دروس مثنوی: شریعت کو ظاہر و باطن پر نافذ کرنے کا نام تصوف ہے

مرتبہ: نازیہ عبدالستار

شہر اعتکاف 2018ء میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے مثنوی مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ پر انسان کی روحانی و اخلاقی تربیت کے لیے سلسلہ وار خطاب فرمائے۔ ان کی اہمیت کے پیش نظر مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ کا تعارف ماہ اگست کے شمارے میں شائع کیا گیا تھا اسی کی اگلی قسط ماہ اکتوبر کے شمارے میں شائع کی جارہی ہے۔

پہلی قسط میں مولانا روم کا تعارف بیان کیا گیا ہے کہ وہ علوم فقہ، مقولات، منقولات، مناظرہ اور مجادلہ میں مہارت تامہ رکھنے والے عالم تھے۔ دنیا کے بڑے بڑے علماء آپ سے فتویٰ لینے آتے تھے لیکن جب انہوں نے حضرت سلطان شمس تبریز کی صحبت اختیار کی تو قال کی دنیا سے نکل کر حال کی دنیا میں قدم رکھا تو حلقہ تدریس ختم کردیا۔ فتویٰ نویسی بند کردی اور حال کی دنیا میں ایسے داخل ہوئے کہ سلطان العارفین بنے آپ نے دنیا کو صاحب حال کرنے کے لیے مثنوی لکھی۔ اس مثنوی میں اس حال کا ذکر کرتے ہیں۔

اے طالب! بانسری سے سن کیا کہانی بیان کرتی ہے۔ یہاں بانسری سے مراد روح انسانی ہے۔ جب روح کو انسانی بدن میں ڈالا گیا تو اس کی کئی جدائیاں ہوئیں۔ اس کا تعلق عالم مالاکوت، عالم جبروت سے تھا جہاں کوئی کثافت نہ تھی لیکن اس مادی دنیا میں آگئی تو اپنیجدائیوں کی شکایت کرتی ہے اس روح کی بے تابی کی آواز سے مولانا روم نے مثنوی شروع کی۔ سال میں چار موسم آتے ہیں۔ سردیوں کا موسم جنوری اور فروری میں آتا ہے جو مارچ ختم ہوجاتا ہے پھر بہار کا موسم آجاتا ہے بہار کا موسم ختم ہوتا ہے تو گرمیوں کا موسم آتا ہے۔ گرمیوں کے بعد خزاں کا موسم آتا ہے۔

سوشیالوجی میں بھی یہی ہے اک سو سال کے عرصہ میں چار موسم گزرتے ہیں۔ صدی کے ایک سال کا موسم 25 برس کا ہوتا ہے۔ ایک بچہ 25 برس کی عمر میں جوان ہوتا ہے اس کی شادی ہوجاتی ہے۔ 25 برس بعد اس کا بیٹا پیدا ہوتا ہے۔ ہر 25 برس کے بعد ایک نئی نسل آتی ہے۔ جو 25 برس قبل کے حالات سے آگاہ نہیں ہوتی کہ اس وقت کے روحانی، اخلاقی حالات کیسے تھے؟ جن کی وجہ سے بہار تھی۔

پہلے لوگوں کے احوال کے حوالے سے ایک واقعہ ہے۔ ایک صوفی درویش تھے جو صحر امیں جارہے تھے وہی سے ایک غیر مسلم تاتاری گزر رہا تھا اس کا جی چاہا کہ میں اس درویش کو تنگ کروں، اس نے ایک سوال کیا اے درویش بتاؤ! تمہاری داڑھی اچھی ہے یا میرے شکاری کتے کی دم؟ دراصل وہ ایسی باتیں کرکے اس کو غیرت دلانا چاہتا تھا کہ وہ جواب میں کہے گا کہ داڑھی سنت ہے تم اس کو کتے کی دم کے ساتھ ملا رہے ہو۔ وہ طیش میں آجائے گا اس طرح میں اس کوکوڑے ماروں گا۔ وہ درویش کیونکہ صوفی تھا اس نے کہا ہاں! اگر تو قیامت کے دن مولانا نے بخش دیا تو میری داڑھی اچھی ہے، اگر بخشش نہ ہوئی تو تیرے کتے کی دم اچھی ہے اس ایک جملے سے اس کی کایا پلٹ گئی۔ اس نے درویش سے کہا چپکے سے نکل جاؤ۔ میرا من مسلمان ہوگیا ہے۔ اب مجھے ماحول تیار کرلینے دو، جب ماحول اسلام قبول کرنے کا تیار ہوجائے گا آجانا، سب کو کلمہ پڑھا دینا۔ اس زمانے میں ان اچھے لوگوں کی وجہ سے بہار تھی۔ ان اچھوں میں مولانا روم بھی تھے۔ مولانا روم کی پیدائش 604 میں ہوئی۔

شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کا وصال 507 ہجری میں ہوا حضور غوث الاعظم کے 44 برس بعد مولانا روم کی ولادت ہوئی۔ یہ وہ دور ہے جب چین سے لے کر عراق کے علاقوں تک تاتاری فتنہ اسلامی سلطنت کو برباد کرچکا تھا۔ اسلامی سلطنتوں کی شمعیں بجھتی جارہی تھیں۔ اس دور میں ہی ترکی کے علاقے قونیہ، صحرائے کوچک اور وسطی علاقہ میں ہلاکوں اور چنگیز خان نے اپنے لشکر بھیج دیئے تھے۔ جب کوئی سلطنت موثر نہ رہی روئے زمین پر لوگوں کے دلوں میں ایمان کی شمعیں صوفیاء کرام کے ذریعے روشن تھیں۔ اسی دور میں خلافت عثمانیہ کی داغ بیل ڈالی گئی جو 1924ء کے بعد ٹوٹ گئی اس کا بانی اغطرو تھا۔ وہ اسلام کی نئی سلطنت قائم کرنے کے لیے تگ و دو کر رہا تھا۔

656 ہجری کے قریب تاتاری فتنہ بغداد آیا۔ 22 سے 24 لاکھ مسلمانوں کا قتل عام کیا جس کی وجہ سے دریائے دجلہ، ہفتوں تک اڑھائی ملین مسلمانوں کے خون سے سرخ ہوکر بہتا تھا۔ اغطرو سلمان شاہ کا بیٹا تھا۔ قونیہ سلجوقی سلطنت کا ہیڈ کوراٹر تھا۔ سلطان علاؤالدین اس کا بادشاہ تھا۔ سلطان علاؤالدین کی بھتیجی حلیمہ سلطان کی شادی اغطرو سے ہوئی۔ اس کے تین بیٹے تھے۔ چھوٹے بیٹے کا نام عثمان تھا، اغطرو نے تاتاری اور صلیبی فتنے کے خلاف جنگیں لڑ کر سلطنت عثمانیہ کی بنیاد رکھی۔ اس نے اپنے بیٹے کا نام پر سلطنت کانام سلطنت عثمانیہ رکھا جو 1304 عیسوی میں قائم اور 1924ء میں جاکر ختم ہوگئی۔ اغطرو کی وفات 680 میں ہوئی وہ زمانہ شیخ اکبر محی الدین ابن العربی کا ہے ان کا وصال 640 میں ہوا۔

اغطرو شیخ اکبر محی الدین ابن العربی سے قدم قدم پر رہنمائی لیتا تھا۔ یہ وہ دور تھا جس میں مولانا روم اور سلطان شمس تبریز آئے۔ سلطان شمس تبریز جب 624 ہجری میں قونیہ پہنچے تو مولانا روم فقر کی مسند پر بیٹھے۔ 612 ہجری میں آپ نے اپنے روحانی سفر کا آغاز کیا۔ پہلی ملاقات میں سلطان شمس تبریز اور مولانا روم تنہا دونوں ایک حجرے میں 6 ماہ تک حالت مراقبہ میں بند رہے۔ سلطان شمس تبریز توجہ دیتے رہے مولانا روم توجہ لیتے رہے۔ 6 ماہ کے بعد جب نکلے مولانا روم مولائے روم ہوگئے تھے۔قیل و قال کی دنیا سے گزر کر حال کی دنیا میں داخل ہوگئے تھے۔ خالی قال والے حال والوں کو پسند نہیں کرتے۔

