ام المؤمنین حضرت زینب بنت جحش اور حضرت زینب بنت خزیمہ

نواز رومانی

اور یہ بھی وحی فرمایا کہ ’’اے پیارے نبی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم! اللہ سے ڈرو اور کفارو منافقین کی اطاعت نہ کرو، حقیقت میں علیم اور حکیم اللہ ہی ہے۔ پیروی کرو اس بات کی جس کا اشارہ تمہارے رب کی طرف سے تمہیں کیا جارہا ہے، اللہ ہر اس بات سے باخبر ہے جو تم لوگ کرتے ہو، اللہ پر توکل کرو، اللہ وکیل ہونے کے لئے کافی ہے‘‘۔

جب حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی عدت پوری ہوگئی تو آنحضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو طلب فرمایا، وہ کشاں کشاں بارگاہ رسالت مآب صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم میں پہنچے اور حکم کا انتظار فرمانے لگے: زید (رضی اللہ عنہ)! تم جاؤ اور زینب(رضی اللہ عنہا) کو میری طرف سے پیام دو۔ حکم سننے کے بعد وہ فوراً حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے کاشانہ اقدس کی طرف چل پڑے۔

حضرت زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو یہ پیام دے کر بھیجنے میں یہ حکمت پنہاں تھی کہ لوگ یہ گمان نہ کریں کہ یہ عقد زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی رضا مندی کے بغیر کسی جبر کے تحت واقع ہوا ہے اور انہیں یہ معلوم ہوجائے کہ حضرت زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دل میں حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے لئے کوئی خواہش و تمنا نہیں ہے اور وہ اس بات سے راضی و خوشی ہیں اس کے علاوہ حضرت زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اللہ تبارک وتعالیٰ اور اس کے رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمان کی اطاعت پر ثابت قدم رکھنا مقصود تھا اور اللہ کے حکم سے حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو بھی راضی رکھنا تھا کیونکہ یہ موقع و محل نازک تھا۔ اس وقت تک پردہ کی آیت ابھی نازل نہیں ہوئی تھی، اپنے آقا و مولیٰ رحمۃ للعالمین صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم کے مطابق حضرت زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے در اقدس پر پہنچے، فرماتے ہیں:

جب میں حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے گھر پہنچا تو وہ میری نظروں میں ایسی معزز و محترم معلوم ہوئیں کہ میں ان کی طرف نظر نہ اٹھا سکا پھر میں گھر کی طرف پشت کرکے الٹے قدم ان کے پاس گیا اور میں نے کہا:

آپ کو بشارت ہو کہ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے آپ کے پاس بھیجا ہے کہ میں آنحضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے آپ کو پیام دوں۔ پیام سننے کے بعد حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے کہا: میں اس بات کا کوئی جواب نہیں دے سکتی جب تک کہ میں اپنے رب عزوجل سے مشورہ نہ کرلوں اور پھر اٹھ کر مصلے پر پہنچیں، سر مبارک کو سجدہ میں رکھا اور بارگاہ بے نیاز میں عرض کی: اے اللہ! تیرا نبی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم میری درخواست گاری فرماتا ہے اگر میں اس کی زوجیت کے لائق ہوں تو مجھے ان کی زوجیت میں دے دے۔

سرور کونین صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مصروف گفتگو تھے کہ اچانک آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم پر وحی کے آثار نمودار ہوئے پھر جب وحی کھل گئی تو آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم فرمانے لگے: ’’کوئی ہے جو زینب(رضی اللہ عنہا) کے پاس جاکر انہیں بشارت دے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے آسمان پر مجھ سے ان کا نکاح کرادیا ہے‘‘۔

اور پھر سورہ احزاب کی آیات مبارکہ پڑھیں جن کا ترجمہ ہے:

’’جب زید (رضی اللہ عنہ) اس سے اپنی حاجت پوری کرچکا تو اے نبی! ہم نے اس مطلقہ خاتون کا نکاح تم سے کرایا تاکہ مومنوں پر اپنے منہ بولے بیٹوں کی بیویوں کے معاملے میں کوئی تنگی نہ رہے جبکہ وہ ان سے اپنی حاجت پوری کرچکے ہوں اور اللہ کا حکم تو عمل میں آنا ہی چاہئے۔ نبی پاک صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم پر کسی ایسے کام میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے جو اللہ نے اس کے لئے مقرر کردیا ہے یہی اللہ کی سنت ان انبیاء کے معاملے میں رہی ہے جو پہلے گزر چکے ہیں اور اللہ کا حکم ایک قطعی طے شدہ فیصلہ ہوتا ہے‘‘۔

