صبرو برداشت کامیاب زندگی کی کنجی ہے

منورہ فاطمہ

صبر مقامات صوفیاء میں سے پانچواں مقام ہے۔ صبر و تحمل ایسی گراں قدر نعمت ہے کہ جو نہ صرف بے پناہ مسائل سے نجات دلانے کا باعث ہے بلکہ اس کی بدولت ہم اچھی طرح زندگی بسر کرسکتے ہیں۔ آج ہم نے اپنی انفرادی، اجتماعی اور سماجی زندگی میں صبر کا دامن چھوڑ دیا ہے جس کی وجہ سے ہمیں بہت سی مشکلات مصائب اور پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے جبکہ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم زندگی کے ہر پہلو میں صبر کے دامن کو ہاتھ سے نہ جانے دیں۔ اللہ تعالیٰ نے صبر کے بارے میں قرآن مجید میں ارشاد فرمایا:

قرآن میں صبر کی تلقین:

یٰٓاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَالصَّلٰوةِط اِنَّ اﷲَ مَعَ الصّٰبِرِیْنَ.

’’اے ایمان والو! صبر اور نماز کے ذریعے (مجھ سے) مدد چاہا کرو، یقینا اﷲ صبر کرنے والوں کے ساتھ (ہوتا) ہے‘‘۔

(البقرة، 2: 153)

حدیث مبارکہ میں صبر:

حضرت انس بن مالک سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

الصبر عند الصدمة الاولیٰ.

’’صبر پہلے صدمہ کے وقت ہوتا ہے۔‘‘

یعنی جب اچانک پریشانی کا سامنا کرنا پڑے اس وقت جو صبر کیا جائے وہ افضل ہے۔

صبر کی قسمیں:

  1. بندے کا ان کاموں پر صبر جو اس کے اختیار میں ہیں۔
  2. ان کاموں پر صبر جو اس کے اختیار میں نہیں۔

بعد ازاں حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ سے کسی نے صبر کی حقیقت پوچھی تو فرمایا: آنے والی مصیبت کے ٹل جانے تک رضائے الہٰی کی خاطر تکالیف برداشت کرتے رہنا صبر ہوتا ہے۔

صبر کے بارے میں اقوال صوفیاء:

  • حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

ایمان کے لیے صبر اس طرح ہے جس طرح جسم کے لیے سر (ضروری) ہے۔ آپ نے مزید فرمایا صبر ایسی سواری ہے جو کبھی ٹھوکر نہیں کھاتی۔

  • حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ سے صبر کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا:

منہ چڑھائے بغیر کڑوی چیز کا گھونٹ بھرنا (صبر) ہے۔

  • حضرت ابن عطا رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

صبر یہ ہے کہ مصیبت کے وقت حسن ادب کے ساتھ قائم رہے۔

  • حضرت عمرو بن عثمان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

اللہ کے احکام پر ثابت رہنا اور اس کی آزمائش کو خندہ پیشانی اور سکون کے ساتھ قبول کرنا صبر ہے۔

  • حضرت علی بن عبداللہ بصری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

ایک شخص حضرت شبلی رحمۃ اللہ علیہ کے پاس کھڑا ہوا اور پوچھا کہ صبر کرنے والوں پر کون سا صبر زیادہ سخت ہے۔ کیا اللہ کی اطاعت میں صبر کرنا سب سے زیادہ مشکل ہے؟ فرمایا نہیں۔ اُس نے پوچھا: اللہ کے لیے صبر کرنا مشکل ہے؟ آپ نے فرمایا نہیں۔ پوچھا: اللہ کے ساتھ صبر کرنا مشکل ہے؟ فرمایا: نہیں۔ پھر اُس نے پوچھا یہ کون سا صبر مشکل ہے؟ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اللہ کسی کو قرب عطا کرنے کے باوجود دور کردے لیکن وہ پھر بھی صبر کرے۔ یہ کہنے کے بعد حضرت شبلی رحمۃ اللہ علیہ نے چیخ ماری اور گریہ و زاری کا یہ عالم ہوا کہ یوں لگتا تھا آپ کی روح پرواز کرجائے گی۔

  • حضرت ابو سلیمان رحمۃ اللہ علیہ سے صبر کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا:

اللہ کی قسم! ہم تو اپنی پسندیدہ چیزوں پر صبر نہیں کرسکتے ناپسندیدہ پر کیسے کرسکتے ہیں۔

صابر کی اقسام:

حضرت ابن سالم رحمۃ اللہ علیہ سے صبر کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا:

’’صابر تین طرح کے ہوتے ہیں متصبر، صابر اور صبار۔

  1. متعبر وہ ہوتا ہے جو اللہ کے بارے میں صبر کرتا ہے یہ کبھی تو صبر کرلیتا ہے اور کبھی نہیں کرسکتا، اس کا صبر تو ویسے ہی ہوتا ہے جسے حضرت قناد رحمۃ اللہ علیہ سے صبر کے بارے میں سوال ہوا تو انہوں نے بتایا: ’’اللہ کی روکی ہوئی چیزوں سے ہر صورت منہ موڑ لینا اور جن کا اس نے حکم دیا ہے ان پر ہمیشہ عمل کرنا‘‘۔
  2. صابر وہ ہوتا ہے جو اللہ کے بارے میں اور اللہ کے لیے صبر کرے مگر بے چینی نہ دکھائے۔
  3. صبار وہ بندہ ہوتا ہے جو بہت زیادہ صبرکرنے والا ہو۔

حضرت ذوالنون مصری رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ ایک دفعہ میں عیادت کے لیے ایک مریض کے پاس گیا تو دوران گفتگو وہ کراہنے لگا میں نے کہا:

’’ایسا شخص جو اللہ کی طرف سے قلیل ہی ضرب برداشت نہیں کرسکتا وہ اللہ سے سچی محبت کب کرے گا۔‘‘

حضرت ذوالنون رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میری اس بات پر اُس نے کہا: اس شخص کی محبت بھی سچی نہیں جو اللہ کی طرف سے ضرب لگنے پر لذت محسوس نہ کرے۔

ماخوذ از ماہنامہ دخترانِ اسلام، دسمبر 2019ء

تبصرہ