شبِ برآت: اجتماعی توبہ کی رات - شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

وَتُوْبُوْا اِلَی اﷲِ جَمِيْعًا اَيُّهَ الْمُوْمِنُوْنَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ.(النور،24:31)

محترم مشائخ و علماء کرام، معزز خواتین و حضرات اور عزیزان گرامی قدر! اللہ رب العزت کا شکر ہے جس کی توفیق و عنایت سے ہم آج 15 شعبان المعظم کی اس مبارک رات میں جسے قرآن مجید نے لیلۃ المبارکۃ کے ساتھ تعبیر فرمایا اور جس رات میں اہم حکمت والے کاموں کی تقسیم فرمائی جاتی ہے۔ جس رات میں ملائکہ کو سال بھر کے امور سپرد کئے جاتے ہیں۔ جس رات میں لوگوں کے اعمال اللہ کے حضور پیش کئے جاتے ہیں۔ جس رات میں اللہ جل مجدہ اپنی شان رحمت اور اپنی شان قدرت کے ساتھ آسمان دنیا پر خود نزول اجلال فرماتا ہے اور اپنی رحمت، بخشش اور مغفرت کی خیرات لٹانے کے لئے روئے زمین پر غفلت کی نیند سونے والوں کو پکار، پکار کر بیدار فرماتا ہے اور خود پوچھتا ہے کہ ہے کوئی مجھ سے آج معافی مانگنے والا کہ میں اسے معاف کردوں، ہے آج مجھ سے کوئی توبہ کرنے والا کہ میں اس کی توبہ قبول کرلوں، ہے آج مجھ سے کوئی رحمت اور بخشش کی خیرات مانگنے والا کہ میں اس کی جھولیاں بخشش اور رحمت کی خیرات کے ساتھ بھردوں۔

آج اس مبارک رات میں رب ذوالجلال کی رحمت اس کے وعدہ کے مطابق جوبن پر ہے۔ اس کی بخشش و مغفرت جوبن پر ہے۔ ضرورت صرف اس امر کی ہے کہ ہمارے دلوں کی جھولیاں کھل جائیں۔ ہماری روحوں کے دامن اس کے حضور پھیل جائیں، ہماری آنکھیں برسات کی طرح برسنے لگیں، ہمارے ہاتھ اس کے حضور بے ساختہ اٹھیں، ہمارے دل سینوں میں اور پہلوئوں میں تڑپیں۔ آج رات ہم اپنے گناہوں کو یاد کریں، اپنی خطائوں کو یاد کریں، اپنی لغزشوں کو یاد کریں اور اپنی بندگی کی ٹوٹی پھوٹی پوجا لے کر اللہ رب العزت کے حضور سراپا سوال بن کر، سراپا التجا بن کر، سراپا التماس بن کر، سراپا بھکاری بن کر پیش ہوں۔ یقینا اس کی بخشش و مغفرت ہم گناہگار بندوں کو اپنے دامن میں چھپالے گی۔ اس کی رحمت ہمارے سروں پر سایہ فگن ہوگی اور کوئی شخص بھی اللہ جل مجدہ کی رحمتوں کے خزانوں سے اپنی جھولیاں، اپنی بساط کے مطابق بھرے بغیر واپس نہیں لوٹے گا اور کچھ بعید نہیں کہ آج رات اللہ کے بندوں کی آنکھوں سے گرتے ہوئے آنسو، لوگوں کے سینوں سے اٹھتی ہوئی آہیں اور صلوۃ التسبیح اور نماز و توبہ و استغفار کی شکل میں لوگوں کی جبینوں کے سجدے، لاکھوں کی تعداد میں اٹھے ہوئے ہاتھ اللہ کی بارگاہ میں شرف قبولیت پاجائیں، اللہ کی رحمت کو ہماری حالت زار پر ترس آجائے، اس کے دریائے رحمت میں طغیانی آجائے، اس کی دریائے بخشش و مغفرت میں تلاطم آجائے اور آسمانوں سے اس کی بخشش و رحمت کے دروازے کھل جائیں، رب کریم، رب رحیم، رب غفور، آج رات یہ ہم پر کرم کردے کہ اس زمین کو امن کی خیرات مل جائے۔ اے رب ذوالجلال، اے رب ذوالمنن والعطائ، اے رب ذوالکرم والسخائ، اے تاجدار کائنات کے رب، اے ہم گناہگاروں کے رب! آج ہم 15 شعبان المعظم کی مبارک ساعتوں میں توبہ کا ذکر کرتے ہیں، تیری رحمت کا ذکر کرتے ہیں، تیری بخشش کا ذکر کرتے ہیں، تیرے کرم کا ذکر کرتے ہیں، تیری عطاء کی بات کرتے ہیں، تیرے جودوسخا کی بات کرتے ہیں، تیری پکاروں کی بات کرتے ہیں۔ اس امید پر کہ تیری بخشش کے دروازے کھل جائیں گے۔ آج تیری رحمت کی برسات اس زمین پر برسے گی، جس سے آگ بجھ جائے گی، عداوتیں اور نفرتیں مٹ جائیں گی اور تیری رحمت کا پانی اس تپتی ہوئی آگ کو بجھاکر بالخصوص کراچی کو سکون اور امن عطا کردے گا اور کراچی میں رحمت کا سویرا طلوع ہوگا۔

