حقیقتِ محبت اور محبتِ رسول ﷺکا معنی

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری

اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:

قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللهَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللهُ وَیَغْفِرْلَکُمْ ذُنُوْبَکُمْ وَ اللهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ.

(آل عمران، 3: 31)

’’(اے حبیب!) آپ فرما دیں: اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو تب اللہ تمہیں (اپنا) محبوب بنا لے گا اور تمہارے لیے تمہارے گناہ معاف فرما دے گا، اور اللہ نہایت بخشنے والا مہربان ہے‘‘۔

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت ہمارے ایمان کا حصہ ہے۔ ایک مومن کے دل میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت کا معیار اور پیمانہ کیا ہونا چاہیے؟ اس امر کو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود اپنے ارشاداتِ عالیہ کی روشنی میں واضح فرمادیا ہے۔

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

لاَ یُؤْمِنُ أَحَدُکُمْ حَتَّی أَکُونَ أَحَبَّ إِلَیْهِ مِنْ وَالِدِهِ وَوَلَدِهِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِینَ.

(صحیح البخاری ، کتاب الایمان، باب حُبُّ الرَّسُولِ ﷺ مِنَ الإِیمَانِ، ج: 1: 14، الرقم: 15)

’’تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا، جب تک میں اسے اس کے والدین، اولاد اور تمام لوگوں سے بڑھ کر محبوب نہ ہو جاؤں‘‘۔

یعنی والدین، اولاد، میاں بیوی، بھائیوں، بہنوں، عزیز و اقارب، دوست احباب، خونی رشتوں، خاندانوں، مناصب اور دنیا کی کسی بھی شے کی محبت جو انسان کے دل کو مرغوب اور محبوب ہوتی ہے، جس کی طلب، رغبت اور محبت کی طرف انسان کا میلان اور جھکاؤ ہوتا ہے، ان سارے میلانات اور رجحانات سے بڑھ کر حضور سے محبت کرنا ایمان ہے۔ گویا جب تک کسی مسلمان کے دل میں کائنات اور عالمِ خلق کی ساری محبتوں سے بڑھ کر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت نہ ہو تو وہ مومن نہیں ہوسکتا۔

سیدنا فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ نے زبانِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جب یہ فرمان سنا تو آقا علیہ السلام کی بار گاہ میں عرض کیا:

یَا رَسُوْلَ اللهِ لَأَنْتَ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ کُلِّ شَيئٍ إِلاَّ مِنْ نَفْسِي.

(أخرجه البخاری فی الصحیح، کتاب: الأیْمَانِ وَالنُّذُوْرِ، باب: کَیْفَ کَانَتْ یَمِیْنُ النَّبِیِّ، 6: 2445، الرقم: 6257)

’’یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! آپ مجھے اپنی جان کے سوا ہر چیز سے زیادہ محبوب ہیں‘‘۔

یعنی یقیناً کائنات کی ہر شے سے بڑھ کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مجھے محبوب ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت ساری محبتوں کے مجموعے سے بھی بڑھ گئی ہے مگر میری محبت جو مجھے اپنی جان سے ہے، وہ مجھے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت سے زیادہ لگتی ہے اور اپنی جان کے ساتھ میری محبت ابھی تک زیادہ اور مضبوط ہے۔

حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اپنی دلی کیفیت کا اظہار جس طرح کیا، ہم لوگ اس طرح کا جملہ کہنے کی ہمت نہیں رکھتے، کیونکہ ہم صداقت اور سچائی کے اس مرتبے پر نہیں ہیں۔ ہم باتوں کو چھپاتے ہیں، حقیقت اورغیر حقیقت میں خلط ملط کرتے ہیں، اندر کی کیفیات کا ادراک نہیں کرتے اور جو سچائی اندر موجود ہے، اس کا اظہار نہیں کرتے ۔ صحابہ کرامؓ، خلفائے راشدینؓ اور پھر ان میں سیدنا فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ مرتبۂ ایمان میں اتنے بلند تھے کہ ان کے احساسات میں کوئی ملاوٹ نہیں تھی، ان کے ظاہر و باطن میں کوئی تضاد نہیں تھا، جو اخفاء میں تھا، وہی ان کے اظہار میں تھا۔ یہ ان کے ایمان کا کمال تھا کہ جو چیزانہوں نے محسوس کی، اس کا برملا اظہار حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں کردیا۔

مذکورہ حدیث کے ذریعے یہ واضح کیا جارہاہے کہ بندہ نہ صرف زبان سے محبت کا اقرار کرے بلکہ محبت کی کیفیات، لذّات، حلاوتیں، اثرات اور اس کے احساسات کا بھی ادراک کرے۔

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت عمرِ فاروق رضی اللہ عنہ کی بات سُن کر ارشاد فرمایا:

لاَ وَالَّذِي نَفْسِي بِیَدِهِ، حَتَّی أَکُوْنَ أَحَبَّ إِلَیْکَ مِنْ نَفْسِکَ.

