فلسفۂ رمضان اور روزے کی اہمیت

ڈاکٹر ساجد خاکوانی

قدرت نے انسان کی فطرت کے اندر دو جبلتیں ایسی رکھی ہیں کہ ان کی شدت انسان کو جانوروں کی صف میںلا کھڑا کرتی ہے۔پہلی جبلت پیٹ کی خواہش ہے جبکہ جبلت ثانیہ پیٹ سے نیچے کی خواہش ہے۔تاریخ انسانی شاہد ہے کہ ان دونوں خواہشات کو پوری کرتے کرتے انسان نے جہاں حلال وحرا م اور جائزو ناجائز کی حدود توڑی ہیں وہاں بعض اوقات مقدس رشتوں کی حرمت کو بھی تار تار کیاہے۔ان دو طاقت ورجذبوں سے کبھی مذہب نے شکست کھائی ہے تو کبھی تہذیب و تمدن بھی ان کے سامنے ماند پڑے ہیں اور کہیں شرم و حیا داغ داغ ہوئی ہے تو کہیں عفت و پاکدامنی کی چاندنی چھلنی چھلنی ہوئی۔تاریخ کے صفحات بھرے پڑے ہیں اور کہیں کہیں تو مورخ کا قلم تھک ہار کر سپر ڈال دیتاہے کہ ان دونوں جذبوں کی مکروہ و مذموم وارداتیں ناقابل تحریر ٹھہرتی ہیں اور بے باک قلم کار بھی کہتاہے زمانے کے مظالم کے زندہ رکھنے کا ذمہ مجھ پر نہ آن پڑے۔قرآن مجید نے انسان کی اس بدعملی پر کیا خوبصورت تبصرہ کیا ہے۔

’’وَ لَقَدْ ذَرَاْنَا لِجَهَنَّمَ کَثِيْرًا مِّنَ الْجِنِّ وَ الْاِنْسِ لَهُمْ قُلُوْبٌ لاَّ يَفْقَهُوْنَ بِهَا وَ لَهُمْ اَعْيُنٌ لَّا يُبْصِرُوْنَ بِهَا وَ لَهُمْ اٰذَانٌ لاَّ يَسْمَعُوْنَ بِهَا اُولٰٓئِکَ کَالْاَنْعَامِ بَلْ هُمْ اَضَلٌّ اُولٰٓئِکَ هُمُ الْغٰفِلُوْنَ{7: 179}‘‘

ترجمہ:اور حقیقت یہی ہے کہ بہت سے جن وانسان ایسے ہیں جنہیں ہم نے جہنم ہی کے لیے پیداکیاہے، ان کے پاس دل ہیں لیکن وہ سوچتے نہیں، ان کے پاس آنکھیں ہیں لیکن وہ دیکھتے نہیں، ان کے پاس کان ہیں لیکن وہ سنتے ہی نہیں، وہ جانوروں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ گزرے ہوئے، یہ وہ لوگ ہیں جو غفلت میں کھو گئے ہیں۔

جملہ کل انسانی معاملات کی مانند،اسلام نے یہاں بھی انسانیت کو بے سہاراو تنہانہیں چھوڑ دیا بلکہ ایک ایسا نظام العمل دیا ہے جو ان دونوں جبلتوں یعنی ،پیٹ اور پیٹ کی نیچے کی خواہشات کو باگیں ڈال دیتاہے اور جانوروں سے گراہوا انسان ایک بار پھر دائرہ انسانیت میں پناہ گزین ہو جا تاہے۔’’روزہ‘‘اسی نظام العمل کا نام ہے۔طلوع فجر سے دن کے اختتام تک پیٹ اورپیٹ سے نیچے کی جائز خواہشات سے بھی دستبردارہوجا نا ’’صوم‘‘یا روزہ کہلاتاہے۔لیکن یہ ’’روزہ‘‘کا ظاہری ڈھانچہ ہے۔قرآن مجید انسان سے یہ توقع رکھتاہے کہ جس نے ان دو بڑی بڑی حیوانی جبلتوں پر قابو پالیاہے اس کے لیے ان سے چھوٹی عادات پر قابو پانا چنداں مشکل نہ ہوگا،پس زبان،آنکھ،کان،ہاتھ ،پاؤں اور دیگر خواہشات پر قابوپا لینا کچھ دشوار نہیں اگر ان دو بڑے منہ زور گھوڑوں کو قابو پا لیاجا سکے۔ ’’روزہ‘‘تمام مذاہب میں اپناوجود رکھتاہے۔اﷲتعالی کی کتب کا ایک قانون ’’قانون نسخ‘‘کے نام سے جاناجاتا ہے۔اس کا مفہوم یہ ہے کہ ایک وقت میں نازل شدہ احکام بعد کے اوقات میں کلی یا جزوی طور پر منسوخ کر دیے جاتے ہیں۔بنی اسرائیل کی شریعت میں مغرب سے مغرب تک روزہ ہوتا تھااور کل مہینے کے لیے بیویوں کے پاس جانا منع تھا۔جو شخص مغرب کے وقت میں کچھ کھانے پینے سے قاصر رہ جاتاتواس کا روزہ اڑتالیس گھنٹے کا ہو جاتا تھا۔ہجرت کے دوسرے سال ’’روزہ‘‘انہیں شرائط کے ساتھ امت مسلمہ پر بھی فرض کر دیا گیا۔لیکن کچھ مسلمان حالت روزہ میں بیویوں کے پاس جانے کی شکایت لے کر حاضر خدمت اقدس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہوئے۔اﷲتعالی ان نفوس قدسیہ پر اپنی دائمی رحمتوں کا نزول فرمائے جن کے سبب وطفیل اﷲ تعالی نے اپنے اس قانون میں ’’نسخ‘‘فرمایااور امت مسلمہ کے لیے روزہ کادورانیہ مغرب سے مغرب تک کی بجائے طلوع فجر سے مغرب تک کر دیاگیااوررات کے اوقات میں کھانے پینے اور بیویوں کے پاس جانے کی اجازت مرحمت فرمادی۔

