نماز میں کلمات ثناء اور ان میں موجود حکمت و فلسفہ

ڈاکٹر ابوالحسن الازہری

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

دَعْوٰهُمْ فِيْهَا سُبْحٰـنَکَ اللّٰهُمَّ وَتَحِيَّتُهُمْ فِيْهَا سَلَامٌ ج وَاٰخِرُ دَعْوٰهُمْ اَنِ الْحَمْدُ ِﷲِ رَبِّ الْعَالَمِيْنَ.

’’(نعمتوں اور بہاروں کو دیکھ کر) ان (جنتوں) میں ان کی دعا (یہ) ہوگی ’’اے اللہ! تو پاک ہے‘‘ اور اس میں ان کی آپس میں دعائے خیر (کا کلمہ) ’’سلام‘‘ ہوگا (یا اللہ تعالیٰ اور فرشتوں کی طرف سے ان کے لیے کلمہ استقبال ’’سلام‘‘ ہوگا) اور ان کی دعا (ان کلمات پر) ختم ہوگی کہ ’’تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جو سب جہانوں کا پروردگار ہے‘‘۔

(يونس: 10)

سُبْحٰـنَکَ اللّٰهُمَّ اہل جنت کا کلمہ ہے

اس آیت کریمہ میں سبحنک اللہم کے کلمات ارشاد فرمائے گئے کہ جنت والوں کی یہ دعا ہوگی اور ان کا یہ کلام ہوگا۔ اللہ کی نعمتوں کو جب وہ دیکھیں گے اور ان نعمتوں سے مستفید ہوں گے اور رب کی ان نعمتوں کے کرشمے دیکھیں گے اور اس کی نعمتوں کے نظاروں میں جوں جوں کھوتے جائیں گے اور اس کی نعمتوں کے مختلف مناظر دیکھیں گے اور ان نعمتوں کی جاذبیت اور کشمکش ان کا حسن ظاہر و باطن، ان کے کمالات صوری و معنوی اور ان نعمتوں کی عجب شان کو دیکھیں گے تو ان کی زبان سے بے ساختہ ہر لمحہ پکار ہوگی۔ ’’سُبْحٰـنَکَ اللّٰهُمَّ‘‘ اے اللہ تو پاک ہے۔ اے میرے مولا تو پاک ہے اے میرے مولا تو پاک ہے۔ جنتیوں کی زبان اور ان کا کلام اور ان کا پہلا کلمہ ہی سُبْحٰـنَکَ اللّٰهُمَّ ہوگا۔

اہل جنت کے کلام سے نماز کا آغاز

ان جنتیوں کی زبان کے پہلے کلمے سے ہماری نماز کا آغاز ہورہا ہے۔ باری تعالیٰ اس نماز کے ذریعے جہاں ہمیں اپنی تربیت اور معرفت عطا کرتا ہے وہاں اس عمل نماز کا اجر بندے کو جنت کی نعمت کی صورت میں عطا کرتا ہے۔ ایک نمازی نیت اور تکبیر تحریمہ کے ذریعے نماز میں داخل ہوتا ہے۔ نماز بندے کی رب سے ملاقات ہے۔ نماز بندے کی رب سے گفتگو ہے، نماز بندے کی رب سے ہمکلامی کا نام ہے، نماز بندے کا رب سے مانگنا ہے، نماز بندے کی رب کے حضور دعا و مناجات کا نام ہے۔ نماز جو صلاۃ ہے صلاۃ کا لغوی معنی ہی دعا ہے، نماز بندے کی دعائوں کا نام ہے۔ بندہ کبھی حالت قیام میں اپنے رب سے دعا کرتا ہے، کبھی حالت رکوع میں رب سے مانگتا ہے، کبھی حالت سجدہ میں اس سے راز و نیاز کی باتیں کرتا ہے۔ بندہ نماز میں داخل ہوتے اور اللہ اکبر کہتے ہی ایک نئے جہاں میں داخل ہوتا ہے۔ بندے کے قیام کا اول کلام ہی سبحنک سے شروع ہوتا ہے۔ اے میرے مولا تو پاک ہے اور پھر قیام میں اور حمدو ثناء کرتے ہوئے حالت رکوع میں داخل ہوتا ہے۔ یہ رب کی نعمتوں کا ایک اور جہاں ہوتا ہے۔ اس میں بھی بندے کا کلام سبحان کے ساتھ شروع ہوتا ہے۔

