لوح بھی تو قلم بھی تو تیرا وجود الکتاب

سمیعہ اسلام

نعت گوئی فی نفسہ شاعری ہے۔ اس افتخار کا بنیادی سبب اس صنف ِ شاعری کا سید الانبیاء حضرت محمد عربی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات سے منسوب ہونا ہے۔ سب سے پہلے مداح رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حسان بن ثابت سے تا حال ہزاروں شعراء نے رحمت کا ئنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حضور ہدیہ نعت پیش کیا ہے۔

نعت عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی صفت کے ہیں۔ اس کا مادہ ’ن‘، ’ع‘ اور ’ت‘ ہے۔ اس طرح لغوی اعتبار سے ہر صفت کو نعت کہیں گے لیکن شاعری کی اصطلاح میں نعت اس صنف کو کہتے ہیں، جس کا مطمع فکر ی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات گرامی اور اس کے متعلقات ہوں۔ نعت میں بہت وسعت ہے کیونکہ اس میں ہر قسم کے مضامین، جو کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات و صفات سے متعلق ہوں، بیان کیے جاسکتے ہیں۔

نعتِ رسول دراصل اصناف سخن کی وہ نازک صنف ہے جس میں طبع آزمائی کرتے وقت اقلیم سخن کے تاجدار حضرت مولانا جامی نے فرمایا ہے:

لا یُمکن الثناء کما کان حقّهٗ

بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر

یا

ہزار بار بشویم دہن بہ مشک و گلاب
ہنوز نام تو گفتن کمال بے ادبی است

اردو کے جن شعراء نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوی حیثیت کا ادراک کر تے ہوئے نعت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محفل سجائی ہے ان میں الطاف حسین حالی، شاعر مشرق اقبال، ماہر القادری، عامر عثمانی، اور فضا ابن فیضی کے نام قابل ذکر ہیں۔

نعت کی ابتداء

جہاں تک نعت کی ابتداء کا تعلق ہے،  اس کی کھوج کرنے والے کو قبل تخلیق کائنات تک جانا پڑے گا۔ حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نعتیہ اشعار میں تخلیق منبع نعت سے متعلق اجمالی خاکہ موجود ہے۔ اور ان اشعار کو سماعت فرمانے کے بعد نبیٔ مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا تھا کہ:

’’کہو اللہ تعالیٰ تمہارے منہ کو سالم رکھے‘‘

نعت گوئی یعنی رسالت مآب کی مدح کی ابتدا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں ہی ہوگئی تھی بلکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کفار قریش کو ہرزہ سرائی کا جواب دینے کے لیے حسان بن ثابت، عبداللہ بن رواحہ کو جوابی اشعار لکھنے کا حکم دیا جن کا مرکزی نقطہ مدح رسالت ہی ہوتا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بعض اوقات مسجد نبوی میں بیٹھ کر اشعار کی سماعت فرمائی اور اچھے اشعار پر اظہار پسندیدگی بھی فرمایا۔ بعض اشعار پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اصلاح بھی فرمائی۔ اسی طرح ایک طرف جہاں حسان بن ثابت:

واحسن منک لم تر قط عین
واجمل منک لم تلد النساء

خلقت مبراء من کل عیب
کأنک قد خلقت کما تشاء

کے الفاظ کے ساتھ حضور تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی توصیف بیان کرتے ہیں تو دوسری طرف حضرت کعب بن زہیررضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں حاضر ہو کر اپنا معرکہ آراء اور شہرۂ آفاق قصیدہ پیش کیا، جس کا ایک شعر ملاحظہ ہو:

ان الرسول لنور یستضأله
مهند من سیوف الهند مسلول

’’بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک نور ہیں، جس سے راہ حق کی روشنی طلب کی جاتی ہے۔ آپ ایک عمدہ برہنہ شمشیر ہندی ہیں‘‘۔

تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لسانی و فنی اصلاح کرتے ہوئے ارشاد فرمایاکہ مصرع ثانی کو اس طرح پڑھو:

مهند من سیوف الله مسلول

نعت گوئی اور نعت گو شعراء

دور نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے لے کر آج تک ہر عہد کے اچھے ذہنوں نے نعت کے میدان میں خامہ فرسائی کو اپنے لیے باعث ِ سعادت اور موجبِ نجات گردانا ہے۔

  • نعت گو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین:

وہ صحابہ کرام جن کو نعت گوئی کا شرف حاصل ہوا ان میں حضرت حسان بن ثابت، اسود بن سریع، عبداللہ بن رواحہ، عامر بن اکوع، عباس بن عبدالمطلب، کعب بن زہیر، نابغہ جعدی رضی اللہ عنہم شامل ہیں۔

  • نعت گو علماء:

علماء نعت گو شعراء میں امام ابو حنیفہ، مولانا روم، شیخ سعدی،  مولانا جامی، امام بوصیری، اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان سر فہرست ہیں۔

  • نعت گو اولیاء:

اولیاء کرام میں جنہوں نے نعت گوئی کے لیے قلم اٹھایا ان میں شیخ عبدالقادر جیلانی، بابافرید الدین گنج شکر،سلطان باہو،بابا بلھے شاہ،خواجہ نظام الدین اولیائ،امیر خسرو،میاں محمد بخش جیسی بے نظیر ہستیاں شامل ہیں۔

  • دیگر شعراء:

ڈاکٹر محمد اقبال نے کثیر تعداد میں نعتیں لکھی ہیں۔ آپ کی نعتوں میں بلا کا سوزو گداز ہے اور یہ یقیناً تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے والہانہ عقیدت کا نتیجہ ہے۔ آپ کا مشہور نعتیہ کلام جس کی مثال ڈھونڈے نہیں ملتی ملاحظہ ہو:

لوح بھی تو قلم بھی تو، تیرا وجود الکتاب
گنبد آبگینہ رنگ تیرے محیط میں حباب

تری نگاہ ناز سے دونوں مراد پا گئے
عقلِ غیاب و جستجو، عشق حضور و اضطراب
(محمد اقبال)

وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والا
مرادیں غریبوں کی بر لانے والا

مصیبت میں غیروں کے کام آنے والا
وہ اپنے پرائے کا غم کھانے والا
(الطاف حسین حالی)

ان کی یادوں کے باب کھلتے ہیں
کتنے تازہ گلاب کھلتے ہیں

وہ جو زلفیں ہٹا لیں چہرے سے
سینکڑوں ماہتاب کھلتے ہیں

گر شفاعت ملے جو ان کی مجھے
کہاں واثق حجاب کھلتے ہیں
(محمد نعیم واثق)

ماخوذ از ماہنامہ دخترانِ اسلام، ستمبر 2018ء

تبصرہ