عوامی چیلنجز اور شیخ الاسلام

ڈاکٹر ابوالحسن الازہری

فی زمانہ ہر قیادت کو اپنے اپنے زمانے میں مختلف چیلنجز کا سامنا رہا ہے وہ چیلنجز اپنے عصر کے اعتبار سے بڑی اہمیت کے حامل رہے ہیں۔ یقینا ان کا سامنا کرنا اور ان کا موثر جواب دینا قیادتوں کے لئے خود ایک چیلنج رہا ہے۔ جس نے ان چیلنجز کا جواب دیا انہیں ہی تاریخ کے صفحات میں قیادت کے طور پر جانا گیا اور بعد کے زمانوں میں بھی مانا گیا اور دنیا نے پھر ایسی ہی قیادت کو پڑھا بھی اور سمجھا بھی اور یوں اس کی فکر کو ایک دائمی اور ایک عالمگیری حیثیت حاصل ہوئی۔ اس کی قیادت پھر صرف اپنے زمانے تک محدود نہ رہی بلکہ آنے والے زمانوں کے لئے بھی وہ اپنے افکار و نظریات کے ذریعے راہنمائی کرتی رہی اور ایک رہبر و راہنما اور ایک عظیم مفکر اور قائد کی حیثیت میں اپنا فریضہ ادا کرتی رہی۔

تاریخ انسانی اس حقیقت پر گواہ ہے کہ قیادت وہی ہے جو اپنے زمانے کے چیلنجز کا نہ صرف سامنا کرے بلکہ ان کے سامنے ڈٹ بھی جائے اور اس چیلنج سے کامیابی سے ہمکنار ہوجائے اور اس کا اتنا موثر اور شاندار جواب دے کہ وہ چیلنج، چیلنج ہی نہ رہے۔ قیادتوں کی تاریخ میں چیلنجز کے حوالے سے بہت سی امثال اور واقعات کو طوالت کے پیش نظر چھوڑتے ہوئے صرف اسی حقیقت کو عیاں کرنا چاہتے ہیں کہ قیادت کا پہلا اور آخری وصف ہی یہی ہے کہ وہ اپنے زمانے کے چیلنج کا منہ توڑ جواب دیتی ہے۔ اس تناظر میں جب ہم زیر بحث موضوع کے حوالے سے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی شخصیت و قیادت کا جائزہ لیتے ہیں تو وہ اپنے زمانہ طالبعلمی ہی سے چیلنجز کا سامنا کرتے ہیں اور ان میں تاریخی کامیابی حاصل کرتے ہوئے اپنے زمانے کے دیگر چیلنجز کی طرف آگے بڑھتے چلے جاتے ہیں۔ زیر نظر مضمون میں ہم ان کی زندگی کے چند چیلنجز کا ذکر کریں گے۔

1۔ نظام مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کیا ہے؟

آپ کی عملی زندگی کا یہ پہلا سیاسی اور مذہبی چیلنج یہ تھا کہ نظام مصطفی کیا ہے۔ کیا یہ اصطلاح درست ہے؟ کیا نظام مصطفی واقعۃ ایک نظام اسلام ہے۔ 1977-78ء میں بھٹو حکومت کے خلاف تحریک نظام مصطفی بپا ہوئی جس میں ملک کی تمام مذہبی اور سیاسی جماعتیں اکٹھی تھیں۔ قوم کا ہر ہر فرد اس تحریک نظام مصطفی میں پیش پیش تھا اور ہر طرح کی قربانی دینے سے سرشار تھا، عین اس وقت ایک بہت بڑا چیلنج سامنے آیا کہ نظام مصطفی کی حقیقت و ماہیت اور اس کے خدوخال کیا ہیں۔ یہ اصطلاح ایک حقیقت ہے یا محض ایک سیاسی نعرہ ہے۔ آپ نے ان تمام چیزوں کا مفصل جواب اپنی کتاب نظام مصطفی ایک انقلاب آفریں پیغام میں دیا ہے جس کے بعد اس اصطلاح اور نظام کے حوالے سے تمام شکوک و شبہات ختم ہوکر رہ گئے اور اس کتاب کے بعد نظام مصطفی کی اصطلاح ایک عملی حقیقت کے طور پر عوام و خواص میں متعارف ہوگئی۔

