تقدیر امم کیا ہے؟ - (عائشہ بتول)

قوموں کے عروج و زوال کا مطالعہ کریں تو ان کی کامیابی و ناکامی میں یہی چیز مشترک نظر آتی ہے جنہوں نے اس نقشہ دنیا پر رہ کر محنت و جسجتو اور جہد مسلسل کی زندگی بسر کی۔ حوادثات و مصائب کا بھرپور تحمل و برداشت اور قوت سے مقابلہ کیا۔ مشکل اور کڑے وقت پر حوصلہ مندی اور خود اعتمادی کا ثبوت دیا۔ سست روی، کاہلی، عیش و آرام، راحت نفس کو اپنے قریب نہیں پھٹکنے دیا۔ کامیابی نے ایسے ہی لوگوں کے قدم چومے ہیں۔ منزل نے ان اوصاف کی حامل اقوام کا آگے بڑھ کر استقبال کیا ہے۔ اس کے برعکس جن قوموں نے تعیش پسندی، تن پسندی، نفسانی زندگی بسر کی ہے ان اقوام کا ستارہ اقبال بہت جلد غروب ہوجاتا ہے اور یہ تاریخ کے اوراق میں قصہ پارینہ بن کر رہ گئے۔ اسی کو علامہ اقبال نے یوں فرمایا ہے:

میں تجھ کو بتاتا ہوں تقدیر امم کیا ہے
شمشیر و سناں اول، طاؤس و رباب آخر

علامہ نے اس شعر میں یہ بتلانے کی کوشش کی ہے کہ قوموں کے عروج کا دور وہ ہوتا ہے جب وہ مسلسل محنت اور لگن سے معمور ہوں۔ وہ اپنے مقصد سے ایک لمحہ کے لئے بھی غافل نہ ہوں، ان کی ہمت و طاقت چیتے کی مانند ہو اور ان کی نظر شاہین کی طرح ہو مگر جب یہی قوم اپنے آباؤ اجداد کے اوصاف کو ایک ایک کرکے ترک کرنے لگتی ہے تو وہ سامان تعیش سے بھرپور زندگی گزارنے کی عادی ہوجاتی ہے۔ اسی غفلت و لاشعوری کی حالت میں اللہ تعالیٰ ان پر ایسی قوم کو مسلط کردیتا ہے جو ان کی اصلاح اور درستگی کا کام سرانجام دیتی ہے جو اپنے پے درپے حملوں کے ذریعے اس سوئی ہوئی قوم میں بیداری پیدا کرتے ہیں۔ ذیل میں چند ایک تاریخی واقعات کو بیان کیا گیا ہے جس کے ذریعے یہ بات واضح ہوجائے گی کہ جہد مسلسل اور عمل پیہم ہی انسان کے لئے کامیابی کے میدان مہیاکرتی ہے۔ اس کے برعکس لاپرواہی، غفلت شعاری، عیش کوشی اور آرام طلبی کی دنیا میں رہ کر ترقی و خوشحالی کو کبھی حاصل نہیں کیا جاسکتا۔

