مسز فریدہ سجاد
اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جو ماں کی آغوش سے لے کر لحد تک نہ صرف انسان کو راہنمائی فراہم کرتا ہے بلکہ ایک آسان دستورِ تربیت بھی عطا کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام میں بچوں کی تربیت کا منہج دوسرے مذاہب سے بالکل جداگانہ ہے۔ سائنس اس وقت اپنی ترقی کی معراج پر ہے، اس کے سابقہ ادوار کے نظریات آج (outdated) ہو چکے ہیں، لیکن تعلیماتِ اسلام آج بھی نہ صرف قابلِ عمل ہیں بلکہ قیامت تک زندگی کے پر سکون سفر کے لیے ناگزیر رہیں گے۔
بچے والدین کے لیے قدرت کا انمول عطیہ ہیں۔ اس لیے بچوں کی تربیت اور سیرت سازی میں جو بنیادی کردار والدین کا ہوتا ہے وہ کسی اور کا نہیں۔ اگرچہ بچے کی سیرت و کردار کے بنانے اور بگاڑنے میں والدین کے علاوہ دیگر عوامل جیسے تعلیم، ماحول، عزیز و اقارب اور خود نظام حکومت کا بھی عمل دخل ہوتا ہے۔ تا ہم بچے کی تربیت میں بنیادی اور مرکزی کردار والدین کا ہی ہے جس کے بارے میں امام غزالی فرماتے ہیں :
’بچہ والدین کے پاس امانت ہے۔‘
لہٰذا والدین اپنی اس امانت میں خیانت نہ کریں بلکہ اس کا حق ادا کریں۔ جو والدین اولاد کی صحیح نہج پر تربیت نہیں کرتے تو وہی اولاد ان کے لیے رحمت کی بجائے زحمت بن جاتی ہے۔ شاہراہ حیات پر پھولوں کی بجائے کانٹے بکھیردیتی ہے اور زندگی کو اجیرن بنا دیتی ہے۔
بد قسمتی سے دورِ حاضر میں چند گھرانوں کو چھوڑ کر ہر گھر کا یہی مسئلہ ہے کہ اولاد بے کہی ہو گئی ہے، بیٹے ہوں یا بیٹیاں، والدین کے حقوق سے غافل ہیں۔ والدین کے ادب و احترام اور فرمانبرداری کا جذبہ ان کے دلوں سے بالکل ہی نکل چکا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ والدین کے ساتھ حسنِ سلوک، ان کی خدمت و فرمانبرداری، ان کا ادب و احترام اور ان کے جذبات کا پاس و لحاظ، سب گویا بے معنی الفاظ ہیں۔ جس مجلس میں بیٹھیں، والدین اسی فکر میں گھرے اور یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ ایک ہمارا زمانہ تھا بھلا کیا مجال کہ اولاد والدین کے سامنے اونچی آواز میں بات بھی کر سکے اور پھر ماحول کی خرابی، غلط اور گمراہ کن افکار و نظریات کی اشاعت، فحش لٹریچر اور آزاد روی کی طویل داستان شروع ہو جاتی ہے اور والدین اپنے آپ کو بری الذمہ سمجھتے ہوئے یہ اطمینان محسوس کرتے ہیں کہ ہم نے اپنا فرض ادا کر دیا ہے، اب ہمارے بس کی بات نہیں۔
بے شک والدین کے اختیار میں سب کچھ نہیں ہے لیکن والدین کے اختیار میں یہ توضرور ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے احکامات اور دینِ اسلام کی روشنی میں اپنے قول و فعل کا جائزہ لیں کہ اولاد کی تعلیم و تربیت اور پرورش کے انداز سے متعلق اللہ تعالیٰ نے جو ذمہ داریاں ان پر عائد کی ہیں، کہیں یہ سب اُن میں کوتاہی کا نتیجہ تو نہیں ہے؟
وہ اولاد والدین کے حقوق کا احساس کیسے کر سکتی ہے، جس کو انہوں نے حقوق کا احساس دلایا ہی نہیں۔ وہ اولاد والدین کی خدمت و احترام کی بات کیسے سوچ سکتی ہے جس کو کبھی بتایا ہی نہیں گیا کہ والدین کی خدمت اور ان کا ادب و احترام اولاد کا فرض ہے۔ غلط ماحول میں پروان چڑھنے والی نسلِ نو سے وفاداری اور اطاعت شعاری کی آس باندھنا ایسے ہی ہے جیسے صحرائوں میں گلستان دیکھنے کی تمنا رکھنا!
