مشرق سے ہو بیزار نہ مغرب سے حذر کر

اقبال ایک ہمہ گیر شخصیت کے مالک تھے اور مختلف حیثیتوں میں اقبال کی فکر کو جو کمال حاصل ہوا اس کی مثال ملنا مشکل ہے۔ ایسی ہمہ گیر شخصیت کے حوالے سے یہ خیال کرنا کہ اقبال کو مغربی تہذیب میں کوئی خوبی نظر نہیں آتی، درست نہیں کیونکہ اقبال کی فکر میں مغرب کے حوالے سے بھی جو پختگی تھی وہ ہرکس و ناکس کے بس کی بات نہیں اور یہ فکری گہرائی اقبال ہی کا خاصہ ہے۔ اقبال نے تہذیبِ مغرب کے صرف ان پہلوؤں پر ہی تنقید کی جن کو وہ مسلمانوں اور مسلمان معاشرے کے لیے نقصان دہ سمجھتے تھے۔

جہاں تک مغربی تہذیب کی عمدہ خصوصیات کا تعلق ہے تو اقبال نہ صرف ان عمدہ خصائل کی تعریف کرتے ہیں بلکہ مسلمانوں کو ترقی کی راہ میں معاون ثابت ہونے والی ان خصوصیات کو اپنانے کی تلقین بھی کرتے ہیں:

مشرق سے ہو بیزار نہ مغرب سے حذر کر
فطرت کا اشارہ ہے کہ ہر شب کو سحر کر

(محمد اقبال، ڈاکٹر، ضرب کلیم، شیخ غلام علی اینڈ سنز لاہور، طبع بست و دوم مارچ 1984ء، ص: 109)

اقبال نے مشرق و مغرب کے علوم کا مطالعہ کر رکھا تھا اور مشرقی و مغربی تہذیب کے منفی و مثبت دونوں پہلوئوں پر عالمانہ بصیرت کے حامل تھے جبکہ اقبال کے زمانے میں ہندوستان میں سیاسی اور معاشرتی لحاظ سے جو بدامنی تھی اور ہندوستانی عوام کی جو مایوسانہ حالت تھی اس ماحول میں بعض لوگ تو ایسے تھے جو مغربی معاشرے کی ہر بات کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتے تھے اور قدامت پسندوں کے اس طبقے کے افراد اس بات سے قطع نظر کہ ان کی تہذیب کے ہر پہلو پر فخر کرتے تھے اور دوسرا طبقہ ایسے افراد پر مشتمل تھا کہ جو اپنے آپ کو روشن خیال سمجھتے ہوئے مغرب کی اندھی تقلید کو اپنی زندگی کا مقصد سمجھتے تھے۔

خاص طور پر یورپ سے مرعوب ہوکر لوٹنے والے حضرات جب اپنے وطن کا مقابلہ یورپی ممالک سے کرتے اور وہاں کے رہن سہن اور طرز معاشرت کو دیکھتے تو انہیں اپنی تہذیب سے نفرت ہوجاتی۔ ان کی نظر مغربی تہذیب کے ظاہری اور روشن پہلوئوں پر تو پڑتی لیکن اس کے تاریک باطن پر ان کی نظر نہ جاتی اس تکلیف دہ صورت حال سے اقبال بخوبی آگاہ تھے۔ یہی وجہ تھی کہ انہوں نے مغربی تہذیب کی بے جا تقلید سے مسلمانوں کو بچانے کی بھرپور کوشش کی اور یہ حقیقت ان پر واضح کی کہ ان کی ترقی کا راز تو اس علم و ہنر کی فراوانی اور سائنسی ترقی میں تھا جس کی طرف اقبال کے ہم وطنوں نے توجہ ہی نہ کی تھی۔

اقبال کا یہ احساس شدت اختیار کرتا جارہا تھا کہ تمام عالم اسلام یورپی اقوام کی ہوس ملک گیری کا شکار ہورہا تھا۔ اقبال نے محسوس کیا کہ کمزور اقوام کو لوٹنا اور انہیں غلام بنانا مغربی تہذیب کا خاصہ ہے چنانچہ اقبال نے مسلمانوں کی اس دور میں جو ذہنی کیفیت تھی اس کے پیش نظر ضروری سمجھا کہ مغربی تہذیب کی اندھی تقلید سے مسلمانوں کو جو نقصان پہنچ رہا تھا اس کا سدباب کیا جائے۔ اسی مقصد کے تحت اقبال نے مغربی تہذیب کی خامیوں سے مسلمانانِ ہند کو آگاہ کیا بلکہ نہ صرف ہندوستانی عوام کو ہی متنبہ کیا بلکہ سید عبدالواحد معینی کے الفاظ میں:

’’انہوں نے باآواز بلند یورپ کو بتایا کہ جس تمدن کو وہ ترقی کی معراج تصور کررہا ہے وہ دراصل ترقی نہیں بلکہ ایک قریب المرگ مریض کا ہذیان ہے۔‘‘

(سید عبدالواحد معینی، نقش اقبال، آئینہ ادب لاہور، بار اول 1969ء، ص: 24)

اقبال نے قیام یورپ کے دوران ہی یہ کہنا شروع کردیا کہ:

دیارِ مغرب کے رہنے والو خدا کی بستی دکاں نہیں ہے
کھرا جسے تم سمجھ رہے ہو وہ اب زرِ کم عیار ہوگا
تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خودکشی کرے گی
جو شاخِ نازک پہ آشیانہ بنے گا ناپائیدار ہوگا

(محمد اقبال، ڈاکٹر، بانگ درا، شیخ غلام علی اینڈ سنز لاہور، طبع سی نہم، 1982ء، ص: 141)

در حقیقت مغربی اقوام اور افراد کا نصب العین مادی ترقی تھا۔ جبکہ اقبال کے نزدیک مذہب اور عمدہ اقدار و روایات کی پاسداری نہایت اہم امر ہے۔ اس لیے اقبال نے مغربی تہذیب کی مادیت پرستی پر تنقید کی اور مسلمانوں کی مادیت پرستی کے رجحان سے بچنے کی تلقین کی۔

مغربی تہذیب و تمدن اس قدر مہلک خامیوں کا شکار ہوچکا تھا کہ اس کی تباہی یقینی تھی۔ ان اقوام کو جب اقبال نے انسانی ہلاکت اور تباہی کے راستہ پر اس قوتِ ارادی سے گامزن دیکھا تو انہوں نے اپنے خدشات سے مسلمانوں کو آگاہ کرنا شروع کردیا اور کہا:

پیرِ میخانہ یہ کہتا ہے کہ ایوانِ فرنگ
سنت بنیادی بھی ہے آئینہ دیوار بھی ہے

(محمد اقبال، ڈاکٹر، بال جبریل، شیخ غلام علی اینڈ سنز لاہور، طبع بست و ششم، مارچ 1984ئ، ص64)

اور مغرب جس تباہی کی طرف بڑھ رہا تھا اس کی نشان دہی یوں کی:

خبر ملی ہے خدایانِ بحر و بر سے مجھے
فرنگ رہگذر سیلِ بے پناہ میں ہے

(محمد اقبال، ڈاکٹر، بال جبریل، شیخ غلام علی اینڈ سنز لاہور، طبع بست و ششم، مارچ 1984ء، ص69)

مسلمان ممالک خصوصاً ترکی، ایران، مصر، حجاز، فلسطین، مراکش، تیونس، لیبیا، سوڈان، عراق اور شام وغیرہ اہل فرنگ کی نگاہ میں خار بن کر کھٹکتے تھے۔ ایک ایسی تہذیب جس نے سائنسی ایجادات کی گود میں آنکھ کھولی تھی اور جس نے اپنے ملکوں میں آزادی جمہوریت اور فرد کی خوشحالی کو اپنا نصب العین قرار دے رکھا تھا۔ جب دنیا کے دوسرے ممالک میں پہنچی تو اس نے حتی المقدور ان کی تہذیبوں کو مسخ کرنے کی کوشش کی۔

محکوم ممالک کو اس کے پنجۂ تسلط سے خود کو چھڑانا مشکل ہوگیا مسلم ممالک خاص طور پر اس کا ہدف تھے۔ اقبال کی نظروں سے یہ سب واقعات اوجھل نہ تھے۔ اس لیے انہوں نے یورپی تہذیب کے کمزور پہلوئوں کو اور اس کی خامیوں کو بیان کیا۔

مشرقی اقوام نے جب یورپ کی کورانہ تقلید میں اپنی سیاہ بختی کا حل تلاش کرنا چاہا تو اقبال کو یہ دیکھ کر شدید رنج ہوا اور انہوں نے اقوام مشرق کو اس طرح تنبیہ کی:

یہ حوریانِ فرنگی دل و نظر کا حجاب
بہشت مغربیاں جلوہ ہائے پا بہ رکاب
دل و نظر کا سفینہ سنبھال کر لے جا
مہ و ستارہ ہیں بحرِ وجود میں گرداب

