حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی معاشی اصلاحات (قسط دوم)

مریم بشیر

فاروقی اصلاحات اور پاکستان میں ٹیکسوں کا نظام

پاکستان ایک اسلامی ملک ہے۔ مگر اس کا نظام اسلامی نہیں، اس کو اسلامی ڈگر پر چلانے کے لئے جو بھی نظام ترتیب دیا جائے وہ مقاصد شریعہ کے مطابق ہو۔ دور فاروقی کی اصلاحات کی روشنی میں پاکستان میں ٹیکس کا نظام ان خطوط پر استوار ہونا چاہئے۔

  1. ٹیکس جمع کرنے والا عملہ ایماندار ہو۔
  2. عملہ معین مقدار میں ہو اتنا زیادہ نہ ہو کہ ٹیکسوں کی آمدنی کا بڑا حصہ ان کی تنخواہوں میں چلا جائے۔
  3. غیر ضروری اخراجات کو دفاتر میں کم کیا جائے۔ حقوق کی ادائیگی کے لئے کارکنوں کو سہولت مہیا کی جائے۔ رشوت خوری اور حرام مال کھانے کے مواقع کم ہوں۔ یہ سچ ہے کہ جب کارکنوں کی قومی سطح پر اصلاح ہوتی ہے تو چھوٹے کارکنوں کی اصلاح کے احوال خود بخود سامنے آتے ہیں۔ جب اس طرح کے اعمال پر کام کیا جائے گا تو پبلک کے لئے وہ سارا مال بچ جائے گا جس سے وہ اپنی ضروریات پوری کرسکیں گے اور نقصانات کے امکانات کم ہوں گے۔
  4. زکوۃ و عشر کی موجودگی میں اسلامی ریاست کے نظام میں دولت ٹیکس کا کوئی جواز نہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ نظام زکوٰۃ کی درستگی کے لئے مختلف کام کئے جائیں اور نئی اصلاحات کے ساتھ اس کو نافذ کیا جائے۔ اگر صرف نظام زکوٰۃ و عشر ہی درست ہوجائے تو اسلامی دنیا میں باقی کسی ٹیکس کی ضرورت نہیں رہتی۔
  5. منصفانہ تبدیلی ٹیکس کے نظام میں لائی جائے۔ کوئی شخص ناجائز سرمایہ اکٹھا نہ کرسکے اور ہر شخص مکمل ٹیکس ادا کرسکے اور جو چیز اقتصادی تباہی کا ذریعہ بنتی ہے وہ یہ ہے کہ جب لوگوں پر ٹیکس واجب کردیا جاتا ہے تو اس وقت ٹیکس سے بچنے کے لئے مختلف لائحہ عمل اپنائے جاتے ہیں جس کی وجہ سے حکومتی خزانہ خالی رہتا ہے اس رویے کو ختم کیا جائے۔
  6. حکومتی کارکنوں کے ہاتھ میں ہی ٹیکس اور اقتصادی اموال نہیں ہونے چاہئیں۔ اس کام کو سرانجام دینے کے لئے مختلف تنظیموں کے لوگوں کو بھی شریک کیا جائے تاکہ حکومت اقتصادی نظام کو اچھے طریقے سے چلاسکے اس سے یہ بھی فائدہ حاصل ہوگا کہ حکومت اور عوام کے درمیان یکساں اعتبار رہے گا اور اقتصادی مسائل کم ہوتے جائیں گے۔
  7. ٹیکس چوری اور ٹیکس چوری کرنے کے ناجائز ذرائع کا خاتمہ کیا جائے اس کے لئے عوام کو ذہنی طور پر تیار کیا جائے۔ پہلے اس پر حکومت خود عمل کرے گی تو عوام عمل کریں گے۔ کیونکہ قوم کی فلاح و بہبود اور شرعی مسائل پر ٹیکسز کو خرچ کیا جاتا ہے نہ کہ اسے سرکاری ضیافتوں، نام نہاد سرکاری رسومات، کھیل تماشے اور سرکاری افسران کے بنگلوں کی تعمیر پر اڑایا جائے۔
  8. کالج سکول اور فنی تعلیمی ادارے کھولے جائیں جہاں غریبوں کو مفت تعلیم دی جائے جیسا کہ 1990ء کی دہائی میں بھی ایسا کیا گیا اور اس کے نتائج مثبت آئے اور اس میں اضافہ کیا جائے اور افراد کو ٹیکس میں چھوٹ دی جائے۔
  9. جو ٹیکس حکومت عوام پر لگائے گی ان کی تعداد زیادہ نہ ہو ٹیکس تھوڑا ہو مگر اس سے منافع اتنا ہو جو حکومت کے فلاحی اور شرعی اخراجات و اختیارات پورے کرسکے۔
  10. حکومت اسراف و تبذیر سے بچے اور ملکی سرمایہ کو بچائے تاکہ طبقوں کی لڑائی کا معاشرے میں خاتمہ ہوسکے۔
  11. ٹیکس صلاحیت کی بناء پر لگایا جائے نہ کہ ٹیکس پیداوار پر لگایا جائے۔ اس کی شرح برابری پر ہو۔ انٹرمیڈیٹ یعنی ثانوی اشیاء پر ٹیکس نہ لگایا جائے۔ بنیادی ضروریات پر بھی ٹیکس نہ لگایا جائے۔ جو اشیاء وصول کی جائیں اور جو اشیاء بیچی جائیں ان کی درجہ بندی کی جائے یعنی مختلف اقسام کے مال پر ٹیکس کی مقدار مقرر کی جائے جس میں خام مال اور مصنوعات ہیں اور یہ مقرر شدہ ٹیکس درآمدات و برآمدات کنندگان اچھی طرح جانتے ہیں۔
  12. ملازم طبقہ جن کی تنخواہیں کم ہیں نقصان میں رہتا ہے کیونکہ اس طبقے کو براہ راست اور بالواسطہ ٹیکس دینا پڑتا ہے۔ اس لئے لازمی ہے کہ ملازم اور غریب طبقے پر ٹیکس کا بوجھ نہ ڈالا جائے۔ مشکل سے زندگی گزارنے والے غریب طبقات مختلف پیچیدگیوں کا شکار ہوجاتے ہیں۔ ان کی تنخواہیں کم ہوتی ہیں جبکہ ٹیکسوں میں اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ اگر ٹیکس لگانا ہے تو تنخواہوں میں بھی اس حساب سے اضافہ ہونا چاہئے۔

حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دور میں زرعی اصلاحات کا نفاذ

امیرالمومنین حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے عہد حکومت میں ان کے دست راست تھے اس لئے ان کی خدمات اسی دور سے شروع ہوگئی تھیں۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ انہیں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی مصاحبت سے جو فیض ملا تھا اس کی وجہ سے رموز حکمرانی میں بڑے ماہر ہوگئے۔ 13ھ میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی رحلت کے بعد آپ خلیفہ مقرر ہوئے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اعلیٰ درجے کی سرگرمی اور بڑی دانشمندی سے آبپاشی اور زمینوں کو سیراب کرنے کی طرف توجہ دلائی۔ سپہ سالاروں اور ملک کے افسران کے نام حکم نامے جاری کئے اور کہا کہ فتوحات سے اب ہاتھ اٹھائو اب تمہاری طرف یہ حکم صادر کیا جاتا ہے کہ پرامن آبادی میں کاشت کاری کی ترقی اور رفاہ عام کے اسباب جمع کئے جائیں اور رعایا کی توجہ سرسبزی کی طرف دلائی جائے۔ اس وقت داخلی طور پر حالات بڑے پرامن تھے اور دور دراز کے علاقوں میں اسلامی سلطنت کی یورش زوروں پر تھی۔ آپ نے ان مہمات سے واپس آتے ہی سب سے زیادہ اسی پر توجہ دی۔ عراق کا سر سبز و شاداب زمین کا ایک بڑا حصہ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کے ہاتھوں سلطنت اسلامی کی حدود میں شامل ہوچکا تھا۔

کاشت کاری کے لئے ترغیب

امیرالمومنین حضرت عمر رضی اللہ عنہ کاشت کاری کی اہمیت کے پیش نظر اپنے افراد کو اس کی ترغیب دیتے تھے۔ ایک بار حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے قیدیوں کے متعلق ارشاد فرمایا: تحقیقات کرکے کاشتکار و زراعت پیشہ افراد کو سب سے پہلے رہا کرو اور یہ عام قیدیوں سے صرف کاشت کاروں کی فوری رہائی کا بندوبست اس لئے فرمایا جارہا ہے کہ ملک کی عوامی فلاح کا دارو مدار اجناس و غلہ کی عام پیداوار پر ہے۔ امام بخاری نے الادب المفرد میں ظبیان نامی شخص سے متعلق درج کیا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا کہ تم کو کس قدر وظیفہ ملتا ہے انہوں نے جواب دیا۔ اڑھائی ہزار درہم آپ نے فرمایا:

يا ابا ظبيان اتخذ من الحرث.

’’اے ابو ظبیان (وظیفہ پر بھروسہ کرنے کی بجائے) کاشت کاری کو اپنا لو‘‘۔

بنجر زمینوں کی آباد کاری

کئی سالوں سے جو زمینیں بے آباد اور بنجر تھیں انہیں آباد کرنے کا اہتمام کیا گیا۔ اس سلسلے میں آپ کی تحریک بڑے موثر طریقہ سے شروع ہوئی۔ آپ نے اعلان کیا کہ زمانہ قدیم سے افتادہ چلی آنے والی زمینیں اللہ اور اس کے رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہیں پھر یہ ان کی جانب سے تمہارے لئے ہیں۔ پس جس نے کسی مردہ زمین کو زندہ کیا وہ اس کی ہوگئی اور صرف احاطہ بندی کرنے والے کا تین سال بعد کوئی حق باقی نہ رہ جائے گا۔ جو تین سال تک کسی قبضہ میں لی گئی زمین کو کاشت نہیں کرے گا، وہ اس سے چھین لی جائے گی۔ جہاں جہاں رعایا گھر بار چھوڑ کر نکل گئی تھی ان کے لئے یہ اشتہار دیا کہ وہ واپس آکر انہیں زمینوں کو کاشت کریں۔ آپ نے حکومت کی طرف سے مفتوحہ علاقوں میں نہریں کھدوائیں، بند باندھے اور پانی کو تقسیم کرنے اور نہروں کے نکالنے کے انتظام کے لئے باقاعدہ محکمہ آبپاشی قائم کیا۔

علامہ مقریزی نے لکھا ہے کہ صرف مصر میں ایک لاکھ بیس ہزار مزدور روزانہ آبپاشی کے اس کام میں لگے رہتے۔ یہ تمام مصارف بیت المال سے ادا کئے جاتے تھے۔ نورستان اور اہواز کے اضلاع میں جز بن معافیہ نے آپ کی اجازت سے بہت نہریں کھدوائیں جن سے بہت سی افتادہ زمینیں آباد ہوئیں۔

بے آباد زمینوں کو کاشتکاروں میں تقسیم کرنا

اسلام میں چونکہ زمین کا آباد ہونا اصل مقصد ہے۔ اس حوالے سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے خصوصی توجہ فرمائی۔ جب بعض غریب کاشتکاروں نے بے آباد زمینوں کو آباد کیا۔ تو ان زمینوں کے اصل مالکان حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس نالش کے لئے آگئے تو اس پر آپ نے فرمایا:

’’تم لوگوں نے اب تک اپنی زمینوں کو غیر آباد چھوڑے رکھا۔ اب ان لوگوں نے جب اس کو آباد کرلیا ہے تو تم ان کو ہٹانا چاہتے ہو۔ مجھے اگر اس امر کا احترام پیش نظر نہ ہوتا کہ تم سب کو حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جاگیریں عنایت کی تھیں تو تم کو کچھ نہ دلاتا۔ اب میرا فیصلہ یہ ہے کہ اس کی آبادکاری کا معاوضہ اگر تم دے دو گے تو زمین تمہارے حوالے ہوجائے گی اور اگر ایسا نہ کرسکے تو زمین کے غیر آباد کی حالت کی قیمت دے کر وہ لوگ اس کے مالک بن جائیں گے‘‘۔

اور ان لوگوں کو مزید فرمایا:

وان شئتم ردوا عليکم ثمن اديم الارض هی لهم.

’’اگر تم چاہتے ہو کہ وہ تم کو زمین کی قیمت لوٹادیں تو وہ (زمین) ان کی ہوگی‘‘۔

اس کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عام حکم دیا کہ جس شخص نے تین برس کسی زمین کو بے آباد رکھا تو جو شخص بھی اس کے بعد اس کو آباد کرے گا اس کی ملکیت تسلیم کرلی جائے گی۔

اس حکم کا خاطر خواہ اثر ہوا اور بکثرت بیکار زمین و مقبوضہ زمینیں آباد ہوگئیں۔ امام ماوردی احکام السلطانیہ میں لکھتے ہیں کہ قبیلہ مزینہ کے لوگوں کی جاگیریں یونہی پڑی تھیں۔ جس کی شکایت لوگوں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے کی آپ نے فرمایا:

’’جو شخص تین برس تک اپنی زمین یونہی چھوڑے رکھے اور دوسرا کوئی شخص آباد کرلے تو یہ دوسرا ہی اس زمین کا حق دار ہوجائے گا‘‘۔

کاشت کار کو بیت المال سے معاوضہ کی ادائیگی

فوج کا کام ملک کی سرحدوں کی حفاظت کرنا ہے مگر دوران سفر فوج کو اس بات کی قطعاً اجازت نہیں کہ اس کی وجہ سے لوگوں کو نقصان پہنچے جیسا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں ایک ایسا واقعہ پیش آیا کہ

اتی عمر رضی الله عنه رجل فقال: يا اميرالمومنين زرعت زرعا فمر به جيش من اهل الشام فافسدوه. قال: فعوضة عشرة الاف.

’’ایک کاشتکار حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا: اے امیرالمومنین میں نے کھیتی بوئی تھی۔ شام والوں کا ایک لشکر وہاں سے گزرا اور اس نے کھیتی کو پامال کردیا۔ راوی کہتا ہے کہ اس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بیت المال سے دس ہزار درہم بطور معاوضہ دلوائے‘‘۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے دور میں عراق، شام اور مصر کی فتوحات کے بعد زرعی اصلاحات کیں۔ کوئی بھی ذی شعور زراعت کی اہمیت کو نظر انداز نہیں کرسکتا۔ تمام اقوام کی تاریخ میں یہ حقیقت مشترک ہے کہ کوئی بھی ملک زراعت کو ترقی دیئے بغیر ترقی اور خوشحالی کی منازل کو نہیں چھو سکتا۔ اسی طرح کسی بھی ملک میں زراعت اور کاشتکار ریڑھ کی ہڈی کی طرح ہوتے ہیں۔ زراعت سے صنعت و تجارت کو خام مال دستیاب ہوتا ہے۔ اس طرح صنعت و تجارت کی ترقی کے لئے بھی زراعت بنیادی حیثیت کی حامل ہے۔

شاہ ولی اللہ اپنی شہرہ آفاق کتاب حجۃ اللہ البالغۃ میں لکھتے ہیں:

فانهم ان کان اکثرهم مکتبين بالضاعات والسياسية البلدة والقليل منهم مکتبين بالرعی والزراعة فسد حالهم في الدنيا.

’’اگر کسی شہر کے باشندے کثرت کے ساتھ صنعتوں اور ملکی سیاست میں مشغول ہوجائیں اور ان میں سے بہت تھوڑے لوگ مویشی چرانے اور زراعت کے پیشہ سے منسلک ہوں تو دنیا میں ان کی حالت خراب ہوجائے گی‘‘۔

مذکورہ بالا اہمیت زراعت کو مدنظر رکھتے ہوئے اکثر فقہاء نے حضور نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات اور عمل مبارک کے تحت زراعت کے پیشے کو فرض کفایہ کا درجہ دیا ہے مثلاً عبدالرحمن الجزیری لکھتے ہیں:

اما الزرع فی ذاته سواء کان مشارکة اولا فهو فرض کفاية لاحتياج الانسان والحيوان اليه.

’’جہاں تک زراعت کا تعلق ہے خواہ یہ شرکت سے وجود میں آئے یا بغیر شرکت کے اپنی ذات میں فرض کفایہ کا درجہ رکھتی ہے کیونکہ انسان اور حیوان سبھی اس کے محتاج ہیں‘‘۔

مفتوحہ زمینیں اور مجاہدین

دور فاروقی میں مفتوحہ زمینوں سے متعلق حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے زمین کی تقسیم سے اختلاف کیا اور فرمایا پھر ان مسلمانوں کا کیا بنے گا؟ جو بعد میں آئیں گے اور دیکھیں گے کہ زمینیں اور ان کے کاشت کار فاتحین میں تقسیم کردیئے گئے اور آبائی وراثت کے حقوق نے دوسروں کو ان سے ہمیشہ کے لئے محروم کردیا ہیں۔ حضرت عبدالرحمن بن عوف نے یہ فرمایا یہ کوئی رائے نہیں ہے۔ یہ زمینیں اللہ نے ان فاتحین کو فتح کی صورت میں دی ہیں اور صحیح بات بھی یہی ہے غیر مسلم کاشت کاروںکو کسی بھی صورت میں نہیں دی جاسکتی ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں جواب دیا کہ یہ بات جو تم کہہ رہے ہو میری رائے اس کے حق میں نہیں ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:

والله يا مفتح بعدي بلد فيکون فيه کبير نيل، بل عسی ان يکون کلا علی المسلمين، فاذا قسمت ارض العراق بعلوجها، دارالشام يعلو جها فاذا تسد به الثغور وما يکون للذرية والارامل بهذا البلد وبغيره من ارض الشام والعراق.

’’واللہ میرے بعد ایسا کوئی شہر فتح نہ ہوگا۔ جس سے اتنا بڑا نفع حاصل ہو بلکہ ہوسکتا ہے کہ وہ الٹا مسلمانوں پر بوجھ بن جائیں۔ پس اگر عراق و شام کی زمینیں اور ان کے کاشت کار فاتحین میں تقسیم کردی جائے تو (اسلامی ریاست کی) سرحدوں کی حفاظت کیسے ہوگی اور عراق و شام کے شہروں کی بیوائوں اور یتیموں کی کفالت کیوں کر کی جاسکے گی‘‘۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے مہاجرین اولین کو جمع کیا اور ان میں اختلاف رائے پیدا ہوگیا۔ حضرت عبدالرحمن بن عوف اپنی اسی بات پر ڈٹے رہے کہ فاتحین کے حقوق ان میں تقسیم کردیئے جائیں اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے ہم خیال ہوگئے۔ اب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے انصار کے دس سمجھ دار اشراف کو بلوایا۔ جن میں پانچ قبیلہ اوس کے اور پانچ قبیلہ خزرج کے تھے۔ ان میں سے کہا میں نے آپ حضرات کو اس لئے تکلیف دی ہے کہ آپ اس امانت کی ادائیگی میں میری مدد کریں جو میں نے آپ ہی لوگوں کو صلاح و فلاح کے لئے اپنے ذمے رکھی ہے۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ان لوگوں کی بات آپ نے سن لی ہے جو سمجھتے ہیں کہ میں ان کے حقوق پر دست اندازی کررہا ہوں حالانکہ میں ظلم کی راہ اختیار کرنے سے خدا کی پناہ مانگتا ہوں۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنی بصیرت اور دور اندیشی کے پیش نظر ان سے فرمایا:

’’زمینوں کے متعلق میں یہ دیکھ رہا ہوں کہ وہ عجمی کاشت کاروں ہی کے پاس رہنے دوں اور ان پر لگان عائد کردوں۔ جزیہ وہ پہلے ہی سے دیتے ہیں۔ اس طرح یہ دونوں محاصل مسلمانوں کے لئے جن میں مجاہدین، عیال و اطفال اور آئندہ کی نسلیں شامل ہیں۔ فے ہوجائیں گے دیکھو! یہ سرحدیں ہیں جن پر حفاظتی چوکیاں قائم کرنی ناگزیر ہیں۔ یہ بڑے بڑے شہر جن کی نگرانی فوجی چھائونیوں کے بغیر ناممکن ہے اور ان دونوں چیزوں کے لئے روپے کا ہونا اشد ضروری ہے۔ پھر ان محافظین کو تنخواہیں کہاں سے دی جائیں گی۔ اگر زمینیں اور ان کے بونے اور جوتنے والے (غلام بناکر) مسلمانوں میں تقسیم کردیئے گئے؟‘‘۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور فاتحین مجاہدین کے درمیان جو اپنے آپ کو عراق کی زمینوں کا حق دار سمجھتے تھے۔ بات اتنی شدت اختیار کرگئی تھی کہ انہوں نے امیرالمومنین پر ظلم کی تہمت تک لگادی تھی۔ اس کے باوجود بھی فاروق اعظم رضی اللہ عنہ اپنی رائے سے نہ ہٹے۔ چنانچہ ان سب نے یک زبان ہوکر کہا:

’’آپ کی رائے اور مستقبل کے پیش نظر جو کچھ آپ نے سوچا اور فرمایا وہ درست ہے، ہم اسے تسلیم کرتے ہیں واقعی اگر ان سرحدوں اور ان شہروں میں حفاظتی چوکیاں اور فوجی چھائونیاں قائم نہ کی گئیں اور محافظین کی گزر بسر کے لئے ان کے روزینے مقرر نہ کئے گئے تو کفار دوبارہ اپنے شہروں پر قبضہ لیں گے‘‘۔

سرکاری زمینوں سے متعلق احکامات

ایران کی فتح کے بعد شاہ ایران کی زمینوں سے متعلق روایت ہے کہ مسلمانوں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے کسریٰ کی سرکاری زمینوں کے بارے میں دریافت کیا تو حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے انہیں یہ تحریر کیا کہ وہ خالص سرکاری زمینیں جو اللہ نے تمہیں عطا کی ہیں ان میں سے چار حصے فوج میں تقسیم کردو اور اس کا پانچواں حصہ میرے پاس رہے گا اور اگر وہ وہاں سکونت اختیار کرنا چاہیں تو جو وہاں قیام کرے گا اسی کی زمین ہوگی۔ جب مسلمانوں کو اس بات کا اختیار دیا گیا تو ان کی یہ رائے ہوئی کہ وہ بلاد عجم میں منتشر ہوکر نہ رہ جائیں لہذا انہوں نے اسے انہی کے لئے برقرار رکھا وہ جس پر رضا مند ہوتے تھے اس کو حاکم بناتے تھے پھر ہر سال اس کی پیداوار تقسیم کرلیتے تھے وہ اس کو حاکم بناتے تھے جس پر وہ خوشی اور رضا مندی سے متفق ہوتے تھے۔ ان کی یہ حالت مدائن میں رہی اور جب وہ کوفہ کی طرف منتقل ہوئے تو اس وقت بھی ان کا یہی طریقہ رہا‘‘۔

عن عبدالله بن ابی طيبة قال کتب عمر رضی الله عنه ان احتازو فئيکم ان لم تفعلوا فتقادم الامر بالحج وقد قضيت الذي علی اللهم انی اشهدک عليهم فاشهد.

’’عبداللہ بن ابی طیبہ کی روایت ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ تحریر فرمایا: تم اپنا مال غنیمت حاصل کرلو کیونکہ اگر تم نے اس پر قبضہ نہیں کیا اور دیر ہوگئی تو معاملہ خراب ہوجائے گا میں نے اپنے فرائض ادا کردیئے ہیں۔ اے اللہ! تو اس بات پر گواہ ہے‘‘۔

ماخوذ از ماہنامہ دختران اسلام، اگست 2016

تبصرہ