جس عہد میں لٹ جائے فقیروں کی کمائی

صاحبزادہ محمد حسین آزاد

ہم اکیسویں صدی میں داخل ہو چکے ہیں اور ہم سب یہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ یہ 64 سال ہم نے کس حال میں گزارے ہیں بلکہ پوری دنیا اس سے آگاہ ہے کہ ہم کس طرح زندگی گزار رہے ہیں۔آخرکیا وجہ ہے کہ ہم آگے بڑھنے کی بجائے ترقی معکوس کی طرف سفر کر رہے ہیںاور آج ہمارا ملک اور قوم منظم نہیں۔ افسوس آج ہم 70 بلین ڈالر کے مقروض ہیں۔ یہ وہ رقم ہے جو ہم نے مختلف ممالک، عالمی مالیاتی اداروں اور عالمی بنک سے سود پر حاصل کی ہے اور انتہائی تشویشناک بات یہ بھی ہے کہ اس کی ادائیگی کی صورت نظر نہیں آتی اور ہم اپنے وجودکو برقرار رکھنے کے لئے مزید سود پر قرض لیتے جارہے ہیں۔ ہمیں اس کاسہ گدائی کو توڑنا ہوگا اور قرضوں کی بجائے قومی خود انحصاری کی پالیسی پر گامزن ہونا ہوگا۔بقول اقبال

خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو آپ خیال جسے اپنی حالت کے بدلنے ک

موجودہ حالات میں ہم اقبال کے خواب کو تعبیر کیونکر دے سکتے ہیں۔ اس کے لئے ہمیں جائزہ لینا ہوگا کہ کسی بھی ملک وقوم کی ترقی تین ستونوں پہ کھڑی ہوتی ہے۔تعلیم، معیشت اور دفاعی خود کفالت۔اگر ہم پاکستان کا جائزہ لیں تو کل آبادی۔18 کروڑ کے لگ بھگ ہے۔ افرادی قوت 97،60 ملین ہے۔ جبکہ وسائل کی تعداد 6 بلین اگر فوج کا جائزہ لیں تو فوج کی کل تعداد 12 لاکھ 50 ھزار اور آٹھ سو ہے۔افرادی قوت 97،60 ملین ہے۔اگر ہتھیاروں کا جائزہ لیں 328 لڑاکا طیارے ،3500 ٹینک ،9 آبدوزیں، 8 بحری جہاز ،10 میزائل حنف اول و دوئم ، غزنوی اول و دوئم ، شاہین اول دوئم غوری اول دوئم، سوئم ، بابر اور رعد شامل ہیں۔

اب سوچیں کہ ہمارے پاس کیا کمی ھے اگر ہم خود اپنے ملک سے معا شرتی کمزوریاں اور برائیاں جنہوں نے ھماری بنیادوں کو کھو کھلا کر دیا ہے پنپنے نہ دیں تو ممکن ہے کہ ہم سپر پاور کی صف میں کھڑے ہو جائیں ورنہ تباہی ہمارا مقدر ہوگی۔

اگر ہم اپنے ملک کی سا لمیت کے تقاضے کو سامنے رکھیں تو سب سے پہلا قدم ملک سے کرپشن کا خاتمہ ہے۔ مگر افسوس کا مقام یہ ھے کہ اس کی جڑیں بہت گہری ہیں۔درحقیقت نظام کی کلی اور جزوی تبدیلی ہمارا مسئلہ نہیں نظام تو پہلے سے ہی بلد یاتی اداروں کی صورت میں نچلی سطح اور صوبائی ، مرکزی سیاسی اداروں کی شکل میں موجود ہے۔ اصل مسئلہ تو سیاسی نظام سے بیوروکریٹ اور مفاد پرست مرا عات یافتہ طبقے کو باہر نکال کے پھینکنے کا ہے اور اس فرسودہ بیہودہ کرپٹ نظام انتخاب و سیاست کو بدلنا ہے جس کا نعرہ پاکستان عوامی تحریک کے پلیٹ فارم سے قائد انقلاب ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے لگایا تھا اور سیاست نہیں ریاست بچائو کے نعرے کو ایک تحریک بنادیا تھا اور قائداعظم کے اصل پاکستان کی تکمیل اور علامہ اقبال کے خواب کی تعبیر کے لئے بھرپور عملی سعی و کاوش کی تھی مگر نادیدہ قوتیں اور حکومت وقت اور اپوزیشن کی ملی بھگت سے اس ظالمانہ نظام کو بچانے کی حتی المقدور کوشش کی گئی اور کی جارہی ہے اور وہ اب بھی اس انقلاب اور تبدیلی سے خائف ہے جو امت کا مقدر ہے اور اپنے وقت پر آکر رہے گا۔ حکومت وقت کو اپنے فرائض منصبی کو پہچاننا ہوگا اور تخریبی سیاست کی بجائے تعمیری سیاست کو اختیار کرنا ہوگا، جیسے اب حکومت کا فرض ہے کہ وہ سیاسی نظام کو بدعنوانی ، رشوت خوری ، فرقہ واریت اور علاقائی پرستی کے خونی پنجے سے آزاد کرانے کے لئے غوروفکر کے بعد لائحہ عمل مرتب کرے۔ دوسرے نمبر پر میرٹ پہ نوکریاں اور طلباء کے داخلے تعلیمی قابلیت کے مطابق ھوں کیوں کہ نوجوان ھی قوم کے معمار اور اقبال کے شاہین ہیں اور یہ معاشرے کا 70 فیصد ہیں۔ان کی صلاحیتوں کو ابھار نا اور ان کو ان کا جائز حق دینا ہی انصاف اور ملکی ترقی کا تقاضا ہے۔ اقرباء پروری کا خاتمہ ،تعلیمی بجٹ میں اضافہ اور سب سے بڑھ کر اپنے ملک کی افرادی قوت کا درست استعمال ملک کو مضبوط بنانے میں مددگار ہوگا۔

جمہوریت اک طرز حکومت ھے کہ جس میں
بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے

ضرورت اس امر کی ہے کہ ان کرپٹ اداروں کے ساتھ مکمل طور پہ لڑا جائے۔ہمارے پیشہ ور ماہرین اور زرعی ماہرین بھی بے تحاشا کماتے ہیں مگر کوئی ٹیکس دینے کو تیار نہیں۔ بیرونی سرمایہ نہ ھونے کے برابر ھے لہذا ملک میں قومی احتساب عمل میں لایا جائے۔

ہم ابتداء میں ہی 70 بلین ڈالر کے مقروض ھیں یہ وہ رقم ہے جو ہم نے مختلف ممالک، عالمی مالیاتی ادارے اور عالمی بینک سے سود پہ حاصل کی ہے۔ مذید تشویش یہ کہ اس کی ادائیگی کی کوئی صورت نظر نہیں آتی اور ہم اپنا وجود پالنے کے لئیے مذید قرض لینے پہ مجبور ہیں۔اگر ہم واقعی اقبال کے خواب کو شرمندہ تعبیر کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں اس کاسئہ گدائی کو توڑنا ہوگا اور قرضوں کی بجائے قومی خود انحصاری سے اپنے قوت بازو پہ بھروسہ کرنا ھوگا۔

آیئے ہوا کے رخ کو پہچانیں۔ ہمارے ملک میں کسی چیز کی کمی نہیں۔

جس عہد میں لٹ جائے فقیروں کی کمائی
اس عہد کے سلطان سے کوئی بھول ہوئی ہے

ماخوذ از ماہنامہ دخترانِ اسلام ۔ نومبر 2015

تبصرہ