8 مارچ خواتین کا عالمی دن اور ’’تھامس رائٹر فاؤنڈیشن‘‘کی رپورٹ

ہر سال 8 مارچ کو خواتین کے حقوق کے تحفظ کے طور پر منایاجاتا ہے اور ہمیشہ خواتین کی امپاورمنٹ، اس کے سیاسی، سماجی، اقتصادی کردار کو وسعت دینے کے مطالبات پر مبنی قراردادیں پاس کی جاتی ہیں مگر عملاً یہ ساری سرگرمیاں اخبارات کے صفحات اور الیکٹرانک میڈیا کی سکرینوں کی زینت بن کر رہ جاتی ہیں، عملاً خواتین کی حالت زار میں وہ مثبت تبدیلیاں دیکھنے کو نہیں ملتیں جن تبدیلیوں کی آج خواتین کو ضرورت ہے، پاکستان کی خواتین تین طبقات میں تقسیم ہیں، پہلا طبقہ مراعات یافتہ خاندانوں کی خواتین پر مشتمل ہے جن پر ہمیشہ اعلیٰ تعلیم کے دروازے کھلے رہتے ہیں اور یہ خواتین سیاست میں بھی باسہولت اپنا کردار ادا کرتی نظر آتی ہیں، انہیں سہولت کے ساتھ اسمبلیوں کی رکنیت بھی مل جاتی ہے اوروہ اہم کمیٹیوں کی چیئرمین اور ممبر بھی بن جاتی ہیں، دوسر طبقہ مڈل کلاس خواتین کا ہے جن کے خاندان اپنا پیٹ کاٹ کر انہیں تعلیم دیتے اور پڑھاتے ہیں مگر یہ خواتین بمشکل اپنے لیے روزگار کے مواقع حاصل کر پاتی ہیں، تیسرا طبقہ پسماندہ خاندانوں کی خواتین کا ہے جن پر تعلیم کے دروازے بھی بند رہتے ہیں اور روزگار کے دروازے بھی بند رہتے ہیں، ان خواتین کو سرکاری سطح پر بھی تعلیم کی سہولتیں میسر نہیں ہوتیں، ان خواتین کا زیادہ تر حصہ دیہات میں رہتا ہے اور کسمپرسی کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں، ان خواتین کے لیے بعض این جی اوز بیانات کی حد تک آواز اٹھاتی ہیں مگر عملاً ان خواتین کیلئے کوئی پیکیج نہیں آتا، اسی طبقہ کی خواتین سماجی، مظالم کا بھی سب سے زیادہ شکار نظر آتی ہیں، خواتین کی امپاورمنٹ سے مراد تحفظ، تعلیم اور تربیت ہے۔

