معاشرتی مسائل کا حل تعلیمات صوفیاء کی روشنی میں

فہمیدہ نسرین

انسان اپنی فطرت میں جماعتی زندگی کا محتاج ہوتا ہے۔ بغیر اجتماعیت کے اس کی زندگی ناممکن ہے۔ خاندان کی محدود اجتماعیت سے باہر جو ایک وسیع و عریض اجتماعیت ہے اسے معاشرہ کہتے ہیں اور اس کی ابتداء دراصل اسی وقت ہوگئی تھی جب اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا کیا تھا۔ پہلا معاشرہ جو وجود میں آیا وہ حضرت آدم علیہ السلام کے زمانے میں وجود میں آیا۔ انسان اپنی پیدائش سے لے کر موت تک معاشرے کا محتاج ہوتا ہے۔ اس کا جسم، عقل اور خلق جیسے اہم عطیات بھی خالق کائنات، جماعتی علائق ہی کے لئے عطا کرتا ہے۔ دنیا میں آتے ہی وہ ایک خاندان میں آنکھ کھولتا ہے۔ اپنی پرورش کے لئے دوسرے لوگوں (ماں، باپ، بہن، بھائی یا رشتہ داروں) کا محتاج ہوتا ہے۔ پھر ہوش سنبھالتے ہی اس کو ایک سوسائٹی سے، ایک برادری سے، ایک بستی سے، ایک قوم سے، ایک نظام تمدن اور نظام معیشت و سیاست سے واسطہ پڑتا ہے۔ نیز فرد یا انسان اپنی ہر متعلقہ شے خوراک، لباس، مکان اور زندگی کے ہر شعبے میں جماعت کا دست نگر ہے اور اگر اس سے وہ تمام علائق حذف کردیئے جائیں جو اطاعت کی بدولت اس کو حاصل ہوتے ہیں تو پھر اس کے پاس کچھ باقی نہ رہتا اور اس کی حیثیت ختم ہوجاتی۔ انسان کے اعمال، اغراض اور عادات کی جماعتی زندگی (معاشرہ) کے بغیر کوئی قیمت نہیں ہے۔

فطری طور پر انسان دو چیزوں کا مرکب ہے۔ نسیان اور انس۔ انسان بار بار بھولتا ہے تو اس کے لئے اسے دوسروں کا سہارا لینا پڑتا ہے کیونکہ الگ تھلگ رہ کر اور دوسرے افراد کا تعاون اور اشتراک حاصل کئے بغیر کسی فرد کی زندگی بسر کرنا ممکن نہیں۔ اسی طرح انسان کو محبت و شفقت کی ضرورت ہوتی ہے جس کے لئے اسے معاشرے میں رہنا پڑتا ہے کیونکہ یہ تنہائی میں نہیں ملتی بلکہ معاشرے میں رہ کر ملتی ہے لہذا ان سب ضرورتوں کے تحت انسان کو معاشرہ کی ضرورت پڑی اور ضرورت ایجاد کی ماں ہوتی ہے۔ اسی طرح بہت سارے معاشرے وجود میں آئے۔

معاشرہ کا مفہوم

معاش سے مراد مل جل کر زندگی گزارنا ہے۔ اس سے لفظ ’’معاشرت‘‘ ہے۔ جس کے معنی ہیں رہنے سہنے کا طریقہ اور طرز زندگی، کسی کے ساتھ عیش کرنا، یا آپس میں مل جل کر زندگی گزارنا۔ ’’معاشرت‘‘ ہی سے لفظ ’’معاشرہ‘‘ بنا ہے۔ جس کے معنی مل جل کر زندگی بسر کرنا۔ اسی طرح اصطلاح میں مل جل کر رہنے کو معاشرت کہتے ہیں۔

’’اصطلاح میں معاشرہ سے مراد لوگوں کا گروہ جو کسی مشترکہ مقصد کے لئے باہم متحد ہو۔ خصوصاً ادبی، سائنسی، مذہبی، فلاحی مقاصد یا شادمانی وغیرہ کے لئے۔ افراد کا ربط و ضبط جیسے قوم جو باہمی مفاد اور تحفظ کی بناء پر منظم ہو، کسی خطے کے لوگ یا کسی دور کے لوگ جن میں بلحاظ اطوار، رسومات یا معیارات زیست، یگانگت پائی جائے‘‘۔

