قطع تعلقی۔۔ بڑھتا ہوا ایک معاشرتی ناسور

(محمد احمد طاہر)

اونٹ کے بارے میں ایک کہاوت مشہور ہے کہ ’’اونٹ رے اونٹ تیری کون سے کل سیدھی‘‘ بلاتشبیہ و بلامثال یہی حال آج ہمارے معاشرے کا ہے۔ طرح طرح کی معاشرتی برائیاں پیدا ہوچکی ہیں۔ معاشرے کا شیرازہ بکھر چکا ہے۔ ہر طرف افراتفری ہے۔ ظلم، تشدد، جبر، استحصال، زیادتی (الا ماشاء اللہ) اس معاشرے کی پہچان بن چکی ہے۔ معاشرے میں بڑھتے جرائم کی شرح پر نظر دوڑائیں تو ہوش اڑجاتے ہیں۔ چوری، ڈاکہ زنی، شراب نوشی، بدکاری، فحش کلامی، قتل و غارت گری، ناجائز قبضہ وغیرہ وغیرہ ایسے جرائم ہیں جن سے اخبارات بھرے ہوتے ہیں مگر ایک ایسا معاشرتی ناسور جس پر شاید ہمارے میڈیا اور احباب حل و عقد کی توجہ نہیں ہے وہ قطع تعلقی ہے۔ بات بات پر ناراضگی ہوئی اور پھر بول چال ختم اور رفتہ رفتہ تعلق ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ختم ہوجاتا ہے۔ خونی رشتے ختم ہورہے ہیں بھائی بھائی سے رشتہ ختم کررہا ہے۔ ہمسائے ہمسائے سے نہیں بولتے۔ بالائی منزل میں رہنے والے زیریں منزل کے رہائشیوں سے تعلق ختم کردیتے ہیں۔

اس معاشرتی بگاڑ کی بہت وجوہات ہوسکتی ہیں ان میں سے ایک اہم وجہ دین سے دوری ہے۔ شرعی احکام سے لاعلمی ہے۔ یہ ذمہ داری تو احباب محراب و منبر کی ہے مگر شاید وہاں سے بھی موثر، منظم اور مربوط آواز نہیں اٹھائی جارہی حالانکہ دین اسلام نے اس کے متعلق واضح اور زریں اصول اور احکامات صادر فرمائے ہیں۔ قطع تعلقی کا متضاد صلہ رحمی ہے۔ قرآن و حدیث میں قطع تعلقی کی مذمت کی گئی ہے اور صلہ رحمی کی ترغیب دلائی گئی ہے۔ چنانچہ سورۃ الحجرات کی آیت نمبر 10 میں ارشاد ہوا:

انما المومنون اخوة فاصلحوا بين اخويکم

’’بات یہی ہے کہ (سب) اہل ایمان (آپس میں) بھائی ہیں۔ سو تم اپنے بھائیوں کے درمیان صلح کرایا کرو‘‘۔

مذکورہ آیت میں اللہ رب العزت نے اہل ایمان کے درمیان باہمی محبت و پیار کے جذبات کو پیدا کرنے کے لئے فرمایا کہ اہل ایمان تو سگے بھائی ہیں۔ جس طرح سگے بھائیوں کے درمیان بھی کبھی کبھار رنجش ہوجاتی ہے۔ وہ رنجش اور ناراضگی عارضی اور وقتی ہوتی ہے اس وقت دوسرے بھائیوں کا فرض ہے کہ وہ مداخلت کرکے ان کے درمیان صلح کروادیں۔

حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

’’کیا میں تمہیں ایسے عمل پر آگاہ نہ کروں جس کا درجہ روزے، نماز اور صدقہ سے افضل ہے؟ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا کہ یارسول اللہ! ( صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم) ضرور مہربانی فرمایئے! فرمایا: ’’دو آدمیوں کے درمیان صلح کرادینا‘‘۔ ساتھ ہی بتایا کہ ’’دو آدمیوں کے درمیان فساد کرانا ایمان کو مونڈ کر رکھ دیتا ہے‘‘۔