اس خطہ کی خواتین اہلیت، صلاحیت میں دنیا کے کسی بھی خطہ کی خواتین سے کم نہیں ہیں، اسی خطہ کی غیور خواتین نے بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کے شانہ بشانہ اپنا شاندار سیاسی، سماجی کردار ادا کیا اور پاکستان کے حصول کی منزل کو آسان تر بنایا، 8 مارچ کے موقع پر تحریک پاکستان میں گرانقدر خدمات انجام دینے والی خواتین کا ذکر نہ کرنا زیادتی ہو گا، آزادی کی جنگ لڑنے والے عظیم خواتین میں مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح، بیگم شائستہ اکرام اللہ، لیڈی نصرت عبداللہ ہارون، بیگم رعنا لیاقت علی خان، بیگم تصدیق حسین، بیگم قاضی عیسیٰ، انجم آراء بیگم، بیگم اختر قریشی، راحیل خاتون شیروانی، بیگم عفت الٰہی کے نام سرفہرست ہیں، یہ وہ عظیم خواتین ہیں جنہوں نے اپنی عائلی زندگیوں سے بھی انصاف کیا اور ایک بھرپور قومی زندگی بھی گزاری، یہ خواتین باشعور اور اعلیٰ تعلیم یافتہ تھیں اور اپنی انہی خوبیوں کی وجہ سے انہوں نے آج سے 100 سال قبل پورے اعتماد کے ساتھ برصغیر کے غلام مسلمانوں کیلئے آزادی کی جنگ لڑی، اگر یہ خواتین پڑھی لکھی نہ ہوتیں تو شاید تحریک پاکستان میں خواتین کا کردار نظر نہ آتا ، بلاشبہ پاکستان کو قائداعظم کی شکل میں ایک ایسا عظیم لیڈر ملا جو خواتین کے کردار اور ان کے حقوق سے اچھی طرح واقف تھا اور انہوں نے قدم قدم پر خواتین کی حوصلہ افزائی کی صرف برصغیر کی مسلم خواتین کیلئے ہی انہوں نے اپنا شاندار قانونی، سیاسی، سماجی کردار ادا نہیں کیا بلکہ انہوں نے یورپ کی خواتین کے حقوق کی قانونی جنگ میں بھی ان کا ساتھ دیا اور ہندو معاشرے کی ستم رسیدہ کم درجے کی خواتین کے حقوق کی بھی جنگ لڑی، یہاں پر بانی پاکستان کے خواتین کے حقوق کے حوالے سے انجام دئیے جانے والے دو واقعات ذکر Motivational ہوگا، 1918ء میں انڈین پارلیمنٹ میں کم درجے کی ہندو عورتوں کے حقوق کے حوالے سے ایک بل پیش ہوا، 1918ء کی انڈین پارلیمنٹ میں ہندوؤں کی اکثریت تھی اور مسلمان بہت تھوڑی تعداد میں تھے تو مسلم پارلیمنٹرینز نے قائداعظم محمد علی جناح کو مشورہ دیا کہ ہم اس بل کے حوالے سے نیوٹرل رہیں کیونکہ ہندوؤں نے اس کی مخالفت کرنی ہے اور ہمیں عددی اعتبار سے شکست ہو گی لیکن بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح نے جواب دیا کہ یہ بل ہندو معاشرہ کی کمزور ترین خواتین کی مشکلات اور مصائب کم کرنے کا ایک ذریعہ ہے، میں اس میں تادم آخر دلچسپی لیتا رہوں گا اور پھر تن تنہا قائداعظم محمد علی جناح نے اس بل کا دفاع کیا اور ان کے موثر دلائل کے بعد ہندو پارلیمنٹرینز جو برہمنوں اور پنڈتوں کے خوف سے خاموش تھے آخر میں وہ بھی اس بل کی حمایت میں بولنے لگے، اسی طرح 16ستمبر 1948 ء کو قائداعظم کی رحلت کے بعد ان کی یاد میں لندن کے کیکسٹن ہال میں ایک جلسہ ہوا جس میں خواتین کے حقوق کی نمائندہ آواز اور رہنما ہیری سن نے خطاب کرتے ہوئے کہا جب عوامی مخالفت کے خوف سے اکثر لوگ ہماری تحریک کی حمایت میںآواز اٹھانے کی جرأت نہیں کرتے تھے تو اس وقت مسٹر جناح ہمیشہ ہماری دعوت پر ہمارے جلسوں میں آئے اورہر بار پرزور دلائل کے ساتھ ہماری تحریک کی حمایت کی حالانکہ اس وقت ہماری تحریک کے حق میں بولنا اپنے آپ کو نفرت کا نشانہ بنانے کا مترادف تھا، مذکورہ بالا واقعات رقم کرنے کا مقصد یہ ہے کہ جس قوم کا سیاسی لیڈر خواتین کے حقوق کے حوالے سے اس قدر روشن خیال اور جرأت مند ہو اس قوم کی سیاسی قیادت خواتین کو حقوق دلوانے کے حوالے سے دوہرے معیار کی حامل کیوں ہے اور خواتین کی امپاورمنٹ کے حوالے سے مصلحت پسند رویے کا مظاہرہ کیوں کرتی ہے؟

پاکستان ایک اسلامی ملک ہے اور اسلام کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ جس نے سب سے پہلے خواتین کے حقوق کا چارٹر پیش کیا، خواتین کو ماں، بہن، بیٹی کے روپ میں عزت اور حقوق دئیے اور قرآن و حدیث کے اندر لاتعداد آیات اور فرامین نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم موجود ہیں جو خواتین کی عزت و تکریم پر بحث کرتے ہیں، مگر افسوس آج اسی پاکستان کی حالت زار ناگفتہ بہ ہے اور خواتین کو حقوق تو درکنار وہ تحفظ بھی میسر نہیں جو انسانیت کی بنیادی ضرورت ہے، خواتین کے غیر محفوظ ہونے سے متعلق برطانوی ادارے ’’تھامس رائٹر فاؤنڈیشن ‘‘کی ایک حالیہ رپورٹ رواں ماہ شائع ہوئی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان خواتین کے لیے خطرناک ممالک کی فہرست میں چھٹے نمبر پر ہے۔ خواتین بے دھڑک گھروں سے باہر نہیں نکل سکتیں، سب سے زیادہ سٹریٹ کرائم کا نشانہ خواتین بنتی ہیں، دفاتر میں خواتین ’’ہراسمنٹ ‘‘کا شکار ہیں، اسلام کے نام پر حاصل کیے گئے ملک میں خواتین کا غیر محفوظ ہونا اور بے دھڑک گھروں سے نہ نکل سکنا ایک بہت بڑا المیہ ہے، حقوق تو بہت بعد میں آتے ہیں حکومت کو سب سے پہلے خواتین کے تحفظ کیلئے ہنگامی اقدامات کرنے ہونگے ، اس تناظر میں سپریم کورٹ کے جج جسٹس عظمت سعید کے ریمارکس قابل تعریف ہیں جس میں انہوں نے کہا ہے کہ خواتین کی ورک پلیس پر ہراسگی ختم کروانے کیلئے حکومت مضبوط اور موثر قانون سازی کرے۔ اگر ہم خواتین کو ہراساں ہونے سے نہیں بچاسکتے تو پھرہمیں شرم آنی چاہیے، جو کلمہ گو مسلمان خواتین کو ہراساں کرتے ہیں وہ جان لیں قرآن کی رو سے وہ مجرم اور اللہ کے احکامات کے منکر اور قیامت کے دن بخشش اور رحم سے محروم رہیں گے، سورۃ النور میں اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ مومن مرد اپنی نگاہیں نیچی رکھیں، عصمت و حیا کے پیکر مردوں اور عورتوں کیلئے بخشش اور اجر عظیم کا وعدہ ہے، خواتین کے عزت و احترام اور تحفظ کو یقینی بنانے کیلئے علمائے کرام، حکومت اور عدلیہ کو اپنا قومی، ملی، آئینی، قانونی اور اخلاقی کردار ادا کرنا ہو گا۔اسلامی ملک پاکستان کی خواتین کیلئے غیر محفوظ ہونے کی خطرناک ریٹنگ کسی طور قابل قبول نہیں ہے۔ اس درجہ بندی سے ثابت ہوتا ہے کہ خواتین کے تحفظ کیلئے بننے والے قوانین پر عمل ہورہا ہے اور نہ ہی متعلقہ ادارے اس ضمن میں اپنی ذمہ داریاں پوری کررہے ہیں۔ آئین کے آرٹیکل 34 کے تحت ریاست قومی زندگی کے تمام شعبوں میں عورتوں کی مکمل شمولیت کو یقینی بنانے کیلئے اقدامات کرنے کی پابند ہے، اس کے علاوہ آئین کے آرٹیکل 35 کے تحت ریاست خاندان، ماں اور بچے کی حفاظت کرنے کی پابندہے، ایک پڑھی لکھی خاتون جب اپنے خاندان اور بچوں کی کفالت کیلئے معاشی سرگرمیوں میں حصہ لینے کیلئے گھر سے نکلتی ہے تو اس کی حفاظت ریاست کی ذمہ داری ہے مگر افسوس ریاست اپنی اس ذمہ داری کو پورا نہیں کررہی۔

ماخوذ از ماہنامہ دخترانِ اسلام، مارچ 2019ء

تبصرہ