رحمت خداوندی اللہ کے غضب پر حاوی رہتی ہے

مرتبہ: نازیہ عبدالستار

اِنَّـآ اَنْزَلْنٰهُ فِیْ لَیْلَةٍ مُّبٰـرَکَةٍ.

’’بے شک ہم نے اسے ایک بابرکت رات میں اتارا ہے۔‘‘

(الدخان، 44: 3)

پندرہویں شعبان المعظم کی رات کو خود اللہ رب العزت نے قرآن پاک میں لیلۃ مبارکہ فرمایا ہے۔ اس رات میں چند گھڑیاں اللہ جل مجدہ کے ذکر کے لیے جاگنا، ذکر کرنا، تسبیح کرنا عبادت کرنا اور اس کی بارگاہ میں استغفار کرنا، اللہ کی خاص عنایت ہے، جب بھی استغفار کیا جائے تو یہ تصور دل میں رکھا جائے کہ میں سراپا گناہ ہوں اور سامنے اُس کے کرم اور جود و سخا کی بارگاہ ہے۔ معافی مانگنا ایک نعمت ہے اللہ اس سے پاک ہے بلکہ اس کے خزانے میں معافی دینا ہے۔ اس لیے اللہ تبارک وتعالیٰ نے بندوں کو تلقین کی کہ بندو لوگوں کو معاف کیا کرو۔ کیونکہ اللہ تبارک وتعالیٰ فرماتا ہے کہ میں معافی کو پسند فرماتا ہوں۔

ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا  نے ایک روز حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی بارگاہ میں عرض کیا:

یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  اگر میں لیلۃ القدر میں وہ خاص گھڑی پاؤں تو کیا دعا کروں، اس پر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے فرمایا کہ عائشہ اگر مقبولیت کی گھڑی مل جائے تو یہ دعا کیا کرو:

اللهم انک تحب العفوا فاعف عنی. (ترمذی، السنن)

’’اے اللہ! بے شک تو معافی کو پسند فرماتا ہے پس مجھ سے درگزر فرما۔‘‘

اللہ رب العزت کی ذات عدل کرنے والی ہے مگر عدل سے زیادہ معاف کرنے والی ہے۔ عدل کا تقاضا ہے کہ اگر بندہ سزا کا حقدار ہے تو اسے سزا دی جائے اگر جزا کا حقدار ہے تو جزا دی جائے مگر اللہ کی رحمت اس کے غضب پر حاوی ہے اسی لیے جب بندہ عرض کرتا ہے اے اللہ! تو مولا پوچھتا ہے میرے بندے بول کیسے آیا ہے؟ کیا مانگتا ہے؟ کیا چاہتا ہے تو بندہ فوراً اپنا سوال بیان نہیں کرتا یہاں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے دعا کے آداب سکھائے ہیں۔

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے فرمایا اے عائشہ رضی اللہ عنہا  اپنی حاجت پیش کرنے سے پہلے اللہ سے ایک دو باتیں ایسی کرلیا کرو کہ جس سے اللہ کی رحمت جوش میں آجائے پس کہو: ’’تو معاف کرنے کے عمل سے محبت کرتا ہے۔ اے میرے مولا! مجھے معاف فرمادے۔‘‘

اس دعا میں کسی ایک گناہ کا ذکر نہیں کیا کیونکہ بندہ تو لغزشوں کا پیکر ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے فرمایا عائشہ قبولیت کی رات اس سے بڑھ کر کوئی دعا نہیں ہے۔ اگر بندہ سچے دل سے اللہ کی بارگاہ میں معافی مانگے گا تو وہ معاف فرمادیتا ہے۔ سورۃ آل عمران میں ہے::

یٰٓـاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْکُلُوا الرِّبٰٓوا اَضْعَافًا مُّضٰعَفَةًص وَاتَّقُوا اﷲَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ.

’’اے ایمان والو! دو گنا اور چوگنا کر کے سود مت کھایا کرو، اور اللہ سے ڈرا کرو تاکہ تم فلاح پاؤ۔‘‘

(آل عمران، 3: 130)

فرمایا واتقوااللہ۔ اللہ سے ڈرا کرو لعلکم تفلحون تاکہ تم فلاح پاجاؤ۔ اس آیت میں ایک نکتہ قابل توجہ ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کو ہماری فکر ہے لہذا اس نے فرمایا سود کھانا حرام ہے اور یہ میری ناراضگی، میرے غضب کو دعوت دینے اور میرے خلاف اعلان جنگ کرنے کا باعث بنتا ہے۔ مزید فرمایا:

واتقوا النار اے میرے بندو! دوزخ سے ڈرو اور بچو۔ یہ وہ آگ ہے جس سے بچنے کی دعائیں انبیاء علیہ السلام بھی مانگتے تھے۔ انسان کو کیا خبر کہ اس کے کس عمل پر اور کس گناہ پر گرفت ہوجائے اور وہ دوزخ کی آگ میں پھینک دیا جائے۔

حضرت عمر بن عبدالعزیز  رضی اللہ عنہ  جن کو پانچواں خلیفہ راشد بھی کہتے ہیں ان کا گھر خشیت الہٰی میں آہ و بکا کے حوالے سے مشہور تھا۔ سارے شہر کے لوگ جن کے دلوں میں خوف الہٰی ہوتا عشاء کی نماز کے بعد حضرت عمر بن عبدالعزیز  رضی اللہ عنہ  کے گھر میں جمع ہوتے پھر حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ  اور اس وقت کے تابعین اور تبع تابعین اولیائ، کبار، صلحائ، متقین اتنا زارو قطار روتے کہ یوں لگتا ہے کہ جیسے اس گھر میں اچانک کوئی موت واقع ہوگئی ہے۔

عصرِ حاضر میں انسان دنیا میں یوں گم ہوگیا ہے کہ آخرت کی فکر نہیں رہی۔ لہذا ہمیں اپنے اندر کے غافل انسان کو جگانا چاہئے کہ کب آخرت کی تیاری شروع کرے گا؟

اللہ رب العزت نے فرمایا:

وَاتَّقُوا النَّارَ الَّتِیْٓ اُعِدَّتْ لِلْکٰفِرِیْنَ. (آل عمران، 3: 131)

’’اور اس آگ سے ڈرو جو کافروں کے لیے تیار کی گئی ہے۔‘‘

پھر آگ سے بچنے کا طریقہ بھی خود بتادیا فرمایا:

وَ اَطِیْعُوا ﷲَ وَالرَّسُوْلَ لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْنَ.

اگر دوزخ کی آگ سے بچنا چاہتے ہو اس کا طریقہ یہ ہے کہ اللہ کا حکم مانا کرو۔

(آل عمران،3: 132)

اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی نافرمانی کرکے دوزخ کی آگ سے بچا نہیں جاسکتا۔ اللہ کو ہمارے اوپر رحم کی کتنی فکر ہے جب رحم فرمانے والا خود ہمارے اوپر رحم کی فکر کرے تو اس سے بڑھ کر انسان کی کیا خوش قسمتی ہوگی؟ تو پھر وہ لوگ کتنے بدبخت، بدنصیب اور نادان ہیں کہ خدا اُن پر رحم کی فکر بھی کررہا ہے لیکن بندے پھر بھی اپنے آپ کو قابل رحم نہ بناسکیں۔ اللہ رب العزت نے فرمایا:

وَسَارِعُوْٓا اِلٰی مَغْفِرَةٍ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَجَنَّةٍ عَرْضُهَا السَّمٰوٰتُ وَالْاَرْضُلا اُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِیْنَ.

’’اور اپنے رب کی بخشش اور اس جنت کی طرف تیزی سے بڑھو جس کی وسعت میں سب آسمان اور زمین آجاتے ہیں، جو پرہیزگاروں کے لیے تیار کی گئی ہے۔‘‘

(آل عمران، 3: 133)

اللہ کی بخشش و رحمت منتظر رہتی ہے کہ بندہ اپنے گناہوں کی مغفرت طلب کرے اور اللہ تعالیٰ اسے معاف کردے۔ ایسے لوگوں کے لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

عَرْضُهَا السَّمٰوٰتُ وَالْاَرْض.

وہ جنت جس کی چوڑائی میں زمین و آسمان ساری کائنات کی چوڑائی آجائے اور یہ جنت اللہ تعالیٰ نے متقین کے لیے تیار کررکھی ہے۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے۔ متقین کون ہیں؟ اس کا جواب بھی اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں فرمادیا::

الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ فِی السَّرَّآءِ وَالضَّرَّآءِ وَالْکَاظِمِیْنَ الْغَیْظَ وَالْعَافِیْنَ عَنِ النَّاسِط وَﷲُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ.

’’یہ وہ لوگ ہیں جو فراخی اور تنگی (دونوں حالتوں) میں خرچ کرتے ہیں اور غصہ ضبط کرنے والے ہیں اور لوگوں سے (ان کی غلطیوں پر) درگزر کرنے والے ہیں، اور اللہ احسان کرنے والوں سے محبت فرماتا ہے۔‘‘

(آل عمران، 3: 134)

دوسری ان کی خصوصیت یہ ہے کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

وَّاِذَا خَاطَبَهُمُ الْجٰهِلُوْنَ قَالُوْا سَلٰمًا.

’’اور جب ان سے جاہل (اکھڑ) لوگ (ناپسندیدہ) بات کرتے ہیں تو وہ سلام کہتے (ہوئے الگ ہو جاتے) ہیں۔‘‘

(فرقان، 25: 63)

درشت گوئی، تہمتیں لگانے اور زیادتیاں کرنے والوں سے متعلق اللہ پاک نے فرمایا جب تم ان سے مخاطب ہوا کرو تو ان پر سلام بھیج کر ایک طرف ہوجاؤ۔ کسی کے ظلم سے اور بری صحبت سے لاتعلق ہونے کی اجازت ہے مگر دل میں اس کے خلاف کدورت، رنج، انتقام، غصہ، بغض اور عناد رکھنے کی اجازت نہیں۔ حدیث مبارکہ میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے فرمایا:

’’مومن ایک سوراخ سے دوبارہ نہیں ڈسا جاتا۔‘‘

مثلاً کسی رشتہ دار، عزیز، دوست نے ایک شخص کو نقصان پہنچایا اب وہ اس کی سرشت، فطرت، طبیعت اور مزاج کو سمجھ گیا ہے۔ اگر وہ مومن ہے تو دوبارہ ڈسنے کا موقع نہ دے اس سے الگ ہوجائے مگر اس کے ظلم و زیادتی سے جو ایک رنج پیدا ہوا ہے اس سے انتقام نہ لے بلکہ غصہ کو پی جائے کیونکہ غصے کو پی جانا ہی تقویٰ ہے۔

معاف کرنے سے اللہ کی بارگاہ سے اجر ہے اس کے بعد اللہ رب العزت نے فرمایا اللہ پاک احسان کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔ یہ صورت اکثر رشتہ داروں میں پیش آتی ہے اور تقویٰ سے ولایت شروع ہوتی ہے۔ فرمایا:

اِنْ اَوْلِیَآئُهٗٓ اِلَّا الْمُتَّقُوْنَ.

’’بے شک اللہ کے ولی تو صرف وہی لوگ ہیں جو متقی ہیں۔‘‘

(الانفال، 8: 34)

جبکہ ہم سمجھتے ہیں کہ خاص قسم کا لباس، خاص قسم کی رہائش اور خوراک لینے میں ولایت ہے۔ حضرت سلطان الاولیاء محبوب الہٰی خواجہ نظام الدین اولیاء کا فرمان ہے: فقیری اس چیز کا نام نہیں کہ اچھا لباس اتار کر لنگوٹا کس لیا جائے، کھانے پینے، پہننے اور رہن سہن میں ایک خاص وضع بنالے، اس کا ولایت کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔

اولیاء کا ترک دنیا یہ ہے کہ پورے طور پر دنیا میں رہے لیکن دنیا کو دل میں نہ آنے دے۔ بس یہ مقام اگر اخلاص اور استقامت کے ساتھ پالیا جائے تو اس کو فقر کہتے ہیں اور من کے اندر یہ انقلاب لانا ہے کہ زندگی حرام سے پاک ہوجائے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی شریعت کی اتباع، سنت کی پیروی کا نور اور رنگ چڑھ جائے۔

بقول علامہ اقبال

کافر کو یہ پہچان کہ آفاق میں گم ہے
مومن کی یہ پہچان گم اس میں ہیں آفاق

کافر کی پہچان یہ ہے کہ دنیا کے پیچھے لگا ہوا ہے جبکہ دنیا مومن کے پیچھے ہوتی ہے۔ ایک مقام پر فرمایا:

نہ تو زمین کے لیے ہے نہ آسمان کے لیے
جہاں ہے تیرے لیے تو نہیں جہاں کے لیے

اے بندے جہانِ دنیا کی آسائشوں سے نفع اٹھا مگر دنیا کا پجاری نہ بن۔

وَالَّذِیْنَ اِذَا فَعَلُوْا فَاحِشَةً اَوْ ظَلَمُوْٓا اَنْفُسَهُمْ.

’’اور (یہ) ایسے لوگ ہیں کہ جب کوئی برائی کر بیٹھتے ہیں یا اپنی جانوں پر ظلم کر بیٹھتے ہیں۔‘‘

(آل عمران، 3: 135)

اس سے معلوم ہوا یہ ضروری نہیں کہ اللہ کے بندوں سے گناہ نہیں ہوتا۔ متقی سے بھی گناہ ہوسکتا ہے۔ جس سے گناہ نہیں ہوسکتا وہ نبی کی ذات ہے یا فرشتے۔ نبی سے اس لیے گناہ نہیں ہوسکتا کہ نبی کو اللہ نے گناہ سے معصوم کردیا ہے اور فرشتوں میں گناہ کی طاقت ہی نہیں رکھی۔ انبیاء کے بعد صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے لے کر تابعین، تبع تابعین، اولیائ، غوث، قطب، ابدال، نقبائ، شہدائ، صالحین، مومنین و متقین جتنے طبقات ہیں ان سب سے گناہ ہوسکتا ہے۔ متقی اور فاسق میں فرق یہ ہے فاسق گناہ کرتا ہے تو کرتا چلا جاتا ہے۔ گناہ کو اپنا معمول بنالیتا ہے جبکہ متقی سے گناہ ہوجائے تو اس کے مزے میں آگے نہیں چلتا جاتا اگر کوئی غلطی کر بیٹھے تو اللہ فوراً یاد آجاتا ہے وہ فوراً اس کی بارگاہ میں عرض کرتا ہے کہ ’’مولا میں تیری نافرمانی کر بیٹھا‘‘ تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے میرے بندے مایوس نہ ہونا میں معاف نہیں کروں گا تو میرے علاوہ کون ہے معاف کرنے والا۔

یہ لوگ اللہ کے حضور استغفار کرتے اور معافی مانگ کر اللہ کو مناتے ہیں۔ معافی مانگنے سے بہتر اللہ کو منانے کا کوئی طریقہ نہیں ہے مزید یہ کہ اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں، غصہ کو پی جاتے ہیں۔ اللہ کی رحمت درج ذیل کاموں سے جوش میں آتی ہے:

  1. اللہ کی راہ میں خرچ کرنے سے جو جتنا زیادہ اللہ کی راہ میں خرچ کرے گا اللہ کی رحمت اتنی زیادہ جوش میں آئے گی۔
  2. دوسرا عمل جو اللہ کی رحمت کو جوش میں لانے کا وہ غصہ کو ضبط کرلینا ہے۔
  3. تیسرا عمل زیادتی کرنے والے کو معاف کردینا۔
  4. چوتھا عمل اگر گناہ ہوجائے تو اللہ کو یاد کرنا۔
  5. پانچواں عمل اپنے گناہوں پر اللہ سے کثرت کے ساتھ معافی مانگنا۔

جب یہ پانچ عمل کرلیے جائیں تو اللہ کی طرف سے ندا آتی ہے، اے میرے بندے! اگر تو نے یہ کام کردیئے ہیں تو میری بارگاہ سے خوشخبری بھی سن لو، میں ہی تمہارے گناہوں کو مٹانے والا ہوں۔

  1. اللہ پاک نے آگے ارشاد فرمایا: ایک وعدہ مجھ سے بھی کرلے کہ اس گناہ کو زندگی میں دوبارہ نہ کرنا۔

وَلَمْ یُصِرُّوْا عَلٰی مَا فَعَلُوْا.

’’اور پھر جو گناہ وہ کر بیٹھے تھے ان پر جان بوجھ کر اصرار بھی نہیں کرتے۔‘‘

(آل عمران، 3: 135)

بس یہی وہ لوگ ہیں جن کی جزا اللہ کی بارگاہ سے بخشش ہے اور جنات ہیں اس سے مراد ایک جنت نہیں ہے بلکہ بےبہا جنتیں ہیں۔

خلاصہ یہ ہے کہ انسان کو مذکورہ بالا چیزوں پر ہمیشہ کاربند رہنا چاہئے۔ اگر ان اعمال کو اپنا لیا جائے تو اللہ کی طرف سے انہیں متقی کی ڈگری مل جائے گی۔یہ اعلان مل جائے گا کہ اللہ کو تم سے پیار ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ہمارے حال پر رحم فرمائے اور ہمارے حال کی اصلاح فرمائے اور تقویٰ کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)

ماخوذ از ماہنامہ دخترانِ اسلام، اپریل 2019ء

تبصرہ