تحریک منہاج القرآن کا سالانہ عالمی روحانی اجتماع (لیلۃ القدر) 2012ء

تحریک منہاج القرآن کے زیراہتمام 22 ویں سالانہ شہر اعتکاف میں ستائیسویں شب کا عالمی روحانی اجتماع 15 اگست 2012ء کی شب بغداد ٹاون میں جامع المنہاج سے متصل وسیع و عریض گراؤنڈ میں منعقد ہوا۔ عالمی روحانی اجتماع میں لاکھوں عاشقان مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور فرزندان اسلام نے شرکت کی، جس میں ہزاروں خواتین بھی شامل تھیں۔ عظیم الشان عالمی روحانی اجتماع کی صدارت صاحبزادہ ڈاکٹر حسن محی الدین قادری اور صاحبزادہ ڈاکٹر حسین محی الدین قادری نے کی جبکہ آستانہ عالیہ بھیرہ شریف کے صاحبزادہ پیر امین الحسنات شاہ مہمان خصوصی تھے۔ امیر تحریک مسکین فیض الرحمن درانی، پیر سید خلیل الرحمن چشتی (سجادہ نشین آستانہ عالیہ چشتیہ آباد شریف، کاموکی) اور ناظم اعلیٰ ڈاکٹر رحیق احمد عباسی نے بھی عالمی روحانی اجتماع میں خصوصی شرکت کی۔

پروگرام کا پہلا حصہ شب ساڑھے 10 بجے قاری خالد حمید کی تلاوت قرآن مجید سے شروع ہوا۔ شب گیارہ بجے لاکھوں افراد نے پنڈال میں صلوۃ التسبیح ادا کی۔ عالمی روحانی اجتماع کے دوسرے حصہ کا آغاز شب 12 بجے ہوا، جو کیو ٹی وی پر براہ راست پیش کیا گیا۔ ہمدنی برادان، شہزاد برادران، منہاج نعت کونسل، قاری عنصر علی قادری، منہاج نعت کونسل اور محمد افضل نوشاہی نے ثناء خوانی کی۔

پیر امین الحسنات شاہ (سجادہ نشین آستانہ عالیہ بھیرہ شریف)

تحریک منہاج القرآن کا یہ عالمی روحانی اجتماع دور حاضر میں روحانی اقدار کو زندہ کیے ہوئے ہے۔ ستائیسویں شب کے عالمی روحانی اجتماع میں ہر سال خوشی سے شرکت کرتا ہوں۔ جو اس بات کی دلیل ہے کہ میں منہاج القرآن اور شیخ الاسلام سے انتہائی خوش ہوں۔ انہوں نے کہا کہ شیخ الاسلام اس دور کا سرمایہ ہیں۔ میں دعاگوہوں کہ اللہ تعالیٰ شیخ الاسلام کے صاحبزادگان کو بھی ان کے مشن کو آگے بڑھانے کی توفیق عطا کرے۔

صاحبزادہ ڈاکٹر حسن محی الدین قادری

صاحبزادہ ڈاکٹر حسن محی الدین قادری نے کہا کہ ستائیسویں شب کی یہ رات توبہ کی رات ہے۔ آج رقت اور گریہ زاری کی رات ہے۔ اس رات میں ہمیں اپنے مولہ کے حضور ندامت اور توبہ کے آنسووں سے پیش ہونا ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کو توبہ بہت پسند ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس رات جو لوگ اپنی جھولیاں پھیلا کر مجھے منانے کے لیے بیٹھ جاتے ہیں۔ جو توبہ کر کے میری طرف رجوع کررہے ہوتے ہیں تو میں بھی ان کو ایک خوشخبری دیتا ہوں کہ میری رحمت سے مایوس نہ ہو۔ آج کی رات میں اپنی رحمت کو تمہاری طرف خود ہی بھیج دیتا ہوں۔ جو بندہ توبہ کے آنسوؤں سے اللہ تعالیٰ کو مناتا ہے تو اللہ کی رحمت اس کی منتظر کھڑی ہوتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ آج امت پر زوال کا وقت ہے لیکن تحریک منہاج القرآن کے طفیل اور شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی بدولت اللہ اس امت سے خیر فرمائیں گے۔ ہم گناہوں کی دلدل میں ہیں، ہمیں یقین ہے اس رات کی نسبت سے اللہ تعالیٰ ہمارے گناہوں کو معاف فرمائیں گے۔