(سنن ابوداؤد، حديث نمبر: 1488)

اسی طرح ایک اور مقام پر قرآن مجید میں اسلامی نظام حیات کا ایک اہم اصول بیان کیا گیا ہے جو ہر مسلمان کے لے قدم قدم پر رہنمائی مہیا کرسکتا ہے۔ کاش مسلمان اس اصول کو اپنالیں۔ چنانچہ ارشاد ہوا:

وتعاونوا علی البر والتقوی ولا تعاونوا علی الاثم والعدوان

’’اور نیکی اور پرہیزگاری (کے کاموں) پر ایک دوسرے کی مدد کیا کرو اور گناہ اور ظلم (کے کاموں) پر ایک دوسرے کی مدد نہ کرو‘‘۔

(المائدة، 5: 2)

زیر بحث آیت مقدسہ میں خالق کائنات جل شانہ نے اسلامی دستور حیات کا ایک اور زریں اصول سکھاتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ تمہارے آپس کے تعلقات کی بنیاد اور اساس یہ ہونی چاہئے کہ ہر نیکی اور بھلائی کے کام میں ایک دوسرے کی اعانت اور تعاون کرو اور ہر برائی اور گناہ کی تحریک میں الگ رہو۔ کاش ہم اپنی اپنی ذمہ داری کا احساس کریں اور اگر کہیں تعلقات بگڑتے دیکھیں تو ان افراد یا خاندان کی آپس میں صلح کروادیں۔

اس موضوع پر مصطفی جان رحمت صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی کثیر احادیث میں وضاحت فرمائی ہے۔ جن میں سے چند احادیث نبوی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم حوالہ قرطاس کی جاتی ہیں:

بھائی بھائی بن جاؤ

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

لا تقاطعوا ولا تدابروا ولا تباغضوا ولا تحاسدوا وکونوا عباد الله اخوانا

’’(نہ قطع تعلقی کرو، نہ دشمنی کرو اور نہ بغض رکھو اور نہ ایک دوسرے سے حسد کرو۔ اللہ کے بندو! آپس میں بھائی بھائی بن جاؤ) اور کسی مسلمان کے لئے جائز نہیں کہ وہ اپنے بھائی سے تین دن سے زیادہ بول چال منقطع رکھے‘‘۔

  1. صحيح البخاری، کتاب الادب، حديث نمبر6065
  2. صحيح مسلم، کتاب البر والصلة والادب. حديث نمبر2559

قطع تعلقی مثل قتل ناحق

صحابی رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت ابوخراش الاسلمی سے مروی ہے کہ انہوں نے حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا:

من هجر اخاه سنة فهو کسفک دمه

’’جس نے ایک سال تک اپنے بھائی سے تعلقات منقطع رکھے تو یہ اسی طرح ہے جیسے اس نے اسے قتل کردیا‘‘۔

(سنن ابوداؤد، کتاب الادب، حديث نمبر1484)

قطع تعلقی کرنے والا جہنم کا حقدار

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

لايحل لمسلم ان يهجر اخاه فوق ثلاث فمن هجر فوق تلاث فمات دخل النار

’’کسی مسلمان کے لئے حلال نہیں کہ وہ اپنے کسی بھائی سے تین دن سے زیادہ قطع تعلقی رکھے۔ اور جس نے تین دن سے زیادہ قطع تعلقی کی اور پھر مرگیا تو وہ دوزخ میں داخل ہوگیا‘‘۔

(سنن ابوداؤد، کتاب الادب، حديث نمبر1483)

قطع تعلقی کرنے والا بخشش سے محروم

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

تعرض الاعمال فی کل اثنين وخميس فيغفرالله لکل امری لايشک بالله شيئا الا امرء کانت بينه وبين اخيه شحناء فيقول اترکوا هذين حتی يصطلحا