’’نہیں،قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے! جب تک میں تمہیں اپنی جان سے بھی محبوب تر نہ ہو جائوں (تم اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتے)‘‘۔

یعنی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو یہ باور کرانا چاہتے تھے کہ اے عمر! اگر آپ کو میری محبت کے مقابلے میں اپنی جان کی محبت زیادہ عزیز ہے تو ابھی آپ کا ایمان کمال کے درجے پر نہیں پہنچا۔

آقا علیہ السلام کے یہ کلمات حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دل کی اتھاہ گہرائیوں میں اتر گئے اور ان کلمات کو سنتے ہی بارگاهِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں عرض گزار ہوئے:

فَإِنَّهُ الآنَ، وَ اللهِ ، لَأَنْتَ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ نَفْسِي.

’’یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! اب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت میرے اندر میری جان، میرے نفس اور میری زندگی کی محبت سے بھی بڑھ گئی ہے‘‘۔

یہ سن کر آقا علیہ السلام نے فرمایا:

الآنَ یَا عُمَرُ.

’’اے عمر! اب تمہارا ایمان کامل ہوا ہے‘‘۔

گویا ایمان اور دین کی تکمیل اس وقت ہوتی ہے جب ساری محبتیں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت کے مقابلے میں مغلوب ہوجائیں اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت ہر ایک محبت پر غالب آجائے۔

محبت کی اقسام

انسان دنیا میں جس سے بھی محبت کرتا ہے تو اس کی محبت کا کوئی نہ کوئی سبب یا وجہ ضروری ہوتی ہے جس کی بنیاد پر وہ کسی شخص یا چیز کو اپنا محبوب بنالیتا ہے۔ ان اسباب و وجوہات کی بنا پر محبت کی درج ذیل اقسام ہیں:

1۔ فطرت اور ملاطفت پر مبنی محبت

محبت کی ایک قسم یہ ہے کہ اللہ تعالی فطری طور پر کسی کے دل میں کسی کے لیے محبت ڈال دیتا ہے۔ مثلاً: والدین کی اپنی اولاد کے ساتھ محبت، شفقت، رحمت و ملاطفت فطرت کی بنیاد پر ہوتی ہے۔ اسی طرح اولاد کی اپنے والدین سے محبت منجانب اللہ ہوتی ہے اور اس کی بنیادی وجہ خونی رشتہ داری ہے۔ اس لیے دونوں سمت میں اس محبت کی بنیاد فطرت اور جبلت پر ہے اور اس کے ساتھ ساتھ اس میں شفقت اور رحمت بھی شامل ہوجاتی ہے۔ یعنی شفقت و رحمت اور فطرت و جبلت یہ دو چیزیں اس محبت کی بنیاد میں جمع ہوتی ہیں۔

2۔ رغبت و اشتہاء پر مبنی محبت

محبت کی یہ دوسری قسم طلب، رغبت اور اشتہاء کی بنا پر ہوتی ہے۔ بالفاظِ دیگر اسے شہوانی محبت کا نام بھی دیا جاسکتا ہے۔ جیسے کھانے پینے کی محبت، اچھے گھر، اچھی سواری، اچھا رہن سہن اور جن چیزوں میں آدمی سکون اور آرام محسوس کرتا ہے، ان کی محبت اس کے اندر پیدا ہوتی ہے۔ اس محبت کا ذکر اللہ رب العزت نے قرآن مجید میں یوں فرمایا ہے:

زُیِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّهَوٰتِ مِنَ النِّسَآءِ وَالْبَنِیْنَ وَالْقَنَاطِیْرِ الْمُقَنْطَرَةِ مِنَ الذَّهَبِ وَالْفِضَّةِ وَالْخَیْلِ الْمُسَوَّمَةِ وَالَانْعَامِ وَالْحَرْثِ ط ذٰلِکَ مَتَاعُ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَاج وَ اللهُ عِنْدَہٗ حُسْنُ الْمَاٰبِ.

