شیخ الاسلام کے خواتین کی ترقی سے متعلق اجتہادی نظریات

ڈاکٹر زیب النساء سرویا

عصر حاضر میں خواتین کی حیثیت سے متعلق دو طبقات چھائے ہوئے نظر آتے ہیں ایک طبقہ عورت کو ان بنیادی انسانی حقوق کی فراہمی کی تائید تو کرتا ہے جو اسلام نے اسے دیے مگر وہ عورت کے مردکے شانہ بشانہ کام کرنے کی مخالفت کرتا ہے ۔جبکہ دوسرا طبقہ معاشرے میں ظلم و ستم کا شکا ر عورت کی مادر پدر آزاد ی کا خواہاں نظر آتا ہے۔اس کشمکش نے معاشرے کو اتنا اُلجھا کہ رکھ دیا ہے کہ اگر کوئی خواتین کی معاشرے میں حیثیت کو لے کر حقوق کے ساتھ فرائض کی بات کرے تو ویمن ایمپاورمنٹ کا حامی طبقہ فوری ردعمل دیتا ہے اور جب یہ طبقہ معاشرے میں خواتین کی ایمپاورمنٹ کاذکر کرے تو اسکی مخالفت میں بعض اوقات مذہبی طبقہ شدید ردعمل دیتا ہے یہ افراط و تفریط معاشرے کے بگاڑ کا باعث بن رہا تھا ایسے میں ضرورت اس امر کی تھی کہ خواتین کی نمائندگی کا کوئی ایسا پلیٹ فارم موجود ہو جو عورت کے معاشرے میں استحکام کے تصور کو متوازن انداز میں لے کر چلے جو مظلوم و محکوم عورت کو بیرونی فنڈنگ پر چلنے والی تنظیموں کا آلہ کار بننے سے بچا جا سکے اسی ضرورت کے پیش نظر تحریک منہاج القرآن کے بانی و سرپرست اعلیٰ پر وفیسر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے 1988 میں منہاج القرآن ویمن لیگ کی بنیاد رکھی۔ ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے جس دور میں ویمن لیگ کی بنیاد رکھی اس وقت پاکستانی معاشرے میں عورت کے مر دکے برابر کام کرنے کا تصور نہ تھا جس پر انہیں تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑا مگر آپ نے معاشرے کو Women Empowermentکا ایسا ماڈل پیش کیا جو نہ صرف اسلامی تعلیمات کے عین مطابق ہے بلکہ دور جدید کے تقاضے بھی پورے کرتا ہے ۔ منہاج القرآن ویمن لیگ میں ذمہ داریاں سر انجام دینے والی خواتین نہ صرف اپنے خاندان بلکہ معاشرے کا بھی مفید رکن ثابت ہو رہی ہیں اس وقت منہاج القرآن ویمن لیگ کا ذیلی شعبہ WOICEبھی وجود میں آچکا ہے جو معاشرے میں خواتین کے مقام کو اسلام کی حقیقی روح کے مطابق مستحکم بنانے میں مصروف عمل ہونے کے ساتھ ساتھ اُنکی دادرسی کے اقدامات بھی کر رہا ہے ۔ معاشرے میں خواتین کی ایمپاورمنٹ سے متعلق ڈاکٹر طاہرالقادری نے درج ذیل نظریات دئیے۔

پیشہ وارانہ اور خانگی امور میں توازن کا نظریہ:

ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے خواتین کو پیشہ وارانہ اور خانگی ذمہ داریوں میں متوازن روش اختیار کرنے کا نظریہ دیا۔ آپ نے اسلام کے تصور حقوق اور فرائض کو نہایت خوبصورتی سے واضح کیا کہ مرد اور خواتین دونوں اپنے ذمے حقوق اور فرائض پر برابر جوابدہ ہیں۔ قرآن اور سنت سے خانگی امور کی جملہ ذمہ دار یاں عورت پر ہونا ثابت نہیں ہے۔ اس سلسلہ میں مر د اور عورت ایک دوسرے کے معاون ہیں۔ عورت کا گھریلو ذمہ داریاں سر انجام دینا اس کے فرائض میں شامل نہیں لہذا مرد پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ان امور میں عورت کی معاونت کرے کیونکہ معاشرہ حقوق اور فرائض کے حسین امتزاج سے تشکیل پاتا ہے ۔ اس طرح مرد کی معاونت سے عورت پیشہ وارانہ امور بھی خوش اسلو بی سے انجا م دے سکتی ہے ۔اس کی مثال حضر ت ام کلثوم بنت علی ؑ کی ہے جنہوں نے با پردہ رہ کر اسلامی اصول و ضوابط کے مطابق خانگی امور کی انجام دہی کے ساتھ روم کی سفیر کے طور پر خدما ت دیں لہذا اسلام کااس حوالے سے نظریہ توازن اور اعتدال پر مبنی ہے۔ اسی نظریے پر عمل کرتے ہوئے ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے منہاج القرآ ن ویمن لیگ کا شعبہ قائم کیا جس میں بڑی تعداد میں خواتین مذکورہ دونوں سطحوں پر بحسن خدمات سر انجام دے رہی ہیں۔