خطاب شیخ الاسلام

شیخ الاسلام نے اپنے خطاب سے قبل ملکی صورتحال پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میں ان شاء اللہ حسب وعدہ پاکستان واپس آرہا ہوں، لیکن میں سیاست کرنے نہیں آرہا۔ کیونکہ پاکستان میں سیاست نہیں بلکہ پاکستان کے ساتھ سیاست ہے۔ ملک میں سیاست کا نام انتخابات ہیں، میں نے عہد کیا ہوا ہے کہ میں اس غلیظ، نام نہاد، کرپٹ سیاسی نظام میں داخل نہیں ہوں گا۔

انہوں نے کہا کہ آج ملک کے حالات یہ ہیں کہ 18 کروڑ عوام جن کو عدل و انصاف ملنا بند ہوگیا۔ جن کو بنیادی ضروریات کی فراہمی بند ہوگئی۔ جن کی جان مال کی حفاظت ختم ہو گئی۔ اقتدار کی کرسی پر بیٹھے ہوئے لوگ عوام کی جان مال کی حفاظت کرنا اپنا فرض نہیں سمجھتے۔

پاکستان میں دھوکہ دہی کا بازار گرم ہے۔ یہاں جمہوریت کے نام پر دھوکہ ہے۔ روٹی کپڑا اور مکان کے نام پر دھوکہ ہے۔ تبدیلی کے نام پر دھوکہ ہے۔ اگر نظام نہ بدلا تو اس طرح سے 100 بار بھی الیکشنز سے تبدیلی نہیں آئے گی۔ یہ چند بڑوں کا نظام ہے۔ اس میں غریبوں کا کوئی حصہ نہیں ہے۔ اس نظام میں جمہوریت اور نظام اقتدار میں نوجوان نسل کا کوئی حصہ نہیں۔ یہ اشرافیہ کانظام ہے، جس کو پارلیمنٹ، جمہوریت کا نام دے رکھا ہے۔ میں اس نظام سے کوئی خیر کی توقع نہیں کرتا۔

شیخ الاسلام نے کہا کہ میں آج بھی آپ کے دلوں کی دھڑکن سنتا ہوں۔ لیکن ملک کے حالات دیکھ کر رونا آتا ہے۔ میرا جینا مرنا آپ کے ساتھ ہے۔ میں پاکستان چھوڑ کر نہیں گیا۔ میں اپنے ملک، اپنے و طن سے جدا نہیں ہوں، اللہ نے چاہا تو میری قبر بھی پاکستان میں ہوگی۔ لیکن میں اس نظام میں شریک نہیں ہوسکتا، جس نظام نے اس ملک کے کروڑوں غریبوں کو کچھ نہیں دیا۔ جو انسانی حقوق نہیں دے سکا، جو روتے ہوئے لوگوں کے آنسو نہیں پونچھ سکا۔ جو نظام غریبوں کے پیٹ کی آگ نہیں بھجا سکا۔ میں اس نظام کے لیے پاکستان واپس نہیں آ رہا۔

میں جلد پاکستان آؤں گا، آپ سے مینار پاکستان کے سبزہ زار میں ملاقات ہوگی۔ میں وہاں پوری قوم کو خطاب کرتے ہوئے اس ظالمانہ نظام کے خلاف حل پیش کروں گا۔ اس دن آپ کو روشنی کا راستہ دکھاوں گا، امید دوں گا، مایوس واپس نہیں بھیجوں گا۔ اگر قوم نے اس نظام کو قبول کر لیا تو ممکن ہے کہ یہ روشنی کی پہلی کرن ثابت ہو جائے اور اس ملک میں وہی دن تبدیلی کا نقطہ آغاز بن جائے۔

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے اخلاص کے موضوع پر خطاب کیا۔ جس کے لیے آپ نے قرآن مجید کی سورۃ ص کی آیت 83، 82 کی تلاوت کی۔

