اسلام میں جزا و سزا کا تصور و فلسفہ

ڈاکٹر نعیم انور نعمانی

اللہ رب العزت نے انسان کی پیدائش کے ساتھ اس میں دو قویں خیر و شر کی بھی رکھ دیں اور ایک ایسا نظام وضع کردیا جس میں انسان کی ان قوتوں کے زیر اثر انجام پانے والے اعمال پر جزا و سزا کا تصور بھی رکھ دیا کہ عمل خیر پر جزا اور عمل شر پر سزا بھی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

لِیَجْزِیَ ﷲُ کُلَّ نَفْسٍ مَّا کَسَبَتْط اِنَّ ﷲَ سَرِیْعُ الْحِسَابِ.

(ابراهیم، 14: 51)

’’تاکہ اللہ ہر شخص کو ان (اعمال) کابدلہ دے دے جو اس نے کما رکھے ہیں۔ بے شک اللہ حساب میں جلدی فرمانے والا ہے۔‘‘

اسی طرح دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا:

کُلُّ نَفْسٍم بِمَا کَسَبَتْ رَهِیْنَةٌ.

’’ہر شخص اُن (اَعمال) کے بدلے جو اُس نے کما رکھے ہیں گروی ہے۔‘‘

(المدثر، 74: 38)

قرآن میں عملِ خیر اور عملِ شر کا تصور

انسان کی فطرت دو چیزوں پر مشتمل ہے۔ ایک اس میں ارادہ خیر پایا جاتا ہے اور دوسرا اس میں ارادہ شر پایا جاتا ہے اور ان دونوں قوتوں میں تصادم جاری رہتا ہے اور دونوں کی کشمکش بڑھتی رہتی ہے اگر انسان کے اندر ارادہ شر کی قوتیں غالب آجائیں تو انسان اسفل السافلین کے انجام تک جاپہنچا اور اگر اس میں ارادہ خیر کی قوتیں فائق و برتر اور غالب آجائیں تو ہر انسان، انسان مرتضیٰ بن جاتا ہے اور لقد خلقنا الانسان فی احسن تقویم اور ولقد کرمنا بنی آدم کا مستحق اور مصداق ٹھہراتا ہے اور افضلیت خلق کا تاج اس کے سر پر سجایا جاتا ہے۔ اسلام انسان کے اندر نیکی اور خیر کی قوتوں کو فروغ دینے کے لیے ایک ترغیب اور ایک تحریک پیدا کرتا ہے جبکہ برائی و شر سے متنفر کرتا ہے، گناہ و خطا سے دور لے جاتا ہے اور معصیت و نافرمانی سے کنارہ کش کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام گناہ اور خطا سے نفرت کرتا ہے مگر خطا کار اور گناہگار سے نفرت نہیں کرتا۔ ظلم و استحصال سے بیزاری کا اظہار کرتا ہے مگر مظلوم سے اظہار ہمدردی کا حکم دیتا ہے۔ ظالم و حاکم کے نظام ظلم سے نفرت کرتا ہے مگر محکوم رعایا کے لیے عدل و انصاف کی فراہمی کی کاوشوں کی حمایت کرتا ہے۔ جابر و ستم گر کے ظلم کو روکنے کی ترغیب دیتا ہے مگر مجبور و مقہور کے ساتھ اظہار یکجہتی کی تعلیم دیتا ہے۔ جرم سے نفرت کی صدا بلند کرتا ہے مگر مجرم سے اظہار ہمدردی اور خیر خواہی کی نصیحت کرتا ہے۔

گناہگاروں سے منفرد انداز تخاطب

قرآن حکیم کا یہی واضح اسلوب ہے اور یہی قرآنی تعلیم ہے کہ گناہ اور جرم سے نفرت کی جائے مگر مجرم و گناہگار سے اظہار خیر کیا جائے۔ اس لیے باری تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

قُلْ یٰعِبَادِیَ الَّذِیْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰٓی اَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَةِ اﷲِ.

(الزمر، 39: 53)

’’آپ فرما دیجیے: اے میرے وہ بندو! جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کر لی ہے، تم اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہونا۔‘‘

اب آیت کریمہ میں کلمہ یعبادی قابل توجہ ہے یہ خطاب باری تعالیٰ کا ان بندوں سے ہے جنہوں نے اپنی جانوں پر گناہ اور خطا کا ظلم کیا ہے۔ اپنی جانوں کو تقویٰ و زہد اور نیکی و صالحیت اور علم و عمل کی راہ پر گامزن نہیں کیا بلکہ اپنی جانوں میں ظلم خطا اور گناہ و معصیت کا انتخاب کیا ہے۔ ایسے لوگ تو نافرمان ٹھہرے اور نافرمان عام طور پر قابل توجہ نہیں ہوتے، ان کی حکم سے نافرمانی اور سرتابی ان کورب کی رحمت سے دور کرتی ہے اور نافرمان بندہ تو خود عام انسانوں کو اچھا نہیں لگتا چہ جائیکہ یہ کہ اللہ کا نافرمان ہو اور وہ اللہ کو کیسے اچھا لگے گا۔ مگر اللہ کا فضل کہتا ہے کہ وہ خطا کار اور گناہگار ہوکر بھی اللہ کی رحمت سے محروم نہ ہوگا اور باری تعالیٰ اس کو اپنی رحمت کی طرف بلاتا ہے۔ اس آیت کریمہ میں قرآن یہی تعلیم دے رہا ہے کہ ایسے لوگوں سے انداز تخاطب میں باری تعالیٰ مزید اپنائیت اور محبت کا اظہار کرتا ہے۔ یاعباداللہ کہنے کے بجائے یعبادی کہتا ہے۔ اے لوگو! اے بندوں کی بجائے یوں فرمایا کہ اے میرے بندوں ان بندوں کو یائے متکلم کی طرف اضافت کرکے اپنی طرف منسوب کرتا ہے۔ اے میرے بندوں، یہ خطاب نیکو کاروں سے نہیں اور پرہیزگاروں سے نہیں اور اطاعت گزاروں سے نہیں جن کو ممکن ہے کہ اپنی نیکی و بھلائی اور خیر و تقویٰ پر کوئی گھمنڈ ہو بلکہ اس خطاب کا روئے سخن صرف اور صرف ان لوگوں کے لیے ہے جو گناہ و خطا کے بعد پریشان حال اور پشیمان جان ہیں۔ ان کے دل شکستہ ہوگئے ہیں اور یہ سوچتے رہتے ہیں کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کو ناراض کردیا ہے اب معلوم نہیں کہ وہ ہماری بخشش و مغفرت کرتا ہے یا نہیں کرتا۔ یہ اپنی معصیت کوشی کی وجہ سے پریشان ہیں اور احسان جرم کی وجہ سے ڈرے و سہمے ہوئے ہیں۔ یہ اپنے اندر ندامت اور شرمندگی محسوس کررہے ہیں، ان کو احساس گناہ ستا رہا ہے کہ ان سے یہ گناہ کیونکر ہوا ہے۔

ایسے شکستہ دل لوگوں کو باری تعالیٰ یعبادی کہہ کر اپنی رحمت کی طرف دعوت دیتا ہے، یہ کلمات ان شکستہ دلوں کے لیے سہارا ہیں۔ یہ الفاظ ان بندوں کے سارے اندیشہائے دور دراز کا خاتمہ کرتے ہیں اور ان کو رب کی رحمت کے قریب کرتے ہیں۔ یہ انداز خطاب ان میں چاہت اور اپنائیت پیدا کرتا ہے اور ان کی ڈھارس بندھاتا ہے، ان دکھیاروں کو اللہ کی رحمت کی نوید سناتا ہے۔ ان کلمات کے ساتھ ان کے اندر کی وحشت دور ہوتی ہے کہ ہم گناہگار اور خطاکار ہوکر بھی اللہ کی رحمت سے محروم نہیں ہیں۔ ان بندوں کو محبت بھرا پیغام دیا ہے کہ الذین اسرفوا علی انفسہم تم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا ہے تم کسی بھی صورت میں اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہونا۔ لا تقنطوا من رحمۃ اللہ تم اللہ کی رحمت طلب کرو اس کی رحمت کے طالب بنو، یہ رحمت الہٰی تم کو مل کر رہے گی اگر تم اس کے سچے طالب بن جائو۔ اس لیے کہ

رحمت حق بہانہ می چوید بہانمی چوید

اس کی رحمت جب اپنے بندوں پر مہربان ہوتی ہے تو ان کو ایک چھوٹی سی نیکی پر بھی بخشش و مغفرت کی نوید سنادیتی ہے۔ بندہ جب اللہ تعالیٰ کی بارگاہ سے اپنی خطا و لغزش اور اپنے گناہ و ظلم کے باوجود (اے میرے بندوں) سنتا ہے اور یہ کلمات کہ (اے اپنی جانوں پر خطائوں اور گناہوں کی وجہ سے ظلم کرنے والے بندو سنو میری رحمت سے مایوس نہ ہو) تو اپنے مولا کو بھول جانے والے ان کلمات کو سن کر سبحان ربی العظیم اور سبحان ربی الاعلی کہتے ہوئے اور اپنے رب کو یاد کرتے ہوئے اس کی بارگاہ میں جھک جاتے ہیں۔ سجدہ ریز ہوجاتے ہیں اور اس کو پیار و محبت سے یاد کرنے لگتے ہیں۔ خطا اور گناہ نے ان کے دلوں کو توڑ دیا تھا یہ شکستہ دل ہوگئے تھے، دل کا ٹوٹنا دل جوڑنے کا سبب بن جاتا ہے اور شکستہ دل اللہ کی بارگاہ میں اس کے کرم کے مستحق بن جاتے ہیں۔ اس لیے اقبال فرماتے ہیں:

تو بچا بچا کے نہ رکھ اسے، ترا آئینہ ہے وہ آئینہ
کہ شکستہ ہو تو عزیز تر ہے نگاهِ آئینہ ساز میں

دنیا ایک امتحان گاہ ہے

باری تعالیٰ نے اس دنیا کو ہمارے لیے امتحان گاہ بنادیا ہے اور امتحان گاہ وہ ہوتی ہے جہاں نیکی کا بھی ماحول ہو اور بدی کا بھی ہو۔ اگر فقط نیکی کا ماحول ہوتا یا صرف بدی کا ہوتا تو دنیا کبھی بھی امتحان گاہ نہ ہوتی۔ صرف نیکی کا ماحول ہو تو یہ ماحول فرشتوں کا ہوتا ہے جو ہر وقت اللہ رب العزت کی حمد وثنا میں لگے رہتے ہیں اور بدی وہ کر ہی نہیں سکتے اور اگر صرف بدی کا ماحول ہوتا تو یہ شیطانوں کے لیے ہوتا، اس صورت میں بھی دنیا امتحان گاہ نہ ہوتی۔ تو جہاں بیک وقت نیکی کا بھی ماحول ہو اور بدی کا بھی ہو، اس ماحول میں نیکی کا انتخاب کرکے اور بدی کو ترک کرکے فرمانبرداری اختیار کرنا انسان کو اللہ کا بندہ حقیقی بناتی ہے۔ اچھائی کے ماحول میں نیکی پھیلتی ہے اور برائی کے ماحول میں بدی پھیلتی ہے، پس یہ دنیا اس اعتبار سے امتحان گاہ ہے۔ انسان نیکی کا انتخاب کرے تو وہ اس امتحان گاہ میں کامیاب ہے اور اگر انسان بدی کا انتخاب کرے تو وہ اس امتحان گاہ میں ناکام ہے۔ نیکی کا چنائو کرے تو بندہ رحمن ہے اور اگر بدی کو اختیار کرے تو بندہ شیطان ہے۔ یہ دنیا امتحان گاہ اس اعتبار سے بھی ہے کہ ہمیں ہر حال میں بندہ رحمن بننا ہے مگر یہ معاملہ بندے کے اختیار پر چھوڑ دیا ہے اس لیے ارشاد فرمایا: فالھمھا فجورھا وتقوھا (الشمش،91:8) پھر اس کو اپنی بدکاری سے بچنے اور پرہیزگاری کو اختیار کرنے کی سمجھ عطا کی۔ نیکی اور بدی کا شعور انسان میں ودیعت کردیا گیا ہے، اب اس انسان کی مرضی ہے کہ چاہے تو اپنے لیے نیکی کا انتخاب کرے یا بدی کا چنائو کرے۔ اگر انسان نیکی کو اپنے لیے منتخب کرے تو یہ اپنی اصل پر ہے اور اگر یہ بدی کو اپنے لیے پسند کرے تو یہ اپنے مقام افضل کو چھوڑ کر مقام اسفل کی طرف جاتا ہے، عظمت کو چھوڑتا ہے اور رزالیت کو اختیار کرتا ہے۔ اس لیے ارشاد فرمایا:

لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِیْٓ اَحْسَنِ تَقْوِیْمٍ. ثُمَّ رَدَدْنٰهُ اَسْفَلَ سٰـفِلِیْنَ.

(التین، 95: 4-5)

’’بے شک ہم نے انسان کو بہترین (اعتدال اور توازن والی) ساخت میں پیدا فرمایا ہے۔ پھر ہم نے اسے پست سے پست تر حالت میں لوٹا دیا۔‘‘

انسان کے لیے ہدایتِ حیات

ایک مقام پر ارشاد فرمایا:

وَهَدَیْنٰهُ النَّجْدَیْنِ.

(البلد، 90: 10)

’’اور ہم نے تو اسے دونوں راہیں دکھا دی ہیں۔‘‘

جب انسان نیکی کی راہ پر چلتا ہے تو وہ ان آیات کا مصداق بنتا ہے الا الذین امنوا وعملوا الصلحت یعنی وہ ایمان کامل کی حالت میں رہتا ہے اور ہر لمحہ اور ہر لحظہ اعمال صالحہ کی ادائیگی کو اپنی پہچان اور شناخت بناتا ہے۔ اپنے مولا کی بارگاہ میں بے حد و بے حساب اجرو جزاء کا مستحق ٹھہرتا ہے اور اس آیت کا مصداق بنتا ہے فلہم اجر غیر ممنون۔ نیکی کی راہ پر چلنے والا انبیاء و صالحین کی راہ پر چلنے والا ہوتا ہے۔ حضرت آدم علیہ السلام، حضرت نوح علیہ السلام، حضرت ابراہیم علیہ السلام، حضرت اسماعیل علیہ السلام، حضرت موسیٰ علیہ السلام، حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی راہ پر چلنے والا ہے۔ یہ خلفائے راشدین ابوبکر و عمر اور عثمان و علی رضوان اللہ علیہم اجمعین اور دیگر آئمہ و صحابہ اور اسلافِ امت کی راہ پر چلنے والا ہوتا ہے۔ بدی کی راہ پر چلنے والا فرعون و ہامان اور قارون ہوتا ہے۔ نمرود اور یزید ہوتا ہے، اس لیے کیونکہ زندگی کی حقیقت نیکی اور بدی ہے اور زندگی ان ہی دو چیزوں کا نام ہے۔

موسی و فرعون و شبیر و یزید
ایں دو قوت از حیات آمد پرید

انسان کا منصب خلافت کے لیے انتخاب

انسان کی سرشت میں نیکی اور بدی دونوں قوتیں موجود ہیں۔ انسان بدی کی طرف جلد مائل ہوتا ہے اور نیکی کی طرف تاخیر کے ساتھ راغب ہوتا ہے۔ انسان کو جب خلافت ارضی کا تاج پہنایا گیا تو فرشتوں نے کہا کہ مولا کن کے لیے تو نے اعلان خلافت کیا ہے اور یوں آپ نے ارشاد فرمایا:

انی جاعل فی الارض خلیفة.

(البقره، 2: 30)

میں انسان کو اپنی زمین میں اپنا نائب بنانے والا ہوں تو اس وقت فرشتوں کی نگاہ اس کی سرشت میں موجود برائی کی قوت پر پڑی تو پکار اٹھے:

قالوآ اتجعل من یفسدها فیها ویفسک الدمآء.

(البقره، 2: 30)

انہوں نے عرض کی کیا تو زمین میں کسی ایسے شخص کو نائب بنائے گا جو اس میں فساد انگیزی اور خونریزی کرے گا؟ آج ہم اس زمین پر جتنی بھی خونریزی دیکھ رہے ہیں، جس قدر قتل و غارت گری، دہشت گردی اور فساد انگیزی دیکھ رہے ہیں یہ سارا کچھ انسان اپنے اندر موجود قوت بدی کی بنا پر کررہا ہے۔ یہ انسان کے اندر قوت بدی ہے جس کا زمانے کے سامنے اظہار ہے اور اس کے اندر دوسری قوت تقویٰ بھی ہے۔ جب وہ اپنے کمال پر دکھائی دیتی ہے تو انسان سراپا خیر بن جاتا ہے۔ ایک انسان سے سینکڑوں، ہزاروں، لاکھوں، کروڑوں، اربوں، کھربوں انسان مستفید ہوتے ہیں۔ حتی کہ اللہ کے فرشتے بھی ان کے شرف انسانیت پر فخر کرتے ہیں اور ان لوگوں کو سچا، انسان دوست اور اللہ کا بندہ جانتے ہیں۔ کم از کم ہم ایسے انسان تو بنیں کہ ہم سے سینکڑوں اور ہزاروں ہی مستفید ہونے والے ہوں۔

انسان کے برے عمل میں نفس اور شیطان کا کردار

انسان کے نیکی اور بدی کی راہ پر چلنے کے اندرونی ذریعے بھی ہیں اور بیرونی عناصر بھی ہیں۔ انسان کی بدی کے اندرونی عناصر میں سب سے بڑا عنصر نفس امارہ ہے، جوہر وقت انسان کو برائیوں پر اکساتا رہتا ہے۔ ان النفس لامارۃ بالسوئ۔ انسان جب خود کو مکمل طور پر نفس امارہ کا پیروکار بنالیتا ہے تو برائی اس کے وجود سے پھوٹنے لگتی ہے۔ ہر بدی کا منبع و سرچشمہ بن جاتا ہے۔ ہر برا عمل اس کی پہچان بن جاتا ہے اور شیطان بھی ایسے ہی لوگوں کو گمراہ کرنے کا عہد کرتا ہے۔ لاغوینهم اجمعین (31: 82) میں ان سب کو ضرور گمراہ کروں گا۔ وہ شیطان چھپ چھپ کر انسان پر حملے کرتا ہے اور اس کے دل میں برے وسوسے ڈالتا ہے۔ یوسوس فی صدور الناس من الجنۃ والناس کا عمل ہر لحظہ و ہرلحظہ کرتا رہتا ہے۔ شیطان اپنی حملہ گاہ اور مصروف کا مسلسل پیچھا کرتا رہتا ہے اور وہاں وہاں سے انسان کو دیکھتا ہے جس کا انسان تصور بھی نہیں کرسکتا۔ قرآن نے یہ بھی ذکر کردیا ہے کہ شیطاین بطور ہدف کن انسانوں کو اپنا نشانہ بناتے ہیں فرمایا:

هَلْ اُنَبِّئُکُمْ عَلٰی مَنْ تَنَزَّلُ الشَّیٰـطِیْنُ. تَنَزَّلُ عَلٰی کُلِّ اَفَّاکٍ اَثِیْمٍ.

(الشعراء، 26: 221-222)

’’کیا میں تمہیں بتاؤں کہ شیاطین کس پر اترتے ہیں؟۔ وہ ہر جھوٹے (بہتان طراز) گناہگار پراترا کرتے ہیں۔‘‘

اس کے برعکس وہ لوگ جو اخلاص کے ساتھ دین کی راہ پر ہوتے ہیں، اللہ کی عبادت و ریاضت کرتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت و اتباع بجا لاتے ہیں، احکام اسلام کو اپنے نفوس میں نافذ کرتے ہیں اور راہ حق پر ثابت قدمی کا مظاہرہ کرتے ہیں تو ان پر فرشتوں کا نزول ہوتا ہے۔

بندگانِ حق پر فرشتوں کا نزول:

ان میں بندگان حق پر نزول ملائکہ کے حوالے سے بیان کیا اور ارشاد فرمایا:

اِنَّ الَّذِیْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اﷲُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا تَتَنَزَّلُ عَلَیْهِمُ الْمَلٰٓئِکَةُ اَلَّا تَخَافُوْا وَلَا تَحْزَنُوْا وَاَبْشِرُوْا بِالْجَنَّةِ الَّتِیْ کُنْتُمْ تُوْعَدُوْنَ.