((محمد اقبال، ڈاکٹر، بال جبریل، شیخ غلام علی اینڈ سنز لاہور، طبع بست و ششم، مارچ 1984ء، ص: 36)

اقبال کے نزدیک مغربی تہذیب کی ایک بڑی خامی مادیت پرستی تھی اقبال سمجھتے تھے کہ اہلِ یورپ مادی زندگی کی لذتوں میں ایسے منہمک ہوچکے ہیں کہ انسانی اخلاقی اور روحانی اقدار کی کوئی قدر و قیمت نہ رہی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ مغربی تہذیب میں وہ اعتدال و توازن اور ہم آہنگی قائم نہ رہ سکی جو ایک صحت مند معاشرے کے لیے ضروری ہے۔ اقبال کا عقیدہ یہ تھا کہ خالص مادیت کی بنیادوں پر کسی تہذیب کو استحکام نصیب نہیں ہوسکتا۔ چنانچہ اقبال مغربی تہذیب پر یوں چوٹ کرتے ہیں:

یورپ میں بہت روشنی علم و ہنر ہے
حق یہ ہے کہ چشمہ حیواں ہے یہ ظلمات

یہ علم یہ حکمت یہ تدبر یہ حکومت
پیتے ہیں لہو دیتے ہیں تعلیم مساوات

بے کاری و عریانی و میخواری و افلاس
کیا کم ہیں فرنگی مدنیت کے فتوحات

(محمد اقبال، ڈاکٹر، بال جبریل، شیخ غلام علی اینڈ سنز لاہور، طبع بست و ششم، مارچ 1984ء، ص: 107-108)

مشرق و مغرب کی تہذیبوں کے بغور مشاہدے کے بعد اقبال کا ذہن اس نتیجے پر پہنچا تھا کہ مشرق میں ان محرکاتِ حیات کی کمی ہے جو انسانوں کو تیزی کے ساتھ منزلِ مقصود تک لے جائیں اور مغرب میں محرکاتِ حیات تو موجود ہیں لیکن بے مقصدی کے باعث منزل کا پتہ نہیں۔ گویا مشرق میں ساقی نہیں اور مغرب کی صہبا بے مزہ ہے:

بہت دیکھے ہیں میں نے مشرق و مغرب کے میخانے
یہاں ساقی نہیں پیدا وہاں بے ذوق ہے صہبا

(محمد اقبال، ڈاکٹر، بال جبریل، شیخ غلام علی اینڈ سنز لاہور، طبع بست و ششم، مارچ 1984ء، ص: 23)

درحقیقت اقبال کے فکر کی بنیادی نقطہ بنی نوحِ انسان کی فلاح و بہبود تھا اور اس فلاح کے لیے وہ احترامِ آدمیت کو ضروری خیال کرتے تھے۔ جہاں کوئی اس بنیادی اصول سے کنارہ کش ہوکر تذلیلِ انسانیت کرتا اقبال اس نظام کے خلاف آواز بلند کرتے تھے۔ چنانچہ اقبال نے مغرب پر تنقید کی اس حوالے سے سید عبدالواحد معینی فرماتے ہیں:

’’اقبال نے مغرب پر تنقید تو کی ہے مگر یہ تنقید مغرب کی انسانیت کش قومیت، استعماریت اور نسلی امتیاز کے خلاف تھی لیکن اسی کے ساتھ انہوں نے یورپ کے علوم میں تترقی اور دیگر خوبیوں کو سراہا بھی ہے‘‘۔

(عبدالواحد معینی، سید، نقش اقبال، آئینہ ادب لاہور، بار اول، 1969ء، ص: 28)

مجموعی طور پر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اقبال مغرب کی سطحی رسمی اور کورانہ تقلید کے مخالف ہیں لیکن مغربی تہذیب کے عمدہ خصائل کو اپنانے اور ان سے فائدہ اٹھانے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے۔ اس کے علاوہ یورپی علم و ہنر نے اہل فرنگ کی تمدنی زندگی کو جو ظاہری صفائی اور سلیقہ مندی عطا کی ہے اقبال اس کو بھی قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔

اہل یورپ کے وہ مثبت اصول جن پر کار بند رہ کر انہوں نے ترقی حاصل کی ان اصولوں کو اقبال درحقیقت اسلامی اصول گردانتے ہیں اور انہوں نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ یہی وہ اسلامی خوبیاں ہیں جن کو اہلِ فرنگ نے تو اپنایا مگر ان سے ہم مسلمان محروم ہیں۔

تبصرہ