قرآن کے نزول کا مقصدحصولِ ہدایت ہے (آخری قسط)

ڈاکٹر ابوالحسن الازہری

گزشتہ حصہ ملاحظہ کرنے کے لیے یہاں کلک کیجیے

 

رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تم میرے بعد ہدایت پر ہی رہو گے۔ جب تک تم ایک ہاتھ میں قرآن اور دوسرے ہاتھ میں میری سنت و حدیث کو تھامے رہو گے۔

ترکت فيکم امرين لن تضلوا ماتمسکتم بهما کتاب الله وسنة لنبيه.

’’رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا میں تمہارے پاس دو چیزیں چھوڑے جارہا ہوں اگر تم انہیں تھامے رکھو گے کبھی بھی گمراہ نہ ہوگے ایک اللہ کی کتاب اور دوسرے تمہارے نبی کی سنت‘‘۔

(امام مالک، الموطا کتاب القدر باب النهی عن القول بالقدر، 3: 899)

قرآن سے مسلمانوں کا تعلق

قرآن سے تعلق کمزور کرنا ہدایت الہٰی سے تعلق کمزور کرنا ہے۔ قرآن سے تعلق توڑنا ہدایت ربانی سے تعلق توڑنا ہے، قرآن کو چھوڑنا اسلام کو عملاً چھوڑنا ہے، مسلمانوں نے قرآن کو قلباً اور ذہناً نہیں چھوڑا ہے بلکہ عملاً چھوڑا ہے۔ اسی کا شکوہ قیامت کے روز رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم امت کی بابت اللہ رب العزت کی بارگاہ میں یوں کریں گے۔

وَقَالَ الرَّسُوْلُ يٰـرَبِّ اِنَّ قَوْمِی اتَّخَذُوْا هٰذَا الْقُرْاٰنَ مَهْجُوْرًا.

’’اور رسولِ (اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم) عرض کریں گے: اے رب! بے شک میری قوم نے اس قرآن کو بالکل ہی چھوڑ رکھا تھا‘‘۔

(فرقان، 25: 30)

نزول بالقرآن کی نعمت ہم کو اس طرف متوجہ کرتی ہے کہ ہم اپنی زندگیوں کو مھجور بالقرآن ہونے سے کیسے بچائیں۔ ہم قرآن سے اپنے کمزور تعلق کو کیسے مضبوط کریں، ہم اتحاد بالقرآن کی کیا کیا صورتیں اختیار کریں تاکہ ہمارا قلبی اور عملی تعلق قرآنی ہدایت کے ساتھ مضبوط سے مضبوط تر ہوتا جائے۔

قرآن کی تلاوت اور مطالعہ

قرآن اس حوالے سے بھی اپنے ماننے والوں کی راہنمائی کرتا ہے۔ سورہ الکہف میں ارشاد فرمایا:

وَاتْلُ

اس قرآن کی تلاوت کیا کرو۔

(الکهف، 18: 27)

اس قرآن کو پڑھا کرو، یہ پڑھنا کبھی کبھار نہ ہو بلکہ یہ پڑھنا کثرت کے ساتھ ہو اس لئے قرآن کا معنی ہی یہ ہے: القرآن الکتاب الذی قرا مرۃ بعد مرۃ۔ ’’وہ کتاب جس کو بار بار پڑھا جائے یعنی وہ کتاب جس کو بہت زیادہ پڑھا جائے‘‘۔ اس لئے باری تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

واتل۔ اس قرآن کی تلاوت کیا کرو اور تلاوت اپنے اندر خود کثرت کا معنی رکھتی ہے۔ آیت کے اگلے حصے میں اس کی بھی تخصیص کردی اور ارشاد فرمایا:

مَآ اُوْحِيَ اِلَيْکَ مِنْ کِتَابِ رَبِّکَ

’’جو آپ کے رب کی کتاب میں سے آپ کی طرف وحی کیا گیا ہے‘‘۔

(الکهف، 18: 27)

