مقامات اور احوال صوفیاء

جویریہ ابراہیم

اللہ تعالیٰ نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مبعوث کیا تو بہت سی ذمہ داریوں کے ساتھ تعلیم قرآن کا فریضہ بھی آپ کے سپرد کیا اور فرمایا:

وَیُعَلِّمُهُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَةَ.

(آل عمران، 3: 164)

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قرآن سے مختلف علوم کا استنباط کرکے انہیں مخلوق خدا تک پہنچایا جن میں حدیث، فقہ اور تصوف کے علوم مرکزی حیثیت رکھتے ہیں۔ محدثین نے جہاں احادیث کا ذخیرہ علم حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد لوگوں تک پہنچایا وہیں اہل فقہ حضرات نے ظاہری برائیوں سے انسان کو بچانے کے لیے احکامات مدون کئے ان میں تیسرا طبقہ ایسا ہے جن کی نظر ہمیشہ شے کے ظاہر کی بجائے باطنی حقیقت پر رہی ہے وہ طبقا صوفیاء کا ہے۔ اہل صوفیاء اپنے عمل سے امت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ظاہر و باطن کی تربیت کرتے رہے ہیں۔ ان کے معمولات لوگوں کے لیے مشعل راہ ہیں۔ تصوف کے باب میں بے شمار بزرگان دین کا ذکر ملتا ہے جنہوں نے اپنے فکرو عمل سے لاکھوں افراد کو دین محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روشناس کروایا۔ ان ہستیوں کے معمولات راہ سلوک و معرفت پر چلنے والے افراد کے لیے نمونہ ہیں یہی وجہ ہے کہ مختلف ادوار میں علم تصوف کے تعارف میں احوال صوفیاء پر ان گنت کتب تحریر کی گئی ہیں۔ اس سلسلہ میں تصوف کی امہات کتب میں کتاب اللمع کو اولین کتاب کا درجہ حاصل ہے جو شیخ ابونصر سراج طوسی رحمہ اللہ علیہ نے تیسری صدی ہجری میں تصنیف کی۔

اس کے علاوہ الرسالۃ القشیریۃ، کشف المحجوب، قوت القلوب، غنیۃ الطالبین جیسی کتب بھی احوال و اقوال صوفیاء پر مدون ہوئیں جن میں صوفیاء کے راہ سلوک پر گامزن ہونے کے مختلف مقامات بھی بیان کئے گئے ہیں جو آج ہماری تربیت کے لیے ناگزیر ہیں۔ زیر نظر مضمون میں انہیں مقامات صوفیاء میں سے پہلا مقام ’’توبہ‘‘ بیان کیا جارہا ہے۔ صوفیاء کا وہ پہلا قدم ہے جس پر چل کر کوئی حضرت بشر الحافی رحمۃ اللہ علیہ ، کوئی فضیل ابن عیاض اور کوئی حضرت عبداللہ ابن مبارک بنے۔ توبہ کے بعد اگلے مقامات مقام ورع، زہد، فقر، صبر، رضا اور توکل آتے ہیں۔

مقام التوبہ

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

وَتُوْبُوْٓا اِلَی ﷲِ جَمِیْعًا اَیُّهَ الْمُؤْمِنُوْنَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ.

’’اے ایمان والو! تم سب کے سب اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرو تاکہ تم فلاح پاؤ۔‘‘

(النور، 24: 31)

تعریف

لغت میں توبہ سے مراد ’’گناہوں سے پھر جانا‘‘۔

’’عربی زبان میں لفظ ’’توبہ‘‘ کے حقیقی معنی رجوع کرنے کے ہیں۔ چنانچہ جب کوئی شخص کسی سے رجوع کرتا ہے تو کہتے ہیں ’’تاب‘‘ لہذا توبہ کے معنی یہ ہوئے کہ شریعت میں جو کچھ مذموم ہے اس سے لوٹ کر قابل تعریف شے کی طرف آنا۔‘‘

(رسالة القشیریة)

لغتِ عرب کے مطابق حقیقت توبہ ’’رجوع‘‘ ہے۔ کہا جاتا ہے ’’تاب‘‘ یعنی رجوع کیا۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

الندم توبة.

’’ندامت توبہ ہے۔‘‘

توبہ کے مفہوم سے متعلق صوفیاء کے اقوال درج ذیل ہیں:

اقوالِ صوفیاء

سہل بن عبداللہ تستری رحمہ اللہ علیہ نے فرمایا:

ابتداً بندے کو توبہ کا حکم دیا جاتا ہے اور یہ شرمندگی ہے کہ برے افعال سے باز آجانا اور چھے کاموں کی طرف رجوع کرنا۔ (کشف الخفاء عن حقائق الصفاء از ڈاکٹر محمد طاہرالقادری)

حضرت ذوالنون مصری رحمہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

الاستغفار من غیر اقلاع توبة الکاذبین.

’’گناہ سے باز آئے بغیر توبہ، جھوٹے لوگوں کی توبہ ہے۔‘‘

(کتاب اللمع)

حضرت جنید بغدادی رحمہ اللہ علیہ سے توبہ کے متعلق سوال کیا گیا تو فرمایا:

’’توبہ یہ ہے کہ تم اپنے گناہوں کو عمل میں لانے سے بھول جاؤ۔‘‘ (کتاب اللمع)

حضرت ذوالنون مصری رحمہ اللہ علیہ نے فرمایا:

’’توبہ کی حقیقت یہ ہے کہ تیرے اوپر زمین اپنی وسعت کے باوجود تنگ آجائے اور تیرے اوپر تیرا نفس تنگ آجائے اور تو یہ گمان کرے کہ اللہ کے سوا تیری کوئی پناہ گاہ نہیں۔‘‘ (کشف الخفاء عن حقائق الصفاء)

حضرت جنید بغدادی رحمہ اللہ علیہ نے فرمایا:

توبہ کے تین معانی ہیں:

  1. ندامت
  2. جس کام سے اللہ نے منع فرمایا، اس کی عادت ترک کرنا۔
  3. دوسروں کے حقوق ادا کرنے کی کوشش کرنا۔

(رساله قشیریه)

حضرت رابعہ بصری رحمہ اللہ علیہ فرماتی ہیں:

’’ہماری توبہ بھی توبہ کی محتاج ہوتی ہے۔‘‘

پھر فرماتی ہیں: ’’زبان کے ساتھ مغفرت طلب کرنا جھوٹے لوگوں کی توبہ ہے۔‘‘ (کشف الخفاء عن حقائق الصفاء)

حضرت ابو نصر سراج رحمہ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابو یعقوب یوسف رحمہ اللہ علیہ بن حمدان سوسی فرماتے ہیں:

’’ہر شے سے علیحدہ ہوکر اللہ کا ہوجانے والوں کا پہلا مقام توبہ ہے۔‘‘ (کتاب اللمع) (رسالہ قشیریہ)

محمد بن علی رحمہ اللہ علیہ سے توبہ کے متعلق سوال کیا گیا تو انہوں نے فرمایا:

’’تم تمام مذموم چیزوں سے اچھی چیزوں کی طرف جاؤ، پھر اس پر پختہ ہوجاؤ، پھر تمام مشقتوں کی طرف جاؤ (یعنی برداشت کرنا)، پھر تمام مجاہدوں اور ریاضتوں کی طرف جاؤ، پھر اس پر پختہ ہوجاؤ، پھر رشد و ہدایت کی طرف پھر تم اللہ تعالیٰ کی دوستی کا ادراک کرلو گے اور اچھی محنت کرنا۔‘‘

اور اسی طرح کہا: ’’اللہ تعالیٰ کی شریعت میں پہلا راستہ توبہ ہے۔‘‘ (کشف الخفاء عن حقائق الصفاء)

حضرت ذوالنون مصری رحمہ اللہ علیہ نے فرمایا: ’’عوام کی توبہ گناہوں سے ہے اور خواص کی توبہ غفلت سے ہے۔‘‘ (رسالہ قشیریہ)

حضرت سری سقطی رحمہ اللہ علیہ سے توبہ کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا: ’’کہ تو اپنے گناہوں کو بھول جا۔‘‘

حضرت جنید بغدادی رحمہ اللہ علیہ سے پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا: ’’کہ توبہ یہ ہے کہ تو اپنے گناہوں کو نہ بھول۔‘‘

یہ دونوں قول صحیح ہیں بے شک حضرت سری سقطی رحمہ اللہ علیہ کے قول سے مراد خواص کی توبہ ہے بے شک وہ اپنے گناہوں کو یاد نہیں کرتے۔ (یعنی توبہ کا ارادہ)۔

حضرت جنید بغدادی رحمہ اللہ علیہ نے اپنے قول میں عوام کی توبہ کا ارادہ کیا ہے یعنی عوام کی توبہ یہ ہے کہ وہ اپنے گناہوں کو نہیں بھولتے جبکہ خواص اس مقام پر ہوتے ہیں کہ اپنے گناہوں کو یاد نہیں کرتے اور یہ سلوک کی ابتداء ہے۔ توبہ کے تین درجے ہیں:

توبہ کے تین درجات

پہلی توبہ: خواہشات سے توبہ کرنا اور یہ عوام کی توبہ ہے۔

دوسری توبہ: غفلت سے توبہ کرنا اور یہ خواص کی توبہ ہے۔

تیسری توبہ: نیکیوں کو دیکھنے سے توبہ کرنا اور یہ خص الخواص کی توبہ ہے۔

حضرت سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: ’’لوگوں کی ہلاکت دو چیزوں میں ہے ان میں سے ایک یہ کہ بندہ توبہ کی امید کرتا رہے اور توبہ نہ کرے اور اس امید پر توبہ میں دیر کرتا رہے کہ ابھی زندگی بہت لمبی ہے۔‘‘

حضرت عبداللہ بن جلاء رحمہ اللہ علیہ سے پوچھا گیا: توبہ کرنے والے کی توبہ کب قبول ہوتی ہے؟ تو آپ رحمہ اللہ علیہ نے فرمایا: ’’جب بائیں طرف والا فرشتہ بیس سال تک اس کے گناہ نہ لکھ سکے‘‘۔

حصول توبہ کے مراتب

  1. برے لوگوں کی صحبت ترک کردینا۔
  2. ممنوع کاموں کے ارتکاب سے رک جانا اور خواہشات کی تابعداری سے اپنے نفس کی لگام کھینچ لینا۔
  3. توبہ کو کامل کرنے والی چیزوں کو اپنے دل میں زیادہ جگہ دینا مثلاً خوف اور امید سے دل کی نیت مضبوط ہوتی ہے۔
  4. ہر وقت موت کے لیے تیار رہنا۔

مقبول توبہ کی پہچان

جس شخص کی توبہ قبول ہوتی ہے، اس کی پہچان ان چیزوں سے ہوتی ہے۔

  1. وہ فاسق اور گناہگار لوگوں سے بالکل جدا ہوجاتا ہے اور ان کا خوف اور ہیبت بالکل اپنے دل میں نہیں پاتا اور نیک لوگوں سے میل رکھتا ہے۔
  2. دنیا کی فکر اس کے دل سے دور ہوجائے اور آخرت کی فکر اور غم ہمیشہ اس کے دل میں رہے۔

توبہ اور احوالِ صوفیاء

حضرت ابو نصر بشر بن حارث حافی رحمہ اللہ علیہ کی توبہ: آپ رحمہ اللہ علیہ کی توبہ کا سبب یہ ہوا کہ آپ رحمہ اللہ علیہ کو راستے میں پڑا ہوا ایک کاغذ ملا جس پر اللہ تعالیٰ کا نام لکھا ہوا تھا اور وہ پاؤں کے نیچے روندا جارہا تھا۔ آپ رحمہ اللہ علیہ نے اسے اٹھایا اور آپ رحمہ اللہ علیہ کے پاس ایک درہم تھا جس سے آپ رحمہ اللہ علیہ نے خوشبو خریدی اور اس کاغذ پر مل دی اور پھر اسے دیوار کے ایک سوراخ میں رکھ دیا۔ اس کے بعد آپ رحمہ اللہ علیہ نے خواب میں دیکھا کہ ایک کہنے والا آپ رحمہ اللہ علیہ سے کہہ رہا ہے۔

’’اے بشر! تم نے میرے نام کو خوشبو لگائی۔ میں دنیا اور آخرت میں تیرے نام کی خوشبو پھیلادوں گا۔‘‘

حضرت ابو علی دقاق رحمہ اللہ علیہ فرماتے ہیں: حضرت بشر حافی رحمہ اللہ علیہ کچھ لوگوں کے پاس سے گزرے تو ان لوگوں نے کہا ’’یہ شخص رات بھر سوتا نہیں ہے اور تین دنوں میں صرف ایک دن روزہ نہیں رکھتا۔ یہ سن کر آپ رحمہ اللہ علیہ رونے لگے، آپ رحمہ اللہ علیہ سے رونے کی وجہ پوچھی گئی تو آپ رحمہ اللہ علیہ نے فرمایا:

’’مجھے یاد نہیں کہ میں نے پوری رات جاگ کر گزاری ہو اور دن بھر روزہ رکھا ہو اور رات تک کچھ نہ کھایا پیا ہو لیکن اللہ تعالیٰ اپنے لطف و کرم سے دلوں میں عمل ڈال دیتا ہے۔‘‘ (جاری ہے)

ماخوذ از ماہنامہ دخترانِ اسلام، اپریل 2019ء

تبصرہ