تحریک منہاج القرآن۔۔ غلبہ حق اور تجدیدِ دین کی تحریک (آخری قسط)

منہاج القرآن ویمن لیگ کی تقریب حلف وفاداری سے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کا خصوصی خطاب

ترتیب و تدوین: صاحبزادہ محمد حسین آزاد الازہری
معاونت: نازیہ عبدالستار

ابھی جب میں جارڈن گیا تو وہاں عالم عرب کے علماء بھی تھے وہاں موضوع گفتگو تھا حضور علیہ السلام کی سنت کی حجیت، قرآن کے برابر ہے۔ اس پر میں نے گفتگو کی۔ سوال و جواب کا سیشن شروع ہوا میں نماز کے لئے جانے لگا تو کچھ لوگ میرے موضوع پر بات کررہے تھے۔ پورے ہال میں لوگ ہمارے عقیدے کے تھے مگر دیگر عرب علماء میں وہ علمی مضبوطی اور جرات نہیں تھی کہ ان کا جواب دے سکتے۔ سب سر نیچے کرکے بیٹھے تھے۔ میں پلٹ کر آیا اور ان کو جواب دیا اور بالکل ساکت اور سامت کرنے کے بعد واپس گیا۔ پھر مجھے تین دن کانفرنس کے لوگ ملتے رہے اور اپنے جذبات کا اظہار کرتے رہے۔ دیو بند جمعیت علماء ہند کے سربراہ آئے ہوئے تھے۔ وہ بھی مجھ سے اپنی عقیدت مندی کا اظہار کرتے رہے اور دارالعلوم دیوبند کے وزٹ کی دعوت بھی دی۔

مقصد بات کا یہ ہے کہ کام کے کتنے گوشے ہیں۔ جن میں سب پر بات نہیں ہوسکتی۔ End کی طرف آرہا ہوں کہ ہم نے اس فرسودہ نظام کی تبدیلی اور بیداری شعور کی آواز بلند کی۔ پھر کارکنوں نے عظیم قربانی دی اور جو سترہ جون کو انہوں نے کر دکھایا اس کی مثال نہیں ملتی۔ کسی ایک کارکن کو گولی پشت پر نہیں لگی بلکہ سب کو سینے پر لگی۔ پھر ان کا اسلام آباد جانا، 14 دن کے محاصرے میں گولیاں چلیں، لاشیں گریں پھر شہادتیں ہوئیں۔ دن اور رات 24,24 گھنٹے جنگ لڑتے رہے مگر ایک شخص نہیں بھاگا۔

اب بڑی خاص بات کہہ رہا ہوں کہ کارکنوں کو Moderate بھی رکھنا اور اتنا Committed بھی رکھنا یہ دنیا میں ممکن نہیں ہے۔ ہاں بندے اگر انتہاء پسند ہوجائیں جیسے دہشت گرد ہوتے ہیں وہ بم باندھ کے خودکش حملہ کرکے مرجاتے ہیں لہذا یا تو انتہاء پسند کردیں اور ان کا Brain wash کردیں اور عقل ان کی کھوپڑی سے نکال دیں اور سوچنے سمجھنے کی صلاحیت نکال دیں، پاگل بنادیں اور دھت کردیں پھر ان سے جو کام چاہیں لے لیں۔ یہ آسان کام ہے مگر دنیا کا مشکل ترین کام یہ ہے کہ عقل کو آباد رکھ کر Moderate vision دے کر گولیاں کھانے کے قابل بنانا۔ یہ دو مشرق و مغرب کی انتہائیں ہیں میں نے کبھی اکٹھے نہیں دیکھیں کہ ادھر گولیاں چل رہی ہیں ادھر ہاتھ باندھ کر کنٹینروں کی حفاظت کررہے ہیں اور ساری رات گولیوں کا مقابلہ کررہے ہیں اور کوئی بھی اپنی جگہ سے ہل بھی نہیں رہا۔ پھر زہریلی گیس کی وجہ سے آنکھوں سے آنسو رواں ہیں۔ کھانسی ہورہی ہے، سانس گھٹ رہے ہیں مگر میدان چھوڑ کر کوئی نہیں بھاگ رہا۔ لہذا ادھر لاشیں گرگئی ہیں بھاگا کوئی نہیں۔ ادھر گولیاں چل رہی ہیں اپنی جگہ سے ہٹا کوئی نہیں۔ یہ Commitment دینا اور ادھر عقل کو برقرار رکھ کر Moderate رکھنا، اعتدال بھی رکھنا، فکر بھی قائم رکھنا، عقل بھی قائم رکھنا، قربانیوں کے لئے جرات بھی دینا ان دو چیزوں کا احیاء و تجدید ایسی ہے جو صدیوں میں کبھی نہیں ہوئی تھی۔

یہ وہ Character پیدا ہوا ہے کہ آج ہر وہ شخص جو آپ سے لاکھ اختلاف کرتا ہے۔ دوست ہو یا دشمن، اپنا ہو یا پرایا ہر کوئی ٹی وی چینل پر بیٹھ کر اس کا اقرار کرتا ہے اور ہمارے کارکنوں کی جرات کو سلام کرتا ہے۔ لہذا جو آپ کو نہیں مانتا وہ بھی یہ بات مانتا ہے۔

یہ میں نے آپ کو کم و بیش دس Aspect بیان کردیئے اور بھی بے شمار گوشے ہیں جن میں سے چند ایک چیزیں آپ کو بتائیں اور یہ اس لئے کہ آپ چند صدیوں کا ریکارڈ چیک کرلیں۔ اس کو سامنے رکھ لیں اور پھر اپنے 35 سال کے نتائج کا تقابل کرلیں اگر آپ کسی صدی کے کام سے پیچھے رہ جائیں تو میں آپ کو کہتا ہوں کہ منہاج القرآن کی رفاقت چھوڑ دیں۔

اللہ رب العزت نے جو کام آپ سے لینا تھا لے لیا۔ بڑا انعام کردیا مگر ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔ ہم اپنے کام کو جاری رکھیں گے مگر بتا یہ رہا تھا یہ ایسی تجدید دین ہوگئی ہے کہ صدیوں تک زمانے آپ سے نور اور فیض لیتے رہیں گے۔ اس لئے کہ اس تحریک کو ہم نے آخری منزلوں تک پہنچانا، شمع سے شمع جلانا، اگلے زمانوں کو روشن کرنا اور اگلی نسلوں کو منتقل کرنا ہے۔

آخر میں منہاج القرآن ویمن لیگ کو لاکھ بار بھی مبارکباد دوں تو کم ہے اور اس پوری تحریک میں آپ یقین جانئے پہلا Chapter ہوگا اور یہ سونے کا سہرا ہوگا۔ اس میں کوئی شک نہیں میں تو کبھی نہیں بھولتا ان بیٹیوں کی جرات اور استقامت کو جب وہ لوگ Long March میں کنٹینر کو کرین سے اغواء کرکے لے جارہے تھے۔ اس وقت بھی پہلی جو حفاظت کی رو تھی اور دفاعی دستہ تھا وہ میری بیٹیوں کا تھا۔ یقین جانئے میرا دل خوش ہوگیا۔

منہاج القرآن ویمن لیگ اور میری بیٹیاں اور میری بہنیں اس تجدید دین، احیاء دین اور غلبہ حق کی تحریک میں جس کا فیض صدیوں تک ان شاء اللہ تعالیٰ جانا ہے کے ماتھے کا جھومر بن چکی ہیں۔ ویمن لیگ کو اللہ برکت دے اور آپ سب کو سلامت رکھے۔

ماخوذ از ماہنامہ دخترانِ اسلام، اپریل 2017

تبصرہ