(آل عمران، 3: 14)

’’لوگوں کے لیے ان خواہشات کی محبت (خوب) آراستہ کر دی گئی ہے (جن میں) عورتیں اور اولاد اور سونے اور چاندی کے جمع کیے ہوئے خزانے اور نشان کیے ہوئے خوبصورت گھوڑے اور مویشی اور کھیتی (شامل ہیں)، یہ (سب) دنیوی زندگی کا سامان ہے، اور اللہ کے پاس بہتر ٹھکانا ہے‘‘۔

یعنی زندگی شہوتوں اور رغبتوں کی محبت سے مزیّن کر دی گئی ہے اور ان محبتوں میں انسان کے لیے کشش رکھ دی گئی ہے۔ ہم ان محبتوں کے اندر ایک طبعی رغبت، رجحان، میلان اور ایک فطری جھکاؤ محسوس کرتے ہیں۔ گھروں کے ساتھ محبت ہے، اس لیے کہ پر سکون اور پر فرحت بخش زندگی ملتی ہے۔۔۔ کاروبار کی محبت ہے، اس لیے کہ کاروبار، راحت و عزت، طاقت و آسانی اور دولت لاتا ہے۔ اسی طرح فطرت کے اچھے مناظر سے محبت ہے، اس لیے کہ اس سے دل و نگاہ کو راحت ملتی ہے۔ الغرض ہر وہ چیز جو ہماری دل و نگاہ اور جسم کو سکون و راحت دے اس سے ہم محبت کرتے ہیں، پس یہ سکون و راحت اس چیز سے محبت کی بنیاد بن جاتا ہے۔

3۔ اجلال و تعظیم اور حُسن پر مبنی محبت

محبت کی تیسری قسم وہ ہے جو مبنی بر اجلال و تعظیم ہوتی ہے۔ یعنی اگر کوئی مرتبۂ علم، اخلاق، فکر و فلسفہ، سوچ کی بلندی، اعمالِ صالحہ، صالحیت، تقویٰ، پرہیز گاری، کسی خاص فن، کمال اور برتاؤ میں اعلیٰ اور عظیم ہے تو اس کے اجلال، تعظیم، بزرگی، کرامت اور مہارت کی وجہ سے اس سے محبت ہوجاتی ہے۔ الغرض اپنے محاسن، محامد اور اخلاق کی وجہ سے انسان اکرم، ارفع، اعلیٰ اور بزرگ بنتا ہے اور لوگوں کی نگاہ میں محبوب ہوجاتا ہے اور لوگوں کی طبیعتیں اس کی طرف اس کے کمال کی وجہ سے جھکتی ہیں۔ گویا اس کے آداب و خصائل اسے دوسروں کی نظروں میں محبوب بناتے ہیں۔

  • اس طرح کسی کا جمال اور خوبصورتی بھی محبت کی بنیاد ہے۔ یعنی کوئی بڑا خوبصورت ہے، اس کی شکل و صورت بڑی اچھی ہے تو اس بناء پر اس سے محبت کی جاتی ہے۔ مثلاً عوام مختلف ایکٹرز، اداکاروں، کھلاڑیوں اور کسی خاص میدان میں مہارت کے حامل لوگوں کے دیوانے ہوتے ہیں تو عوام کی اس محبت کی بنیاد ان شخصیات کی خوبصورتی یا ان کا اپنے فن میں باکمال ہونا ہوتا ہے۔

4۔ احسانِ نعمت پر مبنی محبت

محبت کی چوتھی قسم وہ ہے جس میں محبت کا سبب کسی نعمت کا احسان ہوتا ہے۔ یعنی کوئی کسی پر احسان اور بھلائی کرتا ہے، اس کو تعلیم دیتا ہے، اس کی مدد کرتا ہے، اس کی رہنمائی کرتا ہے، اس کو محکومی، غلامی اور پریشانی سے نکالتا ہے، ہر وقت اس کا خیال رکھتا ہے تو اس کے ان احسانات اور بھلائیوں کے ردِعمل میں اس کے لیے محبت پیدا ہونا شروع ہو جاتی ہے۔ گویا اس کے احسانات محبت کی بنیاد بنتے ہیں۔

حضور ﷺ سے محبت کی بنیاد جامعیت کی حامل ہے

محبت کی ان تمام اقسام میں سے والدین اور اولاد کی باہمی محبت کی قسم کو چھوڑ کر باقی ساری محبتیں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات میں جمع ہیں۔ وہ سارے وجوہ (reasons) اور اسباب جو محبت کو جنم دیتے ہیں، وہ سارے اسباب اللہ رب العزت نے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اندر بتمام و کمال رکھ دیئے ہیں۔