عزیزان محترم! جو آیت کریمہ میں نے تلاوت کی اس کے چند الفاظ جس میں اللہ جل مجدہ نے اہل ایمان سے فرمایا: ’’اور تم سارے کے سارے مل کر اللہ کی بارگاہ میں توبہ کرو اے مومنو! تاکہ تم (ان احکام پر عمل پیرا ہوکر) فلاح پاجائو‘‘۔ آج اس رات کی اہمیت کیا ہے؟ توبہ تو ہم سب کرتے ہیں ہر کوئی جدا جدا کرتا ہے، روتا بھی ہر کوئی ہے التجائیں بھی سب کرتے ہیں مگر آج ہزاروں، لاکھوں فرزندان اسلام مل کر بیٹھے ہیں اللہ کے حضور توبہ کرنے کے لئے، گڑگڑانے کے لئے، اتنے آنسو اتنی آنکھوں سے جو بہیں گے خدا جانے کس کی آنکھ کا گرا ہوا آنسو اس بارگاہ میں قبول ہوجائے، خدا جانے کس کی آہیں اس بارگاہ میں قبول ہوجائیں اور اگر ایک آنسو بھی کسی کا قبول ہوگیا تو سب لوگ جو یہاں بیٹھے ہیں ان کی زندگیاں سنور جائیں گی۔

حدیث پاک میں آتا ہے کہ قیامت کا دن ہوگا ایک گناہگار کو اس کے حساب و کتاب کے بعد دوزخ میں پھینکے جانے کا فیصلہ سنادیا جائے گا جس پر ملائکہ اسے پکڑ کر دوزخ کے دروازے کی طرف لے کر چلیں گے۔ دوزخ کے دروازے پر پہنچ کر وہ ہر قسم کے واسطے دے گا اور اللہ کے حضور ہر قسم کی التجائیں کرے گا مگر فیصلہ صادر ہوچکا ہوگا۔ بالآخر سیدنا جبرائیل امین علیہ السلام کسی برتن میں کچھ پانی لائیں گے اور حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی بارگاہ اقدس میں پیش کرکے عرض کریں گے کہ حضور! دوزخ کی آگ کے شعلے اچھل رہے ہیں، لپک رہے ہیں، بڑے بلند ہورہے ہیں اور آج جو اس کے حقدار ہیں ان کا دوزخ کے شعولوں سے بچائو ممکن نہیں ہے۔ آپ اس پانی کو اس آگ پر چھڑکیں۔ جب حضور علیہ الصلوۃ والسلام وہ پانی چھڑیں گے تو وہ دوزخ کی آگ جو کسی واسطے سے بھی بجھ نہیں رہی ہوگی اس پر جب وہ چند بوندیں پانی کی گریں گی تو وہ بجھ جائے گی، پوچھا جائے گا حضور! یہ پانی کیا تھا؟ جس کے چند قطروں نے دوزخ کی اس آگ کے شعلوں کو بجھادیا؟ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم فرمائیں گے: ’’یہ میری امت کے گناہگاروں کے آنسو تھے‘‘۔ ان آنسوئوں نے دوزخ کے بلند ہوتے ہوئے شعلوں کو بجھادیا آج ہم اللہ کے حضور ان گناہگار آنکھوں کے وہی آنسو بہانا چاہتے ہیں۔

اللہ رب العزت نے فرمایا کہ تم سب مل کر توبہ کرو تاکہ اتنی کثرت کے ساتھ آنسو بہیں، اتنی کثرت کے ساتھ چیخ و پکار اللہ کے حضور ہوکہ پھر اس کی ذات اور اس کی رحمت کو ترس آہی جائے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے معمولات کے بارے میں حدیث پاک میں آتا ہے:

یہی 15شعبان المعظم کی رات ہے۔ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ اچانک دیکھتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا بستر خالی ہے۔ دائیں بائیں نظر دوڑاتی ہیں مگر آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم حجرہ مبارک میں کہیں دکھائی نہیں دے رہے، اسی پریشانی میں آقا علیہ السلام کی تلاش میں نکل کھڑی ہوتی ہیں اور تلاش کرتے کرتے جنت البقیع میں چلی جاتی ہیں جہاں مومنین اور مومنات کی قبریں ہیں اور دیکھتی ہیں کہ آقا علیہ السلام اس کے ایک کونے میں اللہ کے حضور سجدہ ریز ہیں اور رو رو کر اللہ کے حضور اپنی امت کی بخشش و مغفرت کے لئے دعائیں کررہے ہیں پھر وہ پلٹ آتی ہیں آقا علیہ السلام سے پوچھا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا یہ 15 شعبان المعظم کی مبارک رات وہ رات ہے کہ جو شخص اس میں اللہ کے حضور رو کر اپنے گناہوں کی معافی مانگے، کچھ سجدے اللہ کے حضور نظر کرے، توبہ و استغفار کرے تو اللہ رب العزت اس کی زندگی بھر کے گناہ معاف فرمادیتا ہے۔ اس رات کے دامن کو یہ سعادت حاصل ہے کہ اس رات کو اور لیلۃ القدر کو یکبارگی قرآن پاک کے نزول کا شرف حاصل ہے۔ آقا علیہ السلام کے معمولات میں سے تھا کہ رات کے اندھیروں میں اٹھ جاتے تھے۔ اللہ کے حضور عبادت کرتے اور اس قدر روتے کہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ریش مبارک آنسوئوں کے ساتھ تر ہوجاتی تھی۔

صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی متفق علیہ حدیث میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں کہ میں ہر روز اللہ کے حضور 100 مرتبہ توبہ کرتا ہوں۔ ایک اور حدیث میں ہے کہ 70 مرتبہ استغفار کرتا ہوں۔ خشیت الہٰی کا یہ عالم آقا علیہ السلام کی زندگی میں اس قدر تھا کہ وہ ذات جس کی زندگی میں گناہ کا کوئی تصور و امکان ہی نہیں ہے۔ یہ وہ معصوم ذات ہے جن کے وجود پاک اور جن کے قدموں کے تصدق سے لوگوں کو نیکی کی سعادت، تقویٰ اور طہارت نصیب ہورہی ہے۔ گناہ جس معصوم ذات کی زندگی کے قریب بھی آنے کا تصور نہیں کرتا، وہ ذات رات بھر کھڑے ہوکر اللہ کے حضور رو رو کر استغفار کرتی ہے، توبہ کرتی ہے اور اس قدر مشقت اٹھاتی ہے کہ آپ کے قدمین شریفین متورم ہوجاتے۔ صحابہ کرام عرض کرتے ہیں یارسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم ! آپ کے تو اللہ پاک نے گناہ معاف فرمادیئے ہیں۔ آپ کو تو معصوم بنایا ہے۔ آپ کی زندگی کے دامن میں تو کوئی گناہ کا دھبہ نہیں بلکہ اس کا امکان تک بھی نہیں ہے پھر ساری رات کھڑے ہوکر اپنے مبارک قدموں کو متورم کرلینا، اتنی مشقت اٹھانا، اتنی ریاضت کرنا، اتنا مجاہدہ کرنا اس کی ضرورت کیا ہے؟

آقا علیہ السلام فرماتے ہیں کہ اللہ کی یہ رحمتیں اور نعمتیں بجا مگر کیا میں اللہ کا شکر گزار بندہ نہ بنوں؟ ایک صحابی کہتے ہیں کہ میں رات کو آقا علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا۔ حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم رات کے اندھیرے میں مصلے پر کھڑے ہوکر نوافل ادا کررہے تھے اور زارو قطار چشمان مقدس سے آنسو رواں تھے۔ اتنے آنسو رواں تھے کہ ریش مبارک ساری تر ہوگئی تھی اور اللہ کے حضور روکر عشق الہٰی اور خوف الہٰی اتنا جوش مار رہا تھا کہ سینہ اقدس سے حضور کے رونے کی آواز اس طرح آرہی تھی جس طرح آگ پر رکھی ہنڈیا میں پانی ابل رہا ہو، ہنڈیا کے پانی کے ابلنے کی طرح سینہ پاک سے عشق الہٰی اور خوف الہٰی کی کیفیت جوش میں تھی اور حضرت عائشہ صدیقہ فرماتی ہیں کہ جب اذان کی آواز آتی اور اللہ کے حضور عبادت کے لئے بلاوا آتا تو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے چہرہ اقدس کا رنگ متغیر ہونا شروع ہوجاتا، کیفیت بدلنے لگتی، حال تبدیل ہونا شروع ہوتا، آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم وضو کرکے مصلی پر آتے، نماز کے لئے کھڑے ہوتے تو کیفیت بدل جاتی اور چشمان اقدس کا حال یہ ہوجاتا کہ اس لمحے حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم ہمیں بھی پہچاننے کے قابل نہ رہتے۔ ہم اگر سامنے ہوتے تو حضور پہچان نہ سکتے۔ اللہ کے حضور پیش ہوتے وقت آقا صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی خشیت کی کیفیت یہ ہوتی کہ حضرت عائشہ صدیقہؓ فرمارہی ہیں کہ مجھے بھی پہچان نہ سکتے تھے۔ یہ کیفیت تھی خوف الہٰی کی، یہ کیفیت تھی خشیت الہٰی کی، ان کی جو معصوم تھے، جو ساری امت کی بخشش و مغفرت کا باعث تھے، جو ساری کائنات کے گناہگاروں کو شفاعت کی خیرات لٹانے والے تھے۔

ایک طرف ہم ہیں کہ ساری زندگی کا ایک ایک لمحہ غفلت کی نظر ہورہا ہے، ہم اللہ کو بھول چکے ہیں، اسے فراموش کرچکے ہیں، ہم نے اللہ کی بندگی کا طوق گلے سے اتار دیا ہے۔ ہماری جبینیں اللہ کے حضور سجدوں ناآشنا ہوگئیں، دل عشق الہٰی میں تڑپنے سے ناآشنا ہوگئے، سینے خوف الہٰی کی کیفیات سے ناآشنا ہوگئے، راتیں غفلتوں کی نظر ہوگئیں، دن اللہ کی نافرمانیوں کی نظر ہوگئے، آنکھیں اللہ کے حضور آنسوئوں اور نمیوں سے ناآشنا ہوگئیں اور پھر ہم یہ تصور کرتے ہیں کہ ہم اللہ کے مقرب بندوں جیسی رحمتوں اور نعمتوں کے حقدار ٹھہرائے جائیں۔ دوستو! حضرت یحییٰ علیہ السلام جو حضرت زکریا علیہ السلام کے صاحبزادے تھے، برگزیدہ نبی تھے (ان کے بچپن کی بات عرض کررہا ہوں) ایک معصوم نبی ہیں اور پھر معصوم عمر بچپن کا زمانہ ہے۔ صرف 6,5 برس کی عمر ہے جس عمر میں گناہ کا تصور بھی کسی انسان کو نہیں ہوتا، جس عمر میں توبہ اور معافی کا تصور بھی کسی کو نہیں ہوتا۔ عمر کے اس دور میں حضرت یحییٰ علیہ السلام کی کیفیت یہ تھی کہ جنگلوں میں چلے جاتے، صحرائوں میں چلے جاتے، پہاڑوں میں چلے جاتے اور کئی کئی دن، کئی کئی راتیں کھائے پیئے بغیر سجدے میں گر کر اللہ کے حضور رونے میں بسر کردیتے تھے۔ ماہی بے آب کی طرح تڑپتے، آنکھوں سے آنسوئوں کی برسات بہتی۔