روزہ ان پانچ عبادات میں سے ایک ہے جنہیں امت مسلمہ کے لیے فرض قرار دیا گیاہے۔قرآن مجید نے اس کا مقصد تقوی کا حصول بتایاہے۔تقوی کے بہت سے مطلب ہو سکتے ہیں اور سب ہی درست ہیں لیکن اس کا سادہ سا مطلب یہ ہے کہ جب پیٹ اور پیٹ سے نیچے کا روزہ ہو تو آنکھ بھی روزے سے ہو،زبان،ہاتھ اور پاؤں بھی روزے سے ہوں،دل اور دماغ کا بھی روزہ ہواور انسان کے کل معمولات سے روزہ گویا چھلک چھلک کر امڈرہا ہو تب ہی تقوی کا مقصد پورا ہوسکتاہے۔سیکولرمغربی تہذیب اور اسلامی تہذیب میں ایک فرق یہ بھی ہے کہ سیکولرلوگ کسی مقصد کا ایک دن منا لیتے ہیں اور پھر سارا سال اسے فراموش کیے رکھتے ہیں،اگر صرف رمضان میں تقوی حاصل کیااورباقی سال یہ سبق بھلادیاتو پھر مسلمان اور سیکولر میں تو کوئی فرق نہ رہا۔پس یہ تقوی کا سبق رمضان میں ایک یادہانی کی شکل میں گویاگلستان کوآبیاری کاکام کرتاہے جس کے نتیجے میں یہ درخت سارا سال بارآور رہتاہے۔یہ روزہ کا انفرادی مقصد تھا ،روزہ کے اجتماعی مقصد کی طرف قرآن کی اصطلاح ’’صوم‘‘ واضح اشارہ کرتی ہے۔یہ لفظ ’’صائم‘‘سے ماخوذ ہے جس کا مطلب وہ گھوڑا ہے جسے بھوکا پیاسا رکھ کر مشقت لی جاتی ہے اور اسے جنگ کے لئے تیار کیاجاتاہے۔چونکہ ساری عبادات مسلمان کو ’’قتال’’کے لیے تیار کرتی ہیں،نماز قتال کے لیے نظم و ضبط سکھاتی ہے،زکوۃ قتال کے لیے خرچ کرنا سکھاتی ہے،حج قتال کیے دوکپڑے پہن کر فوجوں کی طرح خیموںمیں رہنا سکھاتا ہے۔ اسی طرح روزہ قتال کے لیے بھوکا پیاسا رہنا سکھاتاہے۔روزہ میں صبر کا سبق ملتا ہے جو کہ سپاہی کا سب سے پہلا امتحان ثابت ہوتا ہے۔دنیا بھر کی نعمتیں دستر خوان پر چنی گئی ہوتی ہیں،لیکن صرف حکم کا انتظار ہوتا ہے اور جب تک حکم نہیں آتا کوئی سپاہی بھی کھانے طرف ہاتھ نہیں بڑھاتا،سحری کے وقت آنکھیں نیندسے بھری ہیں،طبیعت انتہائی بوجھل ہے، کھانے کو ایک فیصد بھی دل نہیں چاہتا لیکن سپاہی کے لیے حکم ہے ابھی کھانا کھاؤ،سپاہی کی تربیت کے لیے ہر موسم میں رمضان المبارک بھیجا جاتا ہے تاکہ جب کبھی کسی بھی موسم میں قتال کرنا پڑے تو مومن سپاہی تیارباش ہوں۔روزے کی حالت میں شوہراوربیوی ساتھ ساتھ موجود ہیں لیکن حکم یہی کہ ایک دوسرے سے احتراز کرنا ہے ۔

فرض روزے رمضان المبارک کے روزے ہوتے ہیں،یہ کسی صورت معاف نہیں ہیں،بیماری،سفر یا کسی اور شرعی عذرسے رہ جائیں تو ان کی قضا ضروری ہے۔خواتین کے خصوصی ایام کی نمازیں معاف ہیں لیکن روزوں کی قضا کرنی پڑے گی۔واجب روزے منت کے روزے ہیں،اگر منت مانی ہے کہ میرا فلاں کام ہوجائے تو اتنے روزے رکھوں گاتب کام ہو جانے پر ان روزوں کا رکھنا واجب ہو جائے گا۔سنت موکدہ کوئی روزے نہیں تاہم رمضان کے روزوں کی فرضیت سے قبل محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہر قمری مہینے کی تیرہ چودہ اور پندرہ تاریخوں میں روزہ رکھا کرتے تھے،انہیں ایام بیض کہتے ہیں،اکثر بزرگ ان ایام میں روزہ رکھنے کو سنت سمجھتے ہیں۔ایک نوجوان نکاح کرنے کی استطاعت نہیں رکھتا تھاتو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے روزہ رکھنے کی ترغیب دی اور سنت داؤدی کو پسند فرمایا یعنی ایک دن روزہ رکھنا پھر ایک دن روزہ نہ رکھنا۔جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو یہودی دس محرم کا روزہ رکھتے تھے کیونکہ اس تاریخ کو انہیں فرعون سے نجات ملی تھی، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی یہ روزہ رکھا لیکن یہودیوں سے عدم مشابہت کی خاطر نو اور دس محرم کے روزے رکھے۔اگر کسی وجہ سے نو محرم کا روزہ نہ رکھاجا سکے تو دس اور گیارہ محرم کے روزے رکھنا مستحب ہے۔شکرانے کے روزے،قضائے حاجت کے لیے روزے اوررمضان کے علاوہ نفلی اعتکاف میں بیٹھنے کی صورت میں روزے رکھنا روزوں کی نفلی اقسام ہیں۔صرف جمعہ کے دن کا روزہ پسند نہیں کیا گیا کیونکہ ایک حدیث کے مطابق یہ مومن کے لیے عید کا دن ہے،اس دن نہادھوکر اچھے کپڑے پہنے جائیں اور صلہ رحمی کی جائے،تاہم کسی ترتیب میں جمعہ کے دن کا روزہ آجائے تو کچھ مضائقہ نہیں۔ شوہر کی اجازت کے بغیر زو جہ کا روزہ رکھنا مکروہ سمجھا جاتا ہے وجہ صاف ظاہر ہے،صرف دس محرم کا روزہ رکھنابھی مکروہ ہے،نوروز کا روزہ بھی مکروہ ہے کیونکہ دوسرے مذاہب سے مشابہت کا عمل شارع کو قطعاََبھی پسند نہیں۔یکم شوال،دس،گیارہ،بارہ اور تیرہ ذولحجہ کے روزے رکھنا حرام ہیں،ان دنوں میں ابلیس روزہ رکھتاہے۔تاہم یہ سنت ہے کہ جس دن قربانی کرنی ہوتب قربانی کا گوشت پکنے تک کچھ نہ کھایا پیاجائے اور قربانی کے گوشت سے ہی دن کے کھانے کا آغاز کیاجائے۔یہ کتنا بڑا درس انسانیت ہے کہ جو جانور ہمارے لیے اپنی جان سے گزر رہا ہے اس کے احترام میں چند گھنٹے بھوک برداشت کر لی جائے۔

اعتکاف بہت بڑی فضیلت کا عمل ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہر سال رمضان کا آخری عشرہ اعتکاف فرماتے تھے،عمر مبارک کے آخری رمضان بیس دنوں کا اعتکاف اداکیا۔اعتکاف کے دوران روزے کے علاوہ بھی بیوی کے پاس جانا منع ہوجاتاہے۔اعتکاف میں خاص طور پر اور پورے رمضان میں عام طور پر قرآن مجید کو سمجھ کر یعنی ترجمہ سے پڑھ لینا اس لیے مفید ہے کہ یہ مہینہ قرآن سے ہی وابستہ ہے۔اگر ایسی جگہ تراویح اور اعتکاف کا موقع مل جائے جہاں قرآن فہمی کے مواقع میسر ہوں تو اسے رب کی خصوصی عنایت سمجھاجائے،محض تلاوت کر لینے سے قرآن کا حق ادانہ ہوگااور قرآن سے راہنمائی حاصل نہیں کی جا سکے گی۔عیدالفطر میں خرافات کے اندر غرق ہوجانا ایسا ہی ہے جیسے بہت اچھے طبیب سے بڑی موثراور مہنگی دوائی حاصل کی اور کھا کر ہضم ہونے سے پہلے حلق میں انگلی ڈال کراگل دی۔روزے جیسامشقت بھراعمل زمین و آسمان کے درمیان معلق رہتاہے جب تک کہ فطرانہ ادانہ کردیاجائے۔ڈھائی سیر گندم کے برابر قیمت کو گھر میں موجود تمام افرادکی تعداد سے ضرب دے کراتنی رقم اداکی جائے۔یکم شوال کو طلوع آفتاب سے قبل پیداہونے والا بچہ بھی اس تعداد میں شامل ہے۔رمضان کے اگرچہ بہت سے مستحب اعمال ہیں لیکن کثرت سے دعائیں مانگنا،ہر وقت دعامانگتے رہنا،دوسروں سے دعاؤں کی درخواست کرنااور اپنی دعاؤں میں زندوں اور مردوں سب کو یاد رکھنابہت ضروری عمل ہے۔

ماخوذ از ماہنامہ دخترانِ اسلام، جون 2017

تبصرہ