اَخلاقِ حسنہ دین کی روح

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کا خطاب

ترتیب و تدوین: صاحبزادہ محمد حسین آزاد
معاونت: محمد خلیق عامر

بسم اللہ الرحمن الرحیم

اللہ تبارک وتعالیٰ نے حضور علیہ الصلوۃ والسلام کو اتنے خصائلِ حمیدہ، فضائل، صلاحیتیں، عظمتیں، سعادتیں اور رفعتیں عطا کی ہیں جن کا کوئی شخص آج تک نہ شمار کر سکتا ہے نہ ہمارے بعد کی نسلوں میں بھی کوئی شمار اور احاطہ کر سکے گا۔

اللہ رب العزت نے فضائل اور اعلیٰ صفات میں آقا علیہ السلام کی شان کو لامحدود بنایا ہے اور ان کا ذکر بھی قرآن میں حسبِ موقع جابجا کیا ہے۔ چونکہ اللہ رب العزت نے آقا علیہ السلام کو اپنے دستِ قدرت، اپنے دستِ فیض اور اپنے دستِ عطا سے بنایا اور سنوارا ہے اس لیے کسی ایک صفت کا ذکر کر کے نہیں فرمایا کہ آپ اس وصف اور اس خوبی میں عظیم ہیں۔ سوائے ایک وصف کے اور وہ آقا علیہ السلام کے اخلاق حسنہ ہیں۔ اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:

وَ اِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْمٍo

(القلم، 68: 4)

’’اور بے شک آپ عظیم الشان خلق پر قائم ہیں (یعنی آدابِ قرآنی سے مزّین اور اَخلاقِ اِلٰہیہ سے متّصف ہیں)‘‘۔

جب کسی آیت کریمہ یا حدیث پاک کا ذکر ہو تو اس کی تفصیل و تشریح کے کئی پہلو ہوتے ہیں اُس میں نحوی پہلو بھی ہوتا ہے اور بلاغی پہلو بھی ہوتا ہے۔ یہاں اختصار سے بتانا چاہتا ہوں کہ اس آیت کریمہ کے چھوٹے سے جملے میں تاکیدیں ہیں۔ ایک فرمایا: اِنَّکَ۔ اِنَّ تاکید کے لیے وارد ہوا ہے۔ پھر فرمایا: لَعَلٰی یعنی پر حرف لام پھر تاکید کے لیے آیا ہے اور اس سے قبل شروع میں فرمایا: وَاِنَّکَ یعنی واؤ عاطفہ لگایا۔ (یہ ایک الگ قرآن مجید کے بلاغت کی شان کی بحث ہے مگر میں صرف ایک ایک سادہ نکتہ سمجھا رہا ہوں)۔

جب واؤ عاطفہ بطور خاص لگائی جائے تو یہ بھی ایک تاکید ہے۔ کیسے؟ کہ واؤ عاطفہ لگا کے پچھلے کلام سے فصل قائم کیا جاتا ہے، کہ پچھلی بات ختم ہوئی اب اگلی بات نئی ہے دھیان سے سنو (اور کے ساتھ) ’’اور بے شک آپ بڑے عظیم اخلاق پر فائز ہیں‘‘۔لہذا واؤ عاطفہ میں معنوی تاکید ہے، کہ دھیان سے سنو۔ سامع کو متوجہ کرنے کا ایک اسلوب ہے۔ یہ جو لوگ علم المعانی، علم البیان، علم البدیع یعنی علم البلاغت کا درک رکھتے ہوں انہیں یہ نقطہ آسانی سے سمجھ آ جائے گا۔ یہ بلاغت کا نکتہ ہے۔ ایک تاکید ہو گئی واؤ کے ساتھ ایک تاکید ہوئی اِنَّ کے ساتھ ایک تاکید ہوئی لَعَلٰی حرف لام کے ساتھ۔ یہ تاکیدات دے کر پھر فرمایا: اِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْمٍ کہ بے شک آپ خلقِ عظیم کے درجے پر فائز ہیں۔ پھر چوتھی تاکید یہ آئی کہ خلق کے ساتھ عظیم کہا۔ جو میں نے کہا کہ قرآن مجید میں کسی اور وصف کو بطور خاص عظیم کے ساتھ موصوف نہیں کیا۔ اس سے پتہ چلا کہ سارے اوصاف انسان کے ایک طرف اُن سارے اوصاف کا جو وصف احاطہ کرتا ہے اور اُس کے اندر سارے وصف آ جاتے ہیں وہ خلق ہے۔ خلق حسن یا اخلاق حسنہ۔ سارے اوصاف اسی کے مختلف مراتب ہیں۔

بیان اخلاق کی اہمیت و ضرورت:

اللہ رب ہے، خالق ہے، بنانے والا ہے، اور وہ رب ہو کر، خالق ہو کرـ، سب کچھ دے کر جب اپنی زبان سے فرمائے گا کہ میرے محبوب! آپ کے اخلاق عظیم ہیں، آپ سوچئے کہ رب عظیم جب اپنی مخلوق میں اپنے نبی کے وصف کو عظیم کہے تو اُس عظیم کی عظمت کا عالم کیا ہوگا؟ دیکھئے میں کسی کو عظیم کہوں تو وہ کہنا اور ہے۔ میں خود اتنا عظیم نہیں ہوں تو مجھے جو چیز بڑی اونچی نظر آئے گی میں عظیم کہوں گا چونکہ اُس عظیم سے اوپر تو میرا مرتبہ نہیں ہے۔ آپ کسی شے کو عظیم کہیں تو آپ اپنے درجے رتبے کے مطابق اعتراف کریں گے کہ یہ بڑا عظیم ہے۔

مثلاً ایک عمارت بڑی اونچی ہے اگر آپ اُس سے بھی زیادہ اونچا کھڑے ہوں گے اور اونچائی سے کھڑے ہو کر دیکھیں گے تو آپ کے منہ سے یہ جملہ کبھی نہیں نکلے گا کہ واہ واہ دیکھو کتنا اونچا مینار یا عمارت ہے۔ چونکہ اگر آپ خود اُس سے اونچے ہیں تو ہر اونچی چیز آپ کو پست نظر آئے گی۔ یہ بڑا Important نقطہ ہے۔ بہت اونچائی کا اندازہ کون کرتا ہے؟ جو خود اُس اونچی چیز کے مقابلے میں پستی پر ہو۔ جو نیچے ہو گا تو اسے کوئی چیز اونچی دکھائی دے گی۔ یہ ایک فطری امر ہے۔ جیسے اللہ رب العزت نے حضور علیہ السلام کو فرمایا:

وَرَفَعْنَا لَکَ ذِکْرَکَ.

(الانشراح، 94: 4)

’’اور ہم نے آپ کی خاطر آپ کا ذکر (اپنے ذکر کے ساتھ ملا کر دنیا و آخرت میں ہر جگہ) بلند فرما دیا‘‘۔

یہ مطلق بلندی کا ذکر کیا۔ اِس کا مطلب ہے کہ میرے محبوب آپ کے ذکر اور آپ کی شان کو ہر بلند سے بلند کر دیا۔ یہی شان اللہ رب العزت نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلق کو عظیم کہہ کر فرمائی۔

میں نے مثالوں سے یہ بات آپ کو سمجھائی کہ ہم اگر کسی کے اخلاق کو عظیم کہیں تو اُس کا معنیٰ اور ہے۔ حضور علیہ الصلوۃ والسلام ہم سے بہت اونچے ہیں تو ہم عظیم ہی کہیں گے۔ لیکن رب ہو کر جو خود عظمتوں کا خالق ہے، جس نے ہر عظیم کو عظیم بنایا ہے، جس نے ہر پست کو عظیم کیا ہے، جس نے ہر ناقص کو کامل کیا ہے، جو خود رب عظیم وہ جب اپنی مخلوق کے کسی ایک وصف کو کہے محبوب! واہ واہ تیرا اخلاق کتنا عظیم ہے۔ رب عظیم جب کہے میرے محبوب! وَ اِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْمٍ تو عرفِ عام میں اس کے مفہوم میں یہ صدا سنائی دیتی ہے محبوب! واہ واہ واہ واہ تیرا خلق کتنا عظیم ہے، محبوب تیری طبیعت کتنی شاندار ہے، محبوب آپ کا مزاج کتنا عالی ہے، محبوب آپ کا برتاؤ کتنا بے مثال ہے۔ ان تاکیدات کا یہ معنیٰ بنتا ہے اور عظیم رب جب محبوب کے ایک وصف کو عظیم کہے اندازہ کریں کہ وہ عظیم کیسا عظیم ہوگا اور اُس کی عظمت کا حال کیا ہوگا؟ یہ تو ایک پہلو سے اس آیت کریمہ کی ایک تفسیر ہے۔

اس سے یہ چیز معلوم ہو جانی چاہیے کہ انسان میں بڑے وصف ہوتے ہیں۔ انسان میں حسن بھی ہوتا ہے۔ اُس کا جسمانی توازن بھی ہوتا ہے۔ اُس کا رنگ روپ بھی ہوتا ہے۔ انسان میں علم بھی ہوتا ہے، اُس کے اعمال بھی ہوتے ہیں۔ اُس کی جسمانی قوت اور طاقت بھی ہوتی ہے، اُس کا قد اور قامت بھی ہوتی ہے، اُس کا لباس بھی ہوتا ہے، اُس کی آواز، لحن اور لہجہ بھی ہوتا ہے۔ بڑی خوبیاں ہوتی ہیں ظاہری بھی اور باطنی بھی۔ مگر اللہ تبارک وتعالیٰ نے اُن ساری خوبیوں میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلق کی خوبی کو چنا ہے اور چن کر اسے عظیم فرمایا ہے۔ حالانکہ رحمت کو دیکھیں تو فرمایا:

وَمَآ اَرْسَلْنٰـکَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِیْنَo

(الأنبیاء، 21: 107)

’’اور (اے رسولِ محتشم!) ہم نے آپ کو نہیں بھیجا مگر تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر‘‘۔

اسی طرح قرآن میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے علم، معرفت، تقویٰ و پرہیزگاری، عزم و حوصلے، صبر، توکل، یقین، صدق و اخلاص اور دیگر اوصاف جمیلہ کا ذکر ہے۔ مگر اُن میں سے ایک وصف ’’اخلاق‘‘ کو چن کر اُس کو focus کر کے فرمایا: محبوب! آپ کے سارے اوصاف بے مثال ہیں مگر آپ کا خلق کیا عظیم ہے۔ اتنی گفتگو کا مقصود یہ ہے تاکہ آپ اس نقطے کو سمجھیں کہ دین میں اور سنت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں اخلاق کی اہمیت کیا ہے؟ اور آج ہم اسی کو اپنی زندگی میں نظر انداز کر چکے ہیں۔

خُلق کا معنیٰ و مفہوم:

اب اس کا معنیٰ سمجھا دیتا ہوں۔ دو چیزیں ہیں ایک لفظ ہے خَلْقْ اور ایک ہے خُلُقْ۔ سادہ لفظوں میں انسانی شخصیت کے اعتبار سے خَلْقْ ظاہر ہے اور خُلُقْ اس کا باطن ہے۔ آقا علیہ السلام اپنی خَلْقْ میں بھی اور اپنے خُلُقْ میں بھی بے مثال ہیں۔ خَلْقْ ظاہر کا نام ہے اور خُلُقْ باطن کا نام ہے۔ جیسے قرآن مجید میں سورۂ لقمان کی آیت نمبر 20 میں ایک مقام پہ اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:

وَاَسْبَغَ عَلَیْکُمْ نِعَمَهٗ ظَاهِرَةً وَّبَاطِنَةً.

(لقمان، 31: 20)

’’اور اس نے اپنی ظاہری اور باطنی نعمتیں تم پر پوری کر دی ہیں‘‘۔

یعنی اللہ تعالیٰ نے تمہارے اوپر ظاہری نعمتوں کا بھی رنگ چڑھا دیا ہے اور باطنی نعمتوں سے بھی فیض یاب اور سیراب کر دیا ہے۔ اب آپ اندازہ کریں کہ خود اللہ رب العزت نے انسانی شخصیت کے حوالے سے ذکر کیا ہے کہ میں انسانی شخصیتوں پر ظاہری نعمتوں کا رنگ بھی چڑھاتا ہوں اور باطنی نعمتوں کا رنگ بھی چڑھاتا ہوں اور باطنی نعمت میں سب سے اعلیٰ چیز خُلُقُ ہے۔ اُس خُلُقْ کا معنیٰ ایک اور لفظ میں بھی بیان ہوتا ہے اور اُس کا نام ہے ادب۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ادب سے مراد یہ جو چھوٹے بچے بڑوں کا ادب کرتے ہیں، اولاد والدین کا ادب کرتی ہے، شاگرد اساتذہ کا ادب کرتے ہیں، عام لوگ بزرگوں کا ادب کرتے ہیں، ہم ادب کے معنیٰ و مفہوم کو تنگ کر کے صرف یہاں تک سمجھتے ہیں۔ ہم نے ادب کو محدود کردیا ہوا ہے۔ یہ غلط ہے۔ ادب ایک بڑا وسیع معنیٰ رکھتا ہے۔ یہ ادب جو ہم سمجھتے ہیں اُس میں سے ایک جز ہے۔ ادب کہتے ہیں حسن سیرت کو۔ کسی کے ساتھ بھی برتاؤ کا حسن، برتاؤ کی عمدگی، اچھا معاملہ (Interaction) اُس معاملہ کے حسن کو ادب کہتے ہیں۔ یہ ادب بندے کا اللہ کے ساتھ بھی ہے جس کو اہل اصطلاح، اہل حقیقت اور اہل معرفت یوں کہیں گے کہ اس کا ادب اللہ کے ساتھ کیسا ہے؟ اس کا ادب رسول کے ساتھ کیسا ہے؟ اس کا ادب صحابہ، اہل بیت، اخیار، اولیائ، صالحین کے ساتھ کیسا ہے؟ اس کا ادب اپنے والدین، مشائخ، بزرگوں کے ساتھ کیسا ہے؟ اس کا ادب اپنی اولاد کے ساتھ کیسا ہے؟ اس کا ادب اپنے دوستوں، احباب اور colleques کے ساتھ کیسا ہے؟ اس کا ادب جانوروں کے ساتھ کیسا ہے؟ اس کا ادب کافروں اور دشمنوں کے ساتھ کیسا ہے؟ اس کا ادب نیکوں، گناہگاروں اور بدکاروں کے ساتھ کیسا ہے؟ الغرض ہر ایک فرد کے ساتھ برتاؤ کی نوعیت کو جاننا کہ اچھا ہے یا برا اس کو ادب کہتے ہیں۔

دوسرے لفظوں میں ادب اور خُلُق ایک ہی حقیقت کے دو نام ہیں۔ میں آپ کے تصورات کو تبدیل کر رہا ہوں۔ بعض اوقات وہ تصورات رسم و رواج، معاشرے اور معمولات کی پیداوار ہوتے ہیں اور حقیقت کے برعکس ہوتے ہیں۔ اب قرآن مجید نے جو بیان کیا خُلُق یا ادب کے بارے میں اُس کے معنیٰ اور حقیقت کو سمجھانا چاہتا ہوں۔

انسان کی جب تخلیق ہوئی تواُس وقت بھی اللہ تعالیٰ نے اُس تخلیق میں ظاہری اور باطنی پہلو کا ذکر کیا۔ ارشاد فرمایا:

اِنِّیْ خَالِقٌم بَشَرًا مِّنْ صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَاٍ مَّسْنُوْنٍ.

(الحجر، 15: 28)

’’جب آپ کے رب نے فرشتوں سے فرمایا کہ میں سِن رسیدہ (اور) سیاہ بودار، بجنے والے گارے سے ایک بشری پیکر پیدا کرنے والا ہوں‘‘۔

یعنی اللہ رب العزت نے جب آدم علیہ السلام کی تخلیق فرمائی تو اپنے فرشتوں سے فرمایا میں ایک بشری پیکر بنا رہا ہوں۔ یعنی انسان بنا رہا ہوں، انسان کا ایک بشری پیکر بنا رہا ہوں۔ وہ چپکتی بجتی مٹی سے اور سیاہ بودار گارے سے جو عرصہ دراز کے ساتھ گل سڑ گیا ہے اور سیاہ ہوگیا ہے اور بو دار ہے اس سے ایک پیکر بنا رہا ہوں تاکہ اس سے انسان وجود میں آئے۔پھر فرمایا:

فَاِذَا سَوَّیْتُهٗ وَنَفَخْتُ فِیْهِ مِنْ رُّوْحِیْ فَقَعُوْا لَهٗ سٰجِدِیْنَo

(الحجر، 15: 29)

’’پھر جب میں اس کی (ظاہری) تشکیل کو کامل طور پر درست حالت میں لا چکوں اور اس پیکر (بشری کے باطن) میں اپنی (نورانی) روح پھونک دوں تو تم اس کے لیے سجدہ میں گر پڑنا‘‘۔

اب یہاں اللہ تعالیٰ فرمارہا ہے کہ پہلے میں اُس کی خَلق کو خوبصورت کروں گا یعنی اُس کی ظاہری ہیئت، ظاہری شکل و صورت اور اُس کے جسمانی توازن کو درست کروں گا۔ یاد رکھ لیں جب توازن پیدا ہو جائے تو توازن کا نام ہی خوبصورتی ہے۔ خوبصورتی ایسی چیز ہے کہ آپ انگلی رکھ کر اسے متعین نہیں کر سکتے۔ خوبصورتی ایک ہمہ گیر جامع توازن کو کہتے ہیں۔ انسانی چہرہ ہے اس میں دونوں آنکھوں کا سائز کیا ہے، دونوں کتنی موٹی ہیں، دونوں کی شکل کیا ہے، دونوں کے ابرو کیسے ہیں، اُن کے ساتھ درمیان میں ناک کی اونچائی کتنی ہے، اُس کی موٹائی کتنی ہے، اُس کے ساتھ رخسار کیسے ہیں، پیشانی میں درمیان ابرو میں فاصلہ کیسا ہے، ماتھا کتنا چوڑا ہے، رخسار اور ناک کے درمیان کیا توازن ہے، پھر لب کیسے ہیں، لب موٹے ہیں پتلے ہیں، پھر یہ نیچے جبڑے کیسے ہیں، پورے چہرے کا پورا جو توازن ہے کیسا ہے، اُس کا رنگ کیسا ہے؟