ایک مرتبہ جب کئی دن گزر گئے اور گھر نہ آئے تو آپ کی والدہ ماجدہ آپ کو تلاش کرتے کرتے ایک پہاڑ کی غار میں جا پہنچیں۔ والدہ ماجدہ کے قدموں کی آہٹ سن کر انہوں نے سر اٹھایا مگر ہر وقت چونکہ موت اور اللہ کے حضور پیش ہونے کا خیال تھا لہذا یہ سمجھا کہ شاید ملک الموت میری روح قبض کرنے کے لئے آگیا ہے۔ سر اٹھایا اور فرمانے لگے! ایسے لگتا ہے کہ ملک الموت کہیں تو میری روح قبض کرنے کے لئے آگیا ہے اور آنے والے! اگر تو ملک الموت ہے تو ٹھہر جا! میں آخر میں اپنی والدہ کی خدمت میں جاکر سلام عرض کرلوں اور والدہ سے دعائیں لے لوں پھر میری روح قبض کرلینا۔ اتنے میں کان میں آواز آتی ہے بیٹا میں تو خود تیری والدہ ہوں جو تیری تلاش میں ادھر آنکلی ہوں، کئی دن سے تو کھانا پینا بھول گیا ہے، بیٹے ذرا ماں کی ممتا کو تو دیکھ۔ اے یحییٰ! تیری 5 برس کی عمر ہے اور تو رو رو کر التجا کررہا ہے کہ باری تعالیٰ میرے گناہ معاف فرما، باری تعالیٰ میری توبہ قبول فرما، باری تعالیٰ مجھے جہنم کی آگ سے نجات دے دے۔ باری تعالیٰ قیامت کے دن مجھ سے سخت گرفت نہ فرمانا، بیٹے یحییٰ اس چھوٹی سی معصوم عمر میں تو کن گناہوں کی بات کرتا ہے، کس دوزخ کی بات کرتا ہے، اللہ کے خوف میں تیرا کھانا، پینا چھوٹ گیا، اللہ کے خوف میں تیری نیند اچاٹ ہوگئی، اللہ کے خوف میں تیری زندگی آرام سے خالی ہوگئی۔ اللہ کے خوف میں تجھے بستربھول گیا ہے۔ اس عمر میں تو بچے بستر پر آرام کی نیند سوتے ہیں، اس عمر میں بچوں کو تو مرنے کا تصور بھی نہیں ہوتا، اس عمر میں بچوں کو دوزخ کا تصور نہیں ہوتا، یحییٰ تیری یہ کیفیت کیوں ہوگئی؟ آج 7 واں دن ہے تو کھانا پینا چھوڑ کر پہاڑوں کی غاروں میں روئے جارہا ہے۔ کسی کو خبر نہیں یحییٰ (علیہ السلام) کہاں ہیں؟ تلاش کرتے کرتے ایک چرواہا نظر آیا اس کے ساتھ کچھ بکریاں تھیں اس چرواہے سے پوچھا کہ چرواہے! ادھر کہیں میرا بیٹا یحییٰ (علیہ السلام) روتا ہوا نظر آیا ہو، کہیں تو نے اسے دیکھا ہو، کئی دن گزر گئے آج وہ پلٹ کر گھر نہیں آیا۔ چرواہے نے کہا کہ مجھے یحییٰ (علیہ السلام) کی تو خبر نہیں صرف اتنا جانتا ہوں کہ آج کئی دن سے اس غار میں کسی معصوم بچے کے رونے کی آواز آتی ہے، دن رات وہ مسلسل رو رہا ہے۔ آج چوتھے دن سے اس کے رونے اور آہ و زاری اور چیخ پکار کی درد ناک آواز سن کر میری بکریوں نے بھی کھانا پینا چھوڑ دیا ہے۔ میری بکریوں کی آنکھوں سے آنسو بہتے رہتے ہیں۔ خدا جانے نماز میں اس درد کے ساتھ رونے والا گناہگار کون ہے؟ وہ سمجھ گئیں کہ اس درد بھری آواز میں رونے والا یحییٰ (علیہ السلام) کے سوا اور کون بچہ ہوسکتا ہے؟ قریب گئیں تو وہ حضرت یحییٰ علیہ السلام تھے۔ جب اٹھے تو ماں نے فرمایا: بیٹے گھر چلو تو کیوں روتا ہے؟ فرمانے لگے: امی جان! کیا آپ مجھ سے یہ وعدہ کرتی ہیں کہ اگر قیامت کے دن میری گرفت ہوئی اور دوزخ کا فیصلہ سنادیا گیا تو آپ مجھے بچالیں گی۔ والدہ ماجدہ نے فرمایا: بیٹا میں تو دوزخ سے اور قیامت کی گرفت سے بچانے کا وعدہ نہیں کرسکتی۔ فرمایا امی جان! اگر آپ اس دن مجھے چھڑوانے کا وعدہ نہیں کرسکتیں تو آج رونا کیوں چھڑاتی ہیں؟ پھر مجھے جی بھر کے رو لینے دیں۔

