ارادۂ نبوت و ولایت سے قدرت الہٰیہ کا ظہور

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری

دور حاضر چونکہ مادی اور سائنسی دور ہے جس کی وجہ سے بہت سی روحانی حقیقتوں کا انسانی عقل انکار کرنے پر راغب ہے اور لوگ آج کے دور میں بطور خاص بات کو ماننے سے پہلے سمجھنا چاہتے ہیں اس میں شک نہیں کہ ایمان سمجھنے کا نہیں بلکہ ماننے کا نام ہے اس لیے قرآن مجید نے سورۃ البقرہ میں جب متقین کی پہلی تعریف کی کہ الذین یومنون بالغیب کہہ کر کی وہ لوگ بغیر دیکھے ایمان لے آتے ہیں۔ ایمان لانے کا مطلب یہ ہے کہ بغیر دیکھے مان لیتے ہیں اور بغیر دیکھے کا معنی یہ ہے جب دیکھنے سے روک دیا تو سمجھنے سے بھی روک دیا تو دیکھے اور سمجھے بغیر مان لینا ایمان ہے ایمان کی حقیقت تو یہ ہے مگر اس کا اطلاق ہر چیز پر نہیں کیا جاسکتا اللہ اس کے رسول پر ایمان لانا اور آخرت پر ایمان لانا تو ٹھیک ہے مگر عقائد کی ہر بات بغیر دیکھے اور سمجھے مان لیں یہ اسلام کا مطلوب ہے اور نہ آج کوئی بغیر سمجھے مانے کو تیار ہے مگر اٹل ان ایمانی حقیقتوں کے جن کا ماننا براہ راست اصل ایمان کے ذیل میں آتا ہے۔

وسیلہ ایک نظام ہے انبیاء سے اوپر کسی کا مقام نہیں سنت یہ ہے کہ کبھی مانگنے والا اونچے درجے کا ہوتا ہے کبھی توسل سے مانگنے والا اونچے درجے کا ہوتا ہے جب کسی عمل کو انبیاء کی سنت بنانا ہو تو انہی سے ہی کروایا جاتا ہے۔

اس کی وضاحت قرآنی مثالوں سے دی گئی ہے۔ وسیلہ کو یوسف علیہ السلام کی زندگی سے سمجھایا گیا ہے کہ یوسف علیہ السلام کی زندگی کا عالم یہ ہے کہ ان کے بھائی انہیں حسد کی بناء پر اٹھا کر کنویں میں پھینک دیتے ہیں اس سے قبل وہ اپنے والد سے کہتے ہیں کہ آپ یوسف کو ہمارے ساتھ بھیج دیں ہم اس کی حفاظت کریں گے کہ کہیں اسے بھیڑیا نہ کھا جائے یہ بہانہ انہوں نے وہاں جاکر بنانا تھا اس منصوبے سے روئے زمین کا کوئی فرد و بشر واقف نہیں ہے۔ یعقوب علیہ السلام یوں بھی فرماسکتے تھے کہ ممکن ہے کہ تم سے غفلت ہوجائے۔ اسے کوئی نقصان پہنچ جائے آپ نے یہ جملے نہیں بولے بلکہ خصوصی جملہ بولا کہ مجھے ڈر ہے کہ کہیں اس کو بھیڑیا نہ کھا جائے جو منصوبہ انہوں نے ابھی مستقبل میں بتانا تھا وہ حضرت یعقوب علیہ السلام کی زبان پر پہلے ہی آگیا اور اس سے بھی قبل جب حضرت یوسف علیہ السلام نے خواب دیکھا تھا کہ مجھے سورج چاند اور ستارے سجدہ کررہے ہیں۔ حضرت یعقوب علیہ السلام سے خواب بیان کیا۔ آپ کے والد نے بچپن میں ہی فرمادیا تھا بیٹے یوسف یہ خواب اپنے بھائیوں کو نہ بتانا وہ حسد میں مبتلا ہوکر تمہیں نقصان نہ پہنچائیں رخصت ہوتے ہی یوسف علیہ السلام کو کنویں میں پھینک دیا جاتا ہے اور جھوٹی خبر آکر والد صاحب کو دیتے ہیں کہ یوسف علیہ السلام کو بھیڑیا کھا گیا ہے مگر یعقوب علیہ السلام سن کر چپ ہوجاتے۔ یہ مقام صبر آجاتا ہے جو علم کو ڈھانپ لیتا ہے واقفیت پر بھی پردہ ڈال دیتا ہے، قدرت اور طاقت اگر اس سے بچنے بچانے کی ہو اس کے اوپر بھی چھا جاتا ہے۔