(فصلت، 41: 30)

’’بے شک جِن لوگوں نے کہا ہمارا رب اﷲ ہے، پھر وہ (اِس پر مضبوطی سے) قائم ہوگئے، تو اُن پر فرشتے اترتے ہیں (اور کہتے ہیں) کہ تم خوف نہ کرو اور نہ غم کرو اور تم جنت کی خوشیاں مناؤ جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا۔‘‘

جو لوگ ایمان پر قائم رہتے ہیں اور ہر حال میں ایمان پر استقامت کا مظاہرہ کرتے ہیں، راہ حق میں مصائب و آلام کو برداشت کرتے ہیں، تکلیفوں اور اذیتوں کو جھیلتے ہیں، رکاوٹوں اور آزمائشوں کا سامنا کرتے ہیں اور حق پر ڈٹے رہتے ہیں۔ انتہائی نامناسب حالات میں بھی ہمت نہیں ہارتے، ہر طرح کی سختیاں، تہمتیں اور اذیتیں خندہ پیشانی سے برداشت کرتے ہیں، سب کچھ لٹادیتے ہیں مگر رب سے تعلق نہیں توڑتے ان کے ہائے استقلال میں کسی قسم کی لغزش نہیں آتی۔ راہ حق میں جان بھی جاتی ہے تو اس پر بھی قائم بالحق رہتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے لیے نوید و خوشخبری ہے کہ ان کی مدد فرشتے کرتے ہیں اور ان پر فرشتوں کا نزول ہوتا ہے، تتنزل علیہم الملائکۃ کا شرف ان ہی لوگوں کو حاصل ہے۔

خلاصہ کلام:

ہماری زندگی کی کل حقیقت عمل فجور اور عمل تقویٰ میں مضمر ہے۔ عمل خیر اور عمل شر کا نام زندگی ہے۔ ہماری زندگی میں نیکی بھی ہے اور بدی بھی ہے، ہماری زندگی نیکی اور بدی کی جنگ کا نام ہے، نیکی اور بدی کا انتخاب ہماری زندگی کا امتحان ہے، اس امتحان میں کامیابی نیکی کا انتخاب اور بدی کا ترک کرنا ہے۔ اس لیے قرآن نے ارشاد فرمایا کہ والعصر ان الانسان لفی خسر زمانے کی قسم ہر انسان خسارے میں ہے مگر وہ انسان جو اللہ پر ایمان لانے والا اور نیک عمل کرنے والا مسلمان، فرمانبردار، اطاعت گزار اور شکر گزار بن جائے تو وہ خسارے سے محفوظ رکھ لیا گیا ہے۔ الا الذین امنوا وعملوا الصلحت (العصر، 103: 3) سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے۔ اللہ تعالیٰ پورے قرآن میں اپنے بندوں سے صرف دو مطالبے کرتا ہے ایک مطالبہ ایمان اور دوسرا مطالبہ عمل صالح ہے۔ ان دو مطالبوں کو جس انسان نے دل و جان سے مان لیا وہ مسلمان بنا اور خسارے سے محفوظ رہا، جس نے ان دو مطالبوں کو نہ مانا وہ انسان تو رہا مگر سچا مسلمان نہ بن سکا۔ قرآن کی نظر میں مسلمان ہوتا ہی وہی ہے جو اللہ کے حکم کو مانے، مسلمان اللہ کے حکم کے سامنے جھکتا ہے اور اللہ کے حکم کو اپنا عمل بناتا ہے تو تب وہ مسلمان بنتا ہے۔ اس لیے قرآن نے کہا کہ تم عمل صالح اپنائو تو نجات پانے والے ہو اور اگر عمل شر اختیار کرو تو خود کو تباہ اور ہلاک کرنے والے ہو۔ من عمل صالحا فلنفسه ومن اسآء فعلیها وما ربک بظلام للعبید (حم السجده، 41: 36) جس نے نیک عمل کیا تو اس نے اپنی ہی ذات کے نفع کے لیے کیا اور جس نے گناہ کیا اور برا عمل کیا تو اس کا وبال بھی اسی کی جان پر ہے اور آپ کا رب بندوں پر ظلم کرنے والا نہیں ہے۔ انسان کا آج کا عمل خیر اس کی کل کی جنت ہے اور انسان کا آج کا عمل شر اس کے کل کے دوزخ اور جہنم ہے۔ اس لیے کہ انسان کا عمل ہی نجات اور انعام اور جنت کا باعث ہے اور انسان کا عمل ہی اللہ کے غضب، عذاب اور دوزخ کا باعث ہے۔ یہ سارا موضوع ایک عام فہم اور بڑے ہی سادہ مگر بڑے ہی گہرے اور پر معنی شعر میں یوں سمٹتا ہے:

عمل سے زندگی بنتی ہے، جنت بھی جہنم بھی
یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے

ماخوذ از ماہنامہ دخترانِ اسلام، جولائی 2018ء

تبصرہ