حضرت یحییٰ علیہ السلام کا اللہ کے خوف خشیت میں رونے کا یہ عالم تھا کہ آپ کے والد گرامی حضرت زکریا علیہ السلام اپنے خطابات کے دوران جب حضرت یحییٰ کو موجود دیکھتے تو خوف الہٰی کے مضمون کو بیان نہ کرتے تھے اور جب دیکھتے وہ موجود نہیں تب لوگوں کو یہ مضمون سناتے تھے اور ادھر حضرت یحییٰ علیہ السلام کی کیفیت یہ تھی کہ اللہ کے خوف کا ذکر سننے میں لذت کا یہ عالم ہوتا کہ چھوٹے سے بچے تھے اور ستونوں کے پیچھے چھپ کر کھڑے ہوجاتے کہ میرے والد گرامی وہ مضمون بیان کریں اور میں سن لوں۔ ایک روز ستون کے پیچھے چھپ کر کھڑے ہیں۔ حضرت زکریا علیہ السلام نے سمجھا کہ شاید یحییٰ علیہ السلام یہاں موجود نہیں ہیں۔ یہ خیال کرکے آپ نے خوف الہٰی کا جو مضمون بیان کیا ابھی چند کلمات ارشاد فرمائے تھے کہ ایک چیخ نکلی اور بے ہوش ہوکر زمین پر گر پڑے۔ حضرت زکریا علیہ السلام سمجھ گئے کہ میرے بیٹے یحییٰ موجود تھے۔ اٹھا کر گھر لائے چارپائی پر لٹایا اور 6,5 دن کھائے پئے بغیر بے ہوشی کی حالت میں رہے۔ ہوش میں آئے پھر جنگلوں کی طرف چلے گئے۔

دوستو!وہ لوگ جن کا اللہ کے ساتھ ایک تعلق استوار ہوگیا تھا، جنہوں نے اپنے اندر اللہ کی بندگی کے شعور کو بیدار کرلیا تھا، جنہوں نے اپنے اندر عشق الہٰی کی شمع جلالی تھی، جنہوں نے اپنے من کو محبت الہٰی سے آباد کرلیا تھا، جنہوں نے اپنی روح کو خشیت الہٰی کی لذت اور حلاوت و چاشنی سے آشنا کرلیا تھا۔ ان کی کیفیت تو یہ تھی کہ آنکھیں روتے روتے تھمتی نہ تھیں اور کہاں ہم دنیا کے حرص ولالچ میں برباد ہوجانے والے، زرپرستی، ہوس پرستی، نفس پرستی، جاہ و منصب اور دنیا طلبی کے جہنم میں اپنے آپ کو گرا کر تباہ کرلینے والے، جنہوں نے اپنے چہرے اللہ تعالیٰ سے پھیر لئے، خشیت الہٰی کا تصور ہماری زندگیوں میں باقی نہ رہا، توبہ کے تصور اور خوف الہٰی سے ہماری زندگیاں خالی ہوگئیں۔ ہماری آنکھیں اللہ کے حضور پرنم ہونے سے ناآشنا ہوگئیں۔ ہم فرعونیت کا بت بن کر، تمکنت کا بت بن کر، غرور و تکبر کا بت بن کر، حسد کا بت بن کر، جاہ طلبی کا بت بن کر، رعونت کا بت بن کر اللہ کی زمین پر اکڑ کر چلتے ہیں، کسی کو مال و دولت کا غرور ہے، کسی کو جاہ و منصب کی تمکنت ہے، کسی کو دنیا کا غرور اور نشہ ہے اور ہم بھول گئے کہ قیامت کے دن اگر اللہ کی رحمت نے ہم سے منہ پھیر لیا اور یہ آواز آگئی کہ اے متکبر و مغرور بندے! زندگی میں مجھے بھولنے والے بندے! آج رب کی رحمت تمہیں بھولتی ہے تو ہمارا حشر کیا ہوگا؟ ہماری کیفیت کیا ہوگی؟