عورت کا کردار بحثیت داعیہ:

عورت معاشرہ ساز ہے اسکی تربیت معاشرہ کی تعمیر میں نمایاں مقام رکھتی ہے لہذا ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے امت مسلمہ کو کنتم خیرا امتہ کی عملی تصویر بنانے کے جس مشن کا آغا ز کیا اس میں خواتین کا بحثیت داعیہ اہم کردار شامل ہے یہی وجہ ہے کہ آج تحریک منہاج القرآن کے رفقاء میں خواتین کی ایک کثیر تعدا د شامل ہے جوبطور مبلغہ اور مقررہ معاشرے میں نمایاں مقام رکھتی ہیں ۔ویمن لیگ کے پلیٹ فارم سے سپیکرز فورم کے ذریعے خواتین دنیا بھر میں اپنے موثر انداز تقریر سے اسلام کی اشاعت میں اپنا کر دار ادا کر رہی ہے ۔

امت مسلمہ کی نشاۃ ثانیہ میں کردار:

مسلمانوں کی زبوں حالی کی ایک بڑی وجہ قرآنی تعلیمات اور سنت نبوی سے دوری ہے اس سلسلہ میں اصلاح احوال امت اور تجدید و احیائے دین کا جو نظریہ ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے پیش کی اس میں نصف آبادی پر مشتمل طبقہ یعنی خواتین کو اہم کر دار سونپا ۔آپ کے نزدیک خواتین کے بغیر مذکورہ مقاصد حاصل کرنا نا ممکن ہے یہی وجہ ہے کہ امت مسلمہ کے نشاۃ ثانیہ اور زوال کے اسباب کے خاتمے کیلیے تحریک منہاج القرآن کے پلیٹ فارم سے بنائی جانے والی جملہ پالیسیز میں خواتین کو مشاورت میں شامل کیا جاتا ہے۔ منہاج القرآن کی تمام اعلیٰ سطحی مشاورتی ڈھانچوں مثلا ً سپریم کونسل ، قائمہ کمیٹی ،سنٹرل ایگزیکٹو کونسل اور سنٹرل ورکنگ کونسل میں خواتین کی واضح نمائندگی موجود ہے نیز دنیا بھر میں قائم منہاج القرآن ویمن لیگ کے سنٹرز پر ترویج و اقامت اسلام اور تجدید و احیائے دین کیلیے کی جانے والی جملہ کاوشوں پر پلاننگ اور تنفیذ کو خواتین عملاً یقینی بناتی ہیں ۔علاوہ ازیں درج ذیل سطحوں پر خواتین کی مشاورتی باڈیز تشکیل دی گئی ہیں:

  1. ویمن ایگزیکٹو کونسل (WEC)
  2. ویمن کوآرڈینیشن کونسل (WCC)
  3. ویمن پارلیمنٹ

فقہی قوانین میں اعتدال کا نظریہ:

اسلام ایک مکمل ضابطہ حیا ت ہے یہ اپنے ماننے والوں کو زندگی کے ہر پہلو پر رہنمائی فراہم کرتا ہے ۔اسلام کی اشاعت کے بعد مسلمان درجہ بدرجہ جس تنزلی کا شکار ہوئے اس میں عورت سے متعلقہ قوانین کے حوالے سے بھی رجعت پسندی کا عنصر غالب آگیا اور خواتین کی حیثیت صرف ایک قیدی کی حد تک بنا دی گئی ایسے میں وہ قوانین جو اسلام نے عورت کیلیے مقرر کیے ان میں بھی تنگ نظری آگئی ۔مثلاً عورت کی دیت نصف ہوگی یا مکمل اس پر علماء نے مختلف موقف اختیار کیے جس میں بڑی تعداد عورت کی نصف دیت کی قائل تھی۔ ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے یہ نظریہ دیا کہ بحیثیت انسان عورت کی جان کی حرمت بھی مر د کے برابر ہے لہذا عورت کے دیت بھی مر د کے برابر مکمل ادا کی جائے گی ۔

اسی طرح خلع سے متعلق یہ نظریا ت وجود میں آئے کہ عورت بحالت مجبوری مثلاً شوہر کی طرف سے تشدد یا نان و نفقہ نہ ملنے کی صورت میں خلع لے سکتی ہے اس پر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے یہ نظریہ دیا کہ خلع عورت کا بلا مشروط حق ہے لہذا وہ صرف اپنی ذاتی پسند اور ناپسند کی بنا پر خلع لے سکتی ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت سے بھی ثابت ہے کہ ایک عورت کو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صرف اس بناء پر شوہر سے خلع لینے کی اجازت کی کہ وہ اپنے شوہر کو ناپسند کرتی تھی۔ الغرض اسلام نے عورت کی حیثیت کے متعلق جو روشن خیال تصور پیش کرتا ہے۔

ماخوذ از ماہنامہ دخترانِ اسلام۔ مارچ 2020ء

تبصرہ