اسی طرح فیروز اللغات (اردو) میں معاشرہ کی اصطلاحی تعریف کچھ یوں ہے:

’’جماعتی زندگی جس میں ہر فرد کو رہنے سہنے، اپنی ترقی اور فلاح و بہبود کے لئے دوسروں سے واسطہ پڑتا ہے‘‘۔

اللہ تعالیٰ نے انسانوں سمیت کل مخلوقات کو خاص ضابطے کے تحت پیدا کیا ہے۔ اسی طرح اگر تمام انسان ان تمام ضابطوں کو مدنظر رکھتے ہوئے زندگی گزاریں گے تو ان کی زندگی پرسکون ہوگی۔ اللہ تعالیٰ نے تمام انسانوں کو ان کے حقوق و فرائض سے آگاہ فرمایا ہے۔ جب تک وہ ان حقوق و فرائض کو احسن طریقے سے ادا کرتے رہیں گے وہ زندگی میں کسی بھی طرح کے مسائل کا شکار نہیں ہوں گے۔

مگر آج ہمارا معاشرہ بہت سارے مسائل کا شکار ہے۔ امت مسلمہ تمام دیگر امتوں سے افضل ہے اس لئے ضروری ہے کہ اسلامی معاشرہ بھی دیگر تمام امتوں سے افضلیت رکھتا ہو مگر آج یوں لگتا ہے کہ دیگر تمام اقوام کے مسائل ہمارے معاشرے میں جمع ہوگئے ہیں۔ ہر قسم کے مسائل ہمارے معاشرے کو دیمک کی طرح چاٹ رہے ہیں۔ دہشت گردی، غربت، اخوت و مساوات کی کمی، ناخواندگی، بے روزگاری اور حرص و طمع جیسے کروڑوں مسائل سے ہمارا معاشرہ دوچار ہے۔ جنہوں نے ہمارے معاشرے کو بدحالی میں مبتلا کررکھا ہے۔ یہی معاشرتی مسائل معاشرے کی خوشحالی اور ترقی پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ معاشرے میں امن و سکون کی بجائے بدحالی اور بدامنی کا باعث بنتے ہیں۔

معاشرتی مسائل کا حل تعلیمات صوفیاء کی روشنی میں

دور حاضر میں اسلام سے دوری کے باعث معاشرہ افراتفری، نفسانیت، اضطراب اور ذہنی پراگندگی کا شکار ہوچکا ہے۔ خلائوں کو مسخر کرنے والا ہمسائے سے بے خبر ہوچکا ہے۔ افراد معاشرہ کو تعصب، بے راہ روی اور بغض و عناد نے ایک دوسرے سے دور کردیا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اخلاقی تربیت کا اہتمام ہونا چاہئے۔ لیکن بدقسمتی سے ہمارا معاشرہ علم کی طرف تو توجہ دے رہا ہے مگر اخلاقیات کی تعلیم ناپید ہے۔

اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں روحانی الذہن افراد معاشرے کو صالح بناسکتے ہیں۔ نفسانی اغراض و مقاصد سے انسانوں میں بُعد، دشمنی، عناد، تعصب، بغض، کینہ اور نفرت پیدا ہوتی ہے۔ انسان ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہوجاتے ہیں۔ ذرا ذرا سی بات افراد معاشرہ کو جہنم کا نمونہ بنادیتی ہے۔ ان سارے مسائل اور خرابیوں کا ایک ہی حل ہے کہ کتاب و سنت کی طرف رجوع کیا جائے۔ اللہ کے وہ متقی اور صالح بندے جو نفسانی اغراض و آلائشوں سے اپنے آپ کو پاک کرتے ہوئے مخلص کے درجے پر فائز ہوچکے ہیں۔ ان کی صحبت، مجلس اور قربت حاصل کی جائے۔ صوفیاء کرام انسان دوست ہوتے ہیں وہ ہر مذہب و ملت کے لوگوں کو مخلوق خدا سمجھتے ہوئے ان سے محبت اور پیار کرتے ہیں۔ صوفیانہ تعلیمات اور متصوفانہ طریق ہمارے معاشرتی مسائل کو بہتر حل کرسکتا ہے۔ اس آرٹیکل میں یہ بتایا جائے گا کہ موجودہ معاشرے کے سلگتے ہوئے مسائل کون سے ہیں اور ان کے حل کے لئے صوفیانہ طریق کیا کردار ادا کرسکتا ہے؟

  1. غربت

آج ہمارے معاشرے میں ایک اہم معاشرتی مسئلہ غربت ہے جس کی وجہ سے آج ہمارا ملک پسماندہ ممالک کی صف میں کھڑا ہے اس مسئلے کو حل کرنے کے لئے تعلیمات اسلامی بالخصوص صوفیاء کی تعلیمات میں واضح رہنمائی ملتی ہے۔

صوفیاء کرام کے نزدیک غربت سے بچنے کا علاج

صوفیاء کے نزدیک غربت سے بچنے کا علاج یہ ہے کہ انسان ہر معاملے میں اللہ تعالیٰ پر توکل کرے اور صبرو شکر کا دامن تھامے رکھے، یعنی جتنا اللہ تعالیٰ عطا فرمائے اس پر راضی ہوجائے اور جو نہ ملے اس کے بارے میں شکوہ نہ کرے۔

صفت توکل کی اہمیت کا اندازہ اس سے ہوتا ہے کہ قرآن مجید میں اسلام کو توکل کے ساتھ لازم و ملزوم دکھایا گیا ہے۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

فَعَلَيْهِ تَوَکَّلُوْٓا اِنْ کُنْتُمْ مُّسْلِمِيْنَ.

(يونس،10: 84)

’’اسی پر توکل کرو، اگر تم (واقعی) مسلمان ہو‘‘۔

اسی طرح قرآن مجید میں اللہ رب العزت نے اپنے بندوں کو صبر اور شکر کرنے کا حکم فرمایا ہے اور ناشکری سے منع فرمایا ہے۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

فَاذْکُرُوْنِیْٓ اَذْ کُرْکُمْ وَاشْکُرُوْالِیْ وَلَا تَکْفُرُوْنِ.

(البقرة، 2: 152)

’’سو تم مجھے یاد کیا کرو میں تمہیں یاد رکھوں گا اور میرا شکر ادا کیا کرو اور میری ناشکری نہ کیا کرو‘‘۔

صبر کرنے والوں کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے خوشخبری ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

وَلَنَبْلُوَنَّکُمْ بِشَيْئٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوْعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَالْاَنْفُسِ وَالثَّمَرٰتِ ط وَبَشِّرِ الصّٰبِرِيْنَ.

(البقرة، 2: 155)

’’اور ہم ضرور بالضرور تمہیں آزمائیں گے کچھ خوف اور بھوک سے اور کچھ مالوں اور جانوں اور پھلوں کے نقصان سے، اور (اے حبیب!) آپ (ان) صبر کرنے والوں کو خوشخبری سنا دیں‘‘۔

شکر کرنے والوں کو اللہ رب العزت کی طرف سے نعمتوں میں اضافہ ہوگا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

وَاِذْ تَاَذَّنَ رَبُّکُمْ لَئِنْ شَکَرْتُمْ لَاَزِيْدَنَّکُمْ وَلَئِنْ کَفَرْتُمْ اِنَّ عَذَابِیْ لَشَدِيْدٌ.

(ابراهيم،14: 7)

’’اور (یاد کرو) جب تمہارے رب نے آگاہ فرمایا کہ اگر تم شکر ادا کرو گے تو میں تم پر (نعمتوں میں) ضرور اضافہ کروں گا اور اگر تم ناشکری کرو گے تو میرا عذاب یقینا سخت ہے‘‘۔

اب صوفیاء کے نزدیک توکل، صبر، شکر کیا ہے اور کیا ان کی تشریحات قرآن و سنت کے معیار پر پورا اترتی ہیں تاکہ حقیقت واضح ہوجائے۔

تعلیمات صوفیاء میں توکل، صبر اور شکر کی اہمیت

حضرت سہل بن عبداللہ تستری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

’’متوکل کی تین قسمیں ہیں، نہ کسی سے مانگے، نہ رد کرے اور نہ جمع کرے‘‘۔

حضرت سلیمان الخواض رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:

’’ اگر کوئی شخص سچی نیت سے اللہ تبارک و تعالیٰ پر توکل کرے، تو امراء اور غیر امراء سب اس کے محتاج ہوجائیں گے اور وہ کسی کا محتاج نہیں ہوگا کیونکہ اس کا مالک تمام زمین و آسمان کے خزانوں کا مالک ہے‘‘۔

حضرت حاتم اصم رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: میرا زاد سفر چار چیزیں ہیں: حضرت ابو مطبع نے پوچھا وہ کون سی ہیں؟ تو حضرت حاتم اصم رحمۃ اللہ علیہ نے جواب دیا۔

  • پہلی چیز۔ یہ کہ مجھے یقین ہے کہ دنیا و آخرت خدا کی ملک ہیں۔
  • دوسری چیز۔ یہ کہ تمام مخلوق خدا کی مطیع اور فرمانبردار ہے۔
  • تیسری چیز۔ یہ کہ رزق اور رزق کے تمام اسباب اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہیں۔
  • چوتھی چیز۔ یہ کہ خدا کی قضا تمام دنیا میں نافذ ہے۔

صوفیاء کرام رحمۃ اللہ علیھم کے ان اقوال و احوال سے صبر و شکر کی اہمیت واضح ہوتی ہے۔

حضرت ذوالنون مصری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: اللہ کے احکام کی مخالفت سے دور رہنے اور مصائب کے گھونٹ پینے پر سکون و اطمینان اور زندگی کے میدان میں باوجود محتاجی کے اپنے آپ کو مالدار ظاہر کرنے کا نام صبر ہے۔

حضرت ابن عطاء رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: اچھی طرح ادب قائم رکھتے ہوئے مصیبت پر قائم رہنا صبر ہے۔

حضرت عمرو بن عثمان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: اللہ کے احکام پر ثابت قدم رہنا اور اس کی آزمائش کو خندہ پیشانی اور سکون کے ساتھ قبول کرنا صبر ہے۔

حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ صبر اور ایمان میں وہی تعلق ہے جو سر اور بدن میں ہے جس کا سر نہ ہو اس کا بدن نہیں ہوتا اور جسے صبر حاصل نہ ہو اس کا ایمان نہیں ہوتا۔ حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا: شکر کرنا نصف ایمان ہے۔ حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ یہ بھی فرماتے ہیں: صبر ایسی سواری ہے جو کبھی ٹھوکر نہیں کھاتی۔

خلاصہ بحث یہ ہے کہ اگر ہر شخص اللہ کی رضا میں راضی ہوجائے تو پھر معاشرہ کبھی بھی غربت جیسے مسائل کا شکار نہیں ہوسکتا۔ صوفیاء کے نزدیک غربت کا علاج مشکلات پر صبر کرنا، ہر نعمت پر اللہ تعالیٰ کا شکر کرنا اور ہر حال میں اللہ تعالیٰ پر توکل کرنا اور اچھے کی امید رکھنا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اسلامی معاشرے میں صوفیاء کرام کی ان تعلیمات کو عام کیا جائے تاکہ افراد معاشرہ ان پر عمل کرکے اپنے آپ کو غربت جیسے مسائل سے نجات دلاسکیں۔

  1. فحاشی و عریانی

ہمارے معاشرے کا ایک اور سنگین مسئلہ فحاشی و عریانی ہے۔ جو دن بدن بڑھتی جارہی ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ تمام اسلامی قوتیں زوال پذیر ہیں۔ دین کا کام کرنے والوں اور مبلغین اسلام کا کوئی پرسان حال نہیں۔ فحاشی و عریانی کی اس بڑھتی ہوئی وبا سے نجات حاصل کرنے کے لئے ہم قرآن و سنت اور صوفیاء کی تعلیمات سے استفادہ کرتے ہیں۔

صوفیائے نقشبند کے ہاں ان کی تعلیمات اور اصطلاحات ہیں۔ ان میں سے ایک اصطلاح ’’نظر برقدم‘‘ ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ انسان اپنے قدم پر نظر رکھے۔ اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ وہ بدنظری سے بچ جائے گا اور غیر محرموں کو دیکھنے سے انسان میں جو خرابیاں پیدا ہوتی ہیں اس سے اس کی حفاظت ہوجائے گی۔ صوفیاء اپنے سالکین، مریدین اور وابستگان کو اس کی تعلیم دیتے ہیں۔ اسی طرح صوفیاء کرام عورتوں سے اختلاط و ارتباط سے اجتناب کا درس دیتے ہیں۔ عورتوں کی طرح امرد لڑکوں سے بھی خلوت میں ملنے سے منع فرماتے ہیں کہتے ہیں کہ ان کے ہاں بھی شیطان ہوتا ہے۔

فحاشی و عریانی سے بچنے کا صوفیانہ حل

تعلیمات اسلامی بالخصوص صوفیائے کرام کے اقوال و ارشادات کی روشنی میں فحاشی و عریانی سے بچنے کا حل خلوت نشینی ہے۔ جیسا کہ قرآن مجید میں اللہ رب العزت حضرت ابراہیم علیہ السلام کا یہ قول بیان فرماتا ہے:

وَاَعْتَزِلُکُمْ وَمَا تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اﷲِ وَاَدْعُوْا رَبِّیْ.

(مريم،19: 48)

’’اور میں تم (سب) سے اور ان (بتوں) سے جنہیں تم اللہ کے سوا پوجتے ہو کنارہ کش ہوتا ہوں اور اپنے رب کی عبادت میں (یکسو ہوکر) مصروف ہوتا ہوں‘‘۔

اسی طرح صوفیاء کرام کے اقوال و ارشادات سے خلوت نشینی کی اہمیت واضح ہوتی ہے۔

حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ میں تیس برس سے اللہ تعالیٰ سے باتیں کرتا ہوں اور لوگوں کو گمان ہے کہ یہ ہم سے باتیں کرتے ہیں۔

حضرت ذوالنون مصری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اہل ایمان کی خوشی اور لذت اسی میں ہے کہ تنہائی میں اپنے پروردگار سے مناجات کرے۔

حضرت عبداللہ بن مبارک رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ کیا اچھا حال ہے اس کا جو صرف اللہ تعالیٰ کا ہوگیا۔

حضرت فضیل بن عیاض رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے کہ جب میں رات کی آمد دیکھتا ہوں تو خوش ہوتا ہوں اور کہتا ہوں کہ اپنے پروردگار سے خلوت کروں گا اور جب دیکھتا ہوں کہ صبح ہوئی تو انا للہ وانا الیہ راجعون پڑھتا ہوں کہ اب لوگ مجھے گھیر لیں گے اور کوئی ایسا شخص میرے پاس آجائے گا جو مجھے میرے پروردگار سے غافل کردے گا۔

حضرت سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ کی نصیحت: امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ میں نے سنا کہ ایک دفعہ حضرت سفیان بن عیینہ رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ سے کہا کہ مجھے نصیحت کیجئے تو آپ نے فرمایا: لوگوں سے میل جول اور تعارف کم رکھو۔ تو حضرت سفیان بن عیینہ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا۔ اللہ آپ پر رحم کرے حدیث شریف میں تو آیا ہے کہ لوگوں سے تعارف بڑھائو کیونکہ ہر واقف مومن دوسرے مومن کی شفاعت کرے گا۔ تو حضرت سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ نے اس کے جواب میں فرمایا: میرا غالب گمان یہی ہے کہ تجھے جو تکلیف پہنچی ہوگی وہ کسی واقف کار ہی سے پہنچی ہوگی۔

حضرت سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ نے یہ الفاظ کہے اور وصال فرماگئے۔ حضرت سفیان بن عیینہ رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ آپ کے وصال کے بعد میں نے خواب میں دیکھا کہ آپ بلند مراتب پر فائز ہیں۔ میں نے عرض کیا کہ کوئی نصیحت کیجئے تو آپ نے فرمایا:

اقلل من معرفة الناس ما استطعت فان التخلص منهم شديد.

’’حسب استطاعت لوگوں سے تعارف کم پیدا کر کہ ان سے خلاصی (چھٹکارہ) حاصل کرنا مشکل ہے‘‘۔

حضرت رابعہ بصری رحمۃ اللہ علیھا کی خلوت نشینی

حضرت رابعہ بصری رحمۃ اللہ علیھا کا معمول تھا کہ دن میں روزہ رکھتیں اور رات عبادت میں صرف کردیتیں۔ ابتدائً ایک شب جب آپ کے مالک کی آنکھ کھلی تو اس نے حیرت سے چاروں طرف دیکھا، اس نے ایک گوشہ میں آپ کو سربسجود پایا۔ اور ایک معلق نور آپ کے سر پر فروزاں دیکھا، آپ اللہ تعالیٰ سے یہ عرض کررہی تھیں کہ اگر میرے بس میں ہوتا تو سارا وقت تیری عبادت میں گزار دیتی لیکن چونکہ تونے مجھے غیر کا محکوم بنادیا ہے، اس لئے میں تیری بارگاہ میں دیر سے حاضر ہوتی ہوں یہ سن کر آپ کا مالک بہت پریشان ہوا، اس نے یہ عہد کرلیا کہ مجھے تو اپنی خدمت لینے کی بجائے الٹا ان کی خدمت کرنی چاہئے تھی، چنانچہ صبح ہوتے ہی آپ کو آزاد کرکے استدعا کی کہ آپ یہیں قیام فرمائیں تو میرے لئے باعث سعادت ہے ویسے آپ اگر کہیں اور جانا چاہیں تو آپ کو اختیار ہے، یہ سن کر آپ رحمۃ اللہ علیھا باہر نکل گئیں اور ذکر و شکر میں مشغول ہوگئیں۔

حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ہم نشینی سے گوشہ نشینی میں راحت و سکون ہے۔

مندرجہ بالا تمام اقوال و احوال سے یہ بات واضح ہورہی ہے کہ فحاشی و عریانی کا تصوف کی رو سے حل خلوت نشینی ہی ہے اور اس کے فوائد دنیا و آخرت میں بے شمار ہیں۔

  1. مال و دولت کی حرص و ہوس

مال و دولت کی حرص و ہوس انسان کو اندھا کردیتی ہے۔ انسان اس حرص و ہوس میں بھول جاتا ہے کہ جو مال وہ حاصل کرنے کی کوشش کررہا ہے وہ حلال ہے یا حرام۔ اور جب انسان میں حلال و حرام کی تمیز نہیں رہتی تو تب انسان بہت ساری برائیوں میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ ان برائیوں سے بچنے کے لئے آج ضرورت اس امر کی ہے کہ افراد معاشرہ کو مال و دولت کی حرص و ہوس سے محفوظ رکھا جائے۔

اسلامی تعلیمات اور صوفیاء کے نزدیک مال و دولت کی حرص و ہوس کو ختم کرنے کا ایک ہی علاج ہے کہ انسان قناعت اختیار کرے۔ قناعت سے مراد میانہ روی ہے۔

قناعت اختیار کرنے والے لوگوں کے بارے میں اللہ رب العزت نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا ہے:

وَالَّذِيْنَ اِذَآ اَنْفَقُوْا لَمْ يُسْرِفُوْا وَلَمْ يَقْتُرُوْا وَکَانَ بَيْنَ ذٰلِکَ قَوَامًا.

(الفرقان، 25: 67)

’’اور (یہ) وہ لوگ ہیں کہ جب خرچ کرتے ہیں تو نہ بے جا اڑاتے ہیں اور نہ تنگی کرتے ہیں اور ان کا خرچ کرنا (زیادتی اور کمی کی) ان دو حدوں کے درمیان اعتدال پر (مبنی) ہوتا ہے‘‘۔

اسی طرح حدیث مبارکہ میں ہے:

عن ابی هريره رضي الله عنه عن النبي صلیٰ الله عليه وآله وسلم قال: (ليس الغني عن کثرة العرض ولکن الغني، غنی النفس.

’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ فرمان نقل کرتے ہیں: غنی اور مالداری مال کی کثرت کی وجہ سے نہیں بلکہ (حقیقی امارت) غنی ہونا، نفس (ذہن اور سوچ) کا غنی ہونا ہے‘‘۔

ماخوذ از ماہنامہ دخترانِ اسلام، جولائی 2016

تبصرہ