سیدنا امام زین العابدین حج کے سفر پر آتے ہیں، گھوڑے پر سوار ہوتے ہیں، احرام باندھتے ہیں، سفر پر روانہ ہوتے ہیں اور اپنی زبان سے بآواز بلند کہتے ہیں لبیک اللہم لبیک، ’’حاضر ہوں میرے اللہ میں حاضر ہوں‘‘۔ لبیک لا شریک لک لبیک ان الحمد والنعمۃ لک والملک لا شریک لک۔ ان کلمات کے لئے زبان کھولتے ہیں پہلا لفظ زبان سے نکلتا ہے ’’لبیک‘‘ سیدنا امام زین العابدین جن کی پیشانی پر سجدے بھی فخر کرتے ہوں گے، جن کے آنسوئوں پر اطاعت فخر کرتی ہوگی، جو سجدوں کی زینت، جو عبادت کی زینت، جو زہد کی زینت، جو ورع کی زینت، جو تقویٰ کی زینت، جو عبادت گزاروں کی زینت، جونہی زبان سے لفظ لبیک نکلا تو ساتھ ہی ایک چیخ نکلی اور بے ہوش ہوکر گر پڑے اور تین دن حضرت امام زین العابدین کو ہوش نہیں آیا۔ مناسک رہ گئے، جب ہوش میں آئے، لوگوں نے پوچھا: امام عالی مقام آپ کے ساتھ کیا ہوا؟ فرمانے لگے! جب میں اللہ کے حضور آیا اور میں نے عرض کیا لبیک ’’اے اللہ میں حاضر ہوں‘‘ تو مجھے اپنے گناہ یاد آگئے، اپنی نافرمانیوں پر نظر پڑگئی اور یہ خیال آیا کہ علی (آپ کا نام چونکہ علی اوسط تھا) تو اللہ کے حضور تو پیش ہوکر عرض کررہا ہے لبیک میں حاضر ہوں مگر تیری نافرمانیوں کو دیکھ کر اگر اللہ کی بارگاہ سے یہ جواب آگیا کہ جا تیرا آنا ہم قبول نہیں کرتے تو پھر کیا کہے گا؟ بس اتنا خیال آنے کی دیر تھی کہ چیخ نکلی اور بے ہوش ہوکر گر پڑا۔ پھر یہی امام زین العابدین ہیں۔ کعبہ کا صحن ہے۔ لوگ اللہ کے گھر کا طواف کرنے میں مصروف ہیں پچھلی رات کا وقت ہے۔ لوگ دیکھتے ہیں کہ کوئی جوان چہرے پر نقاب اوڑھے ہوئے مقام ملتزم پر کھڑا ہے اور کعبہ کا غلاف ہاتھ میں تھامے ہوئے رو رہا ہے اور عرض کررہا ہے کہ باری تعالیٰ! مجھے معاف کردے! میرے گناہ اتنے ہیں کہ تیری ساری کائنات میں ریت اور مٹی کے اتنے ذرے نہیں، میرے گناہ اتنے ہیں کہ تیری ساری کائنات کے سمندروں میں پانی کے اتنے قطرے نہیں، میرے گناہ اتنے ہیں کہ تیری پوری زمین پر اتنے پتے نہیں، تیری کائنات میں اتنی وسعتیں نہیں، تیری ساری زمین پر مجھ سے بڑھ کر کوئی گناہگار نہیں، مجھ سے بڑھ کر کوئی نافرمان نہیں، مجھ سے بڑھ کر خطاکار کوئی نہیں، میری زندگی کے دن تیری نافرمانی میں بیتے، راتیں نافرمانی میں بیتیں اور تو اگر مجھے جہنم میں ڈال دے تو تیرے سارے دوزخ مل کر بھی اے اللہ میرے گناہوں پر مجھے جلانے کا حق ادا نہیں کرسکتے۔ اے اللہ! تو میری خطائوں کو معاف کردے اتنی درد بھری آواز سے وہ شخص رو رہا تھا کہ ساری رات گریہ زاری میں بیت گئی، آنسو گرتے رہے، آہیں بلند ہوتی رہیں، سسکیاں بلند ہوتی رہیں، کعبہ کی فضائیں اس جوان کی سسکیوں سے معمور ہوتی رہیں اور ساری رات وہ شخص اپنے گناہوں کا نام لے لے کر، نافرمانیوں کی بات کرکر کے اتنا رویا کہ طواف کرنے والوں کے قدم تھم گئے، لوگ طواف کعبہ بھول گئے، لوگوں کی اپنی عبادتیں اور دعائیں بھول گئیں اور بہت سے لوگوں نے طواف چھوڑ کر جوان کو پکڑ لیا اور آکر کہا اے گناہگار جوان! لگتا ہے کہ تیرے جیسا اس پوری دنیا میں کوئی گناہگار نہیں، تیرے رونے سے اندازہ ہوتا ہے کہ زمین پر تجھ سے زیادہ کوئی گناہگار نہیں، تو کوئی بڑے گناہ کرکے آیا ہے، بڑی نافرمانیاں کرکے آیا ہے۔

اے گناہگار نوجوان! اب رونا بند کر ہمارے جگر پھٹنے کو ہیں۔ ہم سب مل کر تیرے لئے اللہ کے حضور سفارش کرتے ہیں کہ وہ تیرے گناہ معاف کردے۔ انہوں نے کہا اے مولا! ہم سارے تیری بارگاہ میں دعا کرتے ہیں ہماری سفارش قببول کر، ہمارے طواف اور دعائوں کے صدقے اس جوان کے گناہ معاف کردے مگر جوں جوں لوگ سفارش کرتے اس کی گریہ و زاری اور تڑپنا بڑھتا چلاجاتا۔ لوگوں نے اسے اٹھایا اور کہا کہ اے جوان! خدا کے لئے چہرے سے پردہ تو ہٹائو ہمیں دکھائو تو اپنا چہرہ تاکہ پتہ تو چلے کہ اتنا بڑا گناہگار جسے اللہ کے گھر آکر بھی اپنی بخشش کی امید نہیں ہے وہ ہے کون؟ جب چہرے سے پردہ ہٹایا تو لوگ غش کھاگئے کہ وہ حضرت امام زین العابدین تھے جن کی ساری زندگی اللہ کے حضور رونے میں بیت گئی۔ لہذا وہ لوگ! جن سے ہمیں عبادت کا تصور ملا، جن سے ہمیں آہ و زاری کا درس ملا، ان کے رونے تڑپنے کا عالم یہ ہے۔ توبہ کرنے کا ڈھنگ وہ جانتے تھے، اللہ سے معافی مانگنے کا سلیقہ وہ جانتے تھے، خشیت، رقت، گریہ زاری معافی طلب کرنے کا حق تو وہ ادا کرتے تھے۔ جیسے ساری رات رو کر اور ساری رات عبادت کرکے آقا علیہ الصلوۃ والسلام کی زبان اقدس سے پھر یہ نکلتا۔

ما عبدنک حق عبادتک.