سبحان ربی العظیم پاک ہے میرا پروردگار، عظمت والا۔ اے میرے عظمت و بزرگی والے رب! تو پاک ہی پاک ہے۔ اے میرے مولا! سب عظمتیں، سب بزرگیاں تیرے ہی لئے ہیں تو شان سبحانیت کا مالک ہے مولا تو پاک ہی پاک ہے تو شان قدسیت کا مالک ہے پھر بندہ رکوع سے بھی زیادہ جھکتا ہے حتی کہ اس کی عظمتوں، اس کی بزرگیوں، اس کے کمالات، اس کی قدرتوں کی گواہی دیتے ہوئے جھکتے جھکتے اس کی عظمتوں کا اعتراف کرتے ہوئے اور اس کی شان ربوبیت کو مانتے مانتے اور اس کی شان عظمت کا اعتراف کرتے ہوئے ربنالک الحمد کا نعرہ اپنے من میں لگاتے ہوئے اس کے سامنے عاجزی کی انتہاء کردیتا ہے اور اپنی بندگی کو کمال کو پہنچادیتا ہے۔

قیام، رکوع اور سجدہ میں سبحان کی تکرار

دنیا کی کسی بھی چیز اور مخلوق کے سامنے نہ جھکنے والا انسان سجدے کی حد تک فقط رب کے سامنے جھکتا ہے اور اپنے مولا کے سامنے انسان اتنا جھکتا ہے جو جھکنے کی بھی آخری حد ہے، اس سے زیادہ مزید جھکا نہیں جاسکتا۔ انسان قیام سے رکوع میں آتا ہے اور پھر رکوع سے سجدہ میں آتا ہے۔ گویا وہ زمین پر بچھ جاتا ہے مگر کیسے بچھا ہے اپنے چہرے کو اپنی پیشانی کو، اپنے سر اور دماغ کو اپنے قلب و دل کو اپنی سوچ و فکر کو، اپنے نظریئے اور تصور کو اپنے خیال وگمان کو، اپنے فعل و عمل کو، اپنے اعضاء و جوارح کو حتی کہ اپنے پورے وجود کو اس کی تسبیح ’’سبحان ربی الاعلیٰ‘‘ کے ورد پر اپنے رب کی شان علوت اور اپنی شان عجز کا اعتراف کرتے ہوئے خود کو جھکائے ہوئے ہے۔ اس کے سجدے کا کلام قیام و رکوع کی طرح لفظ سبحان کے ساتھ ہی شروع ہوتا ہے، مولا تو پاک ہے، مولا تو پاک ہے، مولا تو پاک ہے۔ سبحان ربی الاعلیٰ مولا تو ایسا پاک ہے تو ہی میرا رب ہے، تو ہی سب سے اعلیٰ ہے، تجھ سے کوئی اعلی نہیں، تجھ سے بڑھ کر کوئی بلند نہیں، تجھ سے بڑھ کر کوئی علو مرتبت نہیں، تیری ہی شان اعلیٰ ہے۔ نماز میں تین ہی یہ بڑی حالتیں ہیں تینوں سبحنک اللہم، سبحان ربی العظیم اور سبحان ربی الاعلیٰ سے شروع ہوتی ہیں۔

کلام میں تمہیدی کلمات کی اہمیت

اب بندے کی نماز شروع ہوتی ہے کسی بھی گفتگو کے ابتدائی کلمات بڑی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔ ابتدائی کلمات ہی ساری گفتگو کی حقیقت اور اس کی مرکزیت کو واضح کرتے ہیں۔ تمہید اپنے اندر انتہا لئے ہوتی ہے۔ مقدمہ کلام اور مقدمہ کتاب، کلام و کتاب کی ساری خوبیوں کو یکجا کئے ہوتا ہے۔ بعض کلاموں اور کتابوں کا مقدمہ ہی حرف آخر ہوجاتا ہے اور اس موضوع کا حاصل ہوجاتا ہے اور اس عمل کا کمال بن جاتا ہے۔ اس گفتگو کا مرکز و محور بن جاتا ہے۔ وہی مقدمہ کلام ہی پورا اسلوب کلام بن جاتا ہے۔ وہ ابتداء ہی انتہا بن جاتی ہے اور وہ ابتدائیہ ہی حاصل کلام بن جاتا ہے۔ اس لئے مقدمے پر بہت زیادہ سوچا جاتا ہے۔ تمہیدی کلمات پر بہت زیادہ توجہ دی جاتی ہے۔ الفاظ و جملوں کے انتخاب میں بڑی عرق ریزی کی جاتی ہے ایسی دانست کے اعلیٰ ترین کلمات سے ابتدائی کلمات کا چنائو کیا جاتا ہے۔

نماز کے پہلے کلمے نے ہی نماز کی ساری حقیقت واضح کردی اور وہ یہ ہے کہ بندہ شہادت دیتے ہوئے، گوہی دیتے ہوئے اور ہاتھ اٹھا کر اعتراف کرتے ہوئے ساری مخلوق کو گواہ بناتے ہوئے ہاتھوں کو واضح انداز میں بلند کرتے ہوئے یہ اعلان کرتا ہے کہ اے مخلوق خدا، اے جن و انس سن لو۔ اے ارضی و سماوی مخلوق میرے اس عمل پر گواہ ہوجائو۔میرے ان کلمات پر شاہد ہوجائومیری اس سوچ پر مطلع ہوجائو، میرے اس عقیدے کو جان لو کہ اللہ اکبر اللہ ہی سب سے بڑا ہے۔

تکبیر تحریمہ کا مفہوم و حقیقت

میں ہاتھ اٹھاتے ہوئے اعتراف کررہا ہوں کہ اللہ ہی اس کائنات میں سب سے بڑا ہے۔ اس کائنات میں کبریائی کی شان فقط اللہ کو حاصل ہے۔ میرے نزدیک اگر اس کائنات میں کوئی بڑا ہے، کوئی اعلیٰ ہے، کوئی سب سے بالا ہے، کوئی سب سے بلند ہے، کوئی سب سے اونچا ہے، کوئی سب سے نرالا ہے، کوئی سب کا مولا ہے، کوئی سب کو پالنے والا ہے، کوئی سب کو پیدا کرنے والا ہے، کوئی سب کو رزق دینے والا ہے، کوئی سب کا خدا ہے کوئی اس کائنات میں لاشریک ہے، کوئی اس کائنات میں شان وحدہ لاشریک کا حامل ہے اور کوئی بھی اس کائنات میں الہ نہیں الا اللہ سوائے اللہ کے، اے کائنات انس و جن اور اے کائنات ملک و ملکوت دیکھ لو اور سن لو میں اس الا اللہ کی شان والے معبود کی عبادت میں اللہ اکبر کے کلمات کے ساتھ داخل ہورہا ہوں۔

اب تم میری زندگی کے ہر قول میں ہر عمل میں اور میری بندگی کے ہر انداز میں اور ہر اسلوب میں اور ہر طریق میں تم اللہ اکبر کے جلوے ہی پائو گے اور اللہ اکبر کے نظارے اب قیام میں بھی ظاہر ہوں گے، میرے رکوع میں دکھائی دیں گے میرے سجود و قعود میں بھی اللہ اکبر کا ایک وجد آور منظر ہوگا، میں اسی ’’اللہ اکبر‘‘ کی تلاش میں اس کی جستجو میں، اس کی تڑپ میں، اس کی معرفت طلبی میں اور اس کی قربت کی آرزو میں نماز میں مختلف حالتیں بدلتا ہوا نظر آئوں گا۔

اللہ اکبر کے بعد اب میرا قیام شروع ہوتا ہے اور میرا قیام محض قیام نہیں صرف کھڑا ہونا نہیں ہے بلکہ اس کے حضور کھڑا ہونا ہے۔ میرے اس قیام میں اور قیاموں میں فرق ہے میرے کھڑے ہونے کا انداز دیکھو، اس کی معیت پر غور کرو، اس حالت قیام پر غور کرو میں رو بروئے مولا ہوں، میں رب کے حضور میں ہوں میں اس کی بارگاہ میں شرف حاضری پارہا ہوں، اب مجھے کوئی نہ بلائے، کوئی مجھ سے ہمکلام نہ ہو۔

رب سے ہمکلامی میں یکسوئی

میں اپنے رب سے کلام کررہا ہوں اور وہ کہتا ہے جب تم مجھ سے بات کرو،میرا ذکر کرو اور میری بات کرو تو پھر مجھ ہی سے بات کرو۔

وَ اذْکُرِ اسْمَ رَبِّکَ وَتَبَتَّلْ اِلَيْهِ تَبْتِيْلًا.

’’اور آپ اپنے رب کے نام کا ذِکر کرتے رہیں اور (اپنے قلب و باطن میں) ہر ایک سے ٹوٹ کر اُسی کے ہو رہیں‘‘۔

(المزمل: 8)

مولا اب تو ہے اور تیری یاد ہے، میں کسی سے بات نہیں کررہا بلکہ سب کو منع کررہا ہوں کہ اس یاد میں کوئی خلل نہ ڈالے۔ اس یاد میں کوئی رکاوٹ نہ ڈالے۔ اب وہ بندہ کامل طور پر یکسو ہوکر مولا کا ذکر کرتا ہے۔ خود کو ذاکر بناتا ہے۔ وادی ذکر میں آتا ہے، عالم تسبیح میں آتا ہے، زبان پر تسبیح کے کلمات لاتا ہے، اس کے سامنے عالم تسبیح کے سارے مناظر ظاہر ہوتے ہیں۔ وہ دیکھتا ہے کہ کل جہاں اس کی تسبیح میں مصروف عمل ہے۔

انسان اور کائنات کی ہر چیز کا تسبیح کرن

ارشاد باری تعالیٰ ہے۔

سَبَّحَ ِﷲِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ.

’’اللہ ہی کی تسبیح کرتے ہیں جو بھی آسمانوں اور زمین میں ہیں‘‘۔

(الحديد:1، الحشر:1، الصف:1)

ان تینوں سورتوں کا آغاز ہی ان کلمات کے ساتھ ہوتا ہے اور بندہ یہ دیکھتا ہے کہ کوئی سبح بالعشی والابکار (آل عمران: 41) صبح و شام اس کی تسبیح کرتے رہو۔ پر عمل پیرا ہے اور کسی کو دیکھتا ہے کہ وہ وسبح بحمد ربک قبل طلاع الشمس و قبل غروبها (طہ: 130) اور اپنے رب کی حمد کے ساتھ تسبیح کریں طلوع آفتاب سے پہلے (نماز فجر میں) اور اس کے غروب سے قبل (نماز عصر میں) کبھی حکم تسبیح آتا ہے۔

وَمِنْ اٰنَآءِ الَّيْلِ فَسَبِّحْ وَاَطْرَافَ النَّهَارِ

’’اور نصفِ ثانی شروع ہوتا ہے، (اے حبیبِ مکرّم! یہ سب کچھ اس لیے ہے) ‘‘۔

(طه: 130)

