ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے احوالِ حالات (قسط دوم)

نواز رومانی

قسط اوّل ملاحظہ کرنے کے لیے یہاں کلک کیجئے

حضرت اسید بن حضیر  رضی اللہ عنہ نے انہی احسانات کے پیش نظر ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو مخاطب کرکے عرض کیا تھا:

’’اللہ تبارک وتعالیٰ آپ کو بہترین جزا دے جب بھی آپ کے کسی کام میں رکاوٹ پڑی، اللہ نے خود ہی مدد فرمائی اور مسلمانوں کے لئے بھی اس میں برکت ہوئی‘‘۔

ہار کی دستیابی کے بعد لشکر اسلام پھر مدینہ طیبہ کی طرف چل پڑا، راستے میں لشکر نے بوقت شب ایک جگہ پڑائو کیا۔ جب مجاہدین اسلام کچھ سستا لیے تو سفر پھر شروع ہوا۔ عین آغاز سفر کے وقت یہ نہ جانتے ہوئے کہ لشکر آمادہ سفر ہے، ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کسی طبعی ضرورت سے فاصلے پر چلی گئیں۔ اسی اثناء میں جانثاران رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ سمجھتے ہوئے کہ ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا ہودج میں ہیں، خالی ہودج، اٹھا کر رکھ لیا اور لشکر کے ہمراہ روانہ ہوگئے۔

جب سیدہ  رضی اللہ عنہا واپس تشریف لائیں تو لشکر جاچکا تھا۔ صحرا میں تنہا سفر کرنے میں کوئی مصلحت نہ سمجھی۔ یہ سوچ کر کہ جب لشکری مجھے نہ پائیں گے تو واپس ضرور آئیں گے۔ چنانچہ چادر سے اپنے جسم مبارک کو لپیٹ کر وہیں دراز ہوگئیں۔

حضرت صفوان بن معطل  رضی اللہ عنہ بڑے بلند کردار اور امانت دار صحابی رسول تھے، وہ ساقہ قافلہ کے فرائض سرانجام دے رہے تھے، قافلہ کی گری پڑی اشیاء کو سنبھالنا اور شرکائے قافلہ کی نگہداشت کرنا ان کے ذمہ تھا، وہ جب پڑائو کے مقام پر پہنچے تو ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو دیکھ کر ہکا بکا رہ گئے۔

انہوں نے انا للہ وانا الیہ راجعون پڑھا اور عرض کیا: ام المؤمنین! (رضی اللہ تعالیٰ عنہا) آپ اور اس صحرا میں تنہا، قافلہ سے علیحدگی کا سبب کیا ہوا؟ مگر انہوں نے کوئی جواب نہ دیا۔ حضرت صفوان  رضی اللہ عنہ نے اپنے اونٹ کو بٹھایا اور عرض کی: اس پر سوار ہوجایئے۔

اور خود پرے ہٹ گئے تاکہ حیا دامن گیر نہ ہو اور پھر خود اس دوسرے اونٹ پر سوار ہوگئے جو لشکر کی گری پڑی اشیاء اٹھانے کے لئے تھا۔ اونٹوں کی رفتار تیز کردی گئی تاکہ لشکر کے قریب پہنچ سکیں لیکن قافلہ بڑی تیزی سے سفر کررہا تھا کہ اس نے مدینہ پہنچ کر ہی دم لیا اور جب حضرت صفوان رضی اللہ عنہ ام المؤمنین رضی اللہ عنہا کے ساتھ مدینہ پہنچے تو دن کی روشنی خاصی پھیل چکی تھی۔

مدینہ میں لشکر اسلام کی آمد سے تھوڑی ہی دیر بعد ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا تشریف لے آئی تھیں۔ بدگمانی کی کوئی وجہ نہ تھی، زندگی میں ایسے واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں لیکن منافقین جو ایسی باتوں کی ٹوہ میں لگے رہتے تھے، انہوں نے اپنے خبث باطن کا اظہار تو کرنا ہی تھا۔ عبداللہ بن ابی امیرالمنافقین نے اس واقعہ کو برائی کا رنگ دینا شروع کردیا۔

جس نے بھی یہ افواہ سنی، لرزہ براندام ہوگیا اور بول اٹھا: یہ بہتان عظیم ہے۔یہ افواہیں پھیلی ہوئی تھیں لیکن کمال کی بات ہے کہ کسی کو بھی اتنی جرات نہ ہوسکی کہ وہ براہ راست ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے تذکرہ کرے۔

29 روز کی بیماری نے انہیں بےحد لاغر و کمزور کردیا لیکن ابھی تک انہیں یہ معلوم نہ تھا کہ ان پر بہتان باندھا گیا ہے۔ ایک دن ایک انصاریہ خاتون سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے ملیں تو انہوں نے ازراہ نیک نیتی بتایا کہ لوگ ان پر کیا بہتان لگارہے ہیں۔ سنا تو روح بلبلا اٹھی، دل ڈوبنے لگا، ساون بھادوں کی طرح آنکھوں سے آنسو بہنے لگے، آواز بھرا گئی، بستر سے اٹھیں اور اپنی ماں کی آغوش سے لپٹ کر سسکیاں بھرنے لگیں۔ ذرا ہوش آیا تو ماں سے شکایت آمیز لہجے میں کہا:

امی جان! آپ نے سب کچھ سنا ہوگا لیکن کیا بات ہے کہ آپ نے مجھ پر یہ راز آشکار نہ ہونے دیا؟ ان کی والدہ نے کہا: بھلا یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ کوئی عورت اپنے شوہر کی پیاری ہو اور اس کی سوکنیں اس سے جلن نہ رکھیں، ایسا تو ہوتا ہی رہتا ہے۔

اس جواب سے ام المؤمنین رضی اللہ عنہا مطمئن نہ ہوئیں۔ اور پھر ایک دم ان کے ہاتھ بارگاہ رب العزت میں اٹھے۔ اے بار الہٰ! میری امداد کر اور کوئی ایسی صورت پیدا کر کہ تیرے محبوب صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پھری ہوئی نگاہیں میری طرف پھر مائل ہوجائیں۔

حضور اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دریافت فرمایا: عائشہ  رضی اللہ عنہا! تم اس اتہام کے بارے میں کیا کہتی ہو؟ جب اپنے آقا و مولا کے دہن مبارک سے سنا تو چیخیں نکل گئیں۔ انصاری خاتون بھی پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ سیدہ  رضی اللہ عنہا حضور اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف متوجہ ہوئیں تو آنسو رک گئے، آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: عائشہ!(رضی اللہ عنہا) خشیت و تقویٰ کی راہ اختیار کرو اگر تہمت درست ہے تو اللہ کی بارگاہ میں توبہ کرو، وہ تواب الرحیم ہے۔

اور عرض کیا: یارسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم! آپ جو یہ فرمارہے ہیں کہ میں توبہ کروں تو یہ کس لئے؟ جب مجھ سے کوئی گناہ ہی سرزد نہیں ہوا۔ اس گفتگو کے بعد حاضرین پر سکوت کا عالم طاری ہوگیا۔ اسی اثناء میں رسالت مآب صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نزول وحی کی کیفیت طاری ہوگئی۔ حاضرین نے آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا چہرہ مبارک چادر سے ڈھانپ دیا، سرہانے تکیہ رکھ دیا تاکہ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم اس سے ٹیک لگاسکیں۔ ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو اس موقع پر اپنی بے گناہی کے سبب قطعاً یہ شبہ نہ تھا کہ علام الغیوب میرے معاملہ میں انصاف نہیں فرمائے گا لیکن ان کے والدین کی یہ حالت تھی جیسے ان کی روحیں قبض کی جارہی ہوں۔ انہیں یہ اندیشہ تھا کہ الزام و اتہام کی تصدیق کہیں وحی سے نہ ہوجائے۔

اسی سلسلہ میں کچھ آیات کے بعد آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ آیات پڑھیں جن کا ترجمہ ہے: اور جب تم نے ایسی باتیں سنی تھیں تو سنتے ہی کیوں نہ بول اٹھے کہ ہم کو ایسی بات منہ سے نکالنا زیبا نہیں۔ حاشا وکلا یہ تو عظیم بہتان ہے، اللہ تم کو نصیحت کرتا ہے کہ اگر ایمان رکھتے ہو تو پھر کبھی ایسا نہ کرو اور اللہ اپنے احکام تم سے کھول کھول کر بیان کرتا ہے اور اللہ سب کے حال سے واقف اور حکمت والا ہے جو لوگ چاہتے ہیں کہ مسلمانوں میں بے شرمی کی باتوں کا چرچا ہو، ان کے لئے دنیا میں دردناک عذاب ہے اور آخرت میں بھی اور ایسے لوگوں کو اللہ ہی جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔

حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ اپنی اس غلطی پر ساری عمر پشیمان رہے کہ انہوں نے سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا پر بہتان تراشنے والوں کا ساتھ کیوں دیا۔

ام المؤمنین سیدہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا محو استراحت تھیں کہ عالم رویاء میں کیا دیکھتی ہیں کہ ان کے گھر میں تین چاند اترے ہیں، آنکھ کھل گئی۔ سوچنے لگیں کہ اس کی کیا تعبیر ہوسکتی ہے؟ بالآخر اپنے والد گرامی سیدنا حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی خدمت میں اپنا خواب بیان کیا۔ انہوں نے سنا تو فرمایا:

بیٹی! تمہارے گھر میں دنیا کے تین بہترین افراد دفن ہوں گے۔ نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حج کا ارادہ فرمایا اور اعلان کروا دیا گیا کہ تم لوگ بھی اس سال اللہ کے رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ حج ادا کرو۔

تمام جزیرہ عرب میں ہلچل مچ گئی، لوگ پہاڑوں، میدانوں اور صحرائوں کو عبور کرتے ہوئے مدینہ طیبہ کا رخ کرنے لگے۔ مدینہ کے گرد خیموں کا ایک شہر آباد ہوگیا جس میں ایک لاکھ سے زیادہ ایسے اشخاص سکونت پذیر تھے جو رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعوت پر لبیک کہتے ہوئے آپ کے ہمراہ فریضہ حج کی ادائیگی کے لئے جمع ہوئے تھے۔ ہر شخص حضور اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ فریضہ حج ادا کرنے کی سعادت سے بہرہ مند ہونے پر شاداں و فرحاں تھا۔