’’مولا تیری عبادت کا حق ادا نہیں ہوسکا‘‘۔

امام اعظم حضرت ابو حنیفہ شریعت اور فقہ و علم کے امام۔ نماز عشاء پڑھ کر فارغ ہوئے گھر گئے اور کپڑے بدل کر اور غلامانہ لباس پہن کر تھوڑی دیر کے بعد پھر آگئے اور مسجد کے کونے میں کھڑے ہوگئے۔ چراغ جل رہا تھا وہ جلتا رہا اور ایک شخص چھپ کر دیکھتا رہا کہ امام اعظم ابوحنیفہ قال اللہ وقال الرسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم پڑھاتے، اللہ کا دین پھیلاتے اور وعظ کرتے دن تو دیکھے ہیں آج ابوحنیفہ کی راتیں بھی دیکھیں کہ کیسے بسر ہوتی ہیں؟ ایک طرف چھپ کر دیکھا امام اعظم ابوحنیفہ کے ہاتھ آپ کی داڑھی مبارک پر ہیں۔ عشاء سے لے کر فجر تک اپنی داڑھی تھام کر کھینچ کر اللہ کے حضور التجاء کرکے کہتے رہے اے مولا! ابوحنیفہ بڑا گناہگار ہے، اس کے پاس کوئی نیکی، کوئی عبادت نہیں جو تیرے حضور پیش کرسکے تو اس داڑھی کا حیاء رکھ لینا اور رو رو کر غش کھاکر گر جاتے اور جب ہوش آتا تو زبان سے یہی جملہ ادا ہوتا کہ اگر ابوحنیفہ بخشا گیا تو بڑے تعجب کی بات ہوگی؟ اس طرح جب فجر کا وقت آگیا تو ایک شخص (موذن) قریب آیا تو آپ نے سمجھا کہ شاید نماز عشاء پڑھ کر یہ گھر جانے کے لئے چراغ اٹھانے آیا ہے۔ آپ متوجہ ہوئے اور پوچھا اپنا چراغ اٹھانے آئے ہو۔ اس نے کہا کہ اب تو رات بیت گئی ہے اور فجر ہوگئی۔ چراغ اٹھانے کے لئے نہیں چراغ بجھانے کے لئے آیا ہوں۔ پھر انہوں نے کہا کہ جو کچھ تو نے دیکھا اس کا کسی سے ذکر نہ کرنا۔ لوگو! اللہ کے حضور بندگی تو وہ ہے جو ان لوگوں نے ادا کی۔

حضرت بابا فریدالدین گنج شکر بیان فرماتے ہیں کہ ایک ولی اللہ جو نہایت متقی اور عبادت گزار تھا کی جوانی کے عالم میں موت واقع ہوگئی۔ ایسا عاشق صادق تھا کہ جس کی ساری جوانی اللہ کی بارگاہ میں تڑپتے اور روتے گزر گئی۔ خشیت الہٰی میں رو رو کر پتلا ٹہنی کی طرح ہوگیا تھا۔ دن بھر اللہ کے حضور روتا اور عبادت کرتا رہتا اور جب رات ہوتی تو کمرے میں جاتا چھت کے ساتھ ایک رسی لٹکی ہوئی تھی اسے اپنے گلے میں ڈالتا اور اللہ کے حضور ساری رات ایک غلام بن کر پھانسی کا سا پھندہ گلے میں ڈال کر روتا، سجدہ ریز ہوتا اور جب کبھی اونگھ آتی تو اس پھندے کی وجہ سے آنکھ کھل جاتی، ساری جوانی، ساری عمر، سارے دن، ساری راتیں اللہ کے حضور اس طرح شان غلامی کے ساتھ بیت گئے۔ جب وفات کا وقت قریب آیا تو اپنی والدہ ماجدہ سے عرض کیا کہ امی جان! میں اللہ کا بڑا نافرمان بندہ تھا، عمر بھر اللہ کی بندگی سے بھاگا رہا، عبادت سے دور رہا، اب میری موت کا وقت قریب آرہا ہے، مجھے ڈر ہے کہ میرا حشر نہ جانے کیا ہوگا؟ امی جان! میری تین درخواستیں ہیں وہ پوری کردینا۔ والدہ نے کہا بیٹا پوری کردوں گی بولو کیا ہیں؟ عرض کیا: امی جان! جب مرجائوں اور میری روح قفس عنصری سے پرواز کرجائے تو میرے گلے میں وہی رسی کا پھندہ ڈال دینا اور گھر کے صحن میں میری لاش کو گھسیٹ کر چاروں طرف گھمانا اور بلند آواز سے کہنا لوگو! اللہ کے نافرمانوں کا حال یہ ہوتا ہے اور خدا کی بندگی سے بھاگنے والوں کی موت اس طرح ہوتی ہے۔ دوسری درخواست یہ کہ جب مرجائوں تو میرا جنازہ رات کے اندھیرے میں اٹھانا کہ دیکھنے والے میرے جنازے کو دیکھ کر کہیں طعنہ نہ دیں کہ گناہگار کا جنازہ جارہا ہے اور تیسری بات جب مجھے قبر میں دفن کردیا جائے تو مجھے علم ہے عذاب ہوگا لہذا میری ماں میری قبر پر کچھ دیر کھڑے رہنا کہ شاید بخشا نہ جائوں تو ممکن ہے آپ کے قدم کے طفیل میرا مولا مجھے معاف فرمادے۔

والدہ نے وعدہ کرلیا حضرت بابا فریدالدین گنج شکر فرماتے ہیں کہ جب اس کا انتقال ہوگیا تو بادل نخواستہ والدہ نے وعدہ کو نبھانے کے لئے رسی لے کر اپنے اس جوان بیٹے کی میت کے گلے میں ڈالنے ہی والی تھیں کہ ہاتف غیبی سے آواز آئی اے نیک خاتون ہٹ جا! تمہیں کیا خبر یہ تو ہمارا عاشق تھا، یہ تو ہمارا دوست تھا۔ ادھر اس کی روح جسم سے نکلی ادھر عرش پر ہم نے اس کو قبول کرلیا اور اللہ کے عاشقوں اور دوستوں کا عالم بڑا پیارا ہوتا ہے۔

دوستو! وہ لوگ جن کے اندر اللہ کی بندگی اور اللہ کے تعلق کی معرفت پیدا ہوگئی تھی ان کے دن، ان کی راتیں، اللہ کے حضور روتے تڑپتے بیت جاتی تھیں۔ ان کو تو رونے کے سوا کوئی اور چارہ نہ تھا۔ یہی رونا ان کی توبہ تھی، یہی رونا ان کی عبادت تھی، یہی رونا ان کی التجاء تھی، یہی رونا ان کی دعا تھی اور اللہ کے حضور ساری زندگی کا ایک ایک لمحہ وہ اس طرح رونے دھونے میں بسر کرتے تھے۔ مگر آج ہم اس رونے والی آنکھ سے محروم ہوگئے، جب سے ہم رونے والی آنکھ سے محروم ہوئے اللہ سے ہمارا تعلق ٹوٹ گیا۔ لہذا دنیا کے گورکھ دھندوں میں اپنے آپ کو تباہ کرنے والو! اور اس محبت کرنے والے رب سے منہ موڑنے والو! ہم ذرا اپنا حال بھی دیکھیں اور اس رب کریم کا حال بھی دیکھیں۔

حضرت دائود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ جب اندھیرا چھا جاتا اور ہم بستر پر غفلت کی نیند سوجاتے ہیں تو رب کریم کی آواز آتی ہے کہ میرے بندے، میری محبت کا دم بھرنے والے! دیکھ میں تمہیں یاد کررہا ہوں اور تو غفلت کی نیند سورہا ہے۔ حضرت بابا فرید فرماتے ہیں کہ

اٹھ فریدا ستیا تو جھاڑو دے مسیت تو ستّا او جاگدا تیری ڈاڈے نال پریت

دوستو! ہم اللہ کے بندے ہوکر غفلت کی نیند سوئیں اور محبت کرنے والا رب آوازیں دے اور وہ پوچھے کہ ہے کوئی مجھ سے معافی مانگنے والا کہ میں معاف کردوں، ہے کوئی مجھ سے بخشش کی خیرات طلب کرنے والا کہ میں خیرات سے اس کی جھولی بھردوں۔ ہے کوئی مجھ سے گناہوں کی معافی طلب کرنے والا کہ میں اس کے گناہ معاف کردوں۔ ہم کتنے ظالم ہیں کہ سارا دن دنیا طلبی میں بیت جائے، رات آئے اور ہم آرام کی نیند سوجائیں۔ ہم کس طرف جارہے ہیں؟ آج سوچنے کی رات ہے۔ اپنے گریبان پکڑ کر جھنجھوڑو ہم کیا یہ چہرہ لے کر خدا کے حضور ہم پیش ہوں گے؟ ہمارے آقا تو رات بھر عبادت کرتے کرتے اپنے قدمین شریفین متورم کرلیں اور ہم جن کی زندگی کا لمحہ لمحہ گناہوں سے لت پت ہے ہم نے راتوں کو جاگ کر اللہ سے دو باتیں بھی کرنا چھوڑ دیں۔ رات کی گھڑیاں اللہ سے تعلق جوڑنے کے لئے بڑی مفید گھڑیاں ہیں۔ حدیث پاک میں آتا ہے:

جب رات ڈھلتی جاتی ہے اور پچھلا پہر آتا ہے تو رب کریم اپنی رحمت اور قدرت کی شان سے آسمان دنیا پر اتر آتا ہے اور آواز دیتا ہے میرے بندو! مانگ لو مجھ سے، میری عطا تمہاری جھولی میں آنے کو ہے۔

ہماری بندگی اس وقت تک بندگی نہیں ہے جب تک کم از کم ہم یہ تہیہ نہ کریں کہ ہم رات کی چند گھڑیاں اللہ کے حضور سجدہ ریز ہوکر رونے دھونے میں نہ گزار دیں۔ آج کی رات ہمیں اللہ کے حضور توبہ کرنی ہے۔ اپنے گناہوں پر معافی مانگنی ہے اور یہ عہد کرنا ہے کہ اے مولا! آج ہم تیری ذات سے اپنا تجدید بندگی کرتے ہیں۔ آج ہمیں منافقت، دجل و فریب سے توبہ کرنی ہے۔ ہم اللہ کی مخلوق پر ظلم کرتے ہیں۔ مسلمان مسلمان کا گلا کاٹ رہا ہے مسلمان کی گولی سے مسلمان کا سینہ چھلنی ہورہا ہے۔ مسلمان مسلمان کو ذبح کررہا ہے۔ ہم نہ اللہ کا حق ادا کررہے ہیں اور نہ اللہ کی مخلوق کا حق ادا کررہے ہیں۔ ہمارا پیار پیسے، کوٹھیوں، مال و دولت، جاہ و منصب، زر دنیا، دنیا کی مختلف نعمتوں اور آسائشوں سے ہے مگر آئو آج اپنے پیار کی جھوٹی دنیا سے نکل کر اپنے پیار کی ڈوری اللہ کے ساتھ باندھ لیں اور جو کچھ آج مانگیں پھر اس پر استقامت کے ساتھ رہیں اور پیچھے نہ ہٹیں۔ ابھی ہم روشنیاں بجھا کر اللہ کے حضور ہم سب متوجہ ہوکر اپنے گناہوں کو یاد کریں گے، لغزشوں کو یاد کرکے مراقبے کی حالت میں سرجھکا کر بیٹھیں گے اور ہم میں سے ہر شخص سمجھے کہ میں مجرم ہوں اور آج اپنے اللہ کے دروازے پر قیدی بن کر پیش ہوں اور پھر گریہ و زاری اس طرح کریں گے کہ اس کو ہماری حالت زار پر ترس آجائے۔

تبصرہ