خلیفہ سوم امیرالمومنین حضرت عثمان غنی ذوالنورین رضی اللہ تعالیٰ عنہ

فریال احمد

نعمت اسلام

سیدنا عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے اسلام لانے کا واقعہ خود بیان فرماتے ہیں کہ ایک دن میں گھر گیا تو اپنی خالہ سعدی کو اپنے اہل خانہ کے ساتھ پایا۔ میری خالہ علم کیافہ کی ماہر تھیں مجھے دیکھتے ہی کہنے لگیں۔ اے عثمان! تم کو خوشخبری اور سلامتی ہو (تین دفعہ یہ الفاظ ادا کئے)

’’تُو خیر سے ملا اور شر سے محفوظ رہا۔ بخدا تو نے ایک نہایت پاکباز اور حسین عورت سے نکاح کیا تو خود بھی پاک ہے اور تیری شادی بھی پاک عورت سے ہوگی‘‘۔

سیدنا عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں مجھے اپنی خالہ کے ان الفاظ پر بڑا تعجب ہوا اور اسی تعجب کی حالت میں اپنی خالہ سے پوچھا کہ آپ نے یہ کیا الفاظ کہے ہیں آپ کی باتیں میری سمجھ سے بالاتر ہیں کیونکہ آپ نامعلوم اشیاء کا نام لے رہی ہیں اس پر میری خالہ نے جواب دیا:

محمد بن عبداللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ رب العزت کے رسول اور پیغمبر ہیں۔ اللہ کی طرف سے اللہ کا پیغام لے کر آئے ہیں اور اللہ کی طرف لوگوں کو دعوت دیتے ہیں ان کا قول انسانیت کے لئے سراپا بہتری، ان کا دین فلاح کا ضامن اور ان کا حکم باعث نجات ہے۔ ان کے سامنے کسی کی چیخ و پکار فائدہ نہیں دیتی، اگرچہ کتنی ہی تلواریں اور نیزے ان کے مقابلے میں چلائے جائیں۔

حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میری خالہ کا کلام میرے دل پر اثر کرگیا اور میں سوچ میں پڑگیا۔ حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے میرے تعلقات بہت اچھے تھے۔ میں ان کے پاس آکر بیٹھ گیا مجھے متفکر دیکھ کر پوچھا کیا بات ہے؟ میں نے خالہ کی ساری باتیں انہیں بتائیں۔ سیدنا ابوبکر صدیق  رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا عثمان تم نہایت ذہین آدمی ہو اور حق و باطل کے فرق کو اچھی طرح سمجھتے ہو۔ تمہاری خالہ صحیح کہتی ہیں۔ محمد بن عبداللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں جاکر آپ کا کلام سنو! اللہ نے انہیں اپنا پیغام دے کر انسانیت کی طرف مبعوث فرمایا ہے۔

اتفاق ایسا ہوا کہ حضور نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم اس طرف سے گزر رہے تھے۔ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھ میں ایک کپڑا تھا۔ سیدنا ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھ کر اٹھے اور ان کے کان میں آہستہ سے کچھ کہا۔ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے پاس تشریف لائے اور مجھے مخاطب کرکے ارشاد فرمایا:

اے عثمان! اللہ جنت کی دعوت دیتا ہے۔ اس کو قبول کرو۔ میں اللہ کا رسول ہوں اور ساری مخلوق کی طرف مبعوث ہوا ہوں۔

سیدنا عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ بخدا آپ کا کلام سنتے ہی میں ایسا بے اختیار ہوا کہ فوراً اسلام لے آیا اور گواہی دی

لا اله الا الله وحده لاشريک له وان محمدا عبده ورسوله

’’اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد اللہ کے پیارے رسول ہیں‘‘۔

فضل و کمال

اسلام قبول کرنے کے بعد سیدنا عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو وہ شرف و فضیلت حاصل ہوئی جو ان کی کتاب فضائل کا درخشاں باب ہے اور جس پر وہ جتنا ناز کریں کم ہے۔ حضور نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی منجھلی صاحبزادی حضرت رقیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا نکاح آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کردیا۔ ان کی وفات کے بعد اپنی دوسری صاحبزادی حضرت سیدہ ام کلثوم  رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا نکاح آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کردیا۔ اس طرح یکے بعد دیگرے دو صاحبزادیاں آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نکاح میں آئیں اور یہ وہ شرف ہے جو پوری انسانی تاریخ میں کسی شخص کو حاصل نہیں ہوا۔ گویا یہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خاص خصوصیت ہے۔ اس طرف اشارہ کرتے ہوئے سیدنا حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم ایک سوال کے جواب میں سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں فرمایا:

یہ وہ شخص ہے جس کو ملاء اعلیٰ میں ذوالنورین کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے۔

حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضور نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے کھانا دے کر حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے گھر بھیجا۔ وہ اپنی زوجہ محترمہ سیدہ رقیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ساتھ تشریف فرما تھے۔ میں نے ان دونوں سے اچھا اور خوبصورت جوڑا اور کوئی نہیں دیکھا۔ کبھی میں حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور کبھی حضرت رقیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو دیکھتا تھا حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پوچھا اے اسامہ! کیا تم نے کبھی ان سے خوبصورت جوڑا دیکھا۔ میں نے عرض کیا آقا علیہ السلام نہیں دیکھا۔

ایک مرتبہ حضور نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ آسمان سے ایک ترازو اتاری گی ایک پلڑے میں مجھے رکھا گیا اور دوسرے پلڑے میں میری ساری امت رکھی گئی اور وزن کیا گیا تو میں پوری امت کے برابر رہا پھر ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ایک پلڑے میں رکھا گیا اور باقی دوسرے پلڑے میں رکھا گیا تو ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ میری امت کے برابر رہے پھر عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ایک پلڑے میں اور دوسرے میں باقی ساری امت کو تو عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ میری امت کے برابر رہے پھر چوتھی مرتبہ آقا صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا پھر عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کوایک پلڑے میں اور باقی امت کو دوسرے پلڑے میں رکھا گیا تو عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ میرے امت کے برابر رہے۔

حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور جمع و تدوین قرآن

حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ آذربائیجان اور آرمینیہ کی جنگ میں شریک تھے تو وہاں انہوں نے اختلاف قرآن کا ہولناک منظر دیکھا تو پریشان ہوگئے کہ وہ لوگ اپنے اپنے آبائی لہجے میں قرآن کی تلاوت کررہے تھے۔ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خلافت میں حاضر ہوکر عرض کرنے لگے امیرالمومنین! خدارا امت کی خبر لیجئے۔ قبل اس کے کہ قرآن مجید سے متعلق اختلافات اتنے شدید ہوجائیں جیسا کہ یہودو نصاریٰ کے باہمی اختلافات ہیں۔ ظاہر ہے اتنا عظیم الشان کام خود اپنی رائے سے انجام دینے کی جسارت نہیں کرسکتے تھے۔ لہذا آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے صحابہ کی مجلس شوریٰ طلب کی اور متفقہ طور پر اس کی تائید کردی تو قرآن مجید کا ایک نسخہ جو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور میں مرتب ہوا تھا اور اب ام المومنین حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی ملکیت میں تھا حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے وہ نسخہ ام المومنین سے لے لیا اور مجلس شوریٰ جو مرتب فرمائی ان میں حضرت زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حضرت عمر بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حضرت عبدالرحمن بن الحارث رضی اللہ تعالیٰ عنہ جیسے جلیل القدر صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم موجود تھے کو سپرد کردیا تاکہ اس نسخہ کو بنیاد بناکر قرآن مجید کا ایک نہایت مستند مجموعہ قراتِ قریش پر تیار کریں جب یہ مجموعہ تیار ہوگیا تو حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا نسخہ واپس کردیا گیا اور یہ مجموعہ جس کا نام مصحف عثمانی کہلایا۔ اس کی متعدد نقلیں تیار کرواکے انہیں مختلف شہروں میں بھیج دیا گیا کہ اسی کو مستند مانا جائے اور اسی کے مطابق قرات اور کتابت کی جائے۔

حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور جمعہ کے دن دوسری اذان

سیدنا عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانہ خلافت سے قبل جمعہ کی نماز میں ایک اذان اور ایک اقامت ہوتی تھی آپ کے عہد خلافت میں آبادی کی کثرت ہوگئی اور مدینہ طیبہ کے مکانات دور دور تک پھیل گئے تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مقام زوراء میں ایک اور اذان کا اضافہ کردیا اور تمام صحابہ نے اس بارے میں ان سے اتفاق کیا۔