یہاں یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ کتنے ہی والدین ایسے ہیں جو اولاد کی بہترین تعلیم و تربیت کے متمنی تو ہیں لیکن اس نازک کام کے طریقوں سے ناواقف ہیں، اس کام کے لیے درکار مستقل مزاجی اور تسلسل سے عاری ہیں، حالانکہ اِس کے لیے عمر بھر کی ریاضت اور خونِ جگر درکار ہے۔
دورِ حاضر میں جب کہ اولاد کا بگاڑ اپنی آخری حدوں کو چھو رہا ہے، نافرمانی کا عفریت بچوں کو اپنی لپیٹ میں لے رہا ہے، اِس کا سبب بننے والا پرنٹ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا دن رات اس میں اضافہ کا موجب بن رہا ہے، لیکن دوسری طرف نسلِ نو کی اصلاح اور تربیت کا بیڑہ اُٹھانے والے اِلاّ ماشاء اﷲ معدودے چند افراد اور ادارے ہی ہیں کہ اُن کی حیثیت بھی مخرب الاخلاق آلائشوں کی یلغار میں آٹے میں نمک کے برابر ہی ہے۔ اس صورت حال میں جو والدین اولاد کی تربیت کا احساس رکھتے ہیں اُن کے لیے بھی سب سے بڑا اور پریشان کن مسئلہ یہی ہے کہ کون سا ادارہ، شخصیت یا کتاب ایسی ہو جو تربیتِ اولاد کے اس کٹھن مرحلہ میں اُن کی رہنمائی کر سکے۔
ایسے میں ضرورت محسوس کی گئی کہ فرید ملت ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے پلیٹ فارم سے ایسی کتب ترتیب دی جائیں جو تعلیماتِ قرآن و سنت اور آئمہ کرام و صوفیاء عظام کی زندگی بھر کے تجربات کا نچوڑ ہوں اور وہ تربیت اولاد کے لیے ناصرف تحریکی و سماجی اور اسلامی نصاب کا درجہ رکھتی ہوں، بلکہ یہ کتب والدین اور ملک و ملت کو بہترین، ہونہار اور صالح نسل سونپ سکیں۔
اس تناظر میں FMRi کی ویمن ریسرچ اسکالرز نے تین کتب کی پروپوزل شیخ الاسلام کے سامنے پیش کی۔ جسے آپ نے وقت کی اہم ضرورت سمجھتے ہوئے قبول فرمایا اور انہیں مرتب کرنے کی اجازت مرحمت فرمائی۔ اِن کتب کے مجوزہ عنوانات حسب ذیل ہیں:
ان کتب کو مرتب کرتے وقت ہمیں بچوں کی پرورش اور تعلیم و تربیت کے حوالے سے ایسے مسائل کا بھی سامنا کرنا پڑا جن کے بارے میں بہت سی confusions پائی جاتی تھیں۔ مثلاً:
اِسی طرح کے متعدد سوالات ایسے تھے جن کے جوابات کسی کتاب میں میسر نہ تھے، لہٰذا اِس سلسلہ میں رہنمائی کے لیے شیخ الاسلام مدظلہ سے خصوصی وقت لینے کے بعد کئی نشستوں میں بچوں کی تعلیم و تربیت میں اہمیت کے حامل مختلف عنوانات زیرِ بحث لائے گئے۔
اللہ تعالیٰ نے شیخ الاسلام مدظلہ کو جو خاص جوہرِ حکمت ودیعت فرمایا ہے اُس کے تحت راہنمائی فرماتے ہوئے اگرچہ وہ کہیں مصلح، کہیں محقق، کہیں سائنس دان، کہیں ماہرِ نفسیات اور کہیں طبیب دکھائی دیئے۔ لیکن اصلاً مجھے تو ان کی ذات کے یہ سارے رنگ حضور نبی اکرم a کی سیرتِ مبارکہ کے رنگ میں رنگے نظر آئے۔ کیونکہ شیخ الاسلام نے سیرت نبویہ اور سنت مصطفویہ کو اپنی تحقیق کی اساس اور بنیاد بناتے ہوئے ہماری راہنمائی فرمائی کہ والدین بچوں کی تربیت کیسے کریں؟
انہی افکار کی روشنی میں مذکورہ عنوانات کے تحت تین کتب مرتب کی جائیں گی، جن میں سے ایک زیور طبع سے آراستہ ہو کر منظرِ عام پر آ چکی ہے۔19 فروری قائد ڈے کے موقع پر جہاں آپ کی شخصیت کے دیگر گوشوں کو اُجاگر کیا جائے گا، وہاں راقمہ نے یہ ضرورت محسوس کی کہ اِس اہم موضوع پر آپ کے افکار و ہدایات کی روشنی میں چیدہ چیدہ گہر ہائے گراں مایہ بھی قارئین کے قلوب و اَذہان تک ضرور پہنچنے چاہئیں:
شیخ الاسلام نے اِسی ضمن میں کسی فیملی کا ایک واقعہ سنایا کہ گھر کی میز پر ٹشو باکس پڑا تھا اور دو سال کی بچی مسلسل ٹشو نکال کر خراب کر رہی تھی۔ میں نے اس کی بڑی بہن سے کہا: باکس اُٹھا کر سائیڈ پر رکھ دیں۔ اس پر وہ بچی رونے لگی تو اُس کی بڑی بہن دوبارہ اسے ٹشو باکس دینے لگی۔ میں نے ٹشو باکس دینے سے منع کر دیا، کیونکہ اس سے اُس بچی کا یہ ذہن بن جاتا کہ رو کر وہ اپنا ناجائز مطالبہ بھی منوا سکتی ہے۔ یوں آپ اُس بچی کی عادات میں ایک بُری عادت کی جڑ پکڑنے کا سبب بنتے۔
اس کی بجائے آپ نے اُس بچی کی بہن کو سمجھایا کہ بچی کو اس کی پسند کا کوئی کھلونا یا کوئی ایسی چیز دے دیں جس سے اس کی توجہ یک لخت اس طرف سے ہٹ کر دوسری طرف مبذول ہو جائے، یوں وہ ناجائز ضد کرنا بھی چھوڑ دے گی اور اُس کی توجہ بھی اس بُری عادت سے ہٹ جائے گی۔
بچے جب ذرا بڑے ہو جائیں تو انہیں کمپیوٹر ضرور سکھائیں مگر اس کا طریقہ یہ ہے کہ پہلے بچے کو ٹائپنگ سکھائیں۔ پھر اسے ’’ورڈ‘‘ پروگرام جو ’’آفس‘‘ میں ہوتا ہے وہ سکھائیں۔ پھر ’’ایکسل‘‘ اور اس قسم کے باقی پروگرام سکھائیں۔ پھر بچے کو ویب سائٹس ڈیزائن کرنا سکھائیں، پروگرامنگ سکھائیں، ایپلی کیشن ڈویلپمنٹ سکھائیں۔ پھر اسے روبوٹک یا گرافک ڈیزائن میں لے جائیں تاکہ وہ دیگر تعمیراتی (architecture) چیزیں مثلاً مساجد، گھر، دریا وغیرہ بنانے میں دلچسپی لے۔ بچے کو بری ویب سائٹ سے بچانے کا یہ بہت آسان طریقہ ہے کہ اسے ایسی چیزیں سکھاکر ایسا interest پیدا کر دیں کہ وہ اپنے کام میں مشغول رہے اور فحش ویب سائٹس کی طرف اس کا دھیان بھی نہ جائے۔ نیزدیگر apps کو پروفیشنلی بلاک کروا دیں۔ تاکہ بچے لغویات بالکل نہ دیکھ سکیں۔
بچوں سے اگر کوئی غلطی سرزد ہو جائے تو اس پر انہیں مارنے یا کسی بھی قسم کی سزا دینے کی بجائے تادیب کرنے کے مختلف طریقے اختیار کیے جا سکتے ہیں مثلاً:
شیخ الاسلام نے فرمایا: اس صورت میں والدین کو کوشش کرنی چاہیے کہ بچوں کو خاص عمر کے حصے تک ان معلومات سے حکمت کے ساتھ اس طرح بچائیں کہ ان میں تجسس پیدا نہ ہو۔ ایسا دل و دماغ کے تزکیہ سے ہوتا ہے جو کہ گھر کے پاکیزہ ماحول کے بغیر ممکن نہیں۔ والدین بچوں کو دن بھر ایسا خوش گوار مذہبی اور علمی ماحول دیں جس سے ان کے ذہنوں میں اس طرح کا تجسس ہی پیدا نہ ہو کہ وہ ایسے سوالات کریں کہ جن کے بارے میں اُنہیں عمر کی خاص حد تک نہیں جاننا چاہیے۔
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری اپنی زندگی کا ایک واقعہ بیان کرتے ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کے والد گرامی حضرت فریدِ ملّت ڈاکٹر فرید الدین قادری نے آپ کی تربیت کس نہج پر کی۔ شیخ الاسلام فرماتے ہیں:
بچپن میں میرے والد گرامی سال کے بیشتر ماہ مجھے گھر میں ہی فقہ پڑھاتے تھے اور جب چھٹیاں ہوتیں تو کچھ عرصہ گھر سے دور ایک گائوں میں واقع دار العلوم قطبیہ بھیج دیتے۔ پورے سال میں جتنی کتب والد گرامی قدر مجھے پڑھاتے تو اس میں فقہ کے مختلف موضوعات جیسے طہارت اور خواتین سے متعلقہ اَبواب و فصول آپ نے حکمتاً کبھی مجھے نہیں پڑھائے۔ جو حصہ وہ چھوڑتے تو میں پوچھتا کہ یہاں سے سبق شروع کرنا تھا، آپ نے چھوڑ دیا۔ آپ فرماتے: بیٹا! یہ آپ کے اساتذہ آپ کو پڑھائیں گے۔ پھر اس انداز سے کوئی ایسا علمی موضوع چھیڑتے کہ میں سب کچھ بھول کر ان سے اس موضوع پر تبادلہ خیال شروع کر دیتا۔
یہ ماحولیاتی تربیت ہے، ایک محنت ہے، ایک جہاد ہے۔ اس انداز میں بچوں کی جب تربیت ہوگی تو بچوں کے ذہن پاکیزہ رہیں گے اور وہ والدین سے پریشان کن سوالات بھی نہیں کریں گے۔
آپ کے والد محترم نے آپ کو ہمہ گیر اور ہمہ جہت شخصیت بنانے کے لیے جس طرح آپ کی تربیت کی اُسی طرح آپ نے اپنے والد گرامی کے اندازِ تربیت کو مدِنظر رکھتے ہوئے اپنی اولاد کی جو تعلیم و تربیت فرمائی ہے وہ تربیتِ اولاد کے باب میں آج کے والدین کے لیے ایک مثالی دستاویز کی حیثیت رکھتی ہے۔ بلکہ آپ نے تو اس سے بھی بڑھ کر دینی و دنیوی تعلیم و تربیت کو اپنی اولاد تک ہی محدود نہیں رکھا بلکہ اس نعمت کو پوری اُمت مسلمہ کے بچوں تک عام کرنے کا بھی اہتمام فرمایا تاکہ آج کے پرفتن دور میں بچوں اور نوجوانوں کے رگ و ریشہ میں دین کی روح سرایت کر جائے۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ والدین کو اپنی اصلاح کی بھی توفیق مرحمت فرمائے اور کما حقہ نسلِ نو کی تربیت کا فریضہ سرانجام دینے کا بھی شعور بخشے۔ (آمین)
ماخوذ از ماہنامہ دخترانِ اسلام، فروری 2017