2۔ رجم کی سزا بطور حد ہے

1982ء میں وفاقی شرعی عدالت نے ایک مقدمے کی سماعت شروع کی جس میں اس بات کا چیلنج کیا گیا تھا کہ پاکستان میں رائج سزائے رجم شرعی اعتبار سے درست نہیں ہے، پاکستان کے قانون کے مطابق یہ سزا بطور تعزیر ہے جبکہ اسلام کی حقیقی تعلیمات کے مطابق یہ سزا بطور حد ہے۔ اس حوالے سے آپ نے 20 تا 23 جون 1984ء وفاقی شرعی عدالت میں دلائل دیئے اور حدیث نبوی کی صحیح روایات اور صریح ہدایات کی روشنی میں اس سزا کا بطور حد ہونا عدالت میں ثابت کیا چنانچہ عدالت نے آپ کے دلائل کو سن کر پاکستان میں رائج رجم کی سزا کو قانون تعزیر سے نکال کر قانون حد میں داخل کیا۔ واضح رہے کہ حد وہ قانون ہے جو اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے بنایا گیا ہو، دنیا کی کوئی عدالت، کوئی بھی حکمران اس میں کسی قسم کی تبدیلی کرنے کا سرے سے مجاز ہی نہ ہو۔ عدالتوں اور حکمرانوں کی ذمہ داری فقط اس کے نفاذ میں ہے۔ طلباء کے لئے یہ بات بھی واضح رہے کہ رجم کونسی سزا ہے۔ جب شادی شدہ مرد اور عورت زنا کے مرتکب ہوں تو ان کی سزا سنگسار کرنا ہے جسے عربی میں رجم سے تعبیر کیا گیا ہے۔ پاکستان میں یہ سزا اسلامی تعلیمات کے منافی رائج تھی۔ شیخ الاسلام نے اس کو عدالت میں چیلنج کیا آپ کے ٹھوس دلائل کے بعد عدالت کو یہ سزا تبدیل کرنے پر مجبور ہونا پڑا۔ چنانچہ اس سزا کو آپ ہی کے دلائل کی روشنی میں تبدیل کرکے بطور حد نفاذ کے منظوری دے دی گئی۔

3۔ گستاخ رسول کی سزا بطور حد، موت ہے

نومبر 1985ء میں وفاقی شرعی عدالت نے ایک مقدمے کی سماعت شروع کی جس میں پاکستان میں رائج مقدس ہستیوں اور بالخصوص رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گستاخ کی سزا کو اسلامی تعلیمات کے منافی قرار دیا گیا۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے نومبر 1985ء میں تین دن مسلسل وفاقی شرعی عدالت میں دلائل دیئے۔ آپ نے سب سے پہلے پاکستان میں رائج 295- صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم اور 298- صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عدالت میں چیلنج کیا کہ ان دونوں آرٹیکل میں بیان کردہ سزا، قرآن و حدیث کی واضح نصوص کے خلاف ہے۔ اس لئے اسے فوری تبدیل کیا جائے۔

الحمدللہ تین دن مسلسل شیخ الاسلام کے دلائل کو سننے کے بعد عدالت نے آرٹیکل 295-C کا اضافہ کیا۔ جس کی رو سے گستاخ رسول کی سزا کو بطور حد موت قرار دیا گیا۔ حتی کہ آپ نے عدالت میں یہ بات بھی دلائل سے ثابت کی کہ گستاخ رسول کی توبہ بھی قبول نہیں ہے اور 1995ء میں آپ کے ان تاریخ ساز دلائل پر مشتمل کتاب تحفظ ناموس رسالت کے نام سے چھپ چکی ہے۔ جس میں عدالت میں بیان کردہ آپ کے تمام دلائل کومحفوظ کردیا گیا ہے۔ آپ نے دلائل کی تمام جہتوں کا اس کتاب میں تذکرہ کیا ہے۔ خواہ شرعی جہت ہو یا نقلی اور خواہ عقلی ہی کیوں نہ ہو، اس حوالے سے تمام تر اعتراضات کے جوابات بھی دیے ہیں۔ ایک سلیم الفہم شخص اس کتاب کو پڑھنے کے بعد نہ صرف شرعی حوالے سے بلکہ عقلی اعتبار سے بھی اس قانون کا قائل ہوجاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عدالت کے بعد وفاقی پارلیمنٹ نے بھی متفقہ طور پر اس قانون کی منظوری 1992ء میں دے دی تھی، اس وقت سے یہ پاکستان میں نافذ العمل ہے۔

