اسلامی ملک پاکستان میں خودکشی کا بڑھتا ہوا رجحان

ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے گزشتہ 8سال کے اعداد و شمار میں بتایا ہے کہ پاکستان میں اوسطاًسالانہ 13 ہزار 377 خودکشی کے واقعات ہوتے ہیں۔ خودکشی کرنے والوں میں 7 ہزار کے لگ بھگ خواتین اور 6 ہزار کے قریب مرد خودکشی کرتے ہیں۔ رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ مردوں کی نسبت خواتین میں خودکشی کرنے کا رجحان 20 گنا زیادہ ہے۔ اس کے علاوہ رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اپنے آپ کو نقصان پہنچانے کا رجحان بھی بتدریج بڑھ رہا ہے۔ رپورٹ کے مطابق 75 فیصد واقعات میں دماغی امراض کا شکار افراد خودکشی کرتے ہیں۔ اسلامی ملک پاکستان میں خودکشی کرنے اور اس ضمن میں خود کو نقصان پہنچانے کی کوشش کے واقعات میں اضافہ لمحہ فکریہ ہے۔ اگرچہ اس انتہائی اقدام کے پیچھے کچھ سماجی، معاشی، عائلی، معاشرتی مسائل ہوتے ہیں تاہم وجہ کوئی بھی ہو جان لینے یا جان لینے کی کوشش کے اس انتہائی عمل کی اسلام اور ملکی قوانین میں کوئی گنجائش نہیں ہے بلکہ یہ عمل قانونی اعتبار سے قابل گرفت ہے۔ خودکشی کے واقعات میں اضافہ کے سوال پر مختلف بین الاقوامی تنظیمات جب سرکاری اداروں سے ان کی وجوہات اور متعلقہ اعداد و شمار جاننے کی کوشش کرتی ہیں تو ہمارے اداروں کی جانب سے اس سوال کے جواب میں کہا جاتا ہے کہ یہ عمل غیر قانونی اور قابل سزا جرم ہے اور ہم ایسے افراد کو قانون کا حوالہ دے کر ڈراتے اور اس انتہائی عمل سے دور رہنے پر آگاہ کرتے ہیں اور جوشخص خودکشی کا ارادہ کرتا ہے تو اس کے لئے ایک سال قید کی سزا ہے۔ یہ سرکاری موقف مضحکہ خیز سا ہے جو شخص کسی بھی وجہ سے اپنی جان لینے کی کوشش کرتا ہے اُسے آپ ایک سال کی قید کی سزا کا ڈروا دے کر اُسے اس انتہائی ارادے سے باز نہیں رکھ سکتے۔

مغربی ممالک میں جب کوئی سماجی یا طبی مسئلہ تواتر کے ساتھ ظاہر ہوتا ہے تو وہاں کے طبی، نفسیاتی ماہرین سر جوڑ کر بیٹھ جاتے ہیں اور تدارک کے لئے لائحہ عمل طے کرتے ہیں ۔ ظاہر ہے ہر مسئلہ کے پیچھے کچھ محرکات ہوتے ہیں، جب تک آپ ان محرکات کا تدارک نہیں کرلیتے تب تک اصل بیماری کو جڑ سے نہیں کاٹا جا سکتا۔ خودکشی کرنا یا اس کا ارادہ کرنا یااپنے آپ کو نقصان پہنچنانے کوشش کرنا یہ محض اتفاق نہیں ہو سکتا۔ اس رجحان کے جنم لینے اور پختہ ہونے کے پیچھے متعدد سماجی، عائلی، خاندانی، نفسیاتی مسائل ہوتے ہیں۔ تھرڈ ورلڈ میں آفات کو آسمان کی بلا سمجھ کر اپنے آپ کو دھوکے میں ڈالا جاتا ہے اور ہر بڑے نقصان کو اللہ کی رضا سمجھ کر قبول کر لیا جاتاہے۔ حالانکہ مسائل کا حل موجودہوتا ہے۔ ہمارے ہاں معاشرتی سائنس کے مضمون کو سرے سے نظر انداز کیا جاتا ہے۔ اس کے لئے کوئی باقاعدہ ڈیپارٹمنٹ یا کوئی ادارہ موجود نہیں ہے کہ اس کا فوراً حل تجویز کیا جا سکے۔ ابھی حال ہی میں کورونا وائرس کی وباء آئی جب یہ وباء اپنی شدت پر تھی تو حکومت کی ساری توجہ اس سے بچنے کے لئے ایس او پیز پر عملدرآمد کروانے پر تھی، کاروباری سرگرمیاں مکمل طور پر التواء کا شکار ہو گئی تھیں۔ سرکاری دفاتر بھی بند تھے۔ ملک کی آبادی کا ایک بڑا حصہ گھروں میں مقید ہو کررہ گیا۔ اب کسی حکومتی ادارے کی طرف سے اس فراغت کے نتیجے میں جنم لینے والے گھریلو مسائل پر توجہ نہیں دی، البتہ اس حوالے سے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے لیکچرز کی سیریز ریکارڈ کروائی اور عامۃ الناس کو ایجوکیٹ کیا کہ اینگر مینجمنٹ کیسے کرنی ہے؟ اور بیروزگاری کے نتیجے میں جنم لینے والے نفسیاتی اور گھریلو مسائل کو کیسے ہینڈل کرنا ہے، اسی طرح ہر مسئلے پر ملکی اداروں کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے اورخودکشی جیسے مسئلہ کو ہینڈل کرنے کے لئے بھی ماہرین کو سر جوڑ کر بیٹھنا چاہیے۔ خودکشی کے رجحان کی روک تھام کے لئے ایک ذمہ داری حکومت کی ہے کہ وہ بیروزگاری جیسے مسائل کو کم کرنے کے لئے اقدامات کرے، دوئم صحت کے شعبہ کو فعال بنائے، دوسرا علمائے کرام اور مذہبی، سماجی تنظیموں کی بھی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ لوگوں کی اخلاقی تربیت اور اصلاح احوال پر توجہ دیں۔ کوئی ایسا مسئلہ نہیں ہے غور و فکر اور بات چیت کے نتیجے میں جس کا کوئی قابل قبول حل نہ نکالا جا سکے۔

ماخوذ از ماہنامہ دخترانِ اسلام، جولائی 2021ء

تبصرہ