مسجد نبوی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی توسیع

نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مسجد نبوی کی تعمیر کے بعد آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے محسوس فرمایا کہ مسجد تنگ ہے کیونکہ نمازیوں کی تعداد بڑھ رہی تھی۔ مسجد کے پڑوس میں ایک شخص کا مکان تھا آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خواہش تھی کہ اس مکان کو خرید کر مسجد میں شامل کرلیا جائے چنانچہ ایک روز آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے خطبہ میں صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کو ترغیب دی اور جنت کا وعدہ فرمایا جس پر سیدنا عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیس یا پچیس ہزار درہم میں وہ مکان خرید لیا اور حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اطلاع دی آقا صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم بہت خوش ہوئے اور جنت کی خوشخبری دی۔

سیدنا عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس میں مزید توسیع کی اور سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا وہ مکان جس کا دروازہ جناب رسالتمآب صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مسجد نبوی میں آنے جانے کے لئے کھلا رکھنے کی اجازت مرحمت فرمائی تھی خرید کر مسجد نبوی میں مزید توسیع فرمائی اور چونا اور منقش پتھروں سے بڑے خوبصورت انداز میں تعمیر فرمایا۔

حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر اعتماد مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم

صلح حدیبیہ کے موقع پر جب صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم میں سے حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو مسلمانوں کی طرف سے سفیر بناکر بھیجا گیا تو صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے حضور نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کہا کہ عثمان کتنے خوش نصیب ہیں کہ انہوں نے بیت اللہ کا طواف اور صفا و مروہ کی سعی کی اور احرام کھول لیا ہوگا تو حضور نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ماکان لفیعل۔ ’’عثمان میرے بغیر ایسا ہرگز نہیں کریں گے‘‘۔ چنانچہ جب سیدنا عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ واپس تشریف لائے تو حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پوچھا:

عثمان! کیا تم نے بیت اللہ کا طواف کیا؟ محب رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آبدیدہ عرض کیا: یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ میں بیت اللہ کا طواف کروں جبکہ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم طواف نہ فرمائیں۔

اہم خصوصیات

جب باغیوں نے حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر عرصہ حیات تنگ کردیا اور گھر میں محصور تھے تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ باغیوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: میری دس خصوصیات میرا رب ہی جانتا ہے مگر آج تم ان کا بھی لحاظ نہیں کرتے ہو

  1. میں دائرہ اسلام میں داخل ہونے والا چوتھا مسلمان ہوں۔
  2. آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی دو صاحبزادیاں یکے بعد دیگرے میرے نکاح میں دی ہیں۔
  3. میں نے پوری زندگی کبھی گانا نہیں سنا۔
  4. میں نے کبھی برائی کی خواہش نہیں کی۔
  5. جس ہاتھ سے آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بیعت کی اس ہاتھ کو آج تک نجاست سے دور رکھا۔
  6. جب سے اسلام لایا کوئی جمعہ ایسا نہیں گزرا کہ میں نے غلام آزاد نہ کیا ہو یا بعد میں اس کی تمنا نہ کی ہو۔
  7. میں کبھی لہو و لعب میں مشغول نہیں ہوا۔
  8. زمانہ جاہلیت اور عہد اسلام میں کبھی زنا نہیں کیا۔
  9. زمانہ جاہلیت اور زمانہ اسلام میں کبھی چوری نہیں کی۔
  10. میں نے عہد رسالت صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم میں پورا قرآن پاک حفظ کیا۔

شہادت

حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں: عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے گھر میں محصور تھے میں سلام عرض کرنے کے لئے حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے گھر کے اندر گیا تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا خوش آمدید! میرے بھائی میں نے آج رات حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اے عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ! ان لوگوں نے تمہارا محاصرہ کررکھا ہے۔ میں نے کہا جی آقا صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم۔ فرمایا: انہوں نے تمہیں پیاسا رکھا ہوا ہے۔ میں نے کہا جی۔ پھر حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پانی کا ایک ڈول لٹکایا جس میں نے خوب سیر ہوکر پانی پیا اور اب بھی میں اس کی ٹھنڈک اپنے سینے اور کندھے کے درمیان محسوس کررہا ہوں۔ پھر آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اگر تم چاہو تو اللہ کی طرف سے تمہاری مدد کی جائے اور اگر تم چاہو تو ہمارے پاس افطار کرلو۔ میں نے ان دو باتوں سے افطار کو اختیار کرلیا چنانچہ اسی دن آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو شہید کردیا گیا۔ انا لله وانا اليه راجعون.

حوالہ: ماخوذ از ماہنامہ منہاج القرآن، اکتوبر 2015

تبصرہ