4۔ مباہلہ کا چیلنج

1988ء میں مرزا طاہر قادیانی نے اپنے قادیانی مذہب کے حق اور سچ ہونے پر تمام عالم اسلام کو اور بطور خاص پاکستان بھر کے علماء کو چیلنج دے دیا اور اخبارات میں شہ سرخیوں کے ساتھ یہ چیلنج طبع ہوا، چنانچہ 24 ستمبر 1988ء کو شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے مرزا طاہر قادیانی کے چیلنج کو قبول کرنے کا اعلان کردیا اور اس چیلنج کا مقام مینار پاکستان لاہور کو مقرر کیا، اس حوالے سے مرزا طاہر قادیانی کو 24 ستمبر 1988ء کو مینار پاکستان پر لاکھوں لوگوں کی موجودگی میں آنے کی کھلے عام دعوت دے دی، میڈیا و اخبارات کے ذریعے مباہلہ کا چیلنج قبول کرنے کے اشتہارات چھپوا دیئے گئے اور بڑے بڑے پوسٹرز اور بینرز کے ذریعے ہر خاص و عام کو مطلع کردیا گیا اور شیخ الاسلام کی طرف سے یہ اعلان بھی چھپوا دیا گیا آئو ہم فجر تک مباہلہ کرتے ہیں اور پھر اللہ کی بارگاہ میں دعاگو ہوں گے کہ مولا جو سچا ہے اسے زندہ رکھ اور جو جھوٹا ہے اسے موت دے دے۔

24 ستمبر 1988ء کو مینار پاکستان کے سائے میں شیخ الاسلام لاکھوں افراد کی موجودگی میں عشاء سے فجر تک انتظار کرتے رہے مگر مرزا طاہر قادیانی نہ آیا۔ اس ختم نبوت کانفرنس کی صدارت قدوۃ الاولیاء حضور سیدنا طاہر علائوالدین الگیلانیؒ کررہے تھے۔ مفسر قرآن، پیر کرم شاہ الازہری بھی موجود تھے، تاریخی اعتبار سے اس سے قبل مباہلہ عام کا چیلنج حضرت پیر مہر علی شاہؒ نے مرزا غلام احمد قادیانی کو بادشاہی مسجد لاہور میں دیا تھا۔ وہ خود بھی مباہلے کے چیلنج کے باوجود نہیں آیا تھا اور آج اس کا پوتا مرزا طاہر قادیانی بھی چیلنج دینے کے باوجود میدان میں نہ آیا۔

5۔ اعتقادی چیلنج

مسلک اہلسنت کے حوالے سے معاصرین عرصہ دراز سے یہ چیلنج کرتے رہے کہ ان کے مسلک کی بنیادیں قرآن و حدیث پر استوار نہیں ہیں یہ مسلک حکایات کرشمات اور کرامات پر مبنی ہے۔ حتی کہ ان کے تمام تر عقائد و نظریات قرآن و سنت کے خلاف ہیں۔ اس چیلنج کو قبول کرتے ہوئے آپ نے 4مارچ 1991ء کو پہلے مرحلے میں مسلک اہلسنت کے تمام تر اعتقادات کو قرآن حکیم سے ثابت کرنے کے لئے پاکستان بھر کے علماء و مشائخ کو منہاج القرآن کے مرکز لاہور میں آنے کی دعوت دی، قرآن حکیم سے تمام تر عقائد کو ثابت کرنے کے لئے ’’دس روزہ دراسات القرآن‘‘ کا آغاز ہوا۔ ہر روز آپ نے ایک ایک موضوع پر سینکڑوںآیات کے ذریعے ہر ہر عقیدے کی صحت کو قرآن سے ثابت کیا۔ ان عقائد میں توحید اور شرک سے لے کر عقیدہ رسالت کے تمام تر عقائد اور اولیاء و صلحاء کے متعلق تمام تر اعتقادات اور مسلک اہلسنت کے جملہ عقائد کو قرآن حکیم کی نصوص سے ثابت کیا۔

الحمدللہ یہ تمام دروس اب متعدد کتابوں کی صورت میں چھپ چکے ہیں۔ جن میں چند یہ ہیں۔ کتاب التوحید، کتاب البدعۃ، مسئلہ استغاثہ اور اس کی شرعی حیثیت، کتاب التوسل، کتاب الشفاعۃ، عقیدہ علم غیب، ایصال ثواب اور اس کی شرعی حیثیت، تبرک کی شرعی حیثیت، زیارت قبور وغیرہ۔ علاوہ ازیں ان دراسات القرآن کو کتابوں کے علاوہ لیکچرز کی صورت میں CD کے ذریعے دیکھا اور سنا بھی جاسکتا ہے۔

