ظالم نظام اور پاکستان ایک ساتھ نہیں چل سکتے

نوراللہ صدیقی

چیف جسٹس آف سپریم کورٹ میاں ثاقب نثار نے سیاسی شخصیات کی تصاویر پر مبنی سرکاری اشتہارات بند کرنے کے کیس کی سماعت کے دوران اس عزم کا اظہار کیا کہ آئندہ الیکشن شفاف بنانے کیلئے تمام آئینی تقاضے بروئے کار لائے جائیں گے اور الیکشن کے موقع پر بیوروکریٹس کو دوسرے صوبوں میں بھجوا دینگے، کسی بھی جماعت کو قومی خزانے سے اپنی سیاسی مہم چلانے کی اجازت نہیں دی جائیگی۔ اسی طرح چیف جسٹس آف سپریم کورٹ نے ایک اہم ایشو کی طرف بھی توجہ مرکوز کی۔ انہوں نے حکمرانوں سے سوال کیا: ارکان پارلیمنٹ کو فنڈز کس قانون کے تحت ملتے ہیں؟ کیا یہ انتخابات سے قبل دھاندلی نہیں؟ ان کا کہنا تھا عام انتخابات سے قبل قومی اسمبلی، سینیٹ اور صوبائی اسمبلیوں کے اراکین کو اربوں روپے کے ترقیاتی فنڈز کی بندربانٹ کس قانون کے تحت کی جاتی ہے؟ انہوں نے اہم ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ حکومتیں اپنی تشہیر کیلئے سرکاری خزانے کا استعمال کرنے کی بجائے اپنا پارٹی فنڈ استعمال کریں، سرکاری پیسے سے اشتہار پری پول رگنگ ہے، انہوں نے حکومتی عہدیداروں کی تصاویر والے شائع شدہ اشتہارات کی رقم پارٹی رہنماؤں سے واپس لے کر سرکاری خزانے میں جمع کروانے کا حکم بھی دیا۔

چیف جسٹس آف سپریم کورٹ نے فیئر اینڈ فری الیکشن کے انعقاد کیلئے دھاندلی مافیا کی دکھتی ہوئی رگ پر ہاتھ رکھا ہے۔ گزشتہ چار دہائیوں سے جمہوریت کے نام پر قومی خزانے کی لوٹ مار’’ سیلف پروجیکشن‘‘ پرکروڑوں روپے اڑائے جاتے ہیں، الیکشن سے قبل ترقیاتی کاموں کی آڑ میں قومی خزانہ ریوڑیوں کی طرح اراکین اسمبلی میں بانٹا جاتا ہے اور قومی وسائل پر دسترس رکھنے والا طبقہ رائے عامہ کو ہائی جیک کر لیتا ہے۔ ایک دن کی ووٹنگ کا نام جمہوریت رکھ دیا گیا، شاید یہی وجہ ہے کہ موجودہ کرپشن اور دھاندلی زدہ جمہوری نظام میں نہ تو عوام کے حالات بدلے اور نہ ہی پاکستان پاؤں پر کھڑا ہو سکا بلکہ معکوس ترقی کا عمل جاری ہے۔

پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے اس کرپشن اور دھاندلی زدہ نظام انتخاب کے خلاف جنوری 2013ء میں لاہور سے اسلام آباد لانگ مارچ کیا، اس مارچ میں لاکھوں خاندان شریک ہوئے،اس میں بچے، بوڑھے، جوان، خواتین سبھی شامل تھے، اس لانگ مارچ میں پاکستان کا تعلیم یافتہ اور سیاسی اعتبار سے باشعور ’’کراؤڈ‘‘ شامل تھا۔ یہ وہ لوگ تھے جو اپنے اخراجات پر اپنے ملک کی تقدیر سنوارنے کیلئے گھر سے بے گھر ہوئے اور خون جما دینے والی سردی میں ایک ہفتہ اسلام آباد کی سڑکوں پر انتہائی باوقار انداز میں خیمہ زن رہے۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ کا یہ واحد پرامن اور منظم لانگ مارچ تھا جس کا ایجنڈا حکومت گرانا یا حکومت بنانا نہیں تھا بلکہ انتخابی نظام کو آئین کے تابع لانا تھا اور دھاندلی مافیا سے قوم اور جمہوریت کی جان چھڑوانا تھا۔ اس تاریخی لانگ مارچ کے موقع پر شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے نظام انتخاب کو آئین کے تابع لانے کیلئے ایک مکمل اصلاحاتی پیکیج کا اعلان کیا جس پر ہم بعد میں تفصیلی گفتگو کرینگے لیکن انہوں نے دھاندلی زدہ انتخابی نظام کے حوالے سے قوم اور اداروں کو تفصیل سے آگاہ کیا کہ وہ کون سے طریقے ہیںجنہیں اختیار کر کے قوم کو فیئر اینڈ فری انتخابی نظام کا تحفہ دیا جاسکتا ہے۔

شیخ الاسلام کا کہنا تھا کہ موجودہ انتخابی نظام کے تحت رائے عامہ اچک لی جاتی ہے اور دن دہاڑے قوم کی آنکھوں میں دھول جھونک کر مینڈیٹ کے نام پر خزانہ لوٹنے کا لائسنس حاصل کر لیا جاتا ہے۔ ووٹرز کی ایک دن کی ناز برداری کے بعد 5 سال تک انہیں ذلیل کیا جاتا ہے اور 5سال بلا شرکت غیرے قومی خزانہ لوٹاجاتا ہے۔ تعلیم، صحت، امور خارجہ، امور داخلہ، انصاف، امن و امان ،معیشت سب کی دھجیاں اڑائی جاتی ہیں۔

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نظام انتخاب کی اصلاح کیلئے جنوری 2013ء میں سپریم کورٹ میں بھی گئے اور اس وقت کے چیف جسٹس نے ملکی سلامتی اور بقاء سے تعلق رکھنے والے اس اہم قومی ایشو پر بات کرنے کی بجائے دیگر غیر متعلقہ امور پر توجہ مرکوز رکھی اور ایسا رویہ اختیار کیا جو کسی طور نہ ان کے منصب کے شایان شان تھا اور نہ ہی پاکستان اور اس کے عوام اس رویے کے متحمل تھے۔ نتیجتاً نظام انتخاب کی اصلاح کی اس جدوجہد کو نقصان پہنچایا گیا اور پھر 2013ء کے انتخابات کے بعد جس قسم کی اسمبلیاں اور مینڈیٹ وجود میں آیا اس پر سبھی نوحہ کناں نظر آئے اور 2013ء کے الیکشن کو ’’آر اوز‘‘ کا الیکشن قرار دیا گیا۔ جب اس الیکشن کو آر اوز کا الیکشن کہا گیا تو پھر سمجھ آئی کہ جنوری 2013ء میں اس وقت کے چیف جسٹس نے نظام انتخاب کو آئین کے تابع کرنے کی ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی رٹ پٹیشن پر توجہ دینے کی بجائے تمسخر کیوں اڑایا؟ بہرحال قوم کے ساتھ دھوکہ دہی کرنے والے کو ایک نہ ایک دن اس کا خمیازہ بھگتنا ہوتا ہے اور اس کیلئے ایک وقت مقرر ہوتا ہے ، قوم کے ساتھ ظلم کرنے والے اور قوم کو دھوکہ دینے والے کسی صورت انجام سے نہیں بچ سکتے۔

اب چیف جسٹس آف سپریم کورٹ میاں ثاقب نثار صاحب نے فیئر اینڈ فری الیکشن کے انعقاد کی بات کی ہے جو قابل تحسین اور قابل تعریف ہے۔ پارلیمنٹ بے وقعت اور جمہوری نظام کے کھوکھلے پن کے بعد دو ہی راستے بچتے ہیں جس سے فرسودہ نظام سے جان چھڑا ئی جا سکتی ہے:

  1. ایک راستہ سپریم کورٹ میں سے گزرتا ہے کہ سپریم کورٹ آئین کی شارح ہونے کی حیثیت سے نظام انتخاب کو ہر قسم کی سیاسی ،انتظامی آلودگی اور آلائش سے پاک کرے۔
  2. دوسرا راستہ عوامی انقلاب کا ہے کہ عوام استحصالی قوتوں کے خلاف فیصلہ کن جدوجہد کے عزم کے ساتھ سڑک پر نکلیں اور پاکستان اور نظام انتخاب کو آئین کے تابع لانے کیلئے اپنا فیصلہ کن کردار ادا کریں۔

فی الوقت بال انصاف کے اداروں کے کورٹ میں ہے۔ یہ اجتماعی دانش پر منحصر ہے کہ اس تاریخی موقع سے کس طرح ملک و قوم کے بہترین مفاد میں فائدہ اٹھایا جاتا ہے۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے جنوری 2013ء کے لانگ مارچ میں نظام انتخاب کو آئین کے تابع کرنے کیلئے جن نکات پر گفتگو کی قوم اور اداروں کی توجہ مبذول کروانے کی کوشش کی وہ باتیں آج بھی عمل کی منتظر ہیں۔ انہوں نے نظام انتخاب کی اصلاح کیلئے آئین کے ابتدائی 40 آرٹیکلز پر ان کی روح کے مطابق عملدرآمد کرنے کا مطالبہ کیا بالخصوص آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 کے مطابق امیدواروں کی اہلیت پرکھنے کی بات کی۔ یہ امر اطمینان بخش ہے کہ انہوں نے کرپٹ عناصر سے نجات کیلئے 2013ء میں جن آرٹیکلز پر عملدرآمد کا مطالبہ کیا اور قوم کو آئین کے مذکورہ آرٹیکلز حفظ کروائے 2017ء میں انہی آرٹیکلز کی روشنی میں پاکستان کو سب سے بڑے کرپٹ اور خائن سے نجات ملی۔

ڈاکٹر طاہرالقادری نے ووٹ کی حرمت اور مینڈیٹ کے تقدس کی جدوجہد کا آغاز 2013ء میں کیا۔ ڈاکٹر طاہرالقادری سمجھتے ہیں کہ جب تک آئین کے مطابق ہر فرد کی معاشرتی عزت نفس کی بحالی نہیں ہو گی، عدلیہ کی آزادی و خودمختاری اور ان کے فیصلوں کا احترام اور نفاذ یقینی نہیں بنایا جائے گا، پاکستان کے ساتھ وفاداری نبھانے کے عہد کو آئین کی روح کے مطابق یقینی نہیں بنایا جائے گا، دہشتگردی و کرپشن کے خاتمے کے خلاف جنگ کو منطقی انجام تک نہیں پہنچایا جائے گا، آئین و قانون کی بالادستی یقینی نہیں بنائی جائے گی، ملک سے بددیانتی کا سدباب نہیں ہو گا، غریب اور مزدور کو اس کی اہلیت کے مطابق معاشی تحفظ نہیں ملے گا ،غریب اور مزدور کے بچے کو ریاست تعلیم کی فراہمی کی جب تک ذمہ داری پوری نہیں کرے گی، غریب مریض کو علاج کی سہولت نہیں ملے گی، آئین کے آرٹیکل 3 کے مطابق ہر قسم کے استحصال کا خاتمہ نہیں ہو گا۔ امیدوار اور ووٹر کی جان کو تحفظ نہیں ملے گا ،آئین کے آرٹیکل 37 کے مطابق معاشرتی انصاف کی دستیابی اور برائیوں کا خاتمہ نہیں ہو گا ،آئین کے آرٹیکل 38 کے مطابق لوگوں کا معیار زندگی بہتر نہیں ہو گا، کمزور اور طاقتور کے مابین توازن قائم نہیں ہو گا ، ذرائع آمدن اور وسائل میں غیر معمولی فرق کا خاتمہ نہیں ہو گا ،سستی خوراک اور بنیادی ضروریات مہیا نہیں ہوں گی، ووٹر کی آزادی رائے کو ریاست تحفظ نہیں دے گی، انتخابی عمل میں ریاست غیر جانبدار نہیں ہوگی، ٹیکس چوروں کو جب تک پارلیمنٹ سے دور نہیں کیا جائے گا، جعلی ڈگریوں والوں کا راستہ نہیں روکا جائے گا، سوسائٹی کے کمزور طبقات کو ترقی کے دھارے میں شامل ہونے کیلئے ریاست مواقع اور تحفظ فراہم نہیں کرے گی تب تک نہ تو انتخابات عوام کی حقیقی رائے جاننے کا پیمانہ ثابت ہوسکیں گے اور نہ ہی حقیقی جمہوریت قائم ہو سکے گی۔

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے اس وقت کی حکومت کے ساتھ ایک تحریری معاہدہ بھی کیا تھا جس میں حکومت کی طرف سے اس بات کی گارنٹی دی گئی تھی کہ امیدواروں کی اہلیت آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 پر پرکھی جائے گی اور کاغذات نامزدگی کی چھان بین کا عمل 30دن تک بڑھایا جائے گا اور ہر طرح کی کرپٹ پریکٹسز کا خاتمہ کیا جائیگا اور الیکشن کمیشن کی تشکیل بھی آئین میں دئیے گئے طریقہ کار کے مطابق ہو گی۔ بدقسمتی سے یہ سب نہ ہو سکا اور پھر نتیجہ بھی سب کے سامنے آیا۔ موجودہ نظام انتخاب کے تحت 100 بار بھی الیکشن ہو جائیں، کرپٹ ٹیکس چور، قاتل، جعلی ڈگری والے ،جھوٹے ، بدعنوان ہی منتخب ہو کرآئیں گے کیونکہ ایک خاص گروہ نے پورے نظام اور وسائل کو یرغمال بنارکھا ہے۔

چیف جسٹس آف سپریم کورٹ نے فیئر اینڈ فری الیکشن منعقد کروانے کے عزم کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ 70ء کے بعد یہ شفاف ترین الیکشن ہوں گے، اللہ تعالیٰ ان کی زبان مبارک کرے اور عوام کو اپنے حقیقی نمائندے منتخب کرنے کا آئینی حق ملے۔ تاہم ہم سمجھتے ہیں کہ شفاف الیکشن محض ایک صوبے کے افسران کو دوسرے صوبے میں بھیجنے سے نہیں ہو سکیں گے ،اس کیلئے حلقہ بندیوں پولنگ ،سٹیشنز کی سکیم، ووٹر لسٹوں کی تیاری و فراہمی،انتخابی عملے کا تقرر اور غیر جانبدار عبوری حکومت کی تشکیل، بااختیار الیکشن کمیشن ناگزیر تقاضے ہیں۔ عملاً دھاندلی کا آغاز ہو چکا ہے، متنازعہ حلقہ بندیاں اس کی ابتداء ہے، جب نئی مردم شماری ہو چکی ہے تو اس کی حتمی نوٹیفکیشن سے قبل راتوں رات حلقہ بندیاں کیوں کی گئیں؟ ترقیاتی منصوبوں کے نام پر دھڑا دھڑ سیاسی رشوت بانٹنے کا کام بھی اپنے عروج پر ہے جس کانوٹس محترم چیف جسٹس صاحب نے بھی لے رکھا ہے۔ یقینا چیف جسٹس آف سپریم کورٹ کے یہ بات پیش نظر ہے کہ آج کا الیکشن کمیشن پہلے سے زیادہ کمزور بنا دیا گیا۔ انتخابی اصلاحات ایکٹ کے نام پر الیکشن کمیشن سے کاغذات نامزدگی تیار کرنے کا اختیار بھی چھین لیا گیا۔ پہلے کسی بھی امیدوار کے اثاثے اس کے بیوی بچوں کے اثاثے اور اس کے اوپر درج مقدمات اور دیگر امور کے حوالے سے معلومات دینا ضروری ہوتا تھا، اب یہ قدغن ختم کر دی گئی۔ یہ انتہائی اہم معاملہ ہے جب تک الیکشن کمیشن آزاد ، خودمختار اور بااختیار نہیں ہو گا اس وقت تک فیئر اینڈ فر ی الیکشن کا انعقاد ناممکن ہے اور نہ ہی کالے دھن کے بے تحاشا استعمال کا راستہ روکا جا سکے گا۔ یہ حقیقت نوشتہ دیوار ہے کہ یہ ظالم نظام اور پاکستان اب ایک ساتھ نہیں چل سکتے۔

ماخوذ از ماہنامہ منہاج القرآن، اپریل 2018

تبصرہ