’’ہر جمعرات اور پیر کے دن اعمال پیش کئے جاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ ہر اس شخص کو معاف فرمادیتا ہے جو کسی کو اللہ تعالیٰ کا شریک نہ ٹھہراتا ہو، سوائے اس شخص کے جس کے درمیان اور اس کے بھائی کے درمیان ناراضگی ہو تو اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ان دونوں کو چھوڑ دو حتی کہ یہ آپس میں صلح کرلیں‘‘۔

(صحيح مسلم، کتاب البر والصلة والادب، رقم الحديث2565)

بہتر وہ ہے جو پہلے سلام کرے

حضرت ابو ایوب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

کسی مسلمان کے لئے یہ حلال نہیں کہ وہ تین راتوں سے زیادہ اپنے بھائی سے بول چال منقطع رکھے کہ وہ ایک دوسرے سے ملیں تو ایک بھی منہ پھیر لے اور دوسرا بھی رو گردانی کرے۔ ان دونوں میں سے بہتر وہ ہے جو پہلے سلام کرے۔

  1. صحيح البخاری، کتاب الادب
  2. صحيح مسلم، کتاب البروالصلة والادب، حديث نمبر2560

سلام کرنے والا بری الذمہ ہوگیا

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

 کسی مومن کے لئے جائز نہیں کہ وہ کسی دوسرے مومن سے تین دن سے زیادہ ناراض رہے اور اگر اس طرح تین دن گزر جائیں تو اسے چاہئے کہ اپنے بھائی سے ملاقات کرے اور اسے سلام کہے۔ اگر وہ سلام کا جواب دے دے تو دونوں اجر میں شریک ہوجائیں گے اور اگر اس نے سلام کا جواب نہ دیا تو وہ گنہگار ہوا اور سلام کرنے والا قطع تعلقی کے جرم سے بری الذمہ ہوگیا۔

(سنن ابوداؤد، کتاب الادب، حديث نمبر1481)

قطع رحمی کرنے والے سے اللہ بھی تعلق توڑ دیتا ہے

اس سلسلے میں متفق علیہ حدیث پاک ملاحظہ فرمایئے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

خلق الله الخلق. فلما فرغ منه، قامت الرحم، فاخذت، بحقوالرحمن، فقال له: مه قالت: هذا مقام العائذ بک من القطيعۃ۔ قال: الا ترضين ان اصل من وصلک، واقطع من قطعک؟ قالت: بلی يارب! قال: فذاک

’’اللہ تعالیٰ نے مخلوق پیدا کی، جب وہ اس کی پیدائش سے فارغ ہوا تو ’’رحم‘‘ نے کھڑے ہوکر رحمن (رحم کرنے والے) کے دامن میں پناہ لی۔ اللہ نے پوچھا: کیا بات ہے؟ رحم نے عرض کیا: میں قطع رحمی (رشتہ داری ختم کرنے) سے تیری پناہ طلب کرتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے اس لئے فرمایا کہ تجھے یہ پسند نہیں کہ جو تجھ کو جوڑے میں بھی اسے جوڑوں اور جو تجھے توڑے میں بھی اسے توڑ دوں۔ رحم نے عرض کیا: ہاں اے میرے رب! اللہ تعالیٰ نے فرمایا: پھر ایسا ہی ہوگا‘‘۔

  1. (صحيح البخاری، کتاب التفسير، حديث نمبر:4830)
  2. (صحيح المسلم، کتاب البر والصلۃ والادب، حديث نمبر:2554)

قطع تعلقی کرنے والا جنت میں نہیں جائے گا

ایک اور متفق علیہ حدیث رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم پڑھئے: حضرت جبیر بن مطعم  رضی اللہ عنہ نے نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا:

لايدخل الجنة قاطع

قطع رحمی کرنے والا جنت میں نہیں جائے گا۔

  1. (صحيح البخاری، کتاب الادب، حديث نمبر5984)
  2. (صحيح مسلم، کتاب البروالصلة والادب، حديث نمبر2556)

حوالہ: ماہنامہ دخترانِ اسلام، ستمبر 2015

تبصرہ