مرد کو اللہ نے عورت کا قوام مقرر کیا

ڈاکٹر نورین روبی، اسسٹنٹ پروفیسر اردو

حقوق نسواں کا عالمی دن منانے کا مقصد پوری دنیا کی عورتوں میں اپنے جائز حقوق کے حصول کا شعور بیدار کرتا ہے۔ خواتین بھی مردوں کی طرح بنیادی حقوق کی حق دار ہیں۔ معاشرے میں عضوِ معطل کی بجائے عورت بھی کارآمد اور فعال رکن ہے۔ شروع سے لے کر اب تک عورتوں کو ووٹ کاسٹ کرنے کا حقدار قرار دینے سے لے کر جائے ملازمت پر مردوں کے مساوی تنخواہ کے حصول تک کے لیے چلائی گئی تحریکیں تمام دنیا میں اپنے جغرافیائی ماحول، سماجی و ثقافتی پس منظر کی روشنی میں پروان چڑھی ہیں۔ اہل مغرب سے قطع نظر جب ہم برصغیر خصوصاً پاکستانی معاشرے میں اس تحریک کا جائزہ لیتے ہیں تو سیاسی، سماجی اور ادبی سطح پر خواتین کے مسائل اجاگر کئے گئے ہیں۔

ہمارا معاشرہ چونکہ مردانہ حاکمیت کا معاشرہ ہے۔ یہاں عورتوں کو مردوں کی نسبت کم مواقع ملتے ہیں۔ جہاں وہ اپنی صلاحیتوں کا لوہا منواسکیں۔ اگرچہ آج کل خواتین تمام شعبہ ہائے زندگی میں اپنی خدمات پیش کررہی ہیں لیکن اسے گھر کی چار دیواری سے لے کر جائے ملازمت تک بہت سے مسائل کا سامنا ہے۔ ابتدائی سطح پر ہمارے ہاں لڑکیوں کے لیے تعلیم کا حصول ایک جہاد سے کم نہ تھا۔ ابتدائی و ثانوی سطح پر حصول تعلیم کو معاشرے میں قبولیت عام تو حاصل ہوگئی لیکن اعلیٰ سطح کی تعلیم خواتین پر متروک سمجھی جاتی تھی۔ اس کے برعکس لڑکوں کو اس کے بھرپور مواقع حاصل تھے۔ نفسیاتی سطح پر دیکھا جائے تو جو چیز دبائو کا شکار ہوتی ہے اس کا ردعمل بھی اتنا ہی شدید ابھرتا ہے۔ یہ اسی سماجی دبائو کا نتیجہ ہے کہ ہمارے ہاں پڑھی لکھی لڑکیوں کی تعداد میں روزبروز اضافہ ہوتا جارہا ہے۔

پاکستان میں لڑکیوں کی تعلیم کے لیے اتنی آواز اٹھائی گئی کہ اب پڑھی لکھی لڑکی اسٹیٹس سمبل بن گئی ہے۔ لاشعوری طور پر خواتین نے کمتر سمجھے جانے کا ردعمل اپنی صلاحیتوں کا لوہا منواکر کیا ہے۔ مرد چونکہ خود کفیل ہیں اور عورت دست نگر، اس لیے مردوں کی برتری اور رعونت کئی گنا بڑھ گئی ہے۔ درحقیقت یہ اس احساس تفاخر کا نتیجہ ہے کہ جس میدان کا وہ تنہا کھلاڑی تھا اس کے مد مقابل عورت نے اسے بری طرح پچھاڑنا شروع کردیا ہے۔ کچھ ریاستی اداروں کی ترجیحات اور لڑکوں کی تعلیم میں عدم دلچسپی کا نتیجہ یہ نکلا تعلیم یافتہ خواتین کی نسبت کم پڑھے لکھے مردوں کی تعداد میں اضافہ ہونے لگا اور یہ گراف دن بدن بڑھتا چلا جارہا ہے۔ اس افراط و تفریط کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ تعلیم یافتہ خواتین کی شادیاں کم پڑھے لکھے مردوں سے ہونے کے نتیجے میں عدم تعاون اور عدم موافقت کے امکانات بڑھنے لگے۔

سماجی تبدیلی کا اندازہ اس خوفناک حقیقت سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ رشتہ طے کرتے وقت جہاں لڑکوں کی ملازمت اور معاشی حیثیت دیکھی جاتی تھی اب لڑکیوں کی تنخواہ اور عہدہ پوچھا جاتا ہے۔ مرد کو عورت کا قوام مقرر کرکے اللہ تعالیٰ نے اس کے سر پر برتری کا تاج پہنچایا تھا۔ لیکن بیروزگاری اور فکرِ معاش میں عدم دلچسپی کے باعث مرد احساس کمتری کے بوجھ تلے دبتے جارہے ہیں اور کمتری کی کیفیت کو بے جا احساس برتری کے لبادے میں اوڑھ رہے ہیں۔ اس کے برعکس موجودہ دور میں تقریباً ہر طبقہ کی عورت معاشی سطح پر کافی حد تک خودمختار ہوچکی ہے اور اپنی ناآسودہ خواہشات اور تمنائوں کو روپے پیسے کے ذریعے پایہ تکمیل تک پہنچانے کی کاوش کررہی ہے۔ اس کی زندہ مثال شاپنگ سنٹرز اور بازاروںمیں لباس اور دیگر لوازمات کی بے جا خریدوفروخت ہے۔

لہذا ان پڑھ اور بے روزگار مردوں کی بہت بڑی تعداد خواتین کو معاون سمجھنے کی بجائے غاصبانہ تسلط جمارہی ہے۔ فکر انگیز بات یہ ہے کہ گذشتہ دہائیوں کا سفر مرد کے استحصالی رویوں کے خلاف آواز بلند کرنے میں گذرا ہے جبکہ موجودہ صورتحال میں خواتین مضبوط قوت بن کر ابھر رہی ہے اور بعض صورتوں میں ماں، بہن، بیوی، بیٹی، ساتھی ورکر، طالبہ اور کلاس فیلوز کی شکل میں دوسری عورت کا استحصال کرتی دکھائی دے رہی ہے اور بعض انتہائی صورتوں میں خاندانوں کی تباہی کا سبب بھی بن رہی ہے۔ عورت کا یہ انتقامی رویہ دوسری عورت کے ساتھ ویسا ہی دکھائی دے رہا ہے جیسا گذشتہ دور میں مرد کا عورت کے ساتھ تھا۔

ہمارے بیشتر ڈراما نگاروں نے مرد کے ظلم و ستم، عورتوں کے ساتھ منفی رویوں اور حاکمانہ ذہنیت کی عکاسی کرنے کے ساتھ ساتھ عورت کی بے بسی اور لاچاری کو بھی موضوع بنایا ہے۔ معاشی عدم استحکام اور منفی رویوں کی وجہ سے بعض اوقات مرد محض کٹھ پتلی جبکہ عورت ایک استحصال کنندہ کے طور پر مستحکم نظر آرہی ہے۔ محض اپنی حیثیت کو منوانے کی خاطر وہ تمام سماجی اور اخلاقی رشتوں کو بھی روندتی دکھائی دے رہی ہے۔ اس کے اس منفی رویے کی وجہ سے کئی ہنستے بستے گھر اجڑ رہے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ آج کل شرح طلاق میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔ اگر بہ نظر غائر دیکھا جائے تو بظاہر حقوق آشنا عورت کامیاب دکھائی دے رہی ہے لیکن حقیقتاً وہ آج کے بیشتر مرد فکر معاش سے آزاد ہیں۔ معاشرہ ان گنت ایسی مثالوں سے بھرا پڑا ہے۔ جہاں پڑھی لکھی لڑکیوں کی بے روزگار اور ان پڑھ مردوں سے شادی کردی جاتی ہے اور اس خاموش مفاہمت کے نتیجے میں عورت ناآسودگی کا شکار ہورہی ہے۔ ایک صحت مند معاشرے کے لیے اچھا خانگی نظام بہت ضروری ہے۔ ایسا اس وقت ہی ممکن ہے جب میاں بیوی میں آسودگی اور ہم آہنگی برقرار ہو۔

جب ہم ادبی سطح پر اور ڈرامہ نگاری کا جائزہ لیتے ہیں تو بہت سے ایسے ڈراما نگار ملتے ہیں جنہوں نے عورتو ںکے خلاف مروجہ استحصالی رویے گھٹن، تشدد اور جذباتی عدم توازن کو موضوع بنایا ہے۔ ابتدائی ڈراما نگاروں میں رفاقت لکھنوی، شیخ پیر بخش کانپوری، حکیم حسن مرزا برق، ماسٹر احمد حسین، دادا بھائی رتن جی، احسن لکھنوی، بےتاب بنارسی، آغا حشر اور امتیاز علی تاج کے ہاں ہمیں عورت کی کمتری اور مرد کی برتری، سماجی رسوم و رواج سے بناوٹ، حسد و اقابت جیسے موضوعات ملتے ہیں۔ ہجرت کے دوران ہونے والی خون ریزی، فسادات کی تباہ کاریوں سے کوئی بھی قلمکار متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکا۔

ییہی وجہ ہے کہ بہت سے ڈراما نگاروں نے فسادات کی بربریت کو اپنا موضوع بنایا۔ جس میں ہندوستانی تہذیب و تمدن کی عکاسی کرتے ہوئے مرد کی بے جا حاکمیت اور انانیت کی عکاسی کی ہے جو عورت کو مساوی انسان سمجھنے سے قاصر ہے۔ حکم عدولی مزاج ناآشنائی اور رویے کی بدصورتی کی آڑ میں غم و غصے کا نشانہ بناتے ہوئے اس کی عزت نفس کی دھجیاں بکھیرتا دکھائی دیتا ہے۔ اس کے نتیجے میں عورت کے دل و دماغ میں بغاوت اور نفرت کے جذبات پیدا ہوتے ہیں جو انتہائی صورت میں انتقامی رویے کی شکل اختیارکرلیتے ہیں۔

اشفاق احمد اور بانو قدسیہ نے اپنے ڈراموں میں خانگی تشدد کی مختلف صورتیں نمایاں کی ہیں۔ دور حاضر میں ٹی وی چینلز کی بھرمار کی وجہ سے اب ڈرامہ نگاری کے موضوعات میں بھی تنوع آگیا ہے۔ اس امر میں کوئی شک نہیں کہ عورت ہمیشہ استحصالی رویے کا شکار رہی ہے اور اس کو مختلف صورتوں میں معاشرے کا ناسور بھی کہا گیا ہے۔ مگر جدید دور میں عورت کی حیثیت میں تیزی سے تبدیلی آرہی ہے وہ اگر اعتدال کی راہ پر نہ رہی تو معاشرہ مزید تباہی کی طرف جاسکتا ہے۔ اس میں میڈیا کا کردار نہایت اہم ہے۔ میڈیا صرف عورت کے ساتھ استحصالی رویوں کو ہی ڈراموں کا موضوع بنانے کی بجائے ایسے موضوعات کو اجاگر کرے جس میں مرد و عورت دونوں کو اپنے حقوق و فرائض سے آشنائی ہو تاکہ معاشرہ توازن کے ساتھ چل سکے۔

ماخوذ از ماہنامہ دخترانِ اسلام، مارچ 2019ء

تبصرہ