یوسف علیہ السلام کو کنویں میں پھینکا جاتا ہے تو وہ خاموشی سے گر جاتے ہیں پھر جب مصر کے تخت پر بیٹھتے ہیں اور بھائیوں نے آکر بتایا ہے کہ یوسف علیہ السلام کے غم میں رو رو کر حضرت یعقوب علیہ السلام کی آنکھیں چلی گئی ہیں یہ سن کر یوسف علیہ السلام نے دعا نہیں کی باری تعالیٰ میرے والد کی بینائی لوٹا دے بلکہ اپنا قمیض دے کر فرماتے ہیں:

اِذْهَبُوْا بِقَمِیْصِیْ هٰذَا فَاَلْقُوْهُ عَلٰی وَجْهِ اَبِیْ یَاْتِ بَصِیْرًا.

’’میرا یہ قمیض لے جاؤ، سو اسے میرے باپ کے چہرے پر ڈال دینا، وہ بینا ہو جائیں گے۔‘‘

(یوسف، 12: 93)

ھذا کہنے کی بھی ضرورت نہیں تھی۔ میرا قمیص لے جاؤ جب اضافت لگ گئی میرا یہ قمیص لے جاؤ اور اسے میرے والد کے چہرے پر رکھنا، بینا ہوجائیں گے۔ ’’یہ‘‘ کہنے کی حکمت یہ تھی جب بینا ہوجائیں تو دائیں بائیں اور سبب نہ دیکھنا اسی کا عقیدہ رکھنا کہ اسی قمیض کے سبب بینائی لوٹی ہے۔ وسیلے پر دھیان رکھنا۔ بینائی تب بھی اللہ نے دی، دعا نہیں کی۔ قمیص رکھ دی بینائی تب بھی اللہ نے دی ہے مگر دعا کرتے تو لوگ ہمیشہ دھیان مسبب کی طرف کرتے اور وسیلہ کو کوئی نہ مانتا چونکہ دعا نہیں کی۔ سیدھا قمیص دے دیا تو سمجھا دیا، کرنے والا تو اللہ ہی ہے مگر ہوتا واسطے اور وسیلے سے ہے۔

فیض اور برکت کا چشمہ تو یوسف علیہ السلام ہیں قمیص خود نہیں ہے وہ تو کپڑا ہے، کپڑا تو اس فیض اور برکت کا چشمہ نہیں ہے بلکہ یوسف علیہ السلام کی ذات ہے اس سے دو نکتے سمجھ میں آگئے جیسے کرنے والا اللہ ہوتا ہے۔ جاری اس کے بندوں کے ہاتھ سے ہوتی ہے یہ سنت الہٰیہ ہے اور دوسری بات فیض و برکت ہے وہ فیض اور برکت کا چشمہ نبی اور ولی کی ذات ہوتی ہے مگر یہ نا سمجھنا کہ جب تک وہ ذات ہے اسی سے وہ فیض اور برکت ہوتی ہے۔ وہ فیض اور برکت کا چشمہ اتنا قوی ہے اس کے بدن سے قمیص مس ہوجائے تو سارا فیض اس سے ملتا رہتا ہے یعنی جس کو اس سے نسبت کامل مل جائے اگر وہ نسبت کو توڑ نہ لے تو فیض کا سلسلہ چلتا رہتا ہے۔

ایک دوسری مثال سیدنا زکریا علیہ السلام کی ہے وہ حضرت مریم کی پرورش فرمارہے ہیں۔ جو عبادت میں مصروف رہتی تھی اب پہلی مثال دی کہ وہ نبی تھے۔ انبیاء کا معاملہ تو درست ہے اور اولیاء کا بھی اسی طرح معاملہ ہے اولیاء میں نبیوں کا عکس ہوتا ہے۔ اولیاء انبیاء کے آئینہ ہوتے ہیں ان میں جو نو چمکتا ہے وہ چشمہ نبوت سے ہی فیض پاتا ہے۔ حضور کی نعت پڑھیں تو یہ اللہ کی حمد تصور ہوگی اس لیے تو حضور علیہ السلام کا نام محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رکھا جس کی حمد کی جائے۔

حضرت مریم علیہا السلام کمرے میں عبادت کررہی ہیں حضرت زکریا علیہ السلام باہر سے تالا لگا کر چلے گئے نہ پھلوں کا موسم ہے اور نہ راستہ ہے پھلوں کے داخلے کا جو ظاہری راستہ تھا وہ تو ختم ہوگیا۔ راستے دو ہی ہوتے ہیں پہلی بات موسم ہو دوسری بات کوئی لانے والا ہونا چاہئے اور دروازہ کھلا ہو۔ نہ موسم ہو اور نہ لانے والا ہو۔ نہ دروازہ کھلا ہو اور نہ رکھنے والا ہو تو سارے ظاہری راستے واسطے ختم ہوگئے حضرت زکریا علیہ السلام کے پاس چابی ہے آکر تالا کھولتے ہیں اندر داخل ہوتے ہیں پھل ان سے بھی پہلے پڑے ہیں۔ ان کو پتہ ہے کہ پھلوں کے آنے جانے کا کوئی ظاہری راستہ نہیں تھا۔ جانتے تھے تب یہ سوال کیا انی لک ھذا یہ کہاں سے آگیا اگر کوئی لانے والا ہوتا کوئی خادم ہوتا لاکر رکھنے کا امکان ہوتا تو یہ سوال ہی نہ کرتے واسطے سارے ختم ہوگئے براہ راست ولی پر فیض کردیا۔

تو جب حضرت زکریا علیہ السلام نے حضرت مریم علیہا السلام کے پاس بے موسمی پھل دیکھے تو پوچھا یہ تمہارے پاس کہاں سے آئے تو ولیہ نے عرض کیا ھو من عنداللہ اللہ کی طرف سے آگئے جب بے موسم اور بغیر ذریعے کے پھل دیکھے۔ قرآن مجید کہتا ہے نبی ہوکر وہیں کھڑے ہوکر دعا مانگنے لگے۔ یہ دعا حضرت مریم علیہا السلام کے وسیلہ سے مانگنے لگے۔باری تعالیٰ بغیر ذریعے کے بے موسم پھل ان کو دے دیا ہے میں بوڑھا ہوں۔ اسی صدقے سے مجھے بھی اولاد کا پھل دے دے لہذا اولاد تک کا مانگنا ولی کے وسیلے سے قرآن سے ثابت ہے بیماریوں کی شفا یابی مانگنا بھی نبی کی سنت قرآن سے ثابت ہوگئی اور اولاد تک کا سوال کرنا ولی کے وسیلے سے یہ بھی ثابت ہوگیا۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں۔ بہت بڑا لشکر تھا جہاد کا سفر تھا، صحابہ کا ہجوم تھا اور کھانے پینے کا سامان زیادہ نہ تھا۔ آقا علیہ السلام کے کان مبارک میں کسی نے عرض کردیا تو آپ نے فرمایا کسی کے پاس کوئی کھجوریں ہیں۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے عرض کی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے پاس ہیں۔ فرماتے ہیں میرے پاس ٹوکری میں کل 21 دانے تھے فرمایا لاؤ آقا علیہ السلام نے اس پر ہاتھ پھیر دیا اور دعا بھی فرمادی۔ فرمایا: سب کو بلا لو۔ دس دس آدمی آتے جائیں اور اس کو کھول کر نہیں دیکھنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ! تم نے بھی نہیں کھولنا بس ہاتھ ڈال کر جتنی ضرورت ہو دیتے جانا۔

دس دس آدمی دستر خوان بچھا کر بیٹھ جاتے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ لنگرِ مصطفی سے کھجوریں نکال کر دیتے جاتے دس کھا جاتے اور دس آدمی آجاتے۔ سارے لشکر کو کھجوریں کھلا دیں اور فرمایا اس کو کھول کے نہیں دیکھنا۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں لشکر کا سفر تو ختم ہوگیا۔ ہم ساری زندگی ہاتھ ڈال کر خود بھی کھاتے تھے۔ دنیا کو بھی کھلاتے تھے۔ حتی کہ آقا علیہ السلام کا وصال ہوگیا۔ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کا دور آگیا۔ فرماتے ہیں خداکی قسم ان کے دور کے اڑھائی سال کھلاتا رہا، کھجوریں چلتی رہیں ان کی وفات ہوگئی سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کا دور آگیا کہتے ہیں اللہ کی عزت کی قسم سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے دور کے پورے دس سال دنیا کو کھلاتا رہا گھر والے بھی کھاتے رہے۔ کھجوریں ختم نہیں ہوئیں۔

پھر سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کا زمانہ آگیا ان کا سارا دور خلافت کھلاتے رہے جب عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی شہادت ہوئی ان کی شہادت کے غم میں کھجوریں ختم ہوگئیں۔ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی شہادت تک ڈیڑھ ہزار من کھجوریں ٹوکری سے نکالیں۔ کھجوریں تین دوروں تک چلتی رہیں پتہ چلا کہ برکت آگے بھی منتقل ہوتی ہے پھر نسل در نسل برکت چلتی رہتی ہے کوئی سبب نہ ہوجائے تو رکتی نہیں ہے۔ چشمہ فیض و برکت جاری رہتا ہے۔

اس فیض و برکت کو آم کی گٹھلی سے بھی سمجھ سکتے ہیں۔ آم کی گٹھلی لیں اس کو دبادیں اب پرورش شروع ہوگئی اس میں سے چھوٹا سا پودا نکل آیا چند سالوں میں وہ بہت بڑا آم کا پیڑ بن گیا۔ اس جیسی دس ہزار گٹھلیاں اس کی شاخوں پر لگ گئے۔ آغاز تو حضور غوث اعظم رضی اللہ عنہ کے ایک وجود سے ہوا تھا مگر لاکھوں وجود ولایت کے کائنات میں پھیل گئے۔

مولا علی شیر خدا رضی اللہ عنہ کے درخت کا پھل حسن رضی اللہ عنہ اور حسین رضی اللہ عنہ ہیں ان کا ذائقہ اصل میں تاجدار کائنات کا ذائقہ تھا۔ یہ زمین روحانیت کی زمین ہے اور اس میں تقویٰ کا پانی اور اس میں عبادت و ریاضت کی روشنی ہے۔ زہد و ورع اور صدق و اخلاص کی ہوا ہے اور شیخ مالی بن کے درخت کی رکھوالی کرتا ہے اور پھل لگتے جارہے ہیں۔ دنیا کھارہی ہے یہ نبوت سے ولایت کا سلسلہ ہے سیدنا غوث الاعظم رضی اللہ عنہ کے مقام تکوین کے بڑے بڑے نظاروں سے کتابیں بھری پڑی ہیں اس کے عکس حضور طاہر علاؤالدین میں نظر آتے ہیں۔

عبدالقدیر بدایونی ایک عالم دین ہو گزرے ہیں ان کے وفد میں کچھ لوگ شریک تھے جب بغداد شریف حاضری کے لیے گئے۔ مولانا عبدالقدیر بدایونی نے کہا کہ میں جب بغداد شریف پہنچا تو ہر روز میں دیکھتا کہ مغرب کے بعد ایک خوبصورت چاند جیسی نورانی و روحانی چہرے والا معصوم بچہ حضور غوث پاک رضی اللہ عنہ کی روضے کی جالی مبارک کے پاس اندر کی جانب آجاتا۔ فجر تک ساری رات کھڑا رہتا۔ میں نے اس بچے کو پہلی رات دیکھا دوسری رات دیکھا پھر میں نے پوچھا یہ کون ہیں؟ تو مجھے بتایا گیا کہ یہ حضور غوث پاک رضی اللہ عنہ کے خاندان کے شہزادوں میں سے ہیں۔

محنت و ریاضت کا یہ سلسلہ جب جاری رہتا تو پھل کا ذائقہ بھی وہی رہتا ہے فیوضات و برکات بھی وہی رہتی ہیں۔ اس لیے اگر اس مزار پاک سے کسی کو فیض ملتا ہے تو یقین اور ایمان رکھے کہ وہ فیض حضور غوث اعظم رضی اللہ عنہ کا ہی فیض ہے۔ اللہ پاک ہمیں حضور غوث الاعظم رضی اللہ عنہ کے در کا سائل بھی رکھے اور قائم و دائم بھی رکھے۔

ماخوذ از ماہنامہ دخترانِ اسلام، دسمبر 2019ء

تبصرہ