6۔ بلاسود بینکاری کا چیلنج

1990ء کا الیکشن مختلف سیاسی جماعتوں نے اپنے اپنے منشور کے ساتھ لڑا۔ آئی جی آئی نے اس الیکشن کے نتیجے میں حکومت بنائی۔ انہوں نے قوم سے نفاذ اسلام کے نام سے ووٹ مانگے، قوم نے اسلام کے نام پر ووٹ دیئے۔ برسراقتدار آنے کے بعد یہ اپنے وعدے کو بھول گئے۔ ملک کے طول و عرض سے اسلامی نظام کے نفاذ کا مطالبہ زور پکڑنے لگا قوم نے سب سے پہلے معیشت کو بلاسود بنیادوں پر استوار کرنے کا مطالبہ کیا اور بالخصوص بینکوں کو سود سے پاک کرنے کا مطالبہ کیا تو اس کے جواب میں نواز شریف گورنمنٹ کے ایک وزیر نے اخبارات اور TVمیں بیان دیا کہ ’’اسلام میں سود کا متبادل نظام موجود ہی نہیں ہے‘‘ اور یہ وزیر کئی دنوں تک یہ بیان مسلسل دیتے رہے۔ بعد ازاں انہوں نے چیلنج کے ساتھ TV اور اخبارات کے ذریعے یہ بیان دینا شروع کردیا کہ عالم اسلام میں کوئی شخص بھی بلاسود بینکاری اور سود سے پاک معیشت کا نظام پیش نہیں کرسکتا۔ جب اس نے یہ چیلنج کیا تو اس کے اس چیلنج کو پاکستان کی دھرتی سے کسی بھی مسلم سکالر نے قبول نہ کیا۔ نتیجتاً شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے حکومت کے اس چیلنج کو قبول کیا اور اخبارات کے ذریعے آپ نے اپنا یہ بیان دیا کہ میں حکومت وقت کے چیلنج کو قبول کرتا ہوں کہ میں اس بات کو نہ صرف کروڑوں پاکستانیوں کے سامنے بلکہ پورے عالم اسلام کے سامنے یہ بات ثابت کروں گا کہ اسلام میں سود کا متبادل نظام موجود ہے اور بلاسود بینکاری کا نظام بھی موجود ہے۔ حکومت کو چاہئے کہ وہ دنیا بھر سے اقتصادی ماہرین کو بلوائے اور پاکستان PTV پر کھلے عام اس مناظرے و مباحثے کو دکھائے۔ اگر میں اسلام میں بلاسود بینکاری کے نظام کو ثابت نہ کرسکا تو اسلام کی دعوت کا نام لینا چھوڑ دوں گا۔ پاکستان کے تمام اخبارات نے شہ سرخیوں کے ساتھ آپ کے اس چیلنج کو پرنٹ کیا۔ میڈیا اور اخبارات کے ذریعے آپ کا یہ چیلنج کئی دنوں اور ہفتوں تک حکومت وقت کو متوجہ کرتا رہا مگر اب حکومتی حلقوں سے آواز بند ہوگئی تھی۔ اندرون خانہ حکومت اس چیلنج کو قبول کرنے کے لئے بڑی کاوشیں کرتی رہی مگر اس چیلنج کو قبول نہ کرسکی اور نہ ہی اس کے لئے سامنے آسکی۔

17 فروری 1992ء سے دیئے ہوئے اس چیلنج کو حکومت سات ماہ گذرے کے باوجود قبول نہ کرسکی بالآخر 17 اکتوبر 1992ء میں آپ نے موچی دروازہ لاہور میں تاریخ ساز بلاسود بینکاری کانفرنس کے انعقاد کا اعلان کردیا۔ حکومت وقت کو پھر چیلنج دیا کہ اگر وہ میڈیا، TV پر اس مباحثے کے لئے تیار نہیں تو وہ موچی دروازہ میں اپنے ماہرین بھیج دے۔ میں حکومت کے ہر چیلنج کو ہر صورت میں قبول کرنے کا اعلان کرتا ہوں۔ لیکن حکومت اپنے ہی دیئے ہوئے چیلنج سے بھاگ گئی اور آپ کا سامنا کرنے کے لئے تیار نہ ہوئی۔ اس تاریخ ساز بلاسود بینکاری کانفرنس میں آپ نے معاشی ماہرین اور بینکوں کے منیجرز اور آفیسرز اور لاکھوں عوام کے سامنے، دنیا کے ایک 100 مالیاتی اداروں اور بینکوں کا حوالہ دیا جو غیر سودی بنیادوں پر کام کررہے ہیں۔ آپ کا یہی تاریخی خطاب بلاسود بینکاری کا عبوری خاکہ کے نام سے اسی دن چھپواکر معاشی ماہرین اور بینکوں کے ماہرین اور اہل علم عوام میں فری تقسیم کیا گیا۔ آج یہ کتابی صورت میں ’’بلاسود بینکاری اور اسلامی معیشت‘‘ کے نام سے بھی چھپ چکا ہے۔ خطاب اور کتاب دونوں صورتوں میں اس سے استفادہ کیا جاسکتا ہے۔ آپ کے اس خطاب کے بعد پاکستان میں تیزی کے ساتھ بینکوں میں بلاسودبینکاری کا نظام شروع ہوا۔ آج متعدد اسلامی بینک پاکستان میں قائم ہوچکے ہیں اور ہر بڑے بینک میں بلاسود بینکاری کی سہولت دے دی گئی ہے۔ ہر بینک نے اسلامی بینکاری کے حوالے ایک علیحدہ شعبہ قائم کرلیا ہے جہاں شرعی ایڈوائزر کے طور پر بڑے بڑے مفتیان کرام کی خدمات بڑے بھاری معاوضے کے عوض لے لی گئی ہیں۔

اس حقیقت کا کوئی بھی شخص انکار نہیں کرسکتا کہ آپ کے بلاسود بینکاری کے عبوری خاکے سے قبل پاکستان میں بلاسود بینکاری کا نام و نشان تک نہ تھا۔ آج پاکستان میں جس قدر بھی بلاسود بینکاری ہورہی ہے اور اسلامی بینک بڑی تیزی سے قائم ہورہے ہیں ان کا سہرا، اعزاز، کریڈٹ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کو ہی جاتا ہے۔

عیسائی پادریوں کو چیلنج

1987ء میں آپ یورپ کے دعوتی و تبلیغی وزٹ پر تھے جب آپ ڈنمارک تشریف لائے تو وہاں کی تنظیم نے اپنی ملکی صورت حال کو Discuss کیا، مسلمانوں اور عیسائیوں میں مختلف موضوعات پر مباحثے ہورہے تھے۔ اچانک اس صورت حال میں ایک چرچ نے اسلام اور قرآن کی حقانیت پر مختلف سوال اٹھائے انہوں نے اس پر چیلنج کردیا کہ کوئی بھی مسلمان ان کے اعتراضات کا جواب دے سکتا ہے تو ہمارے چرچ کے دروازے کھلے ہیں۔ چنانچہ تنظیم نے اپنے تئیں اس چیلنج کو قبول کرلیا تھا، ڈنمارک میں آپ کا دورہ شروع ہونے پر تنظیم نے آپ کو اس سے آگاہ کیا۔ آپ نے اس چیلنج کے لئے رضا مندی ظاہر کردی۔ یوں آپ کو ڈنمارک چرچ میں جانے کا موقع ملا۔ عیسائی پادری پہلے سے اس کے لئے تیار تھے۔ مناظرہ و مباحثہ شروع ہوا پہلے عیسائی پادریوں نے سوالات کئے آپ نے سب کے جوابات دیئے اور ان کو مطمئن کیا پھر جب آپ نے ان سے انجیل کے بارے سوالات کئے تو وہ ہر سوال پر لاجواب ہوتے چلے گئے۔ اس کے علاوہ اس مناظرے میں بڑے دلچسپ مراحل بھی آئے۔ ہر پادری کا جواب دوسرے سے مختلف ہوتا رہا۔

جب ایک جواب دینے لگتا تو دوسرا اسے روک دیتا، اس کی غلطی کی طرف اسے متوجہ کرتا۔ ایک موقع پر انجیل کی آیات کی تعداد میں ان کا اختلاف ہوگیا حتی کہ زیرو/صفر کے تضاد کو انہوں نے یہ کہہ کر خاموشی اختیار کی کہ صرف ایک صفر یا چند صفروں کا فرق ہے۔ بہر حال اس مناظرے کے آخر پر ایک مرحلہ ایسا آیا جب ان سب پادریوں نے ہاتھ اٹھاکر اپنی شکست کا اعتراف کرلیا۔ اس مناظرے کی ساری روئیداد آپ کی کتاب ’’مناظرہ ڈنمارک‘‘ میں ملاحظہ کی جاسکتی ہے۔

(جاری ہے)

حوالہ: ماخوذ از ماہنامہ دختران اسلام، مئی 2015

تبصرہ