سلمیٰ نور مجسم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خادمہ تھیں، انہوں نے سنا تو وہ حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے گھر کی طرف دوڑیں تاکہ ان کو بشارت سنائیں۔ قرآنی آیات سننے کے بعد حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں: میرے دل میں طرح طرح کے خیالات آنے لگے کیونکہ ہمارے ہاں ان کے حسن و جمال کی خبریں آتی رہتی تھیں۔ علاوہ ازیں سب سے عظیم و افضل بات یہ تھی کہ حق تعالیٰ نے آسمان پر ان کا نکاح کرایا تھا۔ میں سوچتی تھی کہ وہ اس نکاح سے ہم پر فخر کریں گی۔ سلمیٰ جب حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے گھر گئیں تو وہ ہنوز سربسجود تھیں اور بولیں:

اے زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا! مبارک ہو، اللہ تعالیٰ نے آپ کا نکاح اپنے محبوب صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ آسمانوں پر کردیا ہے۔ جب یہ عظیم ترین خوشخبری سنی تو حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے جو زیور اس ہنگام میں پہن رکھے تھے، وہ حضور اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خادمہ سلمیٰ کو عطا فرمادیئے اور سجدہ شکر بجالائیں اور نذر مانی کہ میں دو ماہ روزہ دار رہوں گی۔ یہ نکاح ذیقعد 5 ہجری میں ہوا جبکہ حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی عمر 36 سال تھی۔

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ سیدہ زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو بارگاہ صمدیت میں خاص قرب و مقام حاصل تھا۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے نکاح کا جو اعلان وحی کے ذریعے کیا گیا، وہ قیامت تک نمازوں اور تلاوتوں میں گونجتا رہے گا۔

نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے بعد دیگر امہات المؤمنین کی طرح حضرت سیدہ زینب بنت جحش رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے اپنی بقیہ زندگی امت مسلمہ کی روحانی تعلیم و تربیت اور ان کے اخلاق و اطوار کو انوار ہدایت سے روشن کرنے میں صرف کردی۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا تعلق محدثین کے پانچویں طبقے سے تھا جس سے چالیس یا چالیس سے کم احادیث مروی ہیں۔ آپ کی بیان کردہ احادیث مبارکہ کی تعداد گیارہ ہے جن میں سے دو متفق علیہ ہیں۔ فرماتی ہیں ایک مرتبہ رحمۃ للعالمین صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم گھبرائے ہوئے میرے ہاں تشریف لائے اور فرمایا:

اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، خرابی ہے عرب کے لئے اس آفت سے جو قریب آگئی ہے، آج یاجوج ماجوج کے بند میں اتنا شگاف پڑگیا ہے۔ یہ فرمانے کے بعد آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے انگوٹھے اور اس کے ساتھ والی انگلی ملاکر حلقہ بنایا پھر میں نے عرض کیا: یارسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم! کیا ہم نیک لوگوں کی موجودگی کے باوجود ہلاک ہوجائیں گے۔ ہاں۔ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اور پھر گویا ہوئے: جب فسق و فجور کی کثرت ہوجائے گی تو نیکوں کی موجودگی بھی ہلاکت و بربادی سے نہ بچاسکے گی۔

حضرت زینب بنت ابی سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ میں دوسری بار اس موقع پر جب ام المؤمنین حضرت سیدہ زینب بنت جحش رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے بھائی کا انتقال ہوا تو ان کے گھر گئی۔ انہوں نے خوش بوسنگھائی اور اس کے بعد فرمایا: واللہ! مجھے خوش بو کی کوئی حاجت نہیں تھی، بات دراصل یہ ہے کہ میں نے رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو برسر منبر فرماتے سنا ہے۔

کسی عورت کے لئے جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتی ہے، جائز نہیں ہے کہ کسی میت پر تین دن سے زیادہ سوگ منائے۔ سوائے خاوند کے کہ خاوند کے مرنے پر عورت کی عدت چار ماہ دس دن ہے۔

کتب احادیث میں جو گیارہ روایات ام المؤمنین حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے منقول ہیں، ان کے راویوں میں حضرت ام حبیبہ، حضرت زینب بنت ابی سلمہ، محمد بن عبداللہ بن جحش، حضرت کلثوم بنت طلق رضوان اللہ تعالیٰ علیہم شامل ہیں۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے عہد مسعود میں انہوں نے ام المؤمنین حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو عطیہ بھیجا جب آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس بارہ ہزار درہم کا عطیہ آیا تو گویا ہوئیں:

اللہ تعالیٰ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بخش دے، میری دوسری بہنیں یعنی امہات المؤمنین اس کی مجھ سے زیادہ حق دار ہیں۔ لوگوں نے عرض کیا: ان کے لئے بھی بھیجا گیا ہے، یہ سب آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ہی کا ہے۔ اس پر وہ بولیں: سبحان اللہ! پھر اسے ایک کپڑے سے چھپا کر بولیں: بنت رافع! اس پر کپڑے ڈال کر خرچ کرو۔ پھر بنت رافع سے کہا: اس کے اندر ہاتھ ڈال کر مٹھی بھر بھر کر فلاں فلاں کو دے آؤ۔ ان میں سے کچھ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے عزیز تھے اور کچھ یتیم تھے پھر بھی کپڑے کے نیچے کچھ رقم رہ گئی تو برزہ بنت رافع بولیں:

ام المؤمنین! اللہ آپ کو معاف فرمائے، اللہ کی قسم اس میں ہمارا بھی حق ہے۔ فرمایا: جو کپڑے کے نیچے باقی ہے، سب تمہارا ہے۔ پھر اس کو کپڑے کے نیچے سے 85 درہم ملے۔ بعد ازاں آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے آسمان کی طرف ہاتھ اٹھا کر کہا: اے اللہ! اس سال کے بعد عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا عطیہ مجھے نہ پائے۔ دعا بارگاہ صمدیت میں قبول ہوئی اور دعا کے کچھ عرصہ بعد وہ صاحب فراش ہوگئیں تو سمجھ گئیں کہ وقت آخر قریب آگیا ہے۔ چنانچہ انہوں نے اپنا کفن خود تیار کرلیا اور وصیت کی: حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی کفن دیں تو ان میں سے ایک صدقہ کردینا۔ دوسری وصیت یہ تھی:

میری لاش رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی چارپائی یا تخت پر رکھ کر لے جانا اس سے قبل اس پر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا جنازہ لے جایا گیا تھا پھر تو جو عورت فوت ہوتی تھی اس کا جنازہ اس پر لے جایا جاتا تھا لیکن مروان بن حکم نے اپنے عہد میں حکم دے دیا تھا کہ بجز شریف مرد کے اس پر کوئی جنازہ نہ اٹھایا جائے اور مدینہ میں جنازے اٹھانے کی چارپائی میں فرق کردیا گیا۔ تیسری وصیت یہ تھی:

میرے جنازے کے پیچھے آگ نہ لے جائی جائے اور میری لحد بقیع میں عقیل کے گھر کے اور ابن حنیفہ کے گھر کے درمیان کھودی جائے۔ چوتھی وصیت یہ تھی:

جب تم مجھے قبر میں اتارو تو اگر میرا پٹکا خیرات کرسکو تو کردینا۔

جب وقت وصال قریب آیا تو حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بیت المال میں سے پانچ تھان بھیجے کہ ان میں سے جونسا کپڑا چاہیں پسند فرمالیں۔ چانچہ اسی میں آپ کفنائی گئیں اور آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی بہن حمنہ نے اس کفن کو جو آپ نے اپنے لئے تیار کرکے رکھا تھا، خیرات کردیا۔

جس دن ام المؤمنین حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا ارتحال ہوا اس دن مدینے میں سخت گرمی تھی۔ چنانچہ خلیفۃ المؤمنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے قبر پر شامیانہ لگوادیا تاکہ قبر کی تیاری اور سیدہ کی تدفین میں لوگوں کو تکلیف نہ ہو۔ اسلام کی تاریخ میں یہ پہلا شامیانہ تھا جو کسی قبر پر نصب کیا گیا تھا۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ارتحال کا سانحہ 20 ہجری میں ہوا تھا اس وقت سیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی عمر مبارک 51 سال تھی۔ جنازہ کے ساتھ مرد اور عورتیں یکساں جایا کرتے تھے لیکن جب ام المؤمنین حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا وصال ہوا تو حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اعلان کردیا:

حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے جنازے کے ساتھ ان کے گھر والوں میں سے عزیز و اقارب ہی جائیں۔ پھر حضرت عمیس رضی اللہ تعالیٰ عنہا بولیں: امیرالمؤمنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا! میں آپ کو ایک چیز نہ دکھاؤں جو میں نے حبشہ میں دیکھی ہے۔ حبشی اسے اپنی عورتوں کے جنازے کے لئے تیار کرتے ہیں۔ چنانچہ حضرت بنت عمیس رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے نعش بنائی اور اسے کپڑے سے ڈھانپ دیا۔ جب حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ نعش دیکھی تو تعریف کی اور فرمایا:

یہ کس قدر اچھی ہے اور کس قدر پردے والی ہے۔ یہ پہلا تابوت تھا جو کسی خاتون کے لئے تیار کیا گیا تھا پھر حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اعلان کرادیا: اے اہل مدینہ! اپنی ماں کے جنازے میں حاضر ہوں۔ چنانچہ جنازے میں شرکت کے لئے لوگوں کا ہجوم ہوگیا۔ جب سیدہ زینب بنت جحش رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا جنازہ قبر کے پاس لایا گیا تو حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حمدو ثنا کے بعد فرمایا: جب سیدہ زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیمار ہوئیں تو میں نے امہات المؤمنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے پچھوایا: ان کی تیمار داری کون کرے گا؟ وہ بولیں: ہم کریں گے۔ میرے خیال میں انہوں نے تیمار داری کا حق ادا کردیا پھر ان کے انتقال کے بعد میں نے ان سے پوچھا:

ان کے غسل اور تجہیز و تکفین کا کام کون کرے گا؟ انہوں نے فرمایا: ہم سرانجام دیں گی۔ میری رائے میں اس میں بھی انہوں نے کوتاہی نہیں کی۔ پھر میں نے ان سے پچھوایا: انہوں نے جواب دیا: وہ جسے ان کے پاس ان کی زندگی میں آنا جانا حلال تھا۔ میرے خیال میں اس بات میں بھی وہ حق بجانب ہیں۔ پھر آپ نے چار تکبیروں کے ساتھ نماز جنازہ پڑھائی اور اس کے بعد فرمایا: تم سب علیحدہ ہٹ جاؤ۔

اور آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے لوگوں کو حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی قبر مبارک کے پاس سے ہٹادیا پھر محمد بن عبداللہ بن جحش بھانجا، عبداللہ بن ابی احمد بن جحش بھانجا، محمد ابن طلحہ بن عبیداللہ بھانجا جو حضرت حمنہ بنت جحش کا لڑکا تھا اور حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ قبر میں اترے اور اس عظیم ہستی کو قبر کی آغوش میں لٹادیا جو جنت البقیع میں ہے۔

ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی آنکھوں سے آنسو بے اختیار بہہ رہے تھے، وہ حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا ذکر خیر کرنے لگیں اور ان کے لئے دعائے ترحم مانگنے لگیں۔ حضرت صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے حضرت عروہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پوچھا: زینب بنت جحش رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا کوئی وصف بیان کریں۔ فرمانے لگیں: زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا ایک نیک عورت تھیں۔ حضرت عروہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پھر پوچھا:

خالہ جان! رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کونسی بیوی سے زیادہ لگاؤ تھا۔ تو حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے جواب دیا: میں اس کا خیال کرنے والی نہ تھی۔ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نگاہ میں زینب بنت جحش اور ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا ایک مقام تھا اور میرا گمان ہے میرے بعد حضور اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہی دونوں بہت محبوب تھیں۔

ام المؤمنین حضرت زینب بنت خزیمہ رضی اللہ عنہ

حالات زندگی

ام المساکین رضی اللہ تعالیٰ عنہا اللہ کو پیار ہوگئیں۔ فضا میں ایک دل گیر آواز ابھری۔ رحمۃ للعالمین صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جس کے متعلق اسرمکن لحوقا فی اطول کن یدا فرمایا تھا، آج وہ ہم سے رخصت ہوگئیں۔

دوسری آواز نے دردیلے سکوت کو توڑا۔ زینب بنت خزیمہ تم کتنی خوش نصیب ہو جس کی نماز جنازہ اللہ کے محبوب صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم خود پڑھائیں گے۔

تیسری آواز نے بحر خاموشی میں ارتعاش پیدا کیا اور پھر حجرے میں موجود خواتین حضرت زینب کے چہرہ مبارک کی طرف دیکھنے لگیں جس پر انوار الہٰی کی بارش ہورہی تھی، یہ مومنین کی ماں تھیں۔ بوقت وصال ان کی عمر تیس سال تھی لیکن مرتبے میں سب سے بلند تھیں۔

جنت البقیع میں ایک قبہ تھا جس کو قبہ ازواج النبی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کہا جاتا تھا لیکن آج اس کا نشان نہیں ملتا۔ اسے ابن سعود نجدی نے شہید کرادیا تھا اس قبہ میں ایک قبر کھودی جارہی تھی جو زوجہ رسول حضرت زینب بنت خزیمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے لئے تھی جہاں انہوں نے منزل آخرت کے زینہ اول پر قدم مبارک رکھنا تھا۔ قبر بڑے ادب کے ساتھ تیار کی جارہی تھی جب تیار ہوگئی تو ایک شخص کو بارگاہ نبوت صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم میں اطلاع کے لئے بھیج دیا گیا۔

عالم عالمیان صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم مسجد نبوی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم میں تشریف فرما تھے، اردگرد اصحاب رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم مودب و خاموش بیٹھے تھے۔ حضور پاک صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت زینب بنت خزیمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی نماز جنازہ خود پڑھائی۔ آنکھیں مبارک غم ناک تھیں لیکن ہونٹوں پر اللہ تبارک وتعالیٰ کی حمد جاری تھی، سب خاموش تھے، ادب و محبت کا تقاضا بھی یہی تھا کہ خاموش رہا جائے اسی اثناء میں ایک شخص حاضر خدمت ہوا اور عرض کی:

یارسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم! زوجہ اطہر رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے لئے قبر مبارک تیار ہے۔ سماعت فرمایا تو آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی جگہ سے اٹھے، تمام صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی کھڑے ہوگئے، میت کو حجرے سے باہر لایا گیا اور کلمہ شہادت کی آوازوں کے درمیان جنازے کو اٹھا کر سوئے بقیع چل پڑے۔ امہات المؤمنین حضرت سودہ، حضرت عائشہ صدیقہ، حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور دوسری بہت سی عورتیں جنازے کو جاتے ہوئے دیکھ رہی تھیں۔ ضبط کا یارانہ تھا، کوئی آنکھ ایسی نہ تھی جس سے آنسو رواں نہ ہوں اور چہرے سے غم آشکارا نہ ہو۔ اگرچہ نظریں حضرت زینب بنت خزیمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے جاتے ہوئے جنازے پر جمی ہوئی تھیں لیکن ذہنوں میں نہ صرف ان کی زندگی کا ایک ایک لمحہ گھوم رہا تھا بلکہ ان کے آباؤ اجداد کا نقشہ بھی ابھر رہا تھا۔

ام المؤمنین حضرت زینب بنت خزیمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا حارث ہلالی کی اولاد میں سے تھیں، بنو ہلال جو قبیلہ بنو عامر کی ایک شاخ تھی، حضرت اسماعیل ذبیح اللہ علیہ السلام کی اولاد میں سے تھے۔ گردش زمانہ نے انہیں یمن میں لاکر آباد کردیا تھا، شمالی یمن میں تبالہ کے مقام پر ذوالخلصہ نامی ان کا ایک بت تھا جس کی وہ پوجا کرتے تھے جب اہل یمن کی بداعمالیاں عروج پر تھیں تو اللہ کا عذاب سد مارب کے ٹوٹنے کی شکل میں ظاہر ہوا جس نے دور و نزدیک تباہی مچادی، عمارتیں کھنڈرات اور آبادیاں ویرانوں میں تبدیل ہوگئیں جو لوگ بچ گئے، ان پر زندگی کی راہیں مسدود ہوگئیں، جینا محال ہوگیا۔ چنانچہ بنو ہلال نقل مکانی کرکے حجاز میں آکر آباد ہوگئے۔

وقت شب و روز کے تانے بانے بنتا ہوا گزر رہا تھا، حضور اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت سے 13 سال قبل 597ء میں ایک دن خزیمہ بن حارث کے ہاں بہت سی خواتین اور دوست احباب موجود تھے، ان کے انداز و اطوار سے یوں محسوس ہوتا تھا جیسے کسی خبر کے سننے کے منتظر ہوں، کچھ دیر کے بعد ایک عورت گھر سے باہر آئی اور پوچھا۔ خزیمہ کہاں ہے؟ خزیمہ نے جو اپنے دوستوں کے ساتھ محو گفتگو تھا، اپنا نام سنا تو اٹھ کر آیا اور بولا: کیا خبر ہے؟ لڑکی ہوئی ہے۔ لڑکی؟ خزیمہ کو اپنے کانوں پر یقین نہیں آرہا تھا۔ ہاں! چاند کا ٹکڑا ہے اور چہرے سے بلند اقبالی ٹپکتی ہے۔ عورت نے کہا تو خزیمہ اس کے ساتھ اندر کمرے میں چلا گیا، بیوی کے پہلو میں اس نے بیٹی کو دیکھا تو عجیب سی کشش محسوس کی، پیار کرنے لگا اور کہا: یہ میری زینب ہے۔

سیدہ زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا بچپن بڑا منفرد و یگانہ تھا، بچپن سے ہی انہیں غریبوں اور مسکینوں کو کھانا کھلاکر بڑی راحت و خوشی محسوس ہوتی تھی۔ باپ صاحب حیثیت تھا، بڑی فیاضی کا مظاہرہ کرتی تھیں اگر خود کوئی چیز کھارہی ہوتیں اور کوئی غریب آجاتا تو وہ چیز اس کو عطا کردیتی تھیں اور اس سے بڑی طمانیت محسوس کرتی تھیں اگر خاندان کے کسی فرد نے روکا بھی تو اس کی پرواہ نہ کی کیونکہ جانتی تھیں کہ اس سے کبھی رزق میں کمی نہیں ہوتی لہذا سب لوگ انہیں ام المساکین کے لقب سے یاد کرنے لگے اور یہی نام زبان زد عام و خاص ہوگیا جس طرف سے گزرتیں یا کہیں جاتیں سب یہی کہتے، ام المساکین آگئی ہے۔ اور پھر یہی لقب ان کے نام کا حصہ بن گیا۔

جب محبوب کبری صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اعلان نبوت فرمایا تو اس وقت سیدہ زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی عمر 13 یا 1۴ سال تھی، آپ کا شجرہ نسب حضور اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نسب نامہ معد بن عدنان سے اکیسویں پشت میں جاکر مل جاتا ہے۔ رسول عربی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم اور عدنان کے درمیان 1158 سال کا زمانہ ہے، اعلان نبوت نے مکہ معظمہ کی فضا میں ہلچل مچادی تھی، پیغام حق رفتہ رفتہ دماغوں اور دلوں کو مسحور کرنے لگا تھا اور لوگ اعلانیہ اور پوشیدہ طور پر دولت اسلام سے مالا مال ہونے لگے تھے۔ سیرو تاریخ کی کتب اس ضمن میں خاموش ہیں کہ سیدہ زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے کب اسلام قبول کیا لیکن اس امر کا اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ اعلیٰ اخلاقی اوصاف اور رب کریم کی طرف سے خصوصی اعزازات کو دیکھتے ہی کہا جاسکتا ہے کہ ابتدائی دور میں ہی اسلام کی نعمت عظمیٰ سے بہرہ ور ہوگئی ہوں گی۔

دور جاہلیت کی بات ہے، ایک دن لوگوں نے خزیمہ بن حارث کے مکان میں چھوٹی بچیوں کو دف پر گیت گاتے سنا، وہ شادی کا گیت گارہی تھیں جس نے فضا میں جادو جگا رکھا تھا اس گیت کا مفہوم کچھ اس طرح تھا:

آج خوشی کا دن ہے۔ ہماری بہت ہی چہیتی دلہن بن کر دوسرے گھر میں چلی جائے گی۔ اپنے ماں، باپ اور سہیلیوں کے دلوں کو فرقت کا داغ دے کر وہ جہاں بھی رہے، خوش رہے اور اس کے آنگن میں بہاریں سدا پھول برساتی رہیں۔ آج خوشی کا دن ہے۔ گیت گانے کا دن ہے سکھیو! سب مل کر گاؤ۔ آج ام المساکین اپنے دولہا کے ساتھ جارہی ہے۔ اسی اثناء میں برات آگئی۔ طفیل بن حارث بن مطلب سے زینب بنت خزیمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا نکاح ہوگیا اور پھر ڈولی رخصت ہوگئی۔ اپنے عزیز و اقارب کو مغموم و افسردہ کرکے، جدائی کا داغ دے کر سسرال چلی گئی۔ سب کا خیال تھا کہ اوصاف حمیدہ کی مالک زینب کی زندگی بڑی حسین و خوشگوار گزرے گی لیکن زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا کہ طفیل بن حارث رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے انہیں طلاق دے دی۔ بہترین سیرت و صورت کی مالکہ کو کیوں طلاق ہوگئی، تاریخ کے اوراق بتانے سے قاصر ہیں۔

طلاق کے بعد سیدہ حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی دوسری شادی پہلے خاوند کے بھائی حضرت عبیدہ بن الحارث رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ہوگئی، ان کی کنیت ابو معاویہ تھی، ماں کا نام سخیلہ تھا، قد میانہ، رنگ گندم گوں اور چہرہ بہت خوب صورت تھا لیکن جوانی کی منزلوں سے گزر چکے تھے جب رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم دار ارقم میں تھے تو خلعت اسلام سے سرفراز ہوئے، دربار نبوت میں انہیں غیر معمولی رفعت حاصل تھی۔ حبیب کبریا صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مکہ معظمہ میں حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ان کا اسلامی بھائی قرار دیا تھا۔

اسلام کے ابتدائی دور میں مسلمانوں پر جو مظالم ڈھائے گئے، ان کا تصور کرکے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں لیکن جو ایک بار دامن محبوب رب العالمین صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے وابستہ ہوجاتا تھا پھر اس پر ہونے والے شدائد کو برداشت کرنا آسان ہوجاتا تھا۔ حضرت عبیدہ بن الحارث رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ان کی اہلیہ سیدہ حضرت زینب بنت خزیمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بھی ان مصائب کا شکار تھے جس قدر ان پر سختیاں کی جاتیں، اتنا ہی ان کے اندر عشق رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا شعلہ بھڑکتا۔ حضرت ام لمساکین رضی اللہ تعالیٰ عنہا توجوان تھیں مگر ان کے شوہر نامدار کی عمر زیادہ تھی لیکن حق کی حمایت اور اللہ تعالیٰ کے رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نصرت میں ان کا جذبہ اور ولولہ جوانوں سے کسی طرح بھی کم نہ تھا۔

ایک دن جانثاران رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم حاضر خدمت تھے کہ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے لب ہائے مبارک وا فرمائے اور ارشاد فرمایا: تم لوگ مدینے کی طرف ہجرت کرجاؤ۔ اور یاحبیب اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ؟ ایک عاشق رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عرض کیا۔ مجھے ابھی ہجرت کا حکم نہیں۔ شام کا جھٹپٹا تھا جب حضرت عبیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ گھر میں داخل ہوئے، سیدہ زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا چشم براہ تھیں۔ کیا آج کوئی خاص بات ہوئی ہے؟ سیدہ ام المساکین رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے دریافت کیا۔ تمہیں کس طرح معلوم ہوا؟ شوہر نامدار نے پوچھا۔ چہرے کے تاثرات سے اندازہ لگایا ہے۔

حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے جواب دیا۔ حضرت عبیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ادھر ادھر نظر گھماکر دیکھا اور پھر آہستگی سے بولے: ہجرت کا حکم ہوا۔ واقعی؟ ہاں! کس طرف؟ حضرت ام المساکین رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے سرگوشیانہ انداز میں پوچھا۔ مدینہ کی طرف ۔

اب میاں بیوی درپردہ ہجرت کی تیاریاں کرنے لگے اور مناسب وقت کا انتظار تھا کہ کب مکہ کو خیر باد کہا جائے، آخر وقت آگیا۔ حضرت عبیدہ بن الحارث رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنی زوجہ محترمہ حضرت زینب ملقب بہ ام المساکین رضی اللہ تعالیٰ عنہا، دونوں بھائیوں حضرت طفیل، حضرت حصین اور ایک ساتھی حضرت مسطح بن اثاثہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ اہل مکہ کی نظروں سے چھپتے چھپاتے مدینے کے لئے روانہ ہوئے۔ جذبے جوان، سفر دور کا، دشمن کا کھٹکا موجود تھا۔ مہاجرین کا یہ چھوٹا سا قافلہ اپنی منزل کی طرف رواں دواں تھا کہ اتفاق سے راستے میں حضرت مسطح رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بچھو نے ڈنگ مارا اور وہ پیچھے رہ گئے۔ انہوں نے حضرت عبیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا کہ وہ اپنا سفر جاری رکھیں جونہی ان کی حالت سنبھلی تو وہ ساتھ آکر مل جائیں گے لیکن دوسرے دن خبر ملی کہ وہ چلنے پھرنے سے بھی قاصر ہیں تو حضرت عبیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور انکے ساتھیوں کو یہ گوارا نہ ہوا کہ ان کا ایک بھائی مصیبت میں مبتلا ہو اور وہ اسے بے یارومددگار ویرانے میں چھوڑ کر چلے جائیں۔ مسلمانی تو دوسرے بھائی کے لئے قربانی دینے کا نام ہے لہذا وہ واپس گئے اور حضرت مسطح بن اثاثہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ساتھ لیا اور پھر سوئے مدینہ چل پڑے اب اس چھوٹے سے قافلے کی رفتار پہلے سے قدرے کم تھی کیونکہ اس میں ایک بیمار بھی تھا جس کی دیکھ بھال کرنا ضروری تھی۔

طویل سفر کے بعد جب جانثاران عاشقان رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ مختصر سا قافلہ مدینہ پاک کی پرامن و محبت آمیز فضا میں داخل ہوا تو سب سے پہلے حضرت عبدالرحمن بن سلمہ عجلانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسے خوش آمدید کہا اور بڑے لطف و مہربانی سے میزبانی کا حق ادا کیا اور جب ہجرت فرمانے کے بعد رسول عربی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم مدینہ منورہ تشریف لائے تو حضرت عبیدہ بن الحارث رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حضرت عمیر بن حمام انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مواخات کرادی گئی اور مستقل سکونت کے لئے ایک قطعہ اراضی مرحمت فرمایا جس میں ان کا تمام خاندان آباد ہوا۔

حضرت عبیدہ بن الحارث اور ان کی اہلیہ محترمہ حضور اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عشق محبت اور جانثارانہ انداز میں زندگی کے دن گزارنے لگے۔ ہر لحظہ محبوب کبری صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رضا و اتباع مقصود تھی۔ حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا حسب معمول غرباء و مساکین کو کھانا کھلاتیں، کوئی دراقدس سے خالی ہاتھ نہ لوٹتا تھا، خاص لگاؤ اور محبت کی بناء پر رحمت للعالمین صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نگاہ میں حضرت عبیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا خاص مقام تھا لہذا وہ لوگوں میں شیخ المہاجرین کے لقب سے مشہور ہوگئے۔

اسلام کے پھیلاؤ کے ساتھ ساتھ دشمنان دین متین کی عداوت و مخالفت میں بھی تیزی و تندی آرہی تھی اس کا سد باب ضروری تھا لہذا ہجرت کے آٹھویں مہینے شروع شوال میں رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے رابغ کی طرف ایک سریہ بھیجا جس کو حضرت مسطح بن اثاثہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ لئے ہوئے تھے جنہیں دوران سفر ہجرت بچھو نے کاٹ لیا تھا۔ رابغ کے قریب ابوسفیان کی زیر امارت دو سو مشرکین کی جماعت سے مڈبھیڑ ہوئی لیکن جنگ و خون ریزی کی نوبت نہ آئی، صرف چند تیروں کا تبادلہ ہوا۔

محبوب رب العالمین صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سایہ رحمت میں حضرت عبیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اورحضرت زینب بنت خزیمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا خوش نصیب جوڑا بڑی پرسکون و اطمینان بخش زندگی گزار رہا تھا۔ ایک دن میاں بیوی بیٹھے باتیں کررہے تھے۔ سن 2 ہجری اور رمضان المبارک کا مہینہ تاریخ 12 اور ہفتے کا دن تھا، اطلاع ملی کہ آج حضور اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم مقام بدر کی طرف تشریف لے جائیں گے۔ حضرت عبیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ جلدی جلدی تیاری کرنے لگے اور حضرت ام لمساکین رضی اللہ تعالیٰ عنہا اس تیاری میں ہاتھ بٹارہی تھیں جب تیار ہوگئے تو محبت آمیز لہجے میں بولے:

زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا! اللہ حافظ! اللہ اور اس کے محبوب صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو راضی کرنے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھنی۔ حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے کہا: وہی تو دین و ایمان ہیں، ان کی خاطر اگر جان قربان ہوجائے تو اس سے بڑھ کر اور کیا سعادت ہوگی۔ حضرت عبیدہ بن الحارث رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے وفور محبت سے کہا۔ میرے لئے بھی تو مایہ ناز ہے کہ شہید کی بیوہ کہلاؤں۔

حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا بڑے جذباتی انداز میں بولیں اور پھر حضرت عبیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ گھر سے باہر نکل گئے اور حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا انہیں جاتے ہوئے دور تک دیکھتی رہیں۔

بدر زمانہ جاہلیت کے تماشاگاہوں میں سے ایک تماشا گاہ تھا جہاں عرب جمع ہوتے تھے، بدر اور مدینے کے درمیان اٹھانوے میل کا فاصلہ تھا، رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم شب جمعہ 17 رمضان المبارک کو بدر کے قریب اترے، یہ حق و باطل کا پہلا معرکہ تھا۔ صف آرائی کے بعد مشرکین کی طرف سے عتبہ، شیبہ اور ولید میدان جنگ میں اترے، مبارزت طلب کی۔ علی حمزہ، عبیدہ۔ حضور اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یکے بعد دیگرے تینوں اصحاب کے نام پکارے۔ لبیک یارسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم ! تینوں اصحاب نے بآواز بلند کہا۔ دشمن کے مقابلے پر جاؤ۔

ماخوذ از ماہنامہ دخترانِ اسلام، جنوری 2016

تبصرہ