سرورِ کائنات صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت، عالم انسانیت کی صبحِ سعادت

محمد احمد طاہر

نثار تیری چہل پہل پر ہزاروں عیدیں ربیع الاول
سوائے ابلیس کے جہاں میں سبھی تو خوشیاں منارہے ہیں

ماہ ربیع الاول وہ عظیم ماہ ہے جس میں امام الانبیاء حبیب کبریائ، فخر موجودات، باعث تخلیق کائنات حضرت محمد صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت باسعادت ہوئی۔ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم تمام جہانوں کے لئے رحمت بن کر آئے۔ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وجود مسعود سے پوری دنیا میں نور حق پھیلا اور کفرو باطل کی تاریکیاں چھٹ گئیں۔

یہی وہ دور تھا جب جہالت عام تھی، عدل وانصاف ناپید تھا۔ انس، پیار اور محبت نام کی کوئی چیز نہ تھی۔ بقول شاعر

تاریک تھا، ظلمت کدہ تھا، سخت کالا تھا
پردے سے پردہ کیا نکلا کہ گھر گھر میں اجالا تھا

عرش و فرش پر خوشیوں کا اظہار

حضرت عمرو بن قتیبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے اپنے والد سے سنا جو بہت بڑے عالم تھے، فرماتے ہیں:

لما حضرت ولادة آمنة قال الله تعالیٰ الملائکته افتحوا ابواب السمآء کلها، وابواب الجنان، وابست الشمس يومئذ نورا عظيما، وکان قد اذن الله تلک السنة لنسآء الدنيا ان يحملن ذکورا کرامة لمحمد.

(الخصائص الکبریٰ، باب اخبار الکهان به قبل مبعثه، ج1، ص80)

’’حضرت آمنہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاں ولادت باسعادت کا وقت قریب آیا تو اللہ تعالیٰ نے فرشتوں سے فرمایا کہ تمام آسمانوں اور جنتوں کے دروازے کھول دو۔ اس روز سورج کو عظیم نور پہنایا گیا اور اللہ تعالیٰ نے دنیا بھر کی عورتوں کے لئے یہ مقدر کردیا کہ وہ حضور اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی برکت سے لڑکے جنیں‘‘۔

اللہ تعالیٰ نے میلاد النبی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم پر پورا سال خوشی کا اظہار فرمایا

علامہ نورالدین علی بن ابراہیم بن احمد حلبی شافعی (متوفی 1044ھ) لکھتے ہیں:

وکانت تلک السنة التی حمل فيها برسول الله صلیٰ الله عليه وآله وسلم يقال لها سنة الفتح والابتهاج، فان قريشا کانت قبل ذلک فی جدب وضيق عظيم فاخضرت الارض وحملت الاشجار واتاهم الرغد من کل جانب فی تلک السنة.

(السيرة الحلبية، ج1، ص72)

جس سال نور محمد صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت آمنہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ودیعت ہوا۔ وہ فتح و نصرت، ترو تازگی اور خوشحالی کا سال کہلایا۔ اہل قریش اس سے قبل معاشی بدحالی، عسرت اور قحط سالی میں مبتلا تھے۔ ولادت کی برکت سے اس سال اللہ تعالیٰ نے بے آب و گیاہ زمین کو شادابی اور ہریالی عطا فرمائی اور سوکھے درختوں اور مردہ شاخوں کو ہرابھرا کرکے انہیں پھلوں سے لاد دیا۔ اہل قریش اس طرح ہر طرف سے کثیر خیر آنے سے خوشحال ہوگئے۔

میلاد النبی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خوشیاں منانے کا حکم خداوندی

اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی نعمتوں کا شکر بجا لانے کا ایک مقبول عام طریقہ خوشی و مسرت کا اعلانیہ اظہار ہے۔ میلاد مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بڑی نعمت اور کیا ہوسکتی ہے۔ یہ وہ نعمت عظمیٰ ہے جس کے لئے خود رب کریم نے خوشیاں منانے کا حکم فرمایا ہے:

قُلْ بِفَضْلِ اﷲِ وَبِرَحْمَتِهِ فَبِذٰلِکَ فَلْيَفْرَحُوْا ط هُوَ خَيْرٌ مِّمَّا يَجْمَعُوْنَ.

(يونس، 10: 58)

’’فرمادیجئے: (یہ سب کچھ) اللہ کے فضل اور اس کی رحمت کے باعث ہے (جو بعثت محمدی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعے تم پر ہوا ہے) پس مسلمانوں کو چاہئے کہ اس پر خوشیاں منائیں، یہ (خوشی منانا) اس سے کہیں بہتر ہے جسے وہ جمع کرتے ہیں‘‘۔

مندرجہ بالا آیت کریمہ کے تحت حضور شیخ الاسلام علامہ ڈاکٹر محمد طاہرالقادری مدظلہ العالی اپنی عظیم الشان تصنیف ’’میلاد النبی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم‘‘ میں رقمطراز ہیں:

اس آیہ کریمہ میں اللہ تعالیٰ کا روئے خطاب اپنے حبیب صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ہے کہ اپنے صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ان کے ذریعے پوری امت کو بتادیجئے کہ ان پر اللہ کی جو رحمت نازل ہوئی ہے وہ ان سے اس امر کی متقاضی ہے کہ اس پر جس قدر ممکن ہوسکے خوشی اور مسرت کا اظہار کریں۔ جس دن حبیب خد صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت مبارکہ کی صورت میں عظیم ترین نعمت انہیں عطا کی گئی ہے اسے شایان شان طریقے سے منائیں۔ اس آیت میں حصول نعمت کی یہ خوشی امت کی اجتماعی خوشی ہے جسے اجتماعی طور پر جشن کی صورت میں ہی منایا جاسکتا ہے۔ چونکہ حکم ہوگیا ہے کہ خوشی منائو اور اجتماعی طور پر خوشی عید کے طور پر منائی جاتی ہے یا جشن کے طور پر۔ لہذا آیہ کریمہ کا مفہوم واضح ہے کہ مسلمان یوم ولادت رسول اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عید میلاد النبی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے طور پر منائیں۔

(ميلاد النبی صلیٰ الله عليه وآله وسلم، ص:203)

ولادت مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خوشی میں جھنڈے نصب ہوئے

ولادت و میلاد مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم عالم انسانیت پر خداوند کریم کا احسان عظیم ہے۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اپنے حبیب مکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے یوم میلاد کے موقع پر 1400 سال پہلے بھی جھنڈے نصب فرمائے تھے۔

حضرت آمنہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتی ہیں: میں نے دیکھا کہ تین جھنڈے نصب کئے گئے۔ ایک مشرق میں، دوسرا مغرب میں، تیسرا کعبے کی چھت پر اور حضور اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت ہوگئی۔

(خصائص کبریٰ، ج اول، ص82)

نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا میلاد منایا

حضرت ابوقتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں:

ان رسول الله صلیٰ الله عليه وآله وسلم سئل عن صوم يوم الاثنين فقال فيه ولدت وفيه انزل علی.

رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پیر کے روزے کے بارے میں دریافت کیا گیا تو آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اس دن میں پیدا ہوا اور اسی روز مجھ پر وحی نازل کی گئی۔

(صحيح مسلم، کتاب الصيام، رقم الحديث: 2742)

پیر کا دن

یوم الاثنین (Monday) یعنی پیر کا دن نہ صرف ولادت و میلاد مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ مناسبت رکھتا بلکہ سیرت و حیات نبوی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ بھی خصوصی نسبت رکھتا ہے۔ ذیل میں سیرت مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چند واقعات جن کا تعلق پیر کے دن سے ہے، ملاحظہ فرمایئے:

  • اعلان نبوت پیر کو
  • مکہ سے ہجرت پیر کو
  • مدینہ میں داخلہ پیر کو
  • حجر اسود نصب ہوا پیر کو
  • مکہ فتح ہوا پیر کو
  • سورہ المائدہ کا نزول ہوا پیر کو (المواهب اللدنية)
  • آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وصال بھی پیر کو (الرحيق المختوم)