ایام حج بخیرو خوبی انجام پذیر ہوئے اور حضور اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم واپس مدینہ تشریف لے آئے، چند دنوں بعد آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم علیل ہوگئے اب تک آپ صرف دو مرتبہ بیمار ہوئے تھے۔ پہلی مرتبہ 6 ہجری میں بھوک کی شدت کے باعث طبیعت ناساز ہوئی تھی اور دوسری مرتبہ سات ہجری میں جبکہ غزوہ خیبر کے وقت ایک یہودی عورت نے آپ کو زہریلا گوشت کھلادیا تھا لیکن آپ نے لقمہ نگلنے سے پہلے ہی پھینک دیا تھا۔ گوشت نے بتادیا تھا: حضور اکرمA! میرے اندر زہر شامل کردیا گیا ہے۔

8 جون 632 عیسوی کا دن تھا، سخت گرمی پڑ رہی تھی، قریب ہی ٹھنڈے پانی کا برتن رکھا ہوا تھا جس میں رسول عربی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم بار بار ہاتھ ڈالتے اور پھر اسے سر پر ملتے تھے۔ اسی اثناء میں سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا ایک صاحبزادہ مسواک لے کر حجرے میں داخل ہوا۔ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کی طرف ایسے دیکھا جیسے مسواک کرنا چاہتے ہوں، سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے بھائی کے ہاتھ سے مسواک لے کر اپنے دانتوں سے چبائی جب ریشے خوب نرم ہوگئے تو اپنے آقا و مولا صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھ میں پکڑا دی تو آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے اپنے دندان مبارک پر ملا۔

اس کے بعد آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم پر حالت نزع طاری ہوگئی۔ حضور اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سراقدس سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی گود مبارک میں تھا، فرماتی ہیں: میں نے محسوس کیا رسالت مآب صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جسم مبارک بھاری ہوگیا ہے۔ میں نے آپ کے چہرہ انور پر نظر ڈالی تو آپ کی آنکھیں پتھرائی جارہی تھیں اور زبان مبارک پر تھا:

’’اب تو جنت میں اپنے رفیق اعلیٰ کے پاس ہی جانا چاہتا ہوں‘‘۔

جب احساس ہوا کہ حضور اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے رب کریم کے پاس تشریف لے گئے ہیں تو آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سر مبارک تکیہ پر رکھ دیا اور پھر اشکوں کا سیلاب تھا کہ وہاں موجود ہر آنکھ سے بہہ نکلا جب یہ خبر عام ہوئی تو ہر آدمی پر سکتہ طاری ہوگیا۔ رحمۃ للعالمین صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے سانحہ عظیم کو چودہ سوسال سے زیادہ گزر چکے ہیں لیکن اگر آپ اس واقعہ کا تصور کریں تو کپکپی طاری ہوجائے۔

اس وقت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی عمر مبارک 28 سال تھی۔ ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بعد میں بھی اسی حجرہ میں مقیم رہیں۔ اپنے محبوب آقا و مولا حبیب کبریا صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اپنے رب کے پاس تشریف لے جانے کے بعد ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی حیات پاک کا مقصد وحید دوسروں کو قرآن و حدیث کی تعلیم دینا تھا۔

صدیقی گھرانے کے پاکیزہ ماحول اور رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رفاقت و معیت نے سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے اندر اَن گنت اوصاف حمیدہ پیدا کردیئے تھے۔ آپ بے پناہ قوت حافظہ اور اجتہاد و استنباط کی صلاحیت سے بہرہ ور تھیں اس لئے جب وہ کسی حدیث پاک کو روایت کرتی تھیں تو اس کے سیاق و سباق اور احکام کے اسرار و رموز کو اس خوبی سے بیان فرماتی تھیں کہ زیر بحث مسئلہ اور معاملہ روز روشن کی طرح واضح ہوجاتا تھا۔ آپ نہایت قانع تھیں، غیبت سے احتراز کرتی تھیں، احسان کم قبول کرتی تھیں، خود ستائی سخت ناپسند تھی تاہم بڑی خوددار تھیں، شجاعت اور دلیری بھی آپ کا خاص جوہر تھا۔

ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بڑی خاشع، متضرع اور عبادت گزار تھیں، چاشت کی نماز برابر پڑھتی تھیں۔ رسول عربی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ راتوں کو اٹھ کر تہجد کی نماز ادا کرتی تھیں اور ان کے بعد بھی اس کی پابند تھیں۔ رمضان میں تراویح کا خاص اہتمام کرتی تھیں۔

ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی علمیت، فوقیت اور فضیلت کو دیکھا جائے تو آسمان کی بلندیوں پر نظر آتی ہے۔ رسالت مآب صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جو ان سے محبت تھی، وہ ظاہری حسن و جمال کی وجہ سے نہیں بلکہ ذاتی علم و فضل و کمال تھا جس کے بارے میں حضور اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کوئی چیