تہذیبی استحکام میں آبادی کا کردار اور ہماری ذمہ داریاں

(عبدالستار منہاجین)

کسی خطے کے تہذیبی و ثقافتی اِستحکام میں آبادی کو مرکزی اہمیت حاصل ہوتی ہے۔ کسی کلچر کو 20 سے 25 سال تک برقرار رکھنے کے لئے ضروری ہے کہ اس معاشرے میں شرح پیدائش کم از کم 2.11 بچے فی گھرانہ ہو۔ اس سے کم شرح پیدائش کی صورت میں اس معاشرہ کا کلچر برقرار نہیں رہ سکتا۔ اگر کسی ملک کی شرح پیدائش 1.9 تک رہ جائے تو بالعموم وہ 2.11 پر واپس نہیں آتی۔ اور اگر کسی معاشرے کی شرح پیدائش کم ہوتے ہوتے 1.3 تک جا پہنچے تو اس کے کلچر کی بحالی صرف مشکل نہیں بلکہ ناممکن ہو جاتی ہے، کیونکہ اسے اپنی شرح پیدائش کو بہتر بناتے ہوئے 2.11 تک واپس آنے کے لئے کم از کم 80 سے 100 سال کا عرصہ درکار ہوتا ہے، اور ایسا کوئی اکنامک ماڈل دستیاب نہیں جس کی رو سے اتنا عرصہ تک وہ خود کو برقرار رکھ سکے۔ اسی طرح اس معاشرے پر غالب آ جانے والے دوسرے عناصر بھی اسے کبھی یہ موقع فراہم نہیں کرتے کہ وہ خود کو برقرار رکھ سکے۔

اسے یوں سمجھئے کہ اگرپچھلی نسل کے دو جوڑوں(یعنی4افراد) کے ہاں ایک ایک بچہ پیدا ہوا، اور موجودہ نسل میں بھی ان کے دونوں بچوں کے ہاں ایک ہی بچہ پیدا ہو تو اگلی نسل کے جوان ہونے تک ان کی آبادی میں 4 گنا کمی ہو جائے گی۔ گویا اگر سال 2000ء میں کسی شہر کی آبادی ایک لاکھ نفوس پر مشتمل تھی تو وہ سال 2020ء تک کم ہو کر نصف یعنی 50ہزار رہ جائے گی اور یونہی سال 2040ء تک مزید کم ہو کر صرف25 ہزار رہ جائے گی، اور جمہوری معاشرہ ہونے کے ناتے قانون ساز و پالیسی ساز اداروں میں ان کا اثرورسوخ رفتہ رفتہ ختم ہوتا چلا جائے گا۔

کسی بھی خطے کا کلچر وہاں کی آبادی کا مرہونِ منت ہوتا ہے اور جب کسی خطے کی آبادی کم ہوتی ہے تو اُس کا کلچر بھی سکڑنے لگتا ہے۔ 40 سال میں ایک لاکھ کی آبادی میں واقع ہونے والی اس 75 ہزار افراد کی کمی کو پورا کرنے کے لئے آس پاس کے شہروں کے لوگ وہاں آن بسیں گے اور اگر کسی پورے ملک میں آبادی کا یہی تناسب ہو تو دوسرے ممالک کے لوگ اس طرف کا رخ کرنے لگیں گے اور رفتہ رفتہ نئے آنے والوں کا کلچر مقامی کلچر پر حاوی ہوتا چلاجائے گا۔ یہی سب کچھ یورپ بھر میں بڑی تیزرفتاری کے ساتھ ہو رہا ہے۔ آیئے چند ممالک کی مقامی آبادی اور امیگریشن کے ذریعے وہاں آباد تعداد کا موازنہ کرتے ہیں اور پھر اس تناظر میں ان ممالک میں مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے پیش نظر خود پر عائد ہونے والی ذمہ داریوں پر ایک نظر ڈالتے ہیں:

یورپ میں شرحِ پیدائش

سال 2007ء کے اعدادوشمار کے مطابق یورپ کے مختلف ممالک میں مقامی آبادی کی شرح پیدائش میں خاصی کمی واقع ہو چکی ہے، حتیٰ کہ یورپی یونین کے 31 ممالک میں مجموعی طور پر شرح پیدائش 1.38بچے فی گھرانہ تک کم ہو چکی ہے۔ تاریخ کے مطالعہ سے حاصل ہونے والی تحقیق ہمیں یہ بتاتی ہے کہ اتنی کم شرح پیدائش کو کسی صورت بہتر نہیں بنایا جا سکتا۔ مطلب یہ ہوا کہ اس صدی کے وسط تک یورپ مقامی آبادی کے سہارے خود کو برقرار نہیں رکھ سکے گا اور اسے اس کمی کو پورا کرنے کے لئے اضافی طور پر مستعار آبادی کی ضرورت پڑے گی، جس کا حل امیگریشن ہے۔

اس قدر کم شرح پیدائش کے باوجود یورپ کی آبادی میں اضافہ جاری ہے، جس کا سبب امیگریشن ہے۔ سال 1990ء سے اب تک جو لوگ دوسرے ممالک سے آکر یورپ میں آباد ہو رہے ہیں ان کی بڑی اکثریت مسلمان ہے۔ گویا امیگریشن کے ذریعے مسلمان اس ملٹی کلچرل سوسائٹی میں شامل ہورہے ہیں۔ ان ممالک میں جاکر رہنا اتنا مشکل نہیں جتنا ذمہ داریوں کے تقاضوں کو سمجھتے ہوئے، ان ممالک کے اصول و قوانین کی پیروی کرتے ہوئے ایک مثبت شہری کا کردار ادا کرنا ہے۔ اگر ہم ان ممالک میں رہائش اختیار کررہے ہیں تو ہمیں وہاں اپنے طرز عمل اور کردار سے اسلام کی تعلیماتِ امن کا پیکر بننا ہوگا تاکہ اس اجتماعی معاشرے میں رہتے ہوئے اپنی تہذیب کو بھی استحکام دے سکیں، اپنی شناخت کو بھی برقرار رکھ سکیں اور ملٹی کلچرل سوسائٹی اور Integration کے ماحول کے تقاضوں کو بھی کماحقہ پورا کرسکیں۔

فرانس

یورپی یونین میں شامل ممالک میں سے فرانس میں مسلمانوں کی آبادی سب سے زیادہ ہے، جو 10 فیصد ہو چکی ہے۔(حوالہ نمبر1) فرانس میں مسلمانوں کی آبادی میں سالانہ 10 لاکھ افراد کا اضافہ ہو رہا ہے، جو سال 2025ء تک 4کروڑ تک جا پہنچے گی۔ یہاں مسجدوں کی تعداد 1,500 سے متجاوز ہے، حالانکہ فرانس گرجاگھروں کی کثرت کے حوالے سے دنیا میں شہرت رکھتا ہے(حوالہ نمبر2)

فرانس کی مقامی شرح پیدائش 1.8 ہے جبکہ اس کے مقابلے میں وہاں مقیم مسلم آبادی میں امیگریشن، افزائش نسل اور قبولیت اسلام کی بدولت ہونے والا اضافہ 8.1 ہے۔ یورپ میں سب سے زیادہ شرح پیدائش رکھنے والا ملک ہونے کے باوجود یہاں 20 سال سے کم عمر افراد کی 30 فیصد آبادی مسلمانوں پر مشتمل ہے۔

برطانیہ

سال 1978ء سے سال 2010ء تک (32 سالوں میں) برطانیہ کی مسلم آبادی 82 ہزار سے بڑھ کر 25 لاکھ ہو چکی ہے، گویا اس میں30 گنا سے زیادہ ریکارڈ اضافہ ہو چکا ہے۔ اور سال 2015ء تک یہ مزید دوگنا (یعنی 48 لاکھ) ہو جائے گی۔(حوالہ نمبر3) اس وقت برطانیہ میں ایک ہزار سے زیادہ مساجد ہیں،(حوالہ نمبر4) برطانیہ کے جریدے ٹائمز آن لائن کی آفیشل ریسرچ کے مطابق برطانیہ میں مقیم مسلمانوں کی آبادی سال 2004ء میں 18 لاکھ تھی اور وہ صرف 4 سال کے مختصر عرصے میں (سال 2008ء تک) بڑھ کر 24 لاکھ ہو چکی تھی۔ برطانیہ میں مسلمانوں کی آبادی میں دیگر قوموں کی نسبت 10 گنا تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ ماہرین کی رائے میں امیگریشن، بلند شرح پیدائش اور مقامی آبادی کا قبول اسلام اس کے بنیادی اسباب ہیں۔(حوالہ نمبر5)

سال 2002ء میں ہونے والی مردم شماری کے مطابق برمنگھم کے گرین ہال حلقے میں مسلم ووٹرز کا تناسب 48 فیصد ہو چکا تھا،(حوالہ نمبر6)

جرمنی

جرمنی کی شرحِ پیدائش یورپ بھر میں سب سے کم یعنی صرف 1.36 بچے فی گھرانہ ہے۔ حکومتی سطح پر زیادہ مراعات کے اعلان کے باوجود یہ شرح مزید گر رہی ہے، سال 2050ء تک اس کی آبادی میں 15 فیصد کمی آئے گی، یعنی 8 کروڑ 24 لاکھ کی موجودہ آبادی میں سے ایک کروڑ 20 لاکھ نفوس کم ہو جائیں گے۔ فیڈرل سٹیٹسٹکس آفس جرمنی کے وائس پریزیڈنٹ Walter Rademacher نے سب سے پہلے سال 2006ء میں عوامی سطح پر یہ راز آشکار کیا کہ جرمنی کی مقامی آبادی کی شرح پیدائش میں کمی کو روکنا ممکن نہیں۔ یہاں یہ شرح اس حد تک گر چکی ہے کہ اسے کسی طرح بھی بحال نہیں کیا جا سکتا۔ جرمنی کی مقامی شرح پیدائش اس حد تک جا چکی ہے کہ امیگریشن کے ذریعے آنے والوں کی تعداد کا مقابلہ کرنا ممکن نہیں۔(حوالہ نمبر7) تازہ تحقیق کے مطابق جرمنی میں مسلم آبادی 40 لاکھ سے متجاوز ہے، جو کل آبادی کا 5 فیصد ہے۔(حوالہ نمبر8)

چند یورپی ممالک کی آبادی، شرح پیدائش اور وہاں مقیم مسلمانوں کی تعداد کا سرسری جائزہ لینے کے بعد آیئے یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ اگر ہم نے دوسرے مذاہب اور اقوام کے ساتھ مل کر رہنا ہے تو اس صورت میں ہمارا دین ہمیں کیا تعلیم دیتا ہے۔

گلوبلائزیشن اور مسلمانوں کا کردار

اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہونے کے ناتے دورجدید کا مذہب ہے، جو روزمرہ کے اخلاقی ضابطوں سے لے کر ملکی اور بین الاقوامی سطح کے معاشی، معاشرتی اور سماجی ضابطوں کی مکمل رہنمائی فراہم کرتا ہے۔ چنانچہ ترقی یافتہ اقوام اسلام کے بیشتر قوانین کو اپنے معاشروں میں عملاً نافذ کر چکی ہیں۔ چند اخلاقی قباحتوں کو چھوڑ کر یورپ کے بیشتر قوانین اسلامی ہیں۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے بجا طور پر فرمایا ہے کہ ’’مغرب میں نافذ زیادہ تر قوانین اسلامی ہیں‘‘۔

اسلام کی ان حقیقی اور پرامن تعلیمات پر Religious Extremism اور Secular Extremism ہر دو طرف سے یلغار جاری ہے۔ Secular Extremism کی حامل قوتیں اسلام کو مغربی اقوام کے ذہن میں ایک دہشت گرد مذہب کے طور پر مسلسل ابھار رہی ہیں اور مسلمانوں کے بعض عاقبت نااندیش نادان دوست جہاد کے نام پر دہشتگردانہ کارروائیاں کرتے ہوئے اس مکروہ ایجنڈا کی تکمیل میں ان کی بھرپور مدد کر رہے ہیں۔

گلوبلائزیشن کی وجہ سے دوری اب دوری نہیں رہی، اقوام اور ممالک ایک دوسرے کے اس حد تک قریب آگئے ہیں کہ دنیا بھر میں تیزی سے ملٹی کلچرل سوسائٹی فروغ پارہی ہے۔ اس Integration اور ملٹی کلچرل سوسائٹی کے ماحول میں اپنی شناخت کو برقرار رکھتے ہوئے مثبت کردار کرنا سب سے بڑا چیلنج ہے۔ دوسری اقوام اور مذاہب کے مقابلے میں ہمیں یہ Advantage حاصل ہے کہ اسلام ہی وہ دین ہے جو جدید دور کے سائنسی ضابطوں پر نہ صرف کماحقہ پورا اُترتا ہے بلکہ بے شمار مواقع پر اُلجھے ہوئے سائنسی فکر کی رہنمائی کرتا بھی دکھائی دیتا ہے۔ اگر مسلمانوں نے جملہ تقاضے پورے کئے تو یقینا مسلمان اپنے عمل و کردار کی قوت سے پوری دنیا میں اسلام کی پرامن تعلیمات کے فروغ کا باعث ہوں گے۔ دنیا بھر میں مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی آبادی جہاں ایک طرف معاشرے میں اسلام کی روشن تعلیمات کے تعارف اور فروغ کا ذریعہ ہے وہاں دوسری طرف اسلامی تہذیب کے استحکام اور اپنی شناخت کو برقرار رکھتے ہوئے ملٹی کلچرل سوسائٹی اور Integration کے چیلنجز سے نبرد آزما ہونے کے لئے مثبت کردار ادا کرنے کی بھی متقاضی ہے۔

دورِ حاضر کے دہشت گرد اور ان کے پشت پناہ، دونوں یہ نہیں چاہتے کہ اسلام اس ملٹی کلچرل سوسائٹی اور Integration کے ماحول میں کامیابی سے ہمکنار ہوتا ہوا ان تہذیبوں پر بھی اپنی پرامن تعلیمات کا رنگ غالب کرسکے۔ چنانچہ وہ اسلام کے خلاف زہر اگلنے کے لئے گاہے بگاہے مختلف ہتھکنڈے استعمال کرتے رہتے ہیں اور اس قبیح مقصد کے حصول کے لئے انٹرنیشنل میڈیا کو بطور ٹول استعمال کیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام اس دور کا سب سے زیادہ غلط سمجھا جانے والا مذہب (most misunderstood religion) بن چکا ہے۔

  • سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہم محض یہ جان کر ہی خوش ہوتے رہیں کہ اسلام تیزی سے پھیل رہا ہے اور آئے روز مسلمانوں کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے؟
  • کیا اس بڑھتی ہوئی تعداد پر ہی اپنی نظریں مرکوز رکھیں یا اس کے ساتھ ساتھ ذمہ داریوں کے چارٹ کو بھی دیکھیں؟
  • کیا تعداد میں یہ اضافہ دیکھتے ہوئے ہم اس ملٹی کلچرل سوسائٹی میں اپنے نظریات کو دیگر اقوام و ملل پر زبردستی ٹھونسنے کی کوشش شروع کردیں گے؟
  • کیا اسلام کی تعلیمات کا آئے روز فروغ ہم سے یہ چاہتا ہے کہ اس ملٹی کلچرل سوسائٹی اور Integration کے ماحول میں دوسری اقوام و مذاہب کی جملہ تعلیمات و اعمال کو ہی جذبات کی رو میں بہتے ہوئے من و عن تسلیم کرلیں خواہ وہ قرآن و سنت کی تعلیمات سے متصادم ہی کیوں نہ ہوں؟

ذیل میں ہم اپنے اوپر عائد ہونے والی ذمہ داریوں کا جائزہ لیتے ہیں۔

ہماری ذمہ داریاں

اسلامی تہذیب ہمیشہ سے فطرت کے اصولوں پر کاربند ہے اور اسلامی نظریہ کے مطابق اقدار اٹل ہیں اور وہ کبھی متغیر نہیں ہوتیں، یعنی اچھائی ہمیشہ اچھائی اور برائی ہمیشہ برائی رہتی ہے۔ ساری دنیا مل کر بھی کسی برائی کو اچھائی کہنے لگے تو وہ اچھائی نہیں بن سکتی۔ دوسری طرف دیگر اقوام اور معاشروں کی اَقدار ان کے کلچر پر منحصر ہوتی ہیں، یعنی جس عمل کو ان کا معاشرہ اچھا کہے وہی اچھا قرار پاتا ہے۔ کھرے و کھوٹے کی پہچان کے لئے قانونِ فطرت اور آفاقی سچائیاں ان کے نزدیک بے معنی ہو کر رہ جاتی ہیں۔

گلوبلائزیشن کے اس دور میں درج ذیل ذمہ داریاں اور تقاضے پورے کرنا ہمارا اولین فریضہ ہے تاکہ اسلامی تہذیب اور اپنی شناخت کے استحکام کے ساتھ ہم دیگر اقوام و ملل کے ساتھ مل کر رہنے کا جذبہ بھی اپنے اندر پیدا کرسکیں۔

1۔ شدت پسند طبقے کا نظریاتی سطح پر مقابلہ

مسلم نوجوانوں کو تنگ نظری، انتہاپسندی اور دہشت گردی کی آگ سے محفوظ رکھنے کے لئے اسلام کی امن و اعتدال پسندانہ تشریح ضروری ہے، جو نئی نسل کواس طبقے کی شرانگیزی سے تحفظ فراہم کر سکے۔ علاوہ ازیں اشتعال انگیزی کا سبق دینے والے نام نہاد مسلمان گروہوں (خوارج) سے بھی بچنے کی اشد ضرورت ہے، جو اسلام کو ایک دہشت گرد مذہب ثابت کرنے میں اسلام دشمنوں کا ساتھ دے رہے ہیں۔ (اس ضمن میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی تصنیف ’’دہشت گردی اور فتنہ خوارج‘‘ کا مطالعہ ناگزیر ہے۔)

یہ اس لئے بھی ضروری ہے تاکہ مغربی دنیا کے پرامن عوام اسلام کی حقیقی تعلیمات سے آگاہ ہوں اور اسلام کے حوالے سے پھیلائی گئی افواہوں کو بے نقاب کیا جائے۔

2۔کردار و عمل کے ذریعہ تبلیغ

مسلمانوں کے لئے ضروری ہے کہ اپنی اقدار اور اخلاق کو اچھے انداز میں قائم رکھتے ہوئے مغربی سوسائٹی میں integrate ہوں اور انہیں غیرمحسوس طریقے سے اپنے قریب لانے کی کوشش کریں۔ اسلام کو اپنے کردار و عمل کے ذریعے پرامن اور آج کے جدید سائنسی دور میں بھی قابل عمل دین ثابت کریں تاکہ مقامی آبادی کو اسلام کے خلاف پھیلائے گئے نفرت آمیز پروپیگنڈا کی حقیقت معلوم ہو اور اسلام کا حقیقی روپ نظر آ سکے۔ یہی تبلیغ دین کا وہ طریقہ ہے جو دور حاضر میں مغربی ممالک میں قابل عمل ہے۔ (اس ضمن میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی دو تصانیف ’’اسلام میں انسانی حقوق‘‘ اور ’’اسلام اور جدید سائنس‘‘ کا مطالعہ ناگزیر ہے۔) اس نہج پر عمل کیا جائے تو تبلیغ دین کے لئے کسی لمبی چوڑی محنت کی بھی ضرورت نہیں۔

واضح رہے کہ دنیا کے سب سے بڑے اسلامی ملک انڈونیشیاء اور اس کے ہمسایہ ملک ملائیشیاء میں اسلام کی اشاعت نہ تو کسی قسم کی فتوحات کے نتیجے میں عمل میں آئی اور نہ عالم اسلام کی طرف سے وہاں تبلیغ کرنے کے لئے کوئی تبلیغی مشن بھیجے گئے تھے۔ اسی طرح وہاں برصغیر کی طرح بڑے بڑے عظیم صوفیاء بھی دعوت و تبلیغ کرنے نہیں گئے تھے۔ چاروں طرف سے سمندروں میں گھرا ہوا دنیا کا یہ عظیم خطہ صرف اور صرف مسلمان تاجروں کا اخلاق و کردار دیکھ کر مسلمان ہوا۔ اگر مسلمان اپنے اخلاق و کردار کو اسلامی قالب میں ڈھال لیں اور خود کو حقیقی معنوں میں مسلمان ثابت کریں تو کچھ بعید نہیں کہ اسلام پر لگنے والے اعتراضات اور تنقید کا کماحقہ جواب دیا جاسکے۔ اس کے لئے محض دو سطح پر کام کی ضرورت ہے۔

  1.  اسلام مخالف پروپیگنڈا سے نجات کے لئے یورپی اقوام کو اسلام کا پرامن چہرہ دکھایا جائے۔
  2.  کرداروعمل میں اسلام کے نفاذ کے ساتھ اس کی عملی تعبیر بھی پیش کی جائے۔

3۔ اولاد کے ایمان کی حفاظت

مسلمانوں کے لئے سب سے اہم آزمائش یہ ہے کہ اپنے بچوں کے ایمان کی حفاظت کے لئے خاص بندوبست کریں۔ دنیا کماتے کماتے بچوں کا ایمان غارت نہ کر بیٹھیں۔ روزِمحشر آپ سے آپ کی اولاد کے بارے میں بھی پوچھا جائے گا۔ قرآن حکیم میں اللہ رب العزت کا فرمان ہے :

یَا اَیُّھَا الَّذِینَ آمَنُوا قُوْا اَنفُسَکُمْ وَاَھلِیکُمْ نَارًا ۔

’’اے ایمان والو! اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو (جہنم کی) آگ سے بچاؤ‘‘۔ (التحریم، 66: 6)

یاد رکھیں! اگر ہم نے بچوں کی دینی تعلیم و تربیت کے اہتمام سے غفلت برتی تو ہمارے بچوں کے صرف نام ہی مسلمانوں جیسے ہوں گے جبکہ فکروعمل میں وہ مکمل طور پر غیرمسلم بن چکے ہوں گے، پھر خواہ وہ ترقی کرتے کرتے سربراہِ مملکت ہی کیوں نہ بن جائیں، اسلام اور اہل اسلام کو ان سے کوئی فائدہ نہ ہو سکے گا۔ تحریک منہاج القرآن بڑی کامیابی کے ساتھ بالعموم ملک پاکستان اور بالخصوص دیگر ممالک میں بسنے والے مسلمان بچوں کی دینی تعلیم و تربیت کے لئے بذریعہ انٹرنیٹ آن لائن کورسز کروا رہی ہے۔ ملاحظہ فرمائیں: http://elearning.minhaj.org

تارکین وطن سے ایک امید

ذہانت فراری (brain drain) کے حوالے سے ایک خوش آئند پہلو بھی ہے، وہ یہ کہ جہاں ہم مختلف مسلم ممالک سے ترکِ وطن کرکے مغربی ممالک میں جا بسنے والے ڈاکٹرز، انجینئرز، ماہرین معیشت اور اسی قبیل کے اعلیٰ دماغوں کے اپنے وطنوں سے چلے جانے کا رونا روتے ہیں، وہیں اس کے اندر ایک مثبت پہلو بھی ہے کہ عالم اسلام کے وہ ذہین دماغ اُن معاشروں میں اسلامی تعلیمات کے حقیقی فروغ کا باعث بن رہے ہیں۔ لہذا ضروری ہے کہ وہ مغربی دنیا میں موجود ملٹی کلچرل سوسائٹی کے ثمرات سمیٹتے ہوئے ممکنہ حد تک ہر قسم کی معاشرتی سرگرمیوں میں برابر حصہ لیں اور جمہوری اصولوں کی مکمل پاسداری کریں۔ تعلیم، صحافت اور سیاست پر خاص توجہ دیتے ہوئے زندہ قوم کی طرح ترقی یافتہ اقوام کے شانہ بشانہ چل کر خود کو ان کے علمی ورثے کا حقدار ثابت کریں تاکہ جس طرح آج سے 5 صدیاں قبل اسلامی سائنس یورپ کو ورثے میں ملی اور مسلمانوں کا علمی سرمایہ اندلس (سپین) کے راستے یورپ منتقل ہو گیا تھا، اسی طرح اگلی چند دہائیوں میں مسلمان جملہ تقاضے پورے کرتے ہوئے خود کو اس قابل بنائیں کہ اس علمی ورثے کے متحمل ہو سکیں، بصورتِ دیگر کوئی دوسری قوم بھی اہل ثابت ہو سکتی ہے۔ اللہ رب العزت کا فرمان ہے :

وَاِن تَتَوَلَّوا یَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَیْرَکُمْ ثُمَّ لَا یَکُوْنُوا اَمْثَالَکُمْ۔

’’اور اگر تم (حکمِ الٰہی سے ) رُوگردانی کرو گے تو وہ تمہاری جگہ بدل کر دوسری قوم کو لے آئے گا پھر وہ تمہارے جیسے نہ ہوں گے‘‘۔ (محمد، 47: 38)

کسی بھی رنگ و نسل سے تعلق رکھنے والے تارکین وطن کی تمام مسلمان تنظیموں کو چاہیئے کہ وہ رنگ و نسل اور زبان کی حدود سے بالاتر ہو کر اپنے اپنے ملکوں میں بسنے والے دیگر مسلمانوں کے ساتھ بھی اپنے روابط کو بڑھائیں۔

انفرادی طور پر تمام مسلمان تارکین وطن اپنے اپنے ملکوں کے ملکی قوانین کی پاسداری کریں اور جمہوری روایات کو ہمیشہ مدنظر رکھیں۔ مقامی آبادی کے ساتھ امن و محبت اور بھائی چارے کے ساتھ پیش آئیں اور انہیں اپنے اخلاق و کردار سے متاثر کریں۔

References

  1. www.pupr.edu/hkettani/papers/HICAH2010.pdf
  2. www.catholicnewsagency.com/news/muslim_boom_in_france_more_mosques_fewer_churches/
  3. www.dailymail.co.uk/debate/columnists/article-1212368
  4. www.bbc.co.uk/urdu/regional/story/2005/07/050704_muslimmasajid_sh.shtml
  5. www.timesonline.co.uk/tol/news/uk/article5621482.ece
  6. www.bbc.co.uk/urdu/world/2010/05/100507_asian_women_results.shtml
  7. www.eutimes.net/2009/06/germanys-muslim-population-larger-than-thought/
  8. www.lifesitenews.com/ldn/2006/nov/06110903.html

تبصرہ