کیا صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کبھی میلاد کی محفل سجائی؟

یہاں ایک غلط فہمی کا ازالہ ضروری ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے کبھی کیا میلاد کی محفل سجائی۔ چنانچہ حدیث نبوی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم ملاحظہ فرمایئے:

حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت معاویہ  رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ حضور نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم گھر سے باہر تشریف لائے اور صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حلقہ میں آئے اور دریافت فرمایا: تم کس وجہ سے بیٹھے ہو؟ انہوں نے عرض کیا:

جلسنا ندعوا الله ونحمده علی ماهدانا لدينه ومن علينا بک.

اللہ سے دعا اور اس کا شکر ادا کرتے ہیں کہ اس نے اپنا دین ہم کو بتلایا اور آپ کو بھیج کر ہم پر احسان کیا۔

آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہاں اللہ کی قسم! تم اس وجہ سے بیٹھے ہو؟ انہوں نے عرض کیا: اللہ کی قسم ہم اسی واسطے بیٹھے ہیں۔ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جبرائیل امیں پاس آئے اور مجھے کہا کہ اللہ تم لوگوں سے فرشتوں پر فخر کرتا ہے۔

(سنن نسائی، باب کيف يستحلف الحاکم، رقم: 5432)

اہل مدینہ نے نبی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدینہ آمد پر بے انتہا خوشی منائی

حضرت براء بن عازب رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ سب سے پہلے مدینہ منورہ میں ہمارے پاس جو آئے وہ حضرت مصعب بن عمیر اور حضرت ام مکتوم رضی اللہ عنہما ہیں اور یہ دونوں حضرات لوگوں کو قرآن پڑھاتے تھے۔ پھر حضرت بلال، حضرت سعد بن ابی وقاص اور حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہم آئے۔ ان کے بعد حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ آئے جو نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بیس اصحاب کو ساتھ لائے تھے۔ پھر خود نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے۔

فما رايت اهل المدينة فرحوا بشئی فرحهم برسول الله صلیٰ الله عليه وآله وسلم.

میں نے اہل مدینہ کو اتنی خوشی مناتے ہوئے کبھی نہیں دیکھا جتنی خوشی انہیں رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدینہ تشریف آوری سے ہوئی۔ یہاں تک کہ لونڈیاں بھی کہتی تھیں کہ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارے پاس تشریف لے آئے۔

(صحيح بخاری، کتاب المناقب، رقم: 1104)

نبی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدینہ آمد کی خوشی میں حبشی صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے رقص کیا

حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ

لما قدم رسول الله صلیٰ الله عليه وآله وسلم المدينة لعبت الحبشة لقدومه فرحا بذلک لعبوا لبحرابهم.

جب رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدینہ منورہ تشریف آوری ہوئی تو حبشی صحابہ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد کی خوشی میں اپنے نیز لے کر کھیلے۔

(سنن ابودائود، باب الادب، رقم الحديث: 1492)

نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدینہ آمد کی خوشی میں حبشی صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے گیت گایا

حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ کچھ حبشی صحابہ رضی اللہ عنہم رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے رقص کرتے ہوئے یہ گیت گا رہے تھے:

محمد عبد صالح

محمد صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نیک آدمی ہیں

نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پوچھا: یہ لوگ کیا کہہ رہے ہیں؟ لوگوں نے بتایا: یہ کہہ رہے ہیں:

محمد عبد صالح

محمد صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نیک آدمی ہیں

میلاد منانے کا اجر ضرور ملتا ہے

اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیدائش پر خوشی منانا اتنا پسندیدہ عمل ہے کہ ابولہب جیسے کافرو مشرک کو بھی مرنے کے بعد اس کا اجر ملا۔ چنانچہ اس سلسلہ میں صحیح بخاری کی روایت ملاحظہ فرمایئے:

حضرت عروہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ ثویبہ پہلے ابولہب کی لونڈی تھی۔ جب ابولہب نے اسے آزاد کردیا تو اس نے نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دودھ پلایا۔ جب ابولہب مرگیا تو اس کے گھر والوں میں سے کسی (حضرت عباس رضی اللہ عنہ) نے اسے برے حال میں دیکھا، اس نے (یعنی حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ابولہب) سے پوچھا کہ (مرنے کے بعد) تمہارے ساتھ کیا گزری؟ ابولہب نے جواب دیا کہ تم سے جدا ہوتے ہی سخت عذاب میں پھنس گیا ہوں۔ سوائے اس کے کہ ثویبہ کو آزاد کرنے کے باعث اس میں سے مجھے پانی پلادیا جاتا ہے۔ (یعنی جن دو انگلیوں کے اشارے سے میں نے ثویبہ کو آزاد کیا تھا اسی روز یعنی پیر کے دن مجھے انہی دو انگلیوں سے پانی پلادیا جاتا ہے۔ جس سے میرے عذاب میں کمی ہوجاتی ہے)۔

(صحيح بخاری، کتاب النکاح، ج3، ص69، حديث نمبر92)

یاد رہے کہ یہ متفقہ مسئلہ ہے کہ جو شخص کفرو شرک کی حالت میں مرے تو اسے مرنے کے بعد اللہ کی بارگاہ سے کسی بھی اچھے کام کا اجرو ثواب نہیں دیا جاتا۔ مگر صرف ایک عمل ایسا ہے جو اگر کافر و مشرک بھی کرے تو اسے بھی اللہ تعالیٰ کی بارگاہ سے مرنے کے بعد بھی اجرو ثواب ملتا ہے اور وہ عمل ہے نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو صرف اپنا بھتیجا سمجھ کر خوشی منائی، نبی سمجھ کر نہیں۔۔۔۔ مگر پھر بھی اسے اجر ملا۔

ہم آقا صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کی خوشی کرتے ہیں وصال کا غم کیوں نہیں؟

ہمارے وہ احباب جنہیں میلاد النبی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جشن سے چڑ ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ 12 ر بیع الاول رسول اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یوم ولادت بھی ہے اور یوم وصال بھی ہے تو جو لوگ اس دن جشن ولادت مناتے ہیں وہ وصال کا غم کیوں نہیں مناتے؟ اس سوال کا جواب حضرت امام جلال الدین سیوطی (متوفی 911ھ) رحمۃ اللہ علیہ نے بڑے خوب صورت انداز میں دیا ہے۔

ان ولادته صلیٰ الله عليه وآله وسلم اعظم النعم علينا ووفاته اعظم المصائب لنا والشريعة حثت علی اظهار شکر النعم والصبر والسکون والکتم عندالمصائب وقد امرا الشرع بالعقيقة عند الولاة وهی اظهار شکرو فرح بالمولود ولم يامر عندالموت بذبح ولا بغيره بل نهی عن النياحة واظهار الجزع، فدلت قواعد الشريعة علی انه يحسن فی هذا الشهر اظهار الضرح بولادته صلیٰ الله عليه وآله وسلم دون اظهار الحزن فيه بوفاته.

(الحاوی للفتاویٰ، الرسالة الحسن المقصد، دارالکب العلمية، بيروت)

آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت ہم پر سب سے بڑی نعمت ہے اور آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات ہم پر سب سے بڑی مصیبت اور شریعت نے نعمت کے ملنے پر شکر ادا کرنے اور مصیبتوں پر صبرو سکون اور (غم) چھپانے کا حکم دیا ہے اور شرع نے ہمیں ولادت پر عقیقہ کا حکم دیا اور وہ شکر کا اظہار ہے اور مولود کی خوشی ہے اور ہمیں موت پر کچھ ذبح کرنے کا حکم نہیں دیا اور نہ کچھ اور بلکہ ہمیں نوحہ کرنے اور چلانے سے منع کیا تو شریعت کے قوانین اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ اس مہینے میں آپ  صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کا غم کرنے کی بجائے آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت پر خوشی کو پسند کرے۔

ماخوذ از ماہنامہ دخترانِ اسلام، دسمبر 2015

تبصرہ