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی زندگیوں کو ہی لے لیں کہ جسانی اعتبار سے بالکل نحیف، جنگ کے وسائل و اسباب بھی پوری طرح میسر نہیں لیکن اس کے باوجود ایمان و اسلام سے وابستگی نے ان کے اندر وہ قوت و ہمت خوداعتمادی و خودشناسی کی وہ لہر پیدا کردی تھی کہ جس طرف رخ کرتے کامیابی ان کے قدم چومتی تھی۔ لوگ ان کے چاہنے والے بن جاتے تھے، جب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ایران و روم میں فاتحانہ شان کے ساتھ داخل ہوئے تو وہاں کے باشندوں نے ان کی خستہ حالی دیکھ کر یوں سمجھا کہ شاید ان کے پاس پہننے کو کپڑے نہیں۔ اگر انہیں کپڑے اور زندگی گزارنے کا کچھ سامان دے دو تو وہ یہاں سے الٹے پاؤں واپس چلے جائیں گے جبکہ اسی سادگی نے انہیں کامیابی کی راہ پر ڈال دیا تھا۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ پیادہ اور اپنے غلام کو اونٹ پر بٹھائے ہوئے خود نکیل تھامے ستر سے زائد پیوند لگے کپڑے پہنے جب بیت المقدس میں داخل ہونے لگے تو حضرت عبیدہ بن جراح گورنر شام نے ان سے کہا: اے امیرالمومنین! آپ تھوڑی دیر کے لئے ان پیوند زدہ کپڑوں کی بجائے میرے کپڑے پہن لیں یہ لوگ اچھا گمان نہیں کریں گے۔ اس موقع پر حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے جو جواب دیا وہ آب زر سے لکھنے کے قابل ہے کہ اللہ رب العزت نے ہمیں جو عزت دی ہے یہ عزت ہمیں اسلام کی بدولت ملی ہے نہ کہ ان قیمتی پوشاک سے

(الفاروق:155)

مزید یہ حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ کی شخصیت بھی اسلام کا جیتا جاگتا نمونہ ہے۔ جنہوں نے اپنے دور حکومت میں ہر اعتبار سے دور رسالت اور دور خلفائے راشدین کے عہد کی یاد تازہ کردی اور ان کو خلیفہ خامس کہا جاتا ہے۔ مولانا ابوالحسن ندوی لکھتے ہیں:

’’ایک قریشی کہتا ہے کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ کی مختصر مدت خلافت میں یہ حال ہوگیا تھا کہ لوگ بڑی بڑی رقمیں زکوۃ کے لئے لے کر آتے تھے کہ جس کو مناسب سمجھا جائے دے دیا جائے لیکن مجبوراً واپس کرنی پڑتی تھیں کہ کوئی لینے والا نہیں ملتا تھا‘‘۔

(تاریخ دعوت و عزیمت، 1:50)

ان ظاہری برکات کے علاوہ بڑا انقلاب یہ آیا کہ لوگوں کے رجحانات بدلنے لگے۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ کے زمانے میں نوافل اور ذکر و اذکار اور عبادات، گفتگو اور مجلسوں کا موضوع بن گیا جہاں چار آدمی جمع ہوتے تو ایک دوسرے سے پوچھتے کہ تمہارا رات کیا پڑھنے کا معمول ہے؟ تم نے کتنا قرآن ختم کیا؟ مہینے میں کتنے روزے رکھے؟ (تاریخ دعوت و عزیمت)

سلطان صلاح الدین ایوبی اور بیت المقدس کی بازیابی کا کارنامہ

صلاح الدین ایوبی اسلام کے وہ سپوت ہیں جنہوں نے 27 رجب 583ھ کو قبلہ اول بیت المقدس کی بازیابی کا وہ عظیم کارنامہ سرانجام دیا جس پر 90 برس سے صلیبی قابض چلے آرہے تھے۔ اللہ رب العزت نے ان سے یہ عظیم کام یوں ہی نہیں لیا بلکہ انہوں نے خود اپنے آپ کو ساری زندگی جوکھوں میں ڈال کر اپنے آپ کو اس عظیم خدمت کا اہل ثابت کروایا۔ اگر ان کی زندگی کا جائزہ لیں تو ان کی زندگی کا بیشتر حصہ مجاہدانہ اور سپاہیانہ طرز انداز میں گزرا۔ یہ صرف ایک ہر دلعزیز سپاہی، محبوب قائد اور سپہ سالار ہی نہ تھے بلکہ اعلیٰ تنظیمی قابلیت اور قائدانہ خصوصیت کے بھی مالک تھے۔ ہر وقت اسلام کی سربلندی کے حوالے سے متفکر رہتے تھے۔ صلاح الدین ایوبی کی مجاہدانہ زندگی پر روشنی ڈالتے ہوئے مولانا ابوالحسن ندوی یوں لکھتے ہیں:

قاضی ابن شداد کہتے ہیں: جہاد کی محبت اور جہاد کا عشق ان کے رگ و پے میں سماگیا اور ان کے قلب و دماغ پر چھاگیا، یہی ان کا موضوع گفتگوتھا، اسی کا ساز و سامان تیار کرتے رہتے تھے، اسی مطلب کے آدمیوں کی ان کو تلاش رہتی تھی، اسی کا ذکر کرنے والے اور اسی کی ترغیب دینے والے کی طرف متوجہ ہوتے۔ اسی جہاد فی سبیل اللہ کی خاطر انہوں نے اپنی اولاد اور اہل خانہ کو خیر باد کہا اور ایک خیمہ زن زندگی پر قناعت کی۔

(تاریخ دعوت و عزیمت، 2: 264، 263)

اگر صلاح الدین ایوبی کے کاموں میں سے صرف یہی کام دنیا کو معلوم ہوتا کہ کس نے یروشلم کو بازیاب کیا تو صرف یہی کارنامہ اس بات کو ثابت کرنے کے لئے کافی تھا کہ وہ نہ صرف بلکہ تمام زمانوں کا سب سے بڑا حوصلہ مند انسان اور جلالت و ہیبت میں یکتا اور بے مثل شخص تھا۔

(مسلمانوں کے عروج و زوال کا اثر: 172)

پھر آج بھی بیت المقدس اور اس کی سرزمین اس جیسے باحوصلہ، صاحب عزم، بیدار مغز قائد اور مجاہد کی منتظر ہے جو مسلمانوں کے اس قبلہ اول کو یہودیوں کے ناپاک خون و استبدادی پنجوں سے نکال کر اس کی سابقہ حالت پر لوٹادے۔ جب تک مسلمان جوان مردی کے جوہر دکھاتے رہے۔ پوری دنیا میں فتح و امتیاز کے ساتھ زندگی بسر کرتے رہے لیکن جب انہوں نے عیش پرستی اور تن کوشی کو اپنا شعار بنا لیا تو ذلت و پستی ان کا مقدر ٹھہری۔

مغلیہ دور کے عروج و زوال کی داستان

ہندوستان میں مغلیہ دور کی بنیاد 933 سے 1154 میں بابر کے ہاتھوں پڑی جس کے تخت پر یکے بعد دیگرے کئی طاقتور بادشاہ متمکن ہوئے۔ اسی سلطنت کے آخری بادشاہ اورنگ زیب عالمگیر تھے۔ جو اپنی امانتداری، نیک طبیعت، اپنے اوصاف عالیہ، فتوحات کی کثرت اور دائرہ اسلام کی وسعت کی وجہ سے پوری تاریخ میں امتیازی مقام رکھتے ہیں۔ انہوں نے 90 سال کی عمر پائی اور نہایت شان و شوکت اور طمطراق سے پچاس سال تک حکومت کی۔ ان کی وفات 1188 میں ہوئی۔ اس کی سلطنت کابل کندھار سے لے کر دکن تک تھی۔ اس وسیع و عریض سلطنت کی حکمرانی کے ساتھ شریعت کے تمام احکام و فرائض، سنن و نوافل اور اذکار اور تلاوت قرآن کے مکمل پابند تھے۔ فتاویٰ عالمگیری جس کو فقہ و فتاویٰ کی کتابوں میں ایک امتیازی شان حاصل ہے۔ یہ ان کی علم دوستی کا واضح ثبوت ہے۔ اورنگ زیب عالمگیر کی حکمرانی کا دور سلطنت مغلیہ کے عروج کا دور تھا۔ اس کے بعد تمام جانشین، سخت نااہل اور سست طبیعت تھے وہ یورپ کے خطرات کا پامردی سے مقابلہ نہ کرسکے۔ مولانا ابوالحسن ندوی رحمۃ اللہ علیہ مغلوں کے زوال اور ان کی شکست و ریخت کے بارے میں لکھتے ہیں:

ہندوستان میں مغل حکمرانوں نے جس شان و شوکت کے ساتھ حکومت کی ہے ہندوستان کی تاریخ میں اس کی نظیر نہیں ملتی۔ اس نے پورے برصغیر کو ایک سرے سے دوسرے سرے تک اپنے زیرنگیں کرلیا تھا لیکن جب اس مضبوط حکومت میں ضعف و پیروی کے آثارظاہر ہوئے تو امراء و ذمہ داران حکومت کی یہ حالت ہوگئی تھی کہ وہ تفریحات اور دل بہلانے والے کاموں میں مصروف تھے۔ وہ ہر وقت شان و شوکت اور عیش و نعم میں مشغول رہتے۔ ہندوستان کا مغل بادشاہ تو اپنی تفریحات اور تعیشات کی وجہ سے رنگیلے کے نام مشہور ہوگیا جس کی وجہ سے نادر شاہ نے اسے اپنی فوجی قوت کے ذریعے شکست دی۔

(عالم عربی کا المیہ: 144)

اس مضمون میں قوموں کے عروج و زوال کے چند واقعات کا ذکر کیا ہے جس سے یہ حقیقت واضح ہوئی ہے کہ قوموں کے عروج و ترقی کا دور وہ ہوتا ہے جب ان کا خون جواں ہوتا ہے۔ ان کے عزائم و ارادے بلند ہوتے ہیں وہ ہر موقع پر اپنی ہمت و جوانمردی کا ثبوت دیتے ہیں۔ ان کی ناکامی اس وقت شروع ہوتی ہے جب وہ رقص و سرود اور تعیشات و تفریحات اور انواع و اقسام کے کھانوں، شاندار لباس، عالیشان محلات میں کھو جاتے ہیں۔ لہذا قوموں کے عروج و زوال کے تاریخی واقعات سے آج کے مسلمان یہ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اپنی کمزوریوں اور نقائص کا ازالہ کرکے اپنی اپنی عظمت رفتہ کو دوبارہ بحال کیا جاسکتا ہے۔ آج مسلمانوں کو یہ شکوہ ہے کہ مسلمان صاحب اقتدار نہیں۔ اقتدار کو سیاستدانوں نے بزنس بنالیا ہے جو جتنا زیادہ انوسٹمنٹ کرے گا۔ اتنا فائدہ اٹھائے گا جبکہ اقتدار ایک مشکل چیز ہے۔ اہل اللہ نے کبھی اقتدار کی طلب نہیں بلکہ وہ سمجھتے تھے کہ یہ ایک بھاری ذمہ داری ہے۔ جس کے بارے میں ہم سے کل کو بازپرس ہوگئی۔ اگر کہیں کمی و کوتاہی ہوگی تو ہماری پکڑ ہوگی۔ وہ یہ سمجھتے تھے اقتدار کے میدان میں قدم رکھنا دراصل آگ اور پانی کے درمیان پھنسنے کے مترادف ہے۔ پس اس وقت اقتدار کے لئے ایسے مجاہدین و رجال کی ضرورت ہے جو دین و دنیا کے امتزاج کا حسین نمونہ پیش کرسکیں۔

بقول علامہ اقبال مسلمانوں کی کامیابی تب ہی ممکن ہے جب ان کے اندر ایسا شخص اقتدار میں ہو جو گفتار دلبرانہ رکھتا ہو، حسن اخلاق کا مالک ہو اور باطل طاقتوں سے ٹکرا کر انہیں مٹانے کا عمل جانتا ہو۔ اسلام اور توحید سے وابستگی کے نتیجے میں پیدا ہونے والی قوت اس کے سینے میں موجزن ہو پھر کامیابی اس ملک کا ضرور مقدر بنے گی۔

اے لا لہ کے وارث باقی نہیں ہے تجھ میں
گفتار دلبرانہ، کردار قاہرانہ

تیری نگاہ سے دل سینوں میں کانپتے تھے
کھویا گیا ہے تیرا جذب قلندرانہ

تبصرہ