پس محبت کے اسباب میں سے کبھی اسباب مادی ہوتے ہیں اور کبھی اسباب روحانی ہوتے ہیں۔۔۔ کبھی ذہنی اور فکری اسباب ہوتے ہیں اور کبھی علمی، خلقی اور خُلقی اسباب ہوتے ہیں۔۔۔ اسی طرح اسباب کبھی سیرت اور کبھی صورت سے متعلق ہوتے ہیں۔ ساری محبتیں ان اسباب میں سے کسی ایک سبب کے باعث پیدا ہوتی ہیں۔ ان تمام طرح کی محبتوں؛ جبلی، فطری، راحت، اکرام، اجلال، جمال، فن اور شفقت و عاطفت کے کمال کے ماحصل کا حجم اور کیفیت سے بھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت بڑھ جائے، یعنی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت مقدار (quantity) میں بھی سب سے زیادہ ہو اور معیار (quality) میں بھی سب سے زیادہ ہو۔ اس کیفیت کے حصول کو حضور علیہ السلام نے ایمان قرار دیا۔

محبتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا تقاضا

محبتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کچھ تقاضے ہیں، جن کو مکمل کیے بغیر محبت کمال کونہیں پہنچتی۔ ذیل میں محبت کے چند تقاضوں کا ذکر کیا جارہا ہے:

1۔ ایثار و قربانی

جب محبت کا یہ عالم ہوجائے کہ وہ ہر چیز سے بڑھ جائے تو یہ محبت ایثار کا تقاضا کرتی ہے اور اس کی علامت یہ ہے کہ بندہ صرف محبوب کو دیکھنا، ملنا اور سننا چاہتا ہے۔ محبوب جو کہے اس کو مانتا ہے اور محبوب کے لئے اپنا آرام قربان کرتا ہے۔ وہ اپنا ذوق، اپنی چاہت اور اپنی ترجیح کو ختم کردیتا ہے اور محبوب کے لئے مر مٹتا ہے۔ جان دینی پڑے تو جان بھی دیتا ہے اور کوئی ایسا کام نہیں کرتا جس سے محبوب نے منع فرمایا ہے۔

2۔ محبوب کے محبوب سے محبت کرنا

وہ محبوب کو چاہتا ہے اور محبوب کے طرزِ زندگی کو اپناتا ہے۔۔۔ محبوب کی طرح کا لباس پہنتا ہے اور محبوب کی طرح کی نشست و برخاست رکھتا ہے۔۔۔ محبوب جن سے محبت کرتا ہے، وہ بھی ان سے محبت کرتا ہے۔۔۔ وہ حسنؓ و حسینؓ سے محبت کرتا ہے۔۔۔ وہ اہلِ بیت، صحابہ اور صالحین رحمہم اللہ سے محبت کرتا ہے۔۔۔ حتی کہ وہ غریب اور محتاج سے بھی محبت کرتا ہے۔۔۔ انسانیت اور اللہ تعالیٰ کی پوری مخلوق سے محبت کرتا ہے۔۔۔ اس لیے کہ وہ جانتا ہے کہ میرے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اِن تمام سے محبت کرتے ہیں۔ محبوب کی محبت جدھر جدھر جاتی ہے، محب کی محبت اس کے پیچھے پیچھے جاتی ہے۔ ایسا نہیں ہو سکتا کہ محبوب ایک چیز کو چاہے اور محب اس کے برعکس کسی اور چیز کو چاہے۔ دونوں محبتوں کے رخ اگر مخالف سمت ہوں اور بندہ کہے کہ میں تو بڑا عاشق ہوں تو محبت و عشق کا یہ دعویٰ محبوب کی بارگاہ میں قبول نہیں۔

افسوس! ہمارا عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور محبتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ ہے کہ آقا علیہ السلام کی چاہت کسی اور سمت ہے اور ہماری چاہتیں کسی اور سمت ہیں۔۔۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان کسی اور سمت ہے اور ہمارا عمل کسی اور سمت ہے۔۔۔ وہ جس چیز سے ناراض اور خفا ہوتے ہیں، ہم وہی کام کرتے ہیں۔۔۔ جس سے وہ خوش ہوتے ہیں، ہم اس کام کی پرواہ نہیں کرتے ہیں۔۔۔ جس کام کا وہ حکم دیتے ہیں، ہم اس کی نافرمانی کرتے ہیں۔۔۔ اور جن سے وہ منع کرتے ہیں، ہم اسی کام کو انجام دیتے چلے جاتے ہیں۔ المختصر یہ کہ دعوی محبت کا کرتے ہیں مگر اعمال محبوب کی تعلیمات اور رضا کے برعکس کرتے ہیں۔

3۔ غفلت سے احتراز

یہ بات ذہن نشین رہے کہ محبت کرنے والا کبھی غافل نہیں ہوتا۔ محبت اور غفلت دو الگ الگ چیزیں ہیں۔ محبت بے تاب رکھتی ہے، محبت جگاتی ہے، محبت بے چین رکھتی ہے اور محبت مستعد رکھتی ہے جبکہ ہماری زندگیوں میں غفلت اور کوتاہی ہے۔ ہم زبان اور دعویٰ کے اعتبار سے محبت کی بات کرتے ہیں جبکہ ظاہر اور باطن میں ساری زندگی ہم خلافِ محبت اعمال و احوال کے مرتکب ہوتے ہیں۔ محبت، متابعت اور موافقت چاہتی ہے، وہ مخالفت گوارا نہیں کرتی۔۔۔ محبت، محبت چاہتی ہے، وہ نفرت گوارا نہیں کرتی۔۔۔ محبت ملاطفت چاہتی ہے، وہ منافرت گوارا نہیں کرتی۔۔۔ محبت قربت چاہتی ہے، وہ دوری گوارا نہیں کرتی۔۔۔ محبت ایثار و قربانی چاہتی ہے، وہ بخل اور کنجوسی گوارا نہیں کرتی۔۔۔ یعنی وہ کون سا محب ہے جو محبت کا دعویٰ بھی کرے اور طبیعت میں بخل اور کنجوسی بھی رکھے؟ اس تناظر میں محبت، محب، محبوب اور تعلقِ محبت کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔

4۔ تعلیمات میں فنائیت

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمان کا مقصد یہ ہے کہ جس شخص میں محبت کی جملہ اقسام کا کمال مل کر بھی میری محبت کے ایک ذرہ کے برابر نہ ہو تو وہ شخص ایمان میں کامل ہے۔ اسی لیے فرمایا:

قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللهَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰهُ.

(آل عمران، 3: 31)

’’(اے حبیب!) آپ فرما دیں: اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو، اللہ تمہیں محبوب بنالے گا ‘‘۔

یعنی اگر اللہ سے محبت کرتے ہو تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات کی اطاعت و اتباع میں فنا ہوجاؤ۔۔۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رضا، حکم، منشا اور خوشی میں فنا ہوجاؤ۔۔۔ جہاں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قدم رکھیں، یعنی جن راہوں پر چلیں اور جو طرزِ حیات متعین کریں، وہی طرزِ حیات تم اپنالو اور ان ہی راہوں پر تم بھی محوِ سفر ہوجائو۔۔۔الغرض حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اسوہ، سیرت، چاہت، رغبت اور ترجیح میں فنا ہو جاؤ۔

جب ایسا کر لو گے تو اللہ تمہیں صرف اپنا محب نہیں رہنے دے گا بلکہ تمہیں اپنا محبوب بنا لے گا کیونکہ تم اس کے محبوب کے سچے محب ہو۔ اللہ کا طریق یہ ہے کہ وہ اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ایسی محبت کرتا ہے کہ جو اس کے محبوب کا سچا محب ہوجاتا ہے، اللہ اسے بھی اپنا محبوب بنا لیتا ہے۔ معلوم ہوا کہ سچا محب وہ ہوتا ہے جو محبوب کے محبوب سے بھی پیار کرتا ہے اور محبوب کے محب سے بھی پیار کرتا ہے۔

حلاوتِ ایمان کا حصول کیونکر ممکن ہے؟

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

ثَلاَثٌ مَنْ کُنَّ فِیهِ وَجَدَ حَلاَوَةَ الإِیمَانِ.

(صحیح البخاری، کتاب الایمان، باب حلاوة الایمان، 1: 14، الرقم: 16)

یعنی تین چیزیں ایسی ہیں کہ اگر کوئی شخص انہیں ایسا حاصل کرے اور اپنے باطن میں ایسا داخل کرے کہ اس کی پوری طبیعت، مزاج اور باطن کی کیفیت ان تین چیزوں پر استوار ہو جائے تو اس شخص نے ایمان کی حلاوت اور لذّت (Taste) کو پا لیا۔

آقا علیہ السلام لفظِ حلاوت فرما کر ایک محسوس شے کی تشبیہ سے ایک غیر محسوس حقیقت کو سمجھارہے ہیں۔ اس اسلوب سے اشارہ اس سمت ہے کہ جس طرح اچھے اور خوش ذائقہ کھانوں، مشروبات اور پھلوں سے لوگوں کو حلاوت و لذّت (Taste) ملتی ہے اور وہ اس حلاوت، ذائقہ اور لذّت کو محسوس کرتے ہیں، اسی طرح ایمان کی حلاوت اور لذّت کو بھی اپنے اندر محسوس کیا کرو۔ جب آدمی ایمان کی لذّت و حلاوت کو اپنے اندر محسوس کرنے لگ جاتا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ اب اس کا ایمان محض تصدیق اور اظہار کے کلمات تک نہیں رہا بلکہ ایک زندہ حقیقت بن کر اس میں رچ بس گیا ہے۔

ایمان کو حلاوت و لذّت سے آشنا کرنے والی چیزیں درج ذیل ہیں:

1۔ أَنْ یَکُونَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَحَبَّ إِلَیْهِ مِمَّا سِوَاهُمَا.

پہلی چیز یہ ہے کہ حلاوت و لذّتِ ایمان کے حصول کے لیے ’’اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ساری کائنات کی ہر شے سے بڑھ کر اسے محبوب ہو جائیں‘‘۔ یعنی کائنات کی کوئی شے اللہ تعالیٰ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مقابلے میں اس کی زندگی میں عملاً ترجیح نہ رکھے۔ ہر چیز پیچھے چلی جائے اور اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت اس کے اندر کائنات کی ہر شے سے بڑھ جائے۔

جس دنیا میں ہم رہ رہے ہیں، یہاں قدم قدم پر محبتیں ہیں جن کا ذکر زین للناس حب الشہوات کے الفاظ میں قرآن مجید نے کیا ہے، لیکن غور طلب بات یہ ہے کہ اللہ رب العزت نے ان محبتوں سے منع نہیں کیا بلکہ فرمایا ہے کہ یہ محبتیں اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت سے بڑھنے نہ پائیں۔ یہ نہیں فرمایا کہ یہ ساری محبتیں ختم کر دو۔ کیوں منع نہیں فرمایا؟ اس لیے کہ اگر ماں باپ اولاد سے محبت ختم کر دیں تو پرورش نہیں کرسکتے۔۔۔ اولاد اگر ماں باپ سے محبت ختم کر دے تو ان کی عزت اور احترام و تکریم نہیں کر سکتے۔۔۔ بھائی، بہن اگر محبت ختم کر دیں تو صلح رحمی نہیں ہوتی۔۔۔ دوست، دوست سے محبت ختم کر دے تو حقوق ادا نہیں ہوتے۔۔۔ مخلوق سے محبت ختم ہو جائے تو کسی پر احسان اور بھلائی نہیں ہوتی۔ اس لیے اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ دنیا کی محبتیں رہیں، یہ درکار ہیں مگر اِن کا پیمانہ یہ ہے کہ جہاں اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت، ان کا امر و نہی اور تعلیمات آجائیں تو وہاں یہ ساری محبتیں مغلوب ہوجائیں اور اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت کائنات کی ساری محبتوں سے اعلی، ارفع، قوی اور طاقتور ہوجائے۔

2۔ وَأَنْ یُحِبَّ الْمَرْءَ لاَ یُحِبُّهُ إِلاَّ لِلَّهِ.

حلاوتِ ایمان کے حصول کے لیے دوسری چیز کے متعلق رہنمائی فرمائی کہ ’’جس شخص سے بھی وہ بندہ محبت کرے تو اللہ کے لیے کرے‘‘۔ یعنی اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت کا اثر اس کی شخصیت، سیرت اور طبیعت و مزاج پر ایسا ہو کہ اب اس کے نزدیک دنیا کی محبتوں کا پیمانہ بدل جائے اور اب وہ جس سے بھی محبت کرے، اللہ کے لیے کرے۔ دنیاوی محبتوں کو کسی نہ کسی طریقے سے خیر کے ساتھ جوڑ دے۔ مثلاً: اپنی اولاد سے محبت کرے تو اس میں اپنی نیت خیر کی کر لے کہ میں اولاد کی اچھی پرورش اس لیے کر رہا ہوں تاکہ یہ نیک اور خوش اخلاق انسان بن جائے۔ یہ اچھے مسلمان بنیں، انسانیت کی خدمت کریں، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت کا اچھا فرد بنیں، ایسا فرد بنیں کہ اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم راضی ہوں، یہ دین کی خدمت کریں، اچھا علم و ہنر سیکھیں تاکہ لوگ ان سے فائدہ اٹھائیں، اس کے طور طرز اچھے ہوں، سچ بولنے والے ہوں، نافرمانی اور گناہ سے پرہیز کریں، ان کی سیرت عمدہ ہو اور یہ تقوی و پرہیزگاری کے پیکر ہوں۔

الغرض جس سے بھی محبت کریں یا صحبت رکھیں تو اس میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت، ان کا حکم، ہدایات اور تعلیمات کا کوئی نہ کوئی پہلو ضرور شامل کرلیں۔ اس سے فائدہ یہ ہوگا کہ یہ بظاہر دنیاوی محبت بھی اللہ کے لیے محبت قرار پائے گی۔ گویا دنیا کے اندر بھی ساری محبتوں کی سمت اور رُخ اللہ تعالیٰ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رضا بن جائے۔

3۔ وَأَنْ یَکْرَهَ أَنْ یَعُودَ فِی الْکُفْرِ کَمَا یَکْرَهُ أَنْ یُقْذَفَ فِی النَّارِ.

حلاوتِ ایمان کے حصول کے لیے تیسری چیز کی جانب متوجہ کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر حلاوت و لذّتِ ایمان کے متمنی ہو تو کفر اور معصیت سے اتنی نفرت ہوجائے کہ مسلمان ہوجانے کے بعد کفر کی طرف واپس پلٹ جانا، نیک و صالح ہوجانے کے بعدواپس فسق و فجور کی طرف پلٹ جانا اور نیکو کار، عبادت گزار اور اللہ کی راہ پر چلنے کے بعد گمراہی کی راہ پر پلٹ جانا تمہارے لیے اس قدر نفرت کا باعث ہوجائے جیسے کوئی شخص آگ میں پھینکے جانے سے نفرت کرتا ہے۔

جس نے یہ تین چیزیں اپنے اندر پیدا کر لیں اور اپنی طبیعت اور مزاج کو اس پر استوار کر لیا تو دراصل اس نے ایمان کی حلاوت اور لذّت چکھ لی۔

طاعات و عبادات میں عدمِ یکسوئی کا سبب

اگر ہم اپنی زندگیوں کا جائزہ لیں تو افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہماری طبیعتیں ان تین چیزوں پر استوار ہی نہیں ہیں۔ اسی وجہ سے ہم ایمان کی لذّت و حلاوت سے محروم ہیں اور جب ایمان کی لذت میسر نہیں آتی تو ہماری عبادت، سجدوں، تلاوت، نماز، روزوں، طاعات، عبادات، حسنات اور خیرات میں بھی کوئی حلاوت و لذّت نہیں رہتی۔ ہمیں یکسوئی بھی نصیب نہیں ہوتی اور نہ ہی کوئی کیفیت مقدر بنتی ہے۔

ہم روزمرہ زندگی میں اس بات کا رونا روتے نظر آتے ہیں کہ عبادات و طاعات میں یکسوئی نہیں ہوتی، رجحان نہیں ہوتا لیکن کیا ہم نے کبھی اس محرومی کے سبب پر غور کیا کہ ایسا کیوں ہے۔۔۔؟ اس کا بنیادی سبب ہی یہ ہے کہ ہم نے مذکورہ تین چیزوں کو صحیح طور پر اختیار نہیں کیا ہوتا۔ ہماری طبیعت میں دنیا پرستی ہمیشہ غالب رہتی ہے۔ اگر اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت ہر محبت پر غالب نہ ہو۔۔۔ نیکی کی محبت، بدی کی محبت پر غالب نہ ہو۔۔۔ اور ہر ایک کے ساتھ رشتہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے نہ ہو۔۔۔ تو پھر حلاوتِ ایمان نصیب نہیں ہوتی۔ یہ تین چیزیں ہمارے خیالات، رجحانات، اعمال، احوال، طور طریقے حتی کہ ہماری پوری زندگی کو کنٹرول کرتی ہیں۔

ایمان جوں جوں سنورتا ہے، یکسوئی خود بخود جنم لیتی ہے۔ یکسوئی کسی انجکشن یا ورد وظیفے سے نہیں آجاتی بلکہ یہ ایمان کے فوائد و نتائج کی صورت میں ظاہر ہوتی ہے۔ ہر خیر کے عمل سے فائدہ ہوتا ہے مگر ہر ایک کے لیے قدرتی طریقہ کار ہے۔ مثلاً: اگر بیج بوئیں تو یہ ناممکن ہے کہ تنا اُگے بغیر پھل آجائے اور بیٹھے بٹھائے ورد وظیفے سے پھل مل جائے۔ پھل ایسے نہیں لگتے بلکہ پھل تک پہنچنے کے لیے سارے مراحل کو مکمل کرنا پڑتا ہے۔ پودے کو پانی یا کھاد نہ دیں یا اسے روشنی نہ ملے اور ہم چاہیں کہ پودا بڑا ہوجائے ثمر آور درخت بن جائے تو پودے اس طرح نہ ہی درخت بنتے ہیں اور نہ ہی ان سے پھل ظاہر ہوتا ہے۔

سمجھانا مقصود یہ ہے کہ ہر چیز کے تقاضے ہیں، ساری چیزیں پوری ہوں، تب نتیجہ برآمد ہوتا ہے۔ اگر گھر کا ماحول فسق و فجور، معصیت اور نافرمانی کا رکھیں اور اس میں اللہ، رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور دین کی محبت کی جگہ ہی نہ ہو بلکہ ہر طرف گناہ اور لغویات ہوں اور اس بات کی امید رکھیں کہ اس ماحول کے اندر نیکی و صالحیت کا پودا اُگ جائے اور اولاد کے اندر اچھے محاسن و اوصاف پیدا ہوجائیں تو یہ ناممکن ہے۔ پس مذکورہ تین شرائط کو مکمل کیے بغیر حلاوتِ ایمان اور پھر بعد ازاں اس کے نتائج کا حصول ناممکن ہے۔

اسی حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اللہ رب العزت نے فرمایا:

قُلْ اِنْ کَانَ اٰبَآؤُکُمْ وَاَبْنَآؤُکُمْ وَاِخْوَانُکُمْ وَاَزْوَاجُکُمْ وَعَشِیْرَتُکُمْ وَاَمْوَالُ نِ اقْتَرَفْتُمُوْهَا وَتِجَارَۃٌ تَخْشَوْنَ کَسَادَهَا وَمَسٰکِنُ تَرْضَوْنَهَآ اَحَبَّ اِلَیْکُمْ مِّنَ اللهِ وَرَسُوْلِہٖ وَجِهَادٍ فِیْ سَبِیْلِہٖ فَتَرَبَّصُوْا حَتّٰی یَاْتِیَ اللهُ بِاَمْرِہٖ ط وَ اللهُ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الْفٰسِقِیْنَ.

(التوبة، 9: 24)

’’(اے نبی مکرم!) آپ فرما دیں: اگر تمہارے باپ (دادا) اور تمہارے بیٹے (بیٹیاں) اور تمہارے بھائی (بہنیں) اور تمہاری بیویاں اور تمہارے (دیگر) رشتہ دار اور تمہارے اموال جو تم نے (محنت سے) کمائے اور تجارت و کاروبار جس کے نقصان سے تم ڈرتے رہتے ہو اور وہ مکانات جنہیں تم پسند کرتے ہو، تمہارے نزدیک اللہ اور اس کے رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) اور اس کی راہ میں جہاد سے زیادہ محبوب ہیں تو پھر انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ اپنا حکمِ (عذاب) لے آئے، اور اللہ نافرمان لوگوں کو ہدایت نہیں فرماتا‘‘۔

اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت، دین اسلام کی محبت اور دین کے فروغ کے لیے کاوشیں کرنا، اپنی اولاد، معاشرے اور لوگوں میں دین کو مستحکم کرنا، دین کی دعوت، فکر اور کردار کو فروغ دینا اور اس کے فروغ میں انفرادی و اجتماعی سطح پر محنت کرنا، جب تک یہ تمام امور تمام دنیاوی محبتوں پر غالب نہ ہوں تو اس کا مطلب ہے کہ اللہ کی سزا اور عذاب کا وقت قریب ہے۔

افسوس کہ ہم آج اس مرحلہ پر ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے اعمال و احوال پر غورو فکر کرنے اور فروغ و استحکامِ دین کے لیے عملی اقدامات اٹھانے کی توفیق مرحمت فرمائے تاکہ ہم نہ صرف اللہ رب العزت کے عذاب اور پکڑ سے محفوظ رہ سکیں بلکہ اس کی محبت کے حقدار بھی بن سکیں۔ آمین بجاہ سیدالمرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

ماخوذ از ماہنامہ منہاج القرآن، نومبر 2020ء

تبصرہ