اب سوال یہ ہے کہ قرآن کی تلاوت کیونکر ضروری ہے اس لئے کہ قرآن کی تلاوت انسان کو ہدایت تک لے جاتی ہے۔ قرآن کی تلاوت انسان کو اللہ کی اطاعت اور بندگی پر گامزن رکھتی ہے۔ قرآن کی تلاوت انسان کو اللہ کی فرمانبرداری پر قائم رکھتی ہے اور قرآن کی تلاوت انسان کو اللہ کی بارگاہ سے، اس کے انعامات کا مستحق بناتی ہے اس لئے سورہ النمل میں ارشاد فرمایا:

وَّاُمِرْتُ اَنْ اَکُوْنَ مِنَ الْمُسْلِمِيْنَ. وَ اَنْ اَتْلُوَا الْقُرْاٰنَ ج فَمَنِ اهْتَدٰی فَاِنَّمَا يَهْتَدِيْ لِنَفْسِهِ.

’’اور مجھے (یہ) حکم (بھی) دیا گیا ہے کہ میں (اللہ کے) فرمانبرداروں میں رہوں۔ نیز یہ کہ میں قرآن پڑھ کر سناتا رہوں سو جس شخص نے ہدایت قبول کی تو اس نے اپنے ہی فائدہ کے لیے راہِ راست اختیار کی‘‘۔

(النحل، 27: 91 تا 92)

روزانہ قرآن کا پڑھنا اور سمجھنا

یہ تلاوت قرآن ایسی ہو جس میں تسلسل ہو جو اگرچہ تھوڑی ہو مگر مسلسل ہو۔ کبھی بھی اس میں انقطاع نہ آئے، کبھی بھی یہ عمل تلاوت چھوٹنے نہ پائے، یہ تلاوت بالقرآن آسانی کے ساتھ سارا سال ہمیشہ جاری رہے۔ اس لئے فرمایا:

فَاقْرَءُ وْا مَا تَيَسَّرَ مِنَ الْقُرْاٰنِ.

’’پس جتنا آسانی سے ہو سکے قرآن پڑھ لیا کرو‘‘۔

(المزمل، 73: 20)

باری تعالیٰ فاقرء وا کے ذریعے اور واتل کے ذریعے تلاوت قرآن اور قرات قرآن کا حکم دے رہا ہے کہ قرآن کی تلاوت کیا کرو اور قرآن پڑھا کرو۔ قرآن کا تلاوت کرنا اور پڑھنا اپنے اندر ہ معنی بھی رکھتا ہے کہ قرآن کا نزول اس لئے ہوا کہ

اِنَّآ اَنْزَلْنٰهُ قُرْئٰنًا عَرَبِيًّا لَّعَلَّکُمْ تَعْقِلُوْنَ.

’’بے شک ہم نے اس کتاب کو قرآن کی صورت میں بزبانِ عربی اتارا تاکہ تم (اسے براہِ راست) سمجھ سکو۔‘‘

(يوسف، 12: 2)

قرآن کی تلاوت اور قرآن کا مقصد بھی یہی ہے کہ لعلمکم تعقلون کہ قرآن کو سمجھا جائے، دوسرے مقام پر فرمایا یہ قرآن اس لئے ہے تاکہ اس کے ذریعے لقوم يعلمون (حم السجده/ فصلت41/ 3) علم حاصل کیا جائے۔ اس قرآن کے ذریعے نئے نئے حقائق جانے جائیں، یہ قرآن اس لئے عطا کیا گیا تاکہ اسے ماننے والے ایک موثر ذریعہ علم جانیں اور قرآن کی تلاوت اس طرح کی جائے کہ اسی قرآن کے ذریعے دیگر اقوام و ملل کے احوال جان کر نصیحت لی جائے۔

قرآن تمام انسانوں کیلئے ہدایت و نصیحت ہے

قرآن کی نصیحت ہی انسانی زندگی کی کامیابی کا راز ہے اس بناء پر فرمایا:

وَيُبَيِّنُ اٰيٰـتِهِ لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَذَکَّرُوْنَ.

’’اور اپنی آیتیں لوگوں کے لیے کھول کر بیان فرماتا ہے تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں‘‘۔

(البقرة، 2: 221)

اس لئے حکم دیا کہ ان پر قرآن کی تلاوت اس طرح کریں کہ فذکر بالقرآن (ق، 50: 45) قرآن کے ذریعے اس شخص کو نصیحت فرمایئے۔ مزید برآں فرمایا:

جو اس قرآن کو بار بار پڑھتے ہیں اور اس قرآن کی کثرت کے ساتھ تلاوت کرتے ہیں ہم نے ان لوگوں کے لئے قرآن سے اخذ نصیحت کو آسان کردیا ہے۔ ارشاد فرمایا:

وَ لَقَدْ يَسَّرْنَا الْقُرْاٰنَ لِلذِّکْرِ فَهَلْ مِنْ مُّدَّکِرٍ.

’’اور بے شک ہم نے قرآن کو نصیحت کے لیے آسان کر دیا ہے سو کیا کوئی نصیحت حاصل کرنے والا ہے؟‘‘۔

(القمر، 54: 22)

یہ قرآن ہماری انفرادی اجتماعی اور بین الاقوامی زندگی کے لئے بھی تذکرہ و نصیحت ہے۔ انفرادی زندگی کے لئے اس طرح کہ ان ھذہ تذکرۃ (المزمل:19) یہ قرآن نصیحت ہے اور قومی زندگی کے لئے بھی نصیحت ہے۔ انہ لذکر لک ولقومک۔ یہ قرآن آپ کے لئے اور آپ کی پوری قوم کے لئے بھی نصیحت ہے اور بین الاقوامی زندگی کے لئے بھی نصیحت ہے۔ ان هوا الا ذکر للعلمين (انعام: 91) یہ قرآن تمام عالم کے لئے نصیحت و ہدایت ہے۔

قرآن کی تلاوت اس لئے بھی ہے کہ ہر مسلمان تفکر فی القرآن کرے، ہر اہل ایمان قرآن میں غوروفکر کرے۔ ہر مومن سوچنے کو اپنی عادت بنائے، اعلیٰ فکر کو اختیار کرنا اپنا شعار بنائے، ارفع افکار کو اپنانا اپنا وطیرہ حیات بنائے، اپنی زندگی کو مسلمہ افکار پر ڈھالنا اپنی شناخت بنائے، اپنی سوچ و فکر کو عمدہ بنانا اپنی سیرت بنائے، اس لئے فکر، عمل کی بنیاد بنتی ہے، سوچ کسی بھی فعل کی اساس ثابت ہوتی ہے، فکر ایک بیج ہے اور عمل اس کا پھل ہے۔ اس لئے فرمایا ہر اعلیٰ فکر، قرآن کے دامن میں ہے۔

آیات میں تفکر و تدبر کا لازمی حکم

ارفع فکر قرآن سے تفکر اور تدبیر کے ذریعے ہی میسر آسکتی ہے اس لئے فرمایا کہ قرآن کی تلاوت اس طرح کرو کہ آیات قرآن میں تفکر کرتے چلے جائو۔ آیات الہٰیہ میں غورو فکر کو اپناتے جائو، اس لئے کہ قرآن کے نزول اور قرآن کی تلاوت کا ایک مقصد تفکر فی القرآن ہے، اس لئے تلاوت قرآن حکیم کے دوران تفکر فی القرآن اور تفکر فی آیات القرآن کا حکم دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:

اِنَّ فِيْ ذٰلِکَ لَاٰيَةً لِّقَوْمٍ يَتَفَکَّرُوْنَ.

’’بے شک اس میں غور و فکر کرنے والوں کے لیے نشانی ہے‘‘۔

 (النحل، 16: 69)، (الروم، 30: 21)، (الرعد، 13: 3)، (الجاثية، 45: 13)

اسی طرح سورہ یونس میں ارشاد فرمایا:

کَذٰلِکَ نُفَصِّلُ الْاٰيٰتِ لِقَوْمٍ يَتَفَکَّرُوْنَ.

’’اسی طرح ہم ان لوگوں کے لیے نشانیاں کھول کر بیان کرتے ہیں جو تفکر سے کام لیتے ہیں‘‘۔

(يونس، 10: 24)

ارشاد فرمایا:

اَوَلَمْ يَتَفَکَّرُوْا فِيْ اَنْفُسِهِمْ.

’’کیا انہوں نے اپنے مَن میں کبھی غور نہیں کیا‘‘

(الروم، 30: 8)

قرآن تفکر فی الآیات اور تفکر فی الذات کی ترغیب دے کر انسانوں کو عرفان الغایہ (منزل کی معرفت ارائۃ الطریق (راستہ کا دکھانا) اور ایصال الی المطلوب (منزل تک پہنچا دینے) تک لے جاتا ہے، اس تفکر کے ذریعے انسان اھدنا الصراط المستقیم کے مقصد حیات کو پالیتا ہے۔

معرفت قرآن کے لئے تدبر فی القرآن ضروری ہے

قرآن تفکر بالقرآن کے اسی عمل کو تدبر بالقرآن کے ذریعے بھی بیان کرتا ہے۔ ارشاد فرمایا:

افَـلَا يَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَ.

’’تو کیا وہ قرآن میں غور و فکر نہیں کرتے ‘‘۔

(النساء، 4: 82)

اگر وہ قرآن میں غورو فکر کریں تو وہ قرآن کے سب رازوں کو پالیں گے۔ حقائق کائنات ان پر منکشف ہوجائیں گے، قرآن کی صداقت بھی ان پر آشکار ہوجائے گی۔ اللہ کی معرفت کے راز بھی ان پر کھل جائیں گے۔ اس لئے آیت کے اگلے حصے میں فرمایا:

وَلَوْ کَانَ مِنْ عِنْدِ غَيْرِ اﷲِ لَوَجَدُوْا فِيْهِ اخْتِلَافًا کَثِيْرًا.

’’اور اگر یہ (قرآن) غیرِ خدا کی طرف سے (آیا) ہوتا تو یہ لوگ اس میں بہت سا اختلاف پاتے‘‘۔

(النساء، 4: 82)

قرآن تفکر فی القرآن اور تدبر فی القرآن کے عمل کو لازمی بنیادوں پر اختیار کرنے کے حوالے سے اہل ایمان اور اہل اسلام کو جھنجھوڑتے ہوئے یوں بیان کرتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

اَفَـلَا يَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَ اَمْ عَلٰی قُلُوْبٍ اَقْفَالُهَا.

’’کیا یہ لوگ قرآن میں غور نہیں کرتے یا ان کے دلوں پر تالے (لگے ہوئے) ہیں‘‘۔

(محمد، 47: 24)

تفکر فی القرآن ہر مسلمان کیلئے ایک لازمی امر ہے

تدبر فی القرآن اور تفکر فی القرآن کی اس سے بڑھ کر کوئی ترغیب نہیں ہوسکتی۔ قرآن میں تفکر اور تدبر کرنا یہ عمل کس قدر اہمیت کا حامل ہے۔ اس پر قرآن کے یہ الفاظ شاہد ہیں، افلا یتدبرون القرآن۔ قرآن اپنے ماننے والوں کو جھنجھوڑتا ہے کہ قرآن کو سمجھنا ہے تو تفکر فی القرآن کا عمل اختیار کرو۔ قرآن کو جاننا ہے تو تدبر فی القرآن کا وظیفہ اپنائو، قرآن میں فہم حاصل کرنا ہے تو تذکیر بالقرآن پر عمل کرو، قرآن سے ہدایت لینی ہے تو تمسک بالقرآن پر کاربند ہوجائو۔ قرآن سے قول و فعل اور خلق و سیرت کی خیرات اور روشنی لینی ہے تو تلاوت بالقرآن کو اپنا معمول بنائو۔ اقوامِ عالم میں عزت اور رفعت کے ساتھ جینا ہے تو ہدیات بالقرآن کو اپنا قومی وملی شعار بنائو۔

مسلمان قرآن کے بغیر کچھ نہیں

اس لئے یہ بات ذہن نشین کرلو تم قرآن کے بغیر کچھ نہیں ہو۔ تم سے پہلے یہود و نصاریٰ کی بھی ساری عظمتیں تورات اور انجیل پر عمل کرنے سے وابستہ تھیں۔ اس حقیقت کو بھی قرآن میں یوں فرمایا گیا:

قُلْ يٰـاَهْلَ الْکِتٰبِ لَسْتُمْ عَلٰی شَئٍ حَتّٰی تُقِيْمُوا التَّوْرٰةَ وَالْاِنْجِيْلَ وَمَآ اُنْزِلَ اِلَيْکُمْ مِّنْ رَّبِّکُمْ.

’’فرما دیجیے: اے اہلِ کتاب! تم (دین میں سے) کسی شے پر بھی نہیں ہو، یہاں تک کہ تم تورات اور انجیل اور جو کچھ تمہاری طرف تمہارے رب کی جانب سے نازل کیا گیا ہے (نافذ اور) قائم کر دو‘‘۔

(المائدة، 5: 68)

قرآن جس طرح یہود و نصاریٰ کو مخاطب کرتا ہے کہ تم اپنی کتابوں تورات اور انجیل پر عمل کئے بغیر لستم علی شئی تم کچھ بھی نہیں ہو۔ اسی طرح قرآن زبان حال سے اپنے ماننے والوں، اہل ایمان اور اہل اسلام سے بھی مخاطب ہورہا ہے کہ تم بھی لستم علی شئی تم بھی کچھ نہیں ہو یہاں تک کہ قرآن پر عمل نہ کرلو۔

اس لئے تمہاری ساری عزتیں قرآن سے وابستہ ہیں، تمہاری ساری عظمتیں قرآن سے ہیں، تمہاری ساری رفعتیں قرآن سے ہیں، تمہاری ساری فضیلتیں قرآن سے ہیں، تمہاری ساری اولیتیں قرآن سے ہیں، تمہاری ساری بلندیاں قرآن سے ہیں، تمہاری ساری تابناکیاں قرآن سے ہیں۔ قرآن تمہاری شناخت ہے، قرآن تمہاری پہچان ہے، قرآن تمہارا عمل ہے، قرآن تمہارا قول ہے، قرآن تمہارا خلق ہے، قرآن تمہاری سیرت ہے اور قرآن سے تمہاری شخصیت ہے قرآن سے تمہاری وحدت ہے اور قرآن سے تمہاری اجتماعیت ہے۔ قرآن سے تمہاری تقدسیت ہے، قرآن تمہاری زندگی ہے اور تمہاری زندگی قرآن سے ہے۔ اس راز میں تمہاری انفرادی اور اجتماعی زندگی کی عزت وابستہ ہے بصورت دیگر تمہار احال اے قوم مسلم اقبال کے اس شعر کا مصداق ہوگا۔

وہ معزز تھے زمانے میں مسلماں ہوکر
اور ہم خوار ہوئے تارک قرآن ہوکر

رجوع الی القرآن کی شدید ضرورت

آیئے آج ہم قرآن کی طرف لوٹنے کا عہد کریں، قرآن سے اپنا ربط و ناطہ مضبوط کریں۔ رجوع الی القرآن کا عزم مصمم کریں، قرآن سے اکتساب فکر کریں، قرآن سے اخذ نور کریں، قرآن سے تعلیم کتاب کا تعلق قائم کریں، قرآن سے تزکیہ نفوس کریں، قرآن کی حکمت و دانش سے خود کو مملو کریں، قرآن کو کتاب ہدایت جانیں، قرآن سے تذکیر و نصیحت لیں، قرآن سے حبی و عشقی تعلق استوار کریں، قرآن کو اپنا قول و فعل بنائیں، قرآن کو اپنا خلق بنائیں، قرآن سے اپنی انفرادی زندگی سنواریں اور قرآن سے اپنی اجتماعی زندگی کی اصلاح کریں، قرآن کو رسول اللہ کا زندہ معجزہ جانیں اور قرآن کی زندہ فکر کو اپنائیں، قرآن سے اسلام کی حقانیت کو جانیں اور قرآن سے رسول اللہ سے شان ختم نبوت اور شان رسالت کو مانیں اور قرآن سے اللہ کی توحید اور معرفت کا ادراک کریں۔

مسلمانوں سے قرآن کے خطاب کے انداز

قرآن اہل ایمان سے کبھی یوں خطاب کرتا ہے۔ افلا یتدبرون القرآن، کبھی یوں فرماتا ہے ان ہذا القرآن یھدی للتی ھی اقوم و بینت من الھدی والفرقان اور کبھی لعلکم ترحمون کہ یہ قرآن تمہارے لئے رحمت الہٰی کا باعث ہے۔ کبھی فاستعذ باللہ کے ذریعے اہل ایمان کو پیغام دیتا ہے کہ یہ قرآن تمہارے لئے اللہ کی طرف سے پناہ گاہ ہے۔ جیسے فرمایا:

فاذا قرات القرآن فاستعذ باللہ من الشیطان الرجیم۔ کبھی اہل ایمان کو یہ بتایا جاتا ہے کہ یہ قرآن تمہارے لئے شفا ہی شفا ہے اور تمہاری ظاہری بیماریوں کے لئے بھی شفاء ہے اور تمہاری باطنی بیماریوں کے لئے بھی شفا ہے۔ حتی کہ یہ قرآن سراسر تمہارے لئے رحمت ہی رحمت ہے۔

وَنُـنَـزِّلُ مِنَ الْقُرْاٰنِ مَا هُوَ شِفَآءٌ وَّرَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِيْنَ.

’’اور ہم قرآن میں وہ چیز نازل فرما رہے ہیں جو ایمان والوں کے لیے شفاء اور رحمت ہے اور ظالموں کے لیے تو صرف نقصان ہی میں اضافہ کر رہا ہے‘‘۔

(الاسراء، 17: 82)

تمام لوگوں سے بالعموم اور اہل اسلام سے بالخصوص قرآن یوں مخاطب ہوتا ہے:

ولقد فرينا للناس فی القرآن من کل مثل لعلهم يتذکرون.

گویا قرآن خود اعلان کررہا ہے کہ قرآن اس لئے کہ تاکہ اس کو پڑھنے اور ماننے والے لعلہم یتذکرون اس سے نصیحت حاصل کریں کبھی لعلہم یتفکرون اور لقوم یتفکرون کے ذریعے اہل ایمان کو اس حقیقت سے آگاہ کیا جاتا ہے کہ قرآن اس لئے نازل ہوا ہے کہ اس میں تفکر اختیار کیا جائے اور غورو فکر کیا جائے۔

وَاَنْزَلْنَآ اِلَيْکَ الذِّکْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَيْهِمْ وَلَعَلَّهُمْ يَتَفَکَّرُوْنَ.

’’اور (اے نبیِ مکرّم!) ہم نے آپ کی طرف ذکرِ عظیم (قرآن) نازل فرمایا ہے تاکہ آپ لوگوں کے لیے وہ (پیغام اور احکام)خوب واضح کر دیں جو ان کی طرف اتارے گئے ہیں اور تاکہ وہ غور و فکر کریں‘‘۔

(النحل: 44)

کبھی باری تعالیٰ اہل ایمان کو یوں متوجہ کرتا ہے کہ تم ان لوگوں کی طرح نہ ہوجانا جنہوں نے قرآن کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا، جس آیت پر چاہا عمل کرلیا اور جس آیت کو چاہا اسے چھوڑ دیا۔

الَّذِيْنَ جَعَلُوا الْقُرْاٰنَ عِضِيْنَ.

’’جنہوں نے قرآن کو ٹکڑے ٹکڑے (کر کے تقسیم) کر ڈالا (یعنی موافق آیتوں کو مان لیا اور غیر موافق کو نہ مانا)‘‘۔

(الحجر، 15: 91)

کبھی باری تعالیٰ اہل اسلام کو قرآن کے بے مثل ہونے کی یوں خبر دیتا ہے:

قُلْ لَّئِنِ اجْتَمَعَتِ الْاِنْسُ وَالْجِنُّ عَلٰی اَنْ يَاتُوْا بِمِثْلِ هٰذَا الْقُرْاٰنِ لَا يَاْتُوْنَ بِمِثْلِهِ.

’’فرما دیجیے: اگر تمام انسان اور جنّات اس بات پر جمع ہو جائیں کہ وہ اس قرآن کے مثل (کوئی دوسرا کلام بنا) لائیں گے تو (بھی) وہ اس کی مثل نہیں لا سکتے۔‘‘

(الاسراء، 17: 88)

کبھی باری تعالیٰ اہل ایمان کو لعلکم تعقلون کے ذریعے اس حقیقت سے آشنا کرتا ہے قرآن تمہارے لئے عقل و حکمت کا خزانہ ہے۔ اس لئے اسے سمجھو اور اسے جانو اور اس کے ذریعے اپنی عقل و فہم کو بڑھائو۔

اِنَّآ اَنْزَلْنٰهُ قُرْئٰنًا عَرَبِيًّا لَّعَلَّکُمْ تَعْقِلُوْنَ.

’’بے شک ہم نے اس کتاب کو قرآن کی صورت میں بزبانِ عربی اتارا تاکہ تم (اسے براہِ راست) سمجھ سکو۔‘‘

(يوسف، 12: 2)

یقینا قرآن عقل و دانش اور حکمت و معرفت کا خزانہ ہے۔ یہ اس ذات کا کلام ہے جو سب سے بڑا حکیم و دانا ہے اور جس نے حکمت و دانش کو انسانوں کے وجودوں میں پیدا فرمایا ہے۔ اس لئے رسول اللہ کے ذریعے اس امت کو حکمت و دانش کی یہ نعمت عطا کی گئی۔

وَاِنَّکَ لَتُلَقَّی الْقُرْاٰنَ مِنَ لَّدُنْ حَکِيْمٍ عَلِيْمٍ.

’’اور بے شک آپ کو (یہ) قرآن بڑے حکمت والے، علم والے (رب) کی طرف سے سکھایا جا رہا ہے۔‘‘

(النمل، 27: 6)

خلاصہ کلام

قرآن اپنے ان خطابات کے ذریعے اور اپنی ان آفاقی آیات کے توسل سے آج امت مسلمہ کو اپنی طرف متوجہ کررہا ہے کہ تم اپنی دنیوی حیات کے کامیابی کے لئے اور اپنی اخروی نجات کے لئے قرآن کی طرف رجوع کرلو، تمہیں اپنی انسانی زندگی کی دنیوی اور اخروی کامیابی کے لئے ایک سوچ، ایک فکر، ایک نصیحت اور ایک ہدایت کی ضرورت ہے جس پر تم نے اپنی زندگی کے اعمال کی بنیاد رکھنی ہے تو وہ سوچ و فکر اور وہ ہدایت نصیحت تمہارے لئے قرآن میں بیان کردی گئی ہے۔ قرآن کی اس آفاقی ہدایت کو اپنانا اور اسے اپنی زندگی میں داخل کرنا اور اپنی شخصیت سے عمل اور کردار کے ذریعے ظاہر کرنا ہی دنیوی زندگی کی ابتلاء اور آزمائش ہے۔ تمہاری روح کی صدا اور پکار یہ ہے اس قرآنی ہدایت کو اپنے وجود میں سمالو، اس آفاقی ہدایت کے ساتھ اپنے عمل میں تم ایک زندہ ثبوت بن جائو۔ تم اپنے عمل سے قرآنی ہدایت کی صداقت اور حقانیت کی شہادت اہل دنیا کو دو۔ جبکہ اسی وجود میں نفس امارہ روح کی آواز کے خلاف صدا دیتا ہے۔ وہ نفس امارہ کہتا ہے تم دنیا میں ہو تو میری کچھ دنیوی خواہشات پوری کرو، مجھے تعیشات دنیوی سے آراستہ کرو، مجھے دنیوی آسائشات کے ذریعے فرحت دو، تم اپنے وجود کو میری تمنائوں کی تکمیل پر لگادو اور میری کسی بات کو رد نہ کرو۔

انسان روح اور نفس امارہ کی اس کشمکش میں اپنی زندگی صرف کردیتا ہے۔ اگر انسانی عمل روح کی آواز بن جائے تو انسان قرآنی ہدایت کے مطابق کامیاب ہوجاتا ہے اور اگر انسانی عمل نفس امارہ کی صدا میں ڈھل جائے تو انسان تباہ و برباد ہوجاتا ہے۔ قرآن نے اپنی آفاقی ہدایت کے ذریعے قول و عمل احسن کو انسانی زندگی کی کامیابی کی علامت ٹھہرایا ہے۔ اس لئے فرمایا:

الَّذِيْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَيٰوةَ لِيَبْلُوَکُمْ اَيُّکُمْ اَحْسَنُ عَمَلاً.

’’جس نے موت اور زندگی کو (اِس لیے) پیدا فرمایا کہ وہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے کون عمل کے لحاظ سے بہتر ہے‘‘۔

(الملک، 67: 2)

باری تعالیٰ ہمیں قرآن سے کتاب ہدایت کی حیثیت سے مستفید ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

ماخوذ از ماہنامہ دخترانِ اسلام، جولائی 2016

تبصرہ