اور رات کی ابتدائی ساعتوں میں (یعنی مغرب اور عشاء میں) بھی تسبیح کیا کریں اور دن کے کناروں پر بھی (نماز ظہر میں بھی جب دن کا نصف اول ختم ہوتا ہے نصف ثانی شروع ہوتا ہے) اور کبھی یہ حکم ہوتا ہے، حالت قیام میں اس کی تسبیح کرو وسبح بحمد ربک حين تقوم (الطور: 41) اور اپنے رب کی حمد کے ساتھ تسبیح کیجئے جب بھی آپ کھڑے ہوں اور کبھی حکم ہے اپنے رب کی تسبیح کیجئے ربی العظیم کہتے ہوئے زبان پر کلمات تسبیح جاری کریں۔

فسبح باسم ربک العظيم

سو اپنے رب عظیم کے نام کی تسبیح کریں۔

(الواقعة: 74)

اور کبھی حکم تسبیح یوں ہوتا ہے۔ ربی الاعلیٰ کے الفاظ کے ساتھ اپنے رب کی تسبیح کرو۔

سبح اسم ربک الاعلیٰ.

اپنے رب کے نام کی تسبیح کریں جو سب سے بلند ہے۔

(الاعلیٰ: 1)

اب نماز میں تسبیح کی تینوں صورتیں آگئی ہیں۔ حالت قیام میں سبحنک اللہم کی صورت میں بندے کی تسبیح بھی ہے۔ حالت رکوع میں فسبح باسم ربک العظیم کے حکم کے تحت ربی العظیم کی صورت میں اس کی تسبیح بھی ہے اور حالت سجود میں اس کے حکم کے تحت سبح اسم ربک الاعلیٰ کی صورت میں رب الاعلیٰ کی صورت میں بھی تسبیح ہے۔ غرضیکہ بندہ داخل صلاۃ ہوتے ہی عالم تسبیح کی ایک بہت بڑی دنیا میں داخل ہوجاتا ہے۔ جہاں پر مخلوق اپنے اپنے انداز میں اس کی تسبیح و تحمید میںمصروف عمل نظر آتی ہے۔

تسبیح ایک عالم بے خودی ہے

بندہ بھی اس وادی تسبیح میں گم ہوجاتا ہے۔ اس کی عظمتوں کا نظارہ کرتا ہے، اس کی قدرتوں کا مشاہدہ کرتا ہے۔ اس کی رحمتوں کو دیکھتا ہے، اس کے احسانات کو جانتا ہے اس کی کرم نوازیوں کو سمجھتا ہے اس کی عطائوں کی رم جھم پر نظر کرتا ہے اس کی بخششوں کو بے حساب محسوس کرتا ہے۔ اس کی شان رحمانیت اور شان رحیمیت کا اس کی سب شانوں پر تفوق دیکھتا ہے۔ اپنی لغزشوں اور خطائوں پر نگاہ کرتا ہے اور اس کی عطائوں کے سلسلہ دراز پر جھوم اٹھتا ہے۔ اس کی شان قدوسیت اور شان سبحانیت کے نظاروں اور مشاہدوں میں کھوجاتا ہے۔ بے ساختہ سبحان اللہ کی اس وادی میں اس زبان پر بھی یہ کلمات ثنائ، سبحانک اللہم وبحمدک وتبارک اسمک وتعالی جدک ولا الہ غیرک جاری ہوجاتے ہیں۔

اللہ تو پاک ہے اے اللہ میں تیری حمد کرتا ہوں تیرا نام برکت والا ہے اور تیری شان بہت بلند ہے اور تیرے سوا کوئی معبود نہیں ہے۔

اللہم کا مفہوم اور عربی قواعد

ان کلمات کی عربی گرائمر اور قواعد و ضوابط علم الصرف والنحو کے اعتبار سے اس کی ترکیب یوں بنتی ہے۔ یہ تو زبان فصیح ہے اور یہ تو لسان بلیغ ہے جبکہ لسان فہم یوں ہے۔

سبحانک اللهم وبحمدک اللهم وتبارک اسمک اللهم وتعالی جدک اللهم ولا اله غيرک اللهم.

تو ہی پاک ہے اے اللہ! ساری حمد تیری ہی ہے اے اللہ! تیرا نام ہی برکت والا ہے اے اللہ! تیری ہی شان بہت بلند ہے اے اللہ! اور تیرے سوا کوئی معبود ہے ہی نہیں اے اللہ!

عربی زبان میں اللہم اپنے اصل میں یااللہ ہے۔ حرف نداء ’’یا‘‘ کو حذف کرکے اس عوض لفظ اللہ کے آخر پر میم کا اضافہ کردیا اس لئے یہ اللہم بن گیا۔

(نحومير، ميرسيد شريف علی حرجانی مترجم عبدالحکيم شرف قادری، مکتبة قادرية رضوية لاهور، ص46)

اور یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ عربی زبان میں حروف نداء بلانے کے لئے اور مخاطب کرنے اور یاد کرنے کے لئے پانچ حروف ہیں جن کو درس نظامی کی معروف علم النحو کی کتاب الکافیہ میں یوں بیان کیا گیا ہے:

حروف النداء يااعمها وايادهيا للبعيد وای و الهمزة للقريب.

(جمال الدين حاجب، کافية، دارالاشاعت الوبيه، افغانستان، ص120)

اور اسی طرح ہدایت النحو میں ان کا ذکر یوں کیا گیا:

حروف النداء خمسة يا وايا وهيا واي والهمزه المفتوهة، فاي والهمزة للقريب وايادهيا للبعيد ويالهما.

(مولوی عبدالرب ميريتهی، هدايت النحو مع شرح روايت النحو، مير محمد کتب خانه، کراچی، ص140)

اسی بات کو نحومیر میں میر سید شریف علی جرجانی یوں بیان کرتے ہیں:

بدانکہ ای وہمزہ برای نزدیک است وایادھیا برای دوراست ویاعام است۔

(نحومير، ص46)

علم النحو کی ان تینوں معروف اور مستند کتابوں کے ذریعے یہ بات واضح ہوگئی کہ حروف نداء میں لفظ یا قریب اور بعید دونوں معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ یا پر داخل ہونے والا منادی قریب بھی ہوسکتا ہے اور بعید بھی ہوسکتا ہے۔ دونوں مفہوم بیک وقت مراد لئے جاسکتے ہیں۔

یا اللہ اور اللہ کی شان قربت

جب بندہ یا اللہ کہتا ہے تو وہ رب اس بندے کو کہتا ہے اے بندے میں تیرے اتنا قریب ہوں کہ میں تیری شہ رگ سے بھی قریب تر ہوں۔ اس کائنات ارض میں اے بندے تیرا سب سے قریبی، تیرے سب سے زیادہ نزدیک اور تیری قربت میں سب سے پہلا میں ہی ہوں اور وہ رب بندے کو اپنی قربت کا احساس یوں دلاتا ہے اور ارشاد فرماتا ہے:

ونحن اقرب اليه من حبل الوريد.

’’اور ہم اس کی شہ رگ سے بھی زیادہ اس کے قریب ہیں‘‘۔

(ق: 16)

تو بندہ حالت نماز میں اپنی ذات سے سب سے زیادہ اقرب ذات کو نداء دیتا ہے بلاتا ہے ا ور پکارتا ہے نداء اور پکار کے ذریعے اس کی توجہ حاصل کرتا ہے اور اس سے ہمکلام ہوتا ہے۔ بندہ اپنی ہر حالت میں اسی کی طرف رجوع کرتا ہے اسی کو یاد کرتا ہے تو اس کی یاد کے لئے اور اس کی بارگاہ میں حاضری کے لئے اور اس سے ہمکلام ہونے کے لئے جس لفظ کا انتخاب کرتا ہے وہ لفظ سبحان ہے کہ مولا تو پاک ہی پاک ہے مولا تو ہر عیب سے پاک ہے۔ ہر نقص سے پاک ہے مولا تو ہر شرک سے پاک ہے تو ہر شریک سے ماوراء ہے تو ہی معبود ہے تیرے سوا کوئی معبود نہیں۔ تو ہی رازق ہے تیرے سوا کوئی رازق نہیں تو ہی خالق ہے تیرے سوا کوئی خالق نہیں تو ہی مسجود ہے تیرے سوا کسی کو سجدہ نہیں کیا جاسکتا تو ہی مستحق عبادت ہے تیرے سوا کسی کی عبادت کی نہیں جاسکتی تو ہی رب ہے تیرے سوا کوئی رب نہیں۔

ثناء میں پانچ اعتراضات اور عبادت کی وجوہ

ثناء کے ذریعے بندہ اللہ کی بارگاہ میں پانچ چیزوں کا اعتراف کرتا ہے کہ مولا تو ہی شان سبحانیت کا مالک ہے۔ حمد کا تو ہی مستحق ہے، تیرا نام ہی برکت والا ہے تیری شان ہی سب سے بلند ہے اور تیراکوئی شریک نہیں اور اس کے ساتھ بندہ اپنے مولا سے اس کی عبادت کی پانچ وجوہات بیان کرتا ہے۔

کہ مولا میں تیری عبادت اس لئے کرتا ہوں کہ تو بے عیب ہے اور شان سبحانیت کا مالک ہے، میں تیری عبادت اس لئے کرتا ہوں تو ہی میرے نزدیک لائق حمد ہے، میں تیرا نام اس لئے لیتا ہوں کہ سب برکتیں تیرے نام میں ہیں۔ میں تیری شان کے تذکرے اس لئے کرتا ہوں کہ سب سے اونچی اور بلند شان تیری ہے اور میں تیرے سامنے اس لئے جھکتا ہوں کہ میں نے جان لیا ہے تیرے سوا اس کائنات میں کوئی اور الہ نہیں۔ کوئی اور خدا نہیں اور کوئی معبود نہیں اور تیری شان وحدہ لاشریک ہے۔

پس تو ہی تو اس کائنات میں معبود ہے اس لئے میں تیری بارگاہ میں جھک رہا ہوں اس لئے تیری عبادت میں مشغول ہوں۔ ثناء کے ذریعے بندہ یہ بات بھی اپنے عقیدے کے طور پر بتاتا ہے کہ معبود وہی ہوتا ہے جس میں پانچ شانیں پائی جاتیں وہی خدا ہوتا ہے وہی الہ ہوتا ہے۔ اس کی عبادت کی جاتی ہے جو سبحان من کل العیب وہ ہر عیب سے پاک ہے۔ الحمدللہ ساری حمدیں اسی کے لئے ہوتی ہیں۔ سب برکتیں اس کی ذات سے وابستہ ہوتی ہیں۔ وللہ العزۃ سب عزتیں اور سب رفعتیں اسی کے لئے ہوتی ہیں۔

وکل يوم هو فی شان اس کی شان سب سے بلند ہوتی ہے اور وہی سب سے بلند ہوتا ہے اور وہی خدا ہوتا ہے وہی معبود ہوتا ہے۔

ولا معبود الا اللہ اور اس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے۔ الا اللّٰہ وہی ہے اللّٰہ ہو وہی ہے، اللہ وہی ہے۔ اللہ وہی ہے، اللہ وہی ہے، وہ وحدہ لاشریک ہے وہ وحدہ لاشریک ہے وہ وحدہ لاشریک ہے۔

ماخوز از ماہنامہ دخترانِ اسلام، جنوری 2016

تبصرہ