آپ نے کہا کہ آج کی رات اللہ کے بندوں کی رات ہے جس میں وہ اپنے بندوں کو نوازتا ہے۔ یہ اخلاص کی رات ہے۔ آقا علیہ السلام نے فرمایا کہ اخلاص یہ ہے کہ جب بندہ کہے کہ میرا رب اللہ ہے تو پھر اس کی ظاہری و باطنی زندگی میںاللہ کے ساتھ تابعداری کا تعلق قائم ہو جائے۔

شیخ الاسلام نے کہا کہ اگر دل اخلاص کے نور سے منور نہیں ہوا، اس دل کے اندر طلب دنیا ہے۔ رغبت دنیا ہے اور ہر اس شے کی رغبت ہے جو اللہ سے دور کرنے والی ہے تو اس کا مطلب ہے کہ یہ چیز ایمان کا دھوکہ ہے۔

حدیث قدسی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ لوگو ! میں بہت اچھا پارٹنر ہوں، کیسے کہ جس شخص نے میرے لیے کوئی عمل کیا اور پھر اس نیت میں کسی اور کو بھی شریک کر لیا یعنی اس میں دنیا داری بھی ڈال دی کہ لوگ مجھے بہت پرہیزگار اور تقویٰ شعار کہیں تو میں سارا عمل اس غیر کے لیے چھوڑ کر خود الگ ہوجاتا ہوں۔ اس کے بعد نہ میرا اس عمل سے تعلق رہا اور نہ اس عمل کا میرے ساتھ کوئی تعلق رہا۔

آپ نے کہا کہ لوگو! کم از کم رتی بھر اخلاص اللہ کی بارگاہ میں لے جاو، جو لوگ اللہ کے حضور سلامتی والے دل قلب سلیم کے ساتھ حاضر ہوں گے۔ ان کے دل اللہ کے ساتھ غیر کی شراکت سے پاک ہوں گے۔ ان کے دل شہوات نفس سے پاک ہوں گے۔ ان کے دل ریاکاری اور دکھلاوے سے پاک ہوں گے۔ ان کے دل اللہ کے سوا ہر غیر سے پاک ہوں گے۔

حضرت بایزید بسطامی فرماتے ہیں کہ میں نے ایک رات خواب میں دیکھا تو مجھ سے اللہ نے پوچھا کہ بتا تو کیا چاہتا ہے، تو میں نے عرض کیا کہ باری تعالیٰ میں فقط وہی کچھ چاہوں جو تو چاہتا ہے۔ اللہ نےفرمایا کہ اے بایزید اگر تیری یہ رضا ہے تو بس میں بھی وہ چاہتا ہوں جو تو چاہتا ہے۔

جب ایسی صورتحال ہو جائے تو پھر ایسے بندہ کے کلام رب کا کلام بن جاتا ہے۔ کاش آج ہمیں وہ حال نصیب ہو جائے، لوگو! یہ دنیا یہیں رہ جانی ہے۔ آخرت میں اس دنیا کے ارادے کام نہیں آنے۔

حضرت سلطان ابراہیم بن ادھم سے ایک شخص سوال کرتا ہے کہ مجھے پتہ چلا ہے کہ آپ کے پاس اللہ کا اسم اعظم ہے۔ مجھے بھی سکھا دیں۔ ابراہیم بن ادھم فرماتے ہیں کہ اللہ کے اسم اعظم کی کوئی حد نہیں۔ فرمایا کہ بندے جب تیرا دل خالصتا اللہ کی خلوت گاہ بن جائے گا تو اللہ کو جس نام سے پکارے گا تو وہی نام اسم اعظم ہے۔

شیخ الاسلام نے کہا کہ آج ہم دنیا کے بھوکے بن گئے، ہم دنیا کی لذتوں میں کھو گئے۔ ہمیں کیا پتہ کہ دنیا کے لذتوں کے علاوہ بھی کوئی لذت ہے۔

پروگرام کا اختتام شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی رقت آمیز دعا سے ہوا۔

تبصرہ