جب ایک ایک چیز کو دیکھ کر توازن بناتے چلے جاتے ہیں تو جہاں ہر شے کامل توازن کے ساتھ مکمل ہوتی ہے تو کہتے ہیں کیا خوبصورت چہرہ ہے۔ اُس کے کندھے، اُس کی چوڑائی، اُس کی گردن، اُس کا سینہ، اُس کا قد، اُس کے بازو، اُس کا پیٹ، اُس کی ٹانگیں ہر چیز کو جب متوازن دیکھتے ہیں تو کہتے ہیں کیا حسین اور خوبصورت سراپا ہے؟ عمارت کی ہر چیز کو توازن کے ساتھ دیکھتے ہیں تو کہتے ہیں بڑی خوبصورت عمارت ہے۔ ایک چیز کو اپنی جگہ سے تھوڑا سا ہٹا دیں تو خوبصورتی گئی۔ اب ہٹائی تو ایک ہی چیز باقی ہر چیز قائم ہے مگر خوبصورتی نہیں رہی۔ چونکہ ایک چیز کے ہٹ جانے سے وہ جو جامع اور مکمل توازن تھا وہ بگڑ گیا۔ اُس سے خوبصورتی جاتی رہی۔

جس طرح انسانی جسم اور انسانی چہرے میں ایک توازن ہے اور اُس سے خوبصورتی بنتی ہے اسی طرح انسان کے مزاج اور اس کی طبیعت میں ایک توازن ہے، انسان کی خصلتوں، عادتوں اور برتاؤ میں توازن ہے۔ اگر ہر پہلو انسان کے برتاؤ کا متوازن ہو جائے تو اُس کے اخلاق کو خوبصورت کہیں گے۔

اب اللہ رب العزت نے جب بشری پیکر بنانے کی بات کی تو فرمایا:

فَاِذَا سَوَّیْتُهٗ.

’’پھر جب میں اس کی (ظاہری) تشکیل کو کامل طور پر درست حالت میں لا چکوں‘‘۔

یعنی ہر چیز کو ٹھیک اپنی اپنی جگہ پہ رکھ لوں اور ہر چیز متوازن ہو جائے تو اُس کی خَلق سنور گئی۔ اُس پیکرِ انسانی کا ظاہر سنور گیا پھر کیا کروں گا؟

وَنَفَخْتُ فِیْهِ مِنْ رُّوْحِیْ.

’’اور اس پیکر (بشری کے باطن) میں اپنی (نورانی) روح پھونک دوں‘‘۔

یعنی جب تَسْوِیَةُ الْخَلْق ہوجائے گا تو پھر تَسْوِیَّةُ الْخُلُقْ کروں گا اور اس کے باطن اور اُس کے اخلاق کو عمدہ بناؤں گا اور سنواروں گا پھر:

فَقَعُوْا لَهٗ سٰجِدِیْنَo

(الحجر، 15: 29)

’’تو تم اس کے لیے سجدہ میں گر پڑنا‘‘۔

یہاں ایک اور چیز کی طرف آپ کی توجہ دلاؤں تمام لوگوں کو بات آسانی سے سمجھ آ جائے گی۔ آپ دیکھئے دو لفظ ہیں پہلے اللہ تعالیٰ نے ظاہر کو عمدہ بنانے کے لیے فرمایا: فَاِذَا سَوَّیْتُهٗ (جب میں اس کو متوازن بنا دوں) یعنی اپنا فعل بیان کیا کہ میں اُس کو متوازن بناؤں گا تو فعل کی نسبت اپنی طرف کی اور جب بات آئی اُس کے باطن اور اخلاق کو سنوارنے کی تو اُس میں ایک الگ لفظ استعمال کیا: وَنَفَخْتُ فِیْهِ مِنْ رُّوْحِیْ ’’پھر اُس کے اندر میں اپنی روح پھونکوں گا‘‘۔

یعنی اُس کے باطن کو سنوانے کے لیے اللہ رب العزت نے اپنے فعل کے فیض پر اضافۃً اپنی روح کا فیض عطا کیا جیسے اُس کی شان کے لائق ہے کہ اُس کے اندر میں اپنی روح پھونکوں گا۔ اُس روح سے مراد کیا ہے اور وہ کیسے پھونکی اور اپنی روح اُس میں کیسے ڈالی؟ یہ اللہ کی شان ہے اور اس کا علم اللہ ہی کو ہے۔ مگر انسان کے باطن اور خُلُق کو سنوارنے کے لیے اللہ رب العزت نے اپنی روح کے ساتھ جوڑا اور سَوَّیْتُہ کے ساتھ اس ظاہر کو سنوارنے کے لیے اپنے ہاتھوں کے ساتھ جوڑا۔ باطن میں اللہ رب العزت نے اپنی روح پھونکی یعنی اپنا الوہیت کا فیض بھیجا، اپنا چراغ روشن کیا، اپنا نور ڈالا۔ اس لیے کہتے ہیں کہ انسان کے اندر جو روح ہے وہ عالم اجساد کی اس دنیا کی شے نہیں ہے روح عالم بالا کی ہے۔

روح مالائے اعلیٰ سے آئی ہے۔ وہ اس دنیا کی شے نہیں۔ اس لیے روح کی خصلتیں وہ ہیں جو مالائے اعلیٰ کی خصلتیں ہیں۔ جسم کی خصلتیں وہ ہیں جو اس مادی ارضی دنیا کی خصلتیں ہیں۔ انسان زمین اور آسمان دو چیزوں کی خصلتوں کا مرکب بن گیا ہے۔ انسان میں زمین بھی ہے اور آسمان بھی ہے۔ اُس کا جسم، زمین کا آئینہ دار ہے اور اُس کی روح اُس کا باطن آسمان اور ملکوت و سماوات، عالم بالا اور مالائے اعلیٰ کا نمائندہ اور مظہر ہے۔ معلوم ہوا بندے میں گھٹیا خصلتیں بھی ہیں اور اعلیٰ خصلتیں بھی ہیں۔ یہ دو خصلتیں ہیں۔ اب روح اس جسم کے پنجرے میں آکر بند ہوگئی اوپر جسم غالب آ گیا ہے۔

اب حسنِ خُلُقْ کیا ہے جس کو عظیم کہا؟ جسم مادی ہے، ارضی ہے، دنیوی ہے، گھٹیا چیزوں سے بنا ہوا ہے اور اس کی پیدائش بھی ایک نطفہ سے ہوتی ہے اور اگر وہ نطفہ آپ کے کپڑوں پر لگ جائے تو نماز بھی نہیں ہوتی۔ آپ کو کپڑے پاک کرنے پڑتے ہیں۔ تو پیدائش بھی جس پانی کے قطرے سے ہے وہ بھی ناپاک ہے۔ جسم میں اس طرح کی خصلتیں آتی ہیں چونکہ قطرہ بھی ناپاک ہے جس سے جسم کی نشو ونما ہوئی ہے۔ پھر ماں کے رحم میں جب جسم بنتا اور پلتا ہے وہ ماں کے خون سے پلتا ہے۔ خون بھی ناپاک ہے اُس کا پینا بھی حرام ہے۔ تو جس شے کا پینا اور کھانا حرام ہے اُس سے یہ جسم بنا ہے۔ آپ توجہ کریں جسم کی خصلتوں پر کہ خصلتیں کیا کیا ہوں گی اور جس نطفے سے انسانی جسم کی تشکیل ہوئی ہے وہ بھی it self پلید ہے۔ اُس کے خروج سے غسل بھی واجب ہو جاتا ہے اور کپڑے کا دھونا بھی واجب ہو جاتا ہے۔ اے انسان! کبھی نہ بھول جب انسان اکڑتا ہے۔

یٰٓـاَیُّهَا الْاِنْسَانُ مَا غَرَّکَ بِرَبِّکَ الْکَرِیْمِo الَّذِیْ خَلَقَکَ فَسَوّٰکَ فَعَدَلَکَo

(الانفطار، 82: 6-7)

’’اے انسان! تجھے کس چیز نے اپنے ربِ کریم کے بارے میں دھوکے میں ڈال دیا۔ جس نے (رحم مادر کے اندر ایک نطفہ میں سے) تجھے پیدا کیا، پھر اس نے تجھے (اعضاء سازی کے لیے ابتداء) درست اور سیدھا کیا، پھر وہ تیری ساخت میں متناسب تبدیلی لایا‘‘۔

کس چیز نے تجھے اکڑنا سکھا دیا؟ تجھے معلوم نہیں کہ چھوٹے سے پلید نطفے سے تیرے وجود کی تشکیل ہوئی ہے۔ جسم اس طرح تشکیل پذیر ہوا ہے اور اس کے اندر اللہ تعالیٰ نے اس ارضی دنیا میں اور جسم کی زمینی دنیا میں آسمان رکھ دیا ہے روح کی شکل میں۔ اللہ نے زمینی دنیا اور عالم اسفل کے اندر مالائے اعلیٰ رکھ دیا ہے اور ادنیٰ کے اندر اعلیٰ کو رکھ دیا ہے۔ اندھیرے کے اندر نور کو رکھ دیا ہے۔ گھٹیا کے اندر اعلیٰ چیز کو ڈال دیا ہے۔ اس لیے فرمایا:

لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِیْٓ اَحْسَنِ تَقْوِیْمٍo ثُمَّ رَدَدْنٰـهُ اَسْفَلَ سٰـفِلِیْنَo

(التین، 95: 4-5)

’’بے شک ہم نے انسان کو بہترین (اعتدال اور توازن والی) ساخت میں پیدا فرمایا ہےo پھر ہم نے اسے پست سے پست تر حالت میں لوٹا دیا‘‘۔

اَحْسَنِ تَقْوِیْمٍ اور اَسْفَلَ سٰـفِلِیْنَ کو جوڑ دیا ہے۔ اب یہ جو جوڑ ہو گیا ہے اعلیٰ اور ادنیٰ کا، عمدہ اور گھٹیا کا، پاک اور پلید کا اس جوڑ میں وہ پلیدی کی خصلتیں بھی آئیں گی اور اُن خصلتوں میں سے ہے غصہ کرنا، حرص، طمع اور لالچ کرنا۔ بخیلی اور کنجوسی کرنا، لوگوں کی حق تلفی کرنا، لوٹ مار کرنا۔ غیبت چغلی کرنا۔ تکبر کرنا، رعونت کرنا۔ دوسروں کو حقیر، گھٹیا اور کمینہ جاننا۔ دوسروں کو گالیاں دینا، برے بھلے لفظ بولنا۔ دوسرے کے ساتھ Rude طریقے سے پیش آنا۔ چکر بازی کرنا، عیاری کرنا، مکاری کرنا، تیزی طراری کرنا، خیانت کرنا، بد دیانتی کرنا، وعدہ خلافی کرنا، جھوٹ بولنا، قتل کرنا، جھگڑا فساد کرنا۔ شہوتوں کی طرف جانا، مال و دولت کا حریص ہونا۔ عہدہ و منصب کے پیچھے حریص ہونا یہ ساری خصلتیں انسان میں جمع ہوگئی اور ان ساری خصلتوں کی آماجگاہ جہاں پر یہ خصلتیں جمع ہو جاتی ہیں اور جو ان ساری خصلتوں کا نمائندہ ہے اُس نمائندہ کا نام ہے نفس۔ اور ان برائیوں کی وجہ سے اُس کو نفسِ امّارہ کہتے ہیں۔ اور دوسری طرف فرمایا: وَنَفَخْتُ فِیْهِ مِنْ رُّوْحِیْ. جب جسم میں روح آ گئی تو وہ اپنی خصلتیں لے کر آئی۔ روح کہاں سے آئی؟ روح اُس دنیا سے آئی ہے جہاں نہ جھوٹ تھا، نہ غیبت تھی، نہ چغلی تھی۔ نہ تکبر تھا، نہ بے ایمانی تھی، نہ عیاری تھی، نہ مکاری تھی، نہ حرام خوری تھی، نہ مار پیٹ تھی، نہ قتل و غارت گری تھی۔ روح اُس جہان سے آئی تھی جس جہان میں یہ بری خصلتیں ہوتی ہی نہیں ہیں۔ کہاں سے آئی تھی ؟ عالم ملکوت اور ملائکہ کی دنیا سے آئی تھی۔ یہاں پر قرآن مجید کا ایک حوالہ اور دے دوں تاکہ بات اچھی طرح مزید واضح ہو جائے۔ یہی وجہ ہے کہ جب آدم علیہ السلام کی تخلیق کا وقت آیا اور اللہ رب العزت نے فرشتوں سے فرمایا کہ میں اپنا خلیفہ اور نائب بنانے لگا ہوں اور اُن کو اللہ رب العزت نے پہلے بتا دیا تھا کہ ان چیزوں سے اُس کا جسمانی پیکر بنا رہا ہوں۔ یہ فرشتوں کو معلوم تھا۔ اوپر سے اللہ تعالیٰ نے فرما دیا:

اِنِّیْ جَاعِلٌ فِی الْاَرْضِ خَلِیْفَةً.

(البقرۃ، 2: 30)

’’میں زمین میں اپنا نائب بنانے والا ہوں‘‘۔

فرشتے بول اٹھے، کیوں بول اٹھے؟ اس لئے کہ وہ اُس جہان سے تھے جس جہان میں یہ گھٹیا خصلتیں نہیں تھیں۔ اب انہوں نے جب دیکھا کہ ان چیزوں سے یہ جسم بن رہا ہے وہ سمجھ گئے کہ ان چیزوں کے ساتھ تو یہ خصلتیں بھی آئیں گی، اس لئے عرض کیا باری تعالیٰ! کیا ایسے شخص کو تو اپنا خلیفہ اور نائب بنائے گا؟ انہوں نے اللہ کی بارگاہ میں اپنی الجھن کو دور کرنے، اطمینان حاصل کرنے اور شرح صدر کے لیے سوال کیا کہ باری تعالیٰ! ایسے کو خلیفہ بنائے گا جو جھگڑا کرے گا، قتل وغارت کرے گا، خون بہائے گا، فساد انگیزی کرے گا۔ اب یہ جو ساری چیزیں فرشتوں نے بیان کیں کیا اُس وقت سے پہلے زمین پر کوئی انسان ہوا تھا؟ یہ تو سب سے پہلے انسان کو پیدا کیا جا رہا تھا۔ پھر فرشتوں نے کب دیکھ لیا تھا کہ انسان ایسا کرتا ہے یا ایسا کرے گا؟ گویا فرشوں نے اجزائے ترکیبی کے ذریعے جان لیا تھا جس سے انسان کا جسم بن رہا تھا۔ وہ سمجھ گئے جن چیزوں سے جسم بن رہا ہے انہی چیزوں کی خصلتوں سے اُس کی طبیعت بنے گی اور جیسی طبیعت ہو گی ویسا کام کرے گا۔ لہذا ان کو طبیعت کے اندر چھپا ہوا خون خرابہ نظر آ گیا۔ تو وہ بول اٹھے۔ انہوں نے کہا کہ باری تعالیٰ! ہم ہر وقت تیری تسبیح اور حمد کرتے ہیں، تیرا ذکر کرتے ہیں، ہر وقت تیری عبادت کرتے ہیں۔ ہم ہی میں سے کسی کو خلیفہ بنایا جانا کیسا ہے؟ اللہ رب العزت نے فرمایا کہ میں نے ان کے علاوہ کچھ اور بھی اس کو عطا کیا ہے۔

سمجھانا مقصود یہ تھا کہ ملائکہ جس جہان میں رہتے ہیں اور جس جہان سے آتے ہیں روح بھی اسی جہان کی ایک مخلوق ہے۔ یعنی روح عالم ملکوت کی مخلوق ہے۔ جہاں اللہ کے انوار اترتے تھے، اللہ کا کلام سنتے تھے۔ وہاں اللہ کی قربت تھی، اللہ کی جنت تھی، اللہ کی رضا تھی۔ اس ماحول میں جمی اور پلی بڑھی تھی۔ وہاں سے ان خصلتوں کی حامل روح کو لا کے جب اس جسم میں بند کر دیا گیا تو اب دو چیزوں کا مقابلہ ہو گیا۔ جسم چاہتا ہے کہ انسان کی ساری کی ساری طبیعت میری خصلتوں کے مطابق چلے۔ اب روح چونکہ زندہ ہے وہ تڑپتی ہے اور کہتی ہے نہیں مجھے جو مالائے اعلیٰ سے بھیج کر اس میں ڈالا گیا ہے، اس انسان کی طبیعت میری خصلتوں کے مطابق بنے۔

جسم فَرشی اور روح عرشی ہو جائے اس کو حسن خلق کہتے ہیں:

حسنِ خُلق کیا ہے؟ حسن خُلق یہ ہے کہ جسم فرشی ہو اور طبیعت عرشی ہو جائے اس کو حسنِ خلق کہتے ہیں۔ میرے معتکف بیٹے اور بیٹیاں اور میرے بھائی اور بہنیں کاش اس راز کو پا لیں کہ عظمت صرف اتنی بات میں ہے کہ جسم فرشی ہو طبیعت عرشی ہو جائے تو کیا ہو گا کہ بشری پیکر میں عرش چلتا پھرتا ہو گا۔ جدھر انسان جائے گا اُدھر اس کے بشری پیکر کے پردے میں عرش چلتا پھرتا جائے گا۔ جب بشری پیکر میں عرش چلے گا تو گویا زمین پر عرش کا سماں ہو گا۔ اُس کا انوارِ الٰہیہ سے تعلق ہو گا۔ اُس کے اندر اللہ کی تسبیح ہو گی، اُس کو اللہ کے حضور جھکنا آئے گا۔ اُس کے اندر سے تکبر نکل جائے گا۔ غیظ و غضب، غیبت، چغلی، جھوٹ، عیاری، مکاری اور حرص و ہوس نکل جائے گا۔ پھر اُس کا پیکر جسمانی اور انسانی ہو گا اور اندر کی خصلتیں اور احوال عرشی اور روحانی ہوں گے۔ اگر روح کی یہ خصلتیں نفس پر اور جسم کے حال پر غالب آ جائیں تو اس توازن کو حسنِ اخلاق کہتے ہیں۔ یہ ہے اخلاق کا معنیٰ۔

یہ آپ کا نصیب ہے جو کچھ اللہ نے دل میں ڈالا آپ کو بتادیا کیونکہ اس کو میں نے کہیں پڑھا نہیں ہے۔ مگر یہ ایک مغز ہے جس کو سمجھنے کی اور اپنے اندر اتار لینے کی ضرورت ہے۔ (جاری ہے)

ماخوذ از ماہنامہ دخترانِ اسلام، اکتوبر 2017

تبصرہ