خیر یہ تو مغربی ممالک میں بھی ہو رہا ہے۔ مگر دوسری طرف پاکستان میں ایسی خواتین زیادہ تعداد میں ہیں جو اسلامی حقوق سے بہرہ ور ہو رہی ہیں۔ اس کے باوجود حکومتی سطح پر عورت کے حقوق کے تحفظ کیلئے بل بھی بنائے جا رہے ہوتے ہیں جو کہ حقوق سے زیادہ مغربی عورت کی صف میں مشرقی عورت کو بھی کھڑا کرنے کیلئے ہوتے ہیں۔ جبکہ اگر اسلامی ممالک اسلام کے دیئے ہوئے حقوق کو ہی قابل نفاذ بنا لیں تو شاید حکمرانوں کو کسی بیرونی ایجنڈے کی ضرورت نہ رہے۔

عورت کو حقوق ملنے چاہیں لیکن اُن حدود و قیود کے ساتھ جو الہامی ادیان کی اصل تعلیمات میں موجود ہیں۔بحث اس بات پر ہونی چاہیے کہ عورت کو دیئے جانے والے حقوق کے سلسلہ میں جو قوانین بنائے گئے اُن پر عملدرآمد ہو رہا ہے کہ نہیں۔ مغربی ممالک کے اعدادو شمار تو ہمیں یہ بتاتے ہیں کہ حقوق کی جنگ وہاں عورت آج بھی لڑ رہی ہے پھر جن گروہوں کا آغاز میں ذکر کیا گیا کہ عورت کی آزادی کے حوالے سے تنگ نظر افراد بھی ہیں اور ضرورت سے زیادہ روشن خیال بھی کیا یہ نہیں ہو سکتا کہ ایک درمیانی راستہ نکال لیا جائے جس سے عورت کو حقوق بھی مل جائیں اور وہ بے جا آزادی سے بھی بچ جائے۔ اس کے لیے Women Empowerment کی نئی فکر معاشرے میں متعارف کروانے کی ضرورت ہے جو اسلام کے نظریہ توازن پر مبنی ہو۔

ماخوذ از ماہنامہ دخترانِ اسلام، مارچ 2020ء

تبصرہ