انسانیت کی فلاح و نجات کا راستہ اسوہ حسنہ کی اتباع میں ہے

تاریخ انسانیت کا سیاہ دور اپنے عروج پر تھا۔ معصیت کی کالی آندھیوں کے گرد و غبار نے چہار دانگ عالم کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا۔ شرک و کفر کی گرم بازاری، ہوس رانی اور اخلاقی گراوٹ نے انسان کو ذلت کے پست ترین گڑھے میں گرا دیا تھا۔ انسانیت ظلم و استبدادکے بے رحم طمانچوں کا شکار تھی۔ روشنی کی کوئی کرن دکھائی نہ دیتی تھی۔ ہر شے دستگیری کی منتظر تھی۔

بالآخر انسانیت کی حالت زار پر قدرت مہربان ہوئی۔ رحمتِ خداوندی نے جوش میں آ کر تاریخ کا رخ موڑ دیا اور اس کائنات کی تقدیر بدل کر رکھ دی۔ فاران کی چوٹیوں سے رحمت کی گھنگور گھٹا اٹھی، خالقِ کائنات نے وجہ تخلیق کائنات محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پیدا فرما کر مقصد تخلیق کائنات پورا فرما دیا اور مخلوقِ خدا کے لیے دائمی بہار جانفزا کا اہتمام فرما دیا۔ بقول شاعر:

تاریک تھا، ظلمت کدہ تھا، سخت کالا تھا
پردے سے پردہ کیا نکلا کہ گھر گھر میں اجالا تھا

وجود مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے منصہ شہود پر جلوہ گر ہونے سے گلزارِ عالم میںنور حق پھیلا اور جہانِ رنگ و بو میں آثارِ حیات نمودار ہوئے۔ نور مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ضیاء پاشیوں سے اُمید کی کرنیں چار سو روشنی پھیلانے لگیں اور ظلمت زدہ اراضی بقعہ نور بن گئی۔ آمدِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ظلم و ستم کے آہنی شکنجوں میں جکڑی ہوئی انسانیت کو ہر قسم کی رہائی کا مژدہ جاں فزا ملا۔ وجود مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے شرق تا غرب کائنات کے ہر ہر گوشے کو منور و تاباں کر دیا۔

علامہ نورالدین علی بن ابراہیم بن احمد حلبی شافعی لکھتے ہیں:

’’جس سال نور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت آمنہ رضی اللہ عنہا کو ودیعت ہوا۔ وہ فتح و نصرت، ترو تازگی اور خوشحالی کا سال کہلایا۔ اہل قریش اس سے قبل معاشی بدحالی، عسرت اور قحط سالی میں مبتلا تھے۔ ولادت کی برکت سے اس سال اللہ تعالیٰ نے بے آب و گیاہ زمین کو شادابی اور ہریالی عطا فرمائی اور سوکھے درختوں اور مردہ شاخوں کو ہرابھرا کرکے انہیں پھلوں سے لاد دیا۔ اہل قریش اس طرح ہر طرف سے خیرِ کثیر آنے سے خوشحال ہوگئے۔‘‘

(السیرة الحلبیة، 1: 72)

رحمتِ دو عالم کے جلوہ افروز ہونے سے کائنات ہست و بود میں توحید کا نور پھیلا۔ بندگانِ خدا کو ایمان کی حلاوت، علم کو عرفان، عمل کو صالحیت، بے مقصدیت کو آگہی اور نفرت کو محبت ملی۔ یوں چودہ سو سال پہلے حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وجود مسعود کے تصدق سے جو بہار جاوداں آئی۔ اس سے ابدی اور دائمی انوار و فیوضات کا ایسا سرچشمہ جاری ہوا۔ جس نے عالم جن و انس، عالم نباتات و جمادات، عالم چرند و پرند حتی کہ عالم لاہوت و ملکوت کے لیے نہ صرف قیامت تک بلکہ اس کے بعد بھی موجزن رہنا ہے۔ یوں ذاتِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رونق بزم کائنات ٹھہری۔ بقول حکیم الامت علامہ اقبال:

ہو نہ یہ پھول تو بلبل کا ترنم بھی نہ ہو
چمن دہر میں کلیوں کا تبسم بھی نہ ہو

ولادتِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے ایک مومن کی زندگی کی سب سے بڑی خوشی اور عظیم ترین نعمت بنا دیا اور اس نعمت عظمیٰ کے لیے خود رب تعالیٰ نے خوشیاں منانے کا حکم فرمایا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

قُلْ بِفَضْلِ اﷲِ وَبِرَحْمَتِهٖ فَبِذٰلِکَ فَلْیَفْرَحُوْاط هُوَ خَیْرٌ مِّمَّا یَجْمَعُوْنَo

فرما دیجیے: (یہ سب کچھ) اللہ کے فضل اور اس کی رحمت کے باعث ہے (جو بعثتِ محمدی کے ذریعے تم پر ہوا ہے) پس مسلمانوں کو چاہیے کہ اس پر خوشیاں منائیں، یہ اس (سارے مال و دولت) سے کہیں بہتر ہے جسے وہ جمع کرتے ہیں۔

(یونس، 58: 10)

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری مذکورہ آیت مبارکہ کی تصریح یوں فرماتے ہیں:

’’اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ کا روئے خطاب اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ہے کہاے رسول مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے صحابہ l اور ان کے ذریعے پوری امت کو بتادیجئے کہ ان پر اللہ کی جو رحمت نازل ہوئی ہے وہ ان سے اس امر کی متقاضی ہے کہ اس پر جس قدر ممکن ہوسکے خوشی اور مسرت کا اظہار کریں۔ جس دن حبیب خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت مبارکہ کی صورت میں عظیم ترین نعمت انہیں عطا کی گئی ہے اسے شایان شان طریقے سے منائیں۔ اس آیت میں حصول نعمت کی یہ خوشی اُمت کی اجتماعی خوشی ہے جسے اجتماعی طور پر جشن کی صورت میں ہی منایا جاسکتا ہے۔ چونکہ حکم ہوگیا ہے کہ خوشی منائو اور اجتماعی طور پر خوشی عید کے طور پر منائی جاتی ہے یا جشن کے طور پر۔لہٰذ آیۃ کریمہ کا مفہوم واضح ہے کہ مسلمان یوم ولادت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے طور پر منائیں۔‘‘

(میلاد النبی: 202)

ماہ ربیع الاول کی آمد سے عاشقانِ مصطفی کی روحوں میں کیف و انبساط کی ایک لہر دوڑ جاتی ہے اور ان کے دل سرور و مستی سے لبریز ہو جاتے ہیں۔ اس مبارک ماہ کی پر نور ساعتوں میں وہ یوم میلاد کو انتہائی تزک و احتشام سے مناتے ہیں۔عشق و مستی کی کیفیت میں ہر زبان پر ایک ہی صدا اور نغمہ ہوتا ہے:

حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چمکتا ہوا سورج بن کر دنیا میں جلوہ گر ہو گئے ہیں۔ بس ان پر کثرت کے ساتھ درود پڑھو۔

یومِ میلاد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہر مومن کے ایمان کا حصہ اور ذکرِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور محبت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فروغ کا ایک اہم ترین ذریعہ ہے۔ جو ہر مومن کے قلب و ذہن کی تازگی و شادمانی کا باعث بنتا ہے۔ یہ مہینہ جہاں قلوب و ارواح کو عشقِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے منور کرنے کی طرف متوجہ کرتا ہے وہیں سیرتِ مصطفی پر عمل پیرا ہونے کی ترغیب بھی دیتا ہے۔

چونکہ اللہ تعالیٰ نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات اقدس کو ہر خوبی سے مزین کر کے لاجواب پیدا فرمایا اور انسانیت کے لیے من کل الوجوہ ہدایت و سعادت اور فلاح و نجات کا راستہ ہمیشہ کے لیے آپ کی سیرت طیبہ اور اسوہ حسنہ کی اتباع میں رکھا۔ بلکہ اپنی اطاعت کو بھی اللہ تعالیٰ نے مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت کے ساتھ مشروط کر دیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اﷲَ.

جس نے رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کا حکم مانا بے شک اس نے اللہ (ہی) کا حکم مانا۔

(النساء، 4: 80)

بلکہ اپنی ذات سے محبت کروانے کا اصول بھی ہادیِ برحق نے قرآن کی صورت میں بزبانِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سکھا دیا۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اﷲَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اﷲُ وَیَغْفِرْلَکُمْ ذُنُوْبَکُمْط وَاﷲُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌo

(اے حبیب!) آپ فرما دیں: اگر تم اﷲ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو تب اﷲ تمہیں (اپنا) محبوب بنا لے گا اور تمہارے لیے تمہارے گناہ معاف فرما دے گا، اور اﷲ نہایت بخشنے والا مہربان ہے۔

(آل عمران، 2: 21)

گویا اللہ تعالیٰ کی اطاعت و محبت کا کوئی راستہ بجز محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت اور محبت کے نہیں ہے۔ انفرادی اور اجتماعی تعمیرِ شخصیت کا ہر اسلوب ذاتِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مستفاد ہو گا۔ نفوس و ارواح کا تزکیہ سنتِ مطہرہ کے ذریعے ہو گا۔

لہٰذا آج کے مادیت پرست دور میں معصیت سے بچنے اور روحوں کو سیراب کرنے کا کا واحد راستہ سیرتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کلی فکری و عملی رابطہ کی بحالی ہے۔ آج میلادِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خوشیاں مناتے ہوئے ضرورت اس امر کی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ عہد وفا کرتے ہوئے اپنے ہر کام کو اُسوہِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تابع کر دیں تاکہ عملی طور پر بھی ہمارے کردار میں محبت اور اتباعِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی واضح جھلک نظر آئے۔

دونوں جہان کی رفعتیں ہیں تیرے انتظار میں
سرور کائنات کی پیروی اختیار کر

تبصرہ