لہذا فتنہ برپا ہوگیا یہ شمس تبریز کون ہے جس نے ہمارے شیخ کو بدل کر رکھ دیا ہے؟ شمس تبریز نے دیکھا کہ ماحول رہنے کا نہیں رہا تو آپ چپکے سے راتوں رات قونیہ چھوڑ کر واپس دمشق چلے گئے، اس وقت مولانا روم کی بیقراری دیکھی نہیں جاتی تھی۔ اک عجب عالم اضطراب تھا جس کو دیکھ کر آپ کے صاحبزادے مولانا روم کے حکم پر قافلہ لے کر حضرت شمس تبریز کو منانے دمشق پہنچے۔ مولانا روم نے ایک درد بھرا خط لکھ کر اپنے بیٹے کو دیا کہ جب میرے شیخ سلطان شمس تبریز ملیں ان کو دے دینا اور ساتھ ایک ہزار سرخ سونے کے دینار ہدیتاً بھیجے۔ مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ کے صاحبزادے دمشق پہنچے تو انہیں حضرت شمس تبریز مل گئے۔ ان کو مولانا روم کا خط دیا، ساتھ ہدیہ دیکھ کر مسکرا پڑے۔ فرمایا! دانا پرندے کو دام و دانہ نہیں چاہئے۔ مجھے خط کافی ہے۔ خط کھولا، پڑھا جس میں مولانا روم نے غزل لکھ بھیجی تھی جس کا خلاصہ ہے۔

اے شمس تبریز! تیرے نور نے عشق کی کئی شمعیں جلائی تھیں ان سے ہزارہا مخفی راز لوگوں کو معلوم ہوگئے، ایک حکم سے پورا جہاں بھر گیا تھا۔ کیا عاشق؟ کیا عشق؟ کیا حاکم؟ کیا محکوم؟ ہر ایک کا سینہ قلب و روح تیرے پیغام عشق سے سیراب ہوگیا۔ اے شمس تبریز! جب سے تو چلا گیا ہے اس دن سے ہماری جان لذت و حلاوت سے محروم ہوگئی ہے، تیرے حسن وجمال سے جب سے فراق ہوا ہے تب سے جسم ویران ہوگیا ہے اور جان موم کی طرح پگھل گئی ہے۔ شام تیرے نور سے روشن تھی، صبح بھی تیرے نور سے روشن تھی۔ تو ہی فخر شام، اربن اور روم تھا۔ میرے محبوب پلٹ آ۔ جب حضرت شمس تبریز نے خط پڑھا پھر قافلہ کے ساتھ واپس آگئے۔

مولانا روم ان کی مجلس میں بیٹھے رہتے ان کا رنگ چڑھتا گیا۔ حال بدلتا گیا، نوبت یہاں تک آگئی کہ ہنگامہ کھڑا ہوگیا پھر شمس تبریز قونیہ چھوڑ کر دمشق چلے گئے تو مولانا روم خود تلاش میں نکلے شہر شہر، قریہ قریہ تلاش میں رہے لیکن وہ نہیں ملے۔ بعض کا قول ہے کہ وہ مل گئے تھے۔

الجواہر المدیرہ میں ابن ابی وفا القراشی وہ اس قول کو قوی قرار دیتے ہیں کہ مولانا روم کے مریدوں نے حسد کی بناء پر حضرت شمس تبریز کو شہید کردیا۔ بعض کتب میں آیا ہے کہ آپ وہاں سے رخصت ہوگئے تھے مگر معتبر کتابوں میں ہے کہ انہیں شہید کردیا گیا وہ قونیہ میں دفن ہوئے۔ الغرض شمس تبریز کی شہادت کا سال مولانا عبدالرحمن الجامی نے نفحۃ النفس میں 644، 645 بتایا ہے۔

جب 672 کا زمانہ آیا تو قونیہ میں زلزلہ آیا جو 40 روز تک رہا۔ لوگ پریشان ہوکر مولانا روم کی خدمت میں آئے اور پوچھا حضور! زلزلہ ختم نہیں ہورہا اس کا سبب کیا ہے؟ مولانا روم نے فرمایا: زمین بھوکی ہے اورلقمہ تر چاہتی ہے۔ ان شاء اللہ اسے جلد مل جائے گا 672 میں اسی سال مولانا روم وصال پاگئے۔

مولانا روم منبع رشد و ہدایت:

مولانا روم کا سورج تاباں تھا۔ بڑی بڑی ہستیاں آپ سے اکتساب فیض کے لیے آتیں تھیں۔ مولانا روم کی بچپن میں ملاقات شیخ اکبر محی الدین ابن العربی سے ہوئی جب آپ اپنے والد بہاؤالدین بلخی کے ساتھ دمشق میں تھے اس وقت آپ کی عمر 11 سال تھی پھر 40 سال کی عمر میں مولانا روم دمشق سے تکمیل علوم کرچلے تھے وہاں شیخ اکبر محی الدین سے آپ کی ملاقات ہوئی ان سے اکتساب فیض کیا اس طرح شیخ سعد الدین ہماوی، مولانا روم کے احباب میںسے ہیں۔ حضرت عثمان رومی، حضرت شیخ روح الدین قرمانی، حضرت شیخ صدرالدین قونوی بعد میں وہ ہاتھ باندھ کر آپ کے مریدوں میں بیٹھتے تھے۔ دراصل وہ مولانا روم کے استاد تھے۔ حضرت صدر الدین قونوی حضرت محی الدین ابن عربی کے تربیت یافتہ بیٹے تھے۔ جب مولانا نے صدر الدین قونوی سے تکمیل علوم کی تو وہ مراقبہ کی حالت میں ہاتھ باندھ کر آپ کی مجلس میں بیٹھے رہتے تھے یعنی استاد شاگرد میں بدل گیا تھا۔

اس طرح ہندوستان سے بو علی قلندر پانی پتی رحمۃ اللہ علیہ بھی مولانا روم کی زیارت و صحبت کے لیے قونیہ گئے تھے۔ ایک عرصہ تک آپ سے استفادہ کیا، حضرت شیخ شہاب الدین سہروردی رحمۃ اللہ علیہ بھی آپ سے ملاقات کے لیے قونیہ آئے تھے جو سلسلہ سہروردیہ کے بانی حضرت بہاؤالدین سہروردی کے پیرو مرشد ہیں۔ ایران سے شیخ سعدی شیرازی مولانا روم کی ملاقات و زیارت کے گئے۔ مولانا قطب الدین شیرازی نے آپ کی صحبت و مجلس میں رہے۔ الغرض بہت ساری ہستیاں نے آپ سے اکستاب فیض کیا۔

مولانا روم کے اخلاق واحوال:

مولانا روم کی کشف و کرامات تو بے شمار ہیں آپ کی ریاضت و مجاہدہ عدیم المثال تھا۔ ان کے تلامذہ کہتے ہیں ان کو رات کے لباس میں کبھی نہیں دیکھا تھا۔ کمال درجے کی ریاضت و مجاہدہ تھی۔ نماز کاجب وقت آتا جہاں بھی بیٹھے ہوتے مولانا قبلہ رخ ہوجاتے۔ آقا علیہ السلام کی سنت کی طرح چہرے کا رنگ متغیر ہوجاتا اور استغراق میں ڈوب جاتے، کسی کا ہوش نہ رہتا۔

آپ کے تلامذہ میں ایک فوج کے سپہ سالار تھے سب سے پہلی سوانح عمری مولانا روم کی انہوں نے لکھی وہ کہتے ہیں مولانا روم نے نماز عشاء کے بعد 2 رکعت نفل کی نیت باندھی، حالت استغراق کا عالم یہ تھا کہ انہیں دو رکعت نماز میں فجر ہوگئی۔ یہ کیفیت اکثر و بیشتر ان پر طاری رہتی تھی۔

مولانا روم کی تواضع و انکساری:

اللہ والوں میں تکلف و تصنع نہیں ہوتا۔ آپ کی طبیعت میں تواضع و انکساری بے پناہ تھی۔ بیٹے کو ملنے جاتے اگر رات کو دیر ہوجاتی تو چوکھٹ پر پہنچ کر دروازہ نہیں کھٹکھٹاتے تھے اس خیال سے کہ وہ سو نہ گئے ہوں۔ دراصل یہ اخلاق ہے یہی تصوف ہے کہ دوسروں کے آرام کا خیال رکھا جائے۔

ایک مرتبہ محفل سماع ہورہی تھی۔ مولانا تشریف فرما تھے۔ ایک شخص کو وجد آگیا جو بار بار مولانا روم سے آکر ٹکراتا تھا۔ آپ مسکراتے تھے، کچھ مریدوں نے دیکھا تو پکڑ کر ایک طرف کردیا۔ آپ پریشان ہوگئے ان شاگردوں کو بلایا اور کہا شراب عشق اس نے پی ہے جو ٹکرا رہا ہے، بدمست تم ہوگئے ہو۔ وہ مستی میں ہے اسے ٹکرا لینے دو۔

آپ کے تلامذہ میں ایک شخص معین الدین پروانا وہ سلطنت کے کار پرداز لوگوں میں سے تھے ان کے گھرمیں محفل سماع تھی۔ ایک خاتون نے شرینی کے تھال بناکر بھیجے کہ جب لوگ محفل سے فارغ ہوں گے تو اس وقت پیش کریں گے۔ اتنے میں ایک کتا آیا اس نے منہ ڈال کر حلوہ کھالیا۔ لوگوں نے دیکھا تو وہ بڑے پریشان ہوئے۔ کتے کو مارنے کے لیے دوڑے۔ آپ لوگوں کے پیچھے دوڑے اور کہا کہ اس کا بھی حق تھا۔ اس نے اگر کھالیا تو کیا ہوا؟

اس فکر والے کو صوفی کہتے ہیں،صوفی لباس سے نہیں بنتا، صوفی چھوٹی تسبیح کے دانوں سے نہیں بنتا، صوفی بڑی بڑی غیض و غضب کی آنکھوں سے نہیں بنتا۔ صوفی جبہ اور دستار پہننے سے نہیں بنتا۔ صوفی اچھے کردا رکو اپنانے سے بنتا ہے۔ اس کردار کا نام تصوف ہے، اسی کردار سے ولایت جنم لیتی ہے۔ اسی کردار سے اللہ کے ساتھ دوستی شروع ہوتی ہے۔ داتا گنج بخش علی ہجویری کی کشف المحجوب میں یہی سیرت و کردار ملتا ہے۔ صوفی خاندان سے نہیں بنتا بلکہ صوفی صالح من پیدا کرنے سے جنم لیتا ہے۔

مولانا روم ایک روز تنگ گلی سے جارہے تھے۔ رات کا وقت تھا اس گلی میں ایک کتا سویا ہوا تھا جو بہت بڑا تھا اگر اس کے اوپر سے پھلانگ کر جاتے تو وہ اٹھ جاتا۔ مولانا روم کھڑے رہے۔ اتنے میں ایک شخص آیا اس نے پاؤں مار کر کتے کو اٹھانے کی کوشش کی۔ مولانا روم نے روکا اور کہا اس کے آرام میں خلل نہ ڈالو جب وہ نیند پوری کرلے گا خود بخود اٹھ جائے گا، تب ہم گزر جائیں گے۔

صوفیاء تو کتوں کا اتنا خیال کرتے ہیں۔ ہم انسان ہوکر انسان کا خیال نہیں رکھتے۔ یہ صرف مولانا روم کا مشرب نہیں بلکہ 14 سو سال کی تاریخ میں کل اللہ والوں کا مشرب رہا ہے، اس طرح مولانا روم ایک جگہ سے گزر رہے تھے وہاں گالی گلوچ ہورہا تھا۔ ایک نے کہا تم مجھے ایک گالی دو گے تو میں تمہیں دس گالی دوں گا۔ دوسرا کہہ رہا تھا تم دس دو گے میں سو دوں گا۔ مولانا روم آگے بڑھے، ایک کو کہا! اگر تم ایک گالی دو گے تو دوسرا واقعی دس گالیاں دے گا، رکے گا نہیں۔ دوسرے کو کہا! تم ایک دوگے دوسرا واقعی ہی سو گالیاں دے گا، رکے گا نہیں۔ تم ایسا کرو۔ تم دونوں مجھے گالیاں دو۔ میں تمہیں ایک بھی گالی نہیں دوں گا۔ تمہارا شوق پورا ہوجائے گا جب یہ بات سن لی دونوں گلے لگ گئے، معافی مانگی اور صلح ہوگئی۔

ماخوذ از ماہنامہ دخترانِ اسلام، اکتوبر 2018ء

تبصرہ