علم میں فنا ہونا ہی علم صالح سے بقا حاصل کرنا ہے

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری

مرتبہ: نازیہ عبدالستار

18 ستمبر 2017ء خطاب نمبر Ib-138 بمقام: منہاج القرآن کالج فار ویمن لاہور

بچے کی زندگی میں دو کردار بڑی اہمیت کے حامل ہیں۔ ایک والد اور دوسرا والدہ ہے۔ کبھی بچے کی زندگی میں اہم کردار والد کا ہوتا ہے اور والدہ ان کی معاون ہوتی ہے۔ بعض اوقات یہی کردار والدہ کا ہوتا ہے جس کی وجہ سے بچہ علم و اخلاق اور ادب میں ترقی کرتا ہے۔ اس لیے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جنت ماں کے قدموں تلے ہے۔

(القضاعی، مسندالشهاب، ج1، ص:102)

اس سے مراد یہ ہے کہ ماں کا اثر بچے پر قدرتی طور پر زیادہ ہوتا ہے لیکن اثر قبول ہونے کی بھی ایک حد ہوتی ہے۔ ضروری نہیں کہ والد اگر بہت بڑا عالم دین ہے تو بیٹا بھی عالم ہو ایسا بھی ہوتا ہے والد بہت بڑا عالم دین ہے مگر معاشرے کا اثر بچہ پر اتنا زیادہ ہوتا ہے کہ والدین کی صالحیت اولاد میں منتقل نہیں ہوسکتی۔

تربیت کے اصول:

کسی انسان کا خود صالح ہونا، اچھا ہونا کافی نہیں بلکہ بچے میں اپنی صالحیت منتقل کرنے کے بھی کچھ اصول و ضوابط ہیں:

پہلا اصول۔۔۔ عملی نمونہ بننا:

جو کچھ آپ نے علم حاصل کیا ہے اُس کے ساتھ اپنی اولاد کو بھی آراستہ کریں اگر ایسا نہیں کریں گے تو نیکی یا علم آپ تک محدود رہ جائے گا اور آگے منتقل نہیں ہوسکے گا لہذا زندگی کا مقصد وحید یہ ہو کہ جو کچھ سیکھا ہے اپنی اولاد کو دینا ہے اور منزل تک پہنچنا ہے اس کا بہترین اثر زبان سے کہنے کا نہیں بلکہ اپنے عمل سے پیش کرنے کا ہے۔ اگر اولاد کو وہ کرنے کو کہہ رہے ہیں جو خود نہیں کرتے تو کبھی اثر نہیں ہوگا۔ اولاد کی زندگی کہنے سے نہیں بلکہ دیکھنے سے بدلتی ہے اس لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اﷲِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ.

فی الحقیقت تمہارے لیے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات میں نہایت ہی حسین نمونہ (حیات) ہے۔

(الاحزاب، 33: 21)

گویا دیکھنے سے جو زندگی بدلتی ہے وہ پڑھنے اور سننے سے نہیں بدلتی۔

دوسرا اصول۔۔۔ جہدِ مسلسل:

محنت کے بغیر زندگی نہیں بنتی آرزو ضرور رہتی ہے مگر مضبوطی نہیں آتی۔ پس محنت و تندہی کے بارے میں ڈاکٹر محمد طاہرالقادری صاحب اپنی زندگی کا حوالہ دیتے ہیں: ’’میرا کالج گھر سے تقریباً ڈیڑھ سو میل کی مسافت پر تھا تقریباً بیس منٹ پیدل بس سٹاپ تک پہنچنے میں لگتے تھے اس لیے میں علی الصبح اٹھتا، فجر کی نماز سے قبل سٹاپ تک پہنچتا اور نماز وہیں ادا کرتا اور پہلی بس پر کالج جاتا، پھر سارا دن کالج میں وقت گزارتا۔ واپسی پر کھانا کھاتا، والی بال کھیلتا اور پڑھائی پر لگ جاتا۔ ابا جی قبلہ مجھے ساڑھے گیارہ بجے تک پڑھاتے، پھر سوکر تہجد کے وقت اٹھ جاتا اس طرح جوانی میں آرام کا وقت تقریباً اڑھائی 2 گھنٹے ملتا تھا۔ ابا جی قبلہ نے علم، پرہیزگاری، نفل، عبادت گزاری اللہ سے لو، ذکر و اذکار، روحانی اور اخلاقی زندگی کا ایک رخ متعین کردیا تھا کسی کی غیبت، چغلی، مار دھاڑ، چیخنا چلانا، شکوہ شکایت اور عیب جوئی جو عام گھروں کی زندگی میں ہے ہمارے گھر میں اس کا تصور نہیں تھا۔ ان کو علم تھا کہ ان کی کاوش سے باہر کی دنیا نہیں بدل سکتی اس لیے انہوں نے اپنے گھر کو نئی دنیا دے دی جیسا کہ اہل اللہ کرتے ہیں:

’’ان کا جسم بھی عام بشری ہوتا ہے مگر وہ مَن کو عرش بنالیتے ہیں۔ اپنے اندر کو مضبوط کرلیتے ہیں پھر معاشرے کے تضادات ان پر اثر انداز نہیں ہوتے‘‘۔

ایسا ہی ابا جی قبلہ نے کیا کہ کتابیں اور لائبریری کا ماحول پیدا کردیا۔ چھٹی کے دن بڑے بڑے علماء کرام گھر آتے اور رات بھر ٹھہرتے آپ سے علم سیکھتے اور سوال پوچھتے کوئی بعد بعث الموت پر سوال کرتا، کوئی عبداللہ بن ابی کے جنازے پر کوئی قمیض پہنانے پر کوئی امام سیوطی، امام ابن قیم اور امام رازی پر بحث کرتا اس کے بعد وہ کتابیں دیکھنا چاہتے تھے کیونکہ میں نے ساری بحث سن لی ہوتی تھی۔ میں اس وقت چھوٹا بچہ تھا اور ابا جی قبلہ کے کہنے سے پہلے ہی لائبریری جاتا۔ جن جن صفحات پر بحث ہوتی جن پر انہوں نے سوال کیے ہوتے وہاں چیٹیں لگاکر حوالے تیار کرکے لاتا تھا جو کتابیں بھی اٹھاتے انہیں بتاتا کہ حوالے لگاکر لایا ہوں۔

چھوٹی عمر میں ہی مجھے معلوم ہوگیا تھا کہ کسی بحث کو کتاب سے کیسے نکالنا ہے۔ فہرست کو کیسے دیکھنا ہے متعلقہ باب اور فصول تک کیسے پہنچنا ہے، عبارت کو کیسے نشان لگانا ہے، یہ کام اس وقت تک نہیں کیا جاسکتا جب تک مچھلی کی طرح نہ ہوا جائے جو ہر وقت دریا میں رہتی ہے اگر پانی سے نکال دیا جائے تو مرجائے یعنی انسان کا جینا مرنا علم ہو۔

آج کے دن تک میں کتابوں کے بغیر ایک دن نہیں گزار سکتا بلکہ ان کے بغیر سانس نہیں لے سکتا۔ ہر روز کے مطالعہ اور لکھنے پڑھنے کے ساتھ زندہ رہتا ہوں۔ اپنی زندگی علم کے شغف سے شروع کی تھی آج بھی طالب علم ہوں ابھی تک اپنے آپ کو طالب علم کے عنوان و دائرہ سے نکالا نہیں۔

اس طرح ابا جی قبلہ نے ایک کلچر، عادت طرز زندگی دے دی۔ میں نے پوری زندگی مجموعی طور پر 35,30 سال کے قریب عرصہ میں مغرب کے وضو سے فجر کی نماز ادا کی ہے۔ بہت ساری کتابیں عشاء سے فجر تک جاگ کر لکھی ہیں۔

طلباء سے میری نصیحت ہے کہ جو مطالعہ کریں باوضو ہوکر شغف کے ساتھ کریں علم کو دنیاوی مقاصد کے حصول کا ذریعہ نہ بنائیں۔ جاب اور کاروبار تو ہوجائے گا یہ قدرتی چیزیں ہیں مگر جب علم حاصل کریں تو مقصد علم میں کمال تک جانا ہو، اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رضا ہو۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

’’جو میری سنتوں کو زندہ کریں گے وہ میرے علماء ہوں گے۔‘‘

(جامع ترمذی، کتاب العلم، ص48، رقم: 2682)

علم کا مقصد یہ ہو کہ من روشن ہوجائے اگر علم کے ساتھ عمل صالح ہو تو علم نور بن جاتا ہے۔ اس نیت کے ساتھ غیر معمولی محنت کریں، موت تک علم اور عمل صالح سے رشتہ ٹوٹنے نہ دیں اگر رشتہ ٹوٹ جائے تو سمجھیں کہ روحانی موت ہوجائے گی اس طرح علم کو اپنانے سے نئی دنیا آباد ہوجائے گی پھر قرآن کا مطالعہ کرنے سے تو اللہ کی صحبت نصیب ہوتی ہے۔

کتب حدیث کے مطالعہ سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اتباع تابعین کی صحبت ملتی ہے۔ انسان کتاب کی صورت میں حضور غوث الاعظم اور داتا گنج بخش علی ہجویری کی صحبت میں ہوتا ہے یعنی کتاب کو اس طرح پڑھیں کہ وہ پڑھنے والے کو صاحب کتاب سے جوڑ دے۔ اتنے انہماک، یکسوئی اور ڈوب کر پڑھیں جیسے براہ راست ان سے پڑھ اور سن رہے ہیں۔دراصل علم میں فنا ہونا ہی علم صالح سے بقا حاصل کرنا ہے۔ اس طرح کی مضبوطی سے باہر کے تضادات اپنی موت مرتے ہیں۔ انسانی شخصیت پر اثر نہیں ڈالتے۔

تیسرا اصول۔۔۔ خود اعتمادی:

درج بالا چیزوں کو حاصل کرتے ہوئے اپنے اندر خود اعتمادی پید اکریں جو معاشرے میں ہورہا ہے اس سے مرعوب نہیں ہونا چاہئے بلکہ خود کو اتنا مضبوط کرنا ہے کہ ہزاروں نہیں تو دس بیس، دس بیس نہیں تو دوچار ہی سہی آپ کے طرز عمل کو اختیار کریں۔ موجودہ معاشرہ کفر، فسق و فجور، حرام کاری اور کرپشن کی طرف جارہا ہے بلکہ ہر چیز میں کرپشن ہے اور معاشرے کی پیروی میں بربادی ہے۔

علم نافع اور عمل صالح کے نتیجے میں اصول وضع کریں اور مضبوطی سے اس پر کاربند رہیں۔ سوسائٹی آپ کے لباس کی حدود متعین نہ کرے بلکہ اپنے علم کی روشنی میں فیصلہ کریں کہ لباس کیسا ہونا چاہئے۔ سوسائٹی ٹی وی چینل کی تقلید کررہی ہے جو انڈیا کا دیا ہوا کلچر ہے۔ اس کا کوئی قبلہ نہیں ہے یہاں تک کہ ٹی وی چینل کا لب و لہجہ بھی پاکستانی نہیں آپ کے گھروں میں سب انڈیا کا کلچر بک رہا ہے اگر اپنی حدود متعین نہ کیں تو اسی کلچر کی رو میں بہ جائیں گے اٹھنا، بیٹھنا زبان اختیار کرنے، لینے، دینے کے اصول وضع کریں۔ رواج یہ ہے کہ کھانا، پینا اور پکڑنا بائیں ہاتھ سے یہ شیطانی عمل ہے۔ یہ فیشن نہیں بلکہ بربادی ہے اور یہ اس وقت ہوتا ہے جب انسان کی شخصیت کمزور ہوتی ہے جب وہ خود مضبوط ہوتا ہے تو یہ مسائل جنم نہیں لیتے۔

آپ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے متاثر ہوں جہاں سے فیض ملتا ہے کیونکہ زندہ وہی رہتا ہے جو اپنی قدروں کے ساتھ جیتا ہے۔ جس کی قدریں مرگئی وہ روحانی فکر اور کردار کے طور پر مرجاتا ہے۔ پس اپنے آپ کو مضبوط بنائیں اس یقین کے ساتھ کہ آپ کی اقدار، کلچر، تعلیم اور طور طریقہ سچ ہے۔ یہ نہ سوچیں برادری والے کیا کہیں گے بلکہ اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے احکام پر نگاہ رکھیں اور کسی کی پرواہ نہ کریں۔ اخلاق سب کے ساتھ اچھا رکھیں لیکن اپنی زندگی کا فیصلہ خود کریں، سوسائٹی کا کلچر آپ پر حاکم نہ بنے۔

س: ہمیں ایسی سوسائٹی میں کام کرنا ہوتا ہے جو دین کا نام سننا پسند نہیں کرتے کیونکہ نام نہاد علماء نے اسلام کا چہرہ بدل کررکھ دیا ہے۔ کیا طریقہ اپنایا جائے کہ جو دین کو دہشت گرد تصور کرتے ہیں ان تک دین کا پیغام کیسے پہنچایا جائے۔

ج: اس میں تین چیزیں موثر ہیں: پہلی چیز یہ ہے کہ ایک موضوع کا انتخاب کرکے اس پر بھرپور تیاری کریں۔ جتنی دیر گفتگو کرنی ہے، گھنٹہ، آدھا گھنٹہ، پندرہ منٹ، کیسٹ سن کر نوٹس تیار کریں اس کی تیاری کریں آپ کی گفتگو حکمت پر مبنی ہو۔ یہ پہلا ہتھیار ہے دوسرے کو متاثر کرنے کا۔ نام نہاد علماء اور مولویوں نے جو غلط تصور پیدا کررکھا ہے جب سامعین آپ کی گفتگو کو سنیں گے تو فرق محسوس کریں گے کہ اس کی بات ذرا مختلف ہے تو منفی اثرات خود بخود زائل ہوجائیں گے۔

دوسری چیز: آپ کا اخلاق ہے۔ ان سے ملنے جلنے کا طریقہ، بات چیت، تواضع، انکساری، عاجزی اچھا اخلاق و اطوار نمایاں جگہ کا مطالبہ نہ کرنا۔ مسکرا کر ملنا، حال احوال پوچھنا یہ سارے کام باقی علماء نہیں کرتے۔ اچھے طریقے سے ہاتھ نہیں ملاتے، گلے نہیں لگاتے، ان کے ساتھ کھل کر نہیں ملتے، نمایاں جگہ پر بیٹھنا پسند کرتے ہیں۔ ان کے چہرے پر مسکراہٹ نہیں ہوتی۔ وہ ان میں فرق رکھتے ہیں جب آپ یہ سارے فرق مٹاکر احساس دلائیں گے وہ بھی ہمارے طرح ہیں جو لوگ عزت طلب کرتے ہیں ان کو زندگی میں عزت نہیں ملتی ایسے ہی حکمران ہیں۔ لوگ مفادات کی وجہ سے، کرسی کے ڈر سے عارضی طور پر ان کی عزت کرتے ہیں مگر دل سے ان کو عزت ملتی ہے جو اعلیٰ اخلاق کا نمونہ پیش کرتے ہیں۔

تیسری چیز: لالچ نہ کریں۔ خطاب کے اختتام پر کوئی آپ کو ھدیۃً پیسے دینا چاہے تو وصول نہ کریں بے نیاز رہیں۔ علم کو نہ بیچیں اگر آپ کو کچھ دے دیں تو اچھے انداز سے جو محفل کا انعقا دکرنے والے ہیں سب کے سامنے ان کو دے دیں۔ یہ نہ کہیں کہ ہم نہیں لیتے بلکہ کہیں آپ نے جو محفل کا انعقاد کیا یہ حصہ میری طرف سے لنگر میں ڈال دیں اگر سو مرتبہ بھی کہیں تو نہ لیں۔ خطاب کرنے سے نصیحت دیں لیکن اس کے عوض کچھ نہ لیں، لینا صرف کاروبار سے ہوتا ہے۔ علم، دعوت، تربیت اور نصیحت کے لئے دیتے ہیں۔ دوسروں کی آخرت سنوارنے سے مقصود اپنی آخرت سنوارنا ہے۔

ان تینوں چیزوں کا اثر ہوگا جس سے وہ دین کی بات کو سن کر اپنائیں گے مزید یہ کہ لب و لہجہ نصیحت اور پیار پر مبنی ہو جس سے محبت و برداشت کا پیغام جائے۔

س: طالبات کے لیے مختلف تربیتی نشستوں کا اہتمام کیا جاتا ہے کہ یہ بات مشاہدہ میں آئی ہے کسی بھی تربیتی نشست کا اثر کچھ دیر رہتا ہے پھر ختم ہوجاتا ہے مہربانی فرما کر ہماری رہنمائی فرمائیں کہ ایسا کون سا راہ عمل اختیار کریں کہ طالبات تربیتی ذمہ داری سرانجام دینے کو اپنے لیے باعث اجر اور فخر محسوس کریں؟

ج: عام مسلمان زندگی میں جو بھی نیک کام کرتے ہیں اس کا اثر تھوڑی دیر رہتا ہے اس لیے کبھی پریشان نہیں ہونا چاہئے جیسا کہ آپ پانی پیتے ہیں اس سے آپ کی پیاس بجھتی ہے مگر اس کا اثر تھوڑی دیر ہی رہتا ہے۔ اگر گرم موسم ہے تو کچھ دیر کے بعد پھر پیاس لگ جائے گی۔ علاج کیا ہے کہ پھر پانی پئیں تو سارا دن وقفہ وقفہ کے ساتھ پانی پئیں ایسا پانی دنیا میں ایجاد نہیں ہوا کہ ایک بار پئیں اور اس کا اثر چوبیس گھنٹے رہے۔ پورا ہفتہ رہے اس طرح آپ کھانا کھاتی ہیں بھوک مٹ جاتی ہے چھ سات گھنٹے کے بعد پھر بھوک لگتی ہے پھر کھانا کھائیں۔ اس طرح جسمانی نظام کی طرح روحانی نظام ہے اس کی خوراک ذکر اذکار حلقات تربیتِ روحانی ہیں جس سے آپ کے اندر تازگی آتی ہے کچھ دیر کے بعد پھر بھوک و پیاس لگتی ہے، علاج پھر حلقہ ذکر کریں جس طرح لباس پہنتے ہیں گندا ہوجاتا ہے دھوکر صاف کرکے پہنتے ہیں۔ کنگھی اور کھانا پینا روز کرتے ہیں۔ ہر چیز جو روزانہ استعمال کرتے ہیں اس کا اثر کچھ دیر کے لیے رہتا ہے پھر ریفریش کرتے ہیں اس طرح روحانی عمل کے لیے اللہ نے ایک نماز نہیں بنائی کہ چوبیس گھنٹے اس کا اثر رہے اللہ نے نماز کے لیے بھی 5 وقت کھڑا کیا اس کو علم ہے اتنی دیر تک فجر کی نماز کا اثر زائل ہوجائے گا تو پھر ظہر کے بعد عصر، مغرب اور عشاء کی نماز رکھی۔ سونے سے پہلے عشاء کی نماز آگئی۔ اللہ کو یاد کرکے سوئے۔ صبح اٹھتے فجر پڑھ لیں اس کا کام بار بار یاد دلاتے رہنا ہے کہ کسی عمل میں رخنہ نہ واقع ہو۔

اپنی روحانی زندگی کو صحت مند رکھنے کے لیے کبھی نماز، حلقہ ذکر و اذکار، خطاب سنیں۔ خطاب سب چیزوں کا جامع ہے۔ تسلسل سے وقفے وقفے کے ساتھ زندگی میں جاری رکھیں کہ مرتے دم تک یہی عمل جاری رہے جیسے کوئی دن کھانے سے خالی نہیں رہ سکتا۔ اگر کھانا چھوڑ دیں تو کمزور ہوجاتے ہیں۔ جسم سے زیادہ برا حال روح کا ہوتا ہے۔ جسم اپنی دنیا میں رہتا ہے جبکہ روح پردیس میں آگئی ہے۔ پردیس میں رہ کر اس کو مسلسل خوراک نہ ملے تو وہ مرجائے گی لہذا تواتر سے اس کو خوراک دیتے رہیں تاکہ اس کا ایمان، عمل، روحانیت اور کیف تازہ رہے۔ کسی بھی کام کے لیے ہمیشہ جگہ پیدا کی جاتی ہے یہ حکمت ہوتی ہے۔ اللہ پاک نے انبیاء علیہم السلام کو علم کے ساتھ حکمت دے کر بھیجا قرآن مجید میں فرمایا:

یَتْلُوْا عَلَیْکُمْ اٰیٰـتِنَا وَیُزَکِّیْکُمْ وَیُعَلِّمُکُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَةَ.

(البقرہ، 2: 151)

’’جو تم پر ہماری آیتیں تلاوت فرماتا ہے اور تمہیں (نفسًا و قلبًا) پاک صاف کرتا ہے اور تمہیں کتاب کی تعلیم دیتا ہے اور حکمت و دانائی سکھاتا ہے‘‘۔

حکمت کو کبھی نہ چھوڑیں، گھر، فیملی، ماحول کو دیکھیں اور آہستگی سے ماحول کو بدلیں یک لخت تبدیلی نہیں آتی یعنی باپ دادا اگر غلط ہیں تو خاموش ہوجائیں یہ حکمت ہے۔ جو کرتے ہیں کرنے دیں حضور علیہ السلام کو فرمایا کہ آپ کو دروغہ بناکر نہیں بھیجا گیا۔ باپ دادا کو ان کے برے کلام پر تنبیہ کریں گے تو وہ بے ادبی سمجھیں گے اور یہ اخلاقاًبھی درست نہیں ہے جب وہ خوشگوار موڈ میں ہوں تو کوئی بات سنادیں کہ قبلہ حضور آئے تھے تو ایسا ارشاد فرمارہے تھے۔ بات ان کے کان تک پہنچ جائے یہ نصیحت کا حکمت پر مبنی طریقہ ہے کہ انہیں ناگوار بھی نہ گزرے، اثر بھی ہوجائے۔ ایک بار کریں گے اثر نہیں ہوگا سو بار بار بھی کریں گے تب بھی اثر نہیں ہوا۔ گھبرانا نہیں ایک سو ایک بار کریں یہ حکمت ہے اس سے راستے کھلتے ہیں۔ بلاواسطہ کسی چیز سے روکیں گے تو نقصان ہوگا یہ حکمت کے خلاف ہے۔

ماخوذ از ماہنامہ دختران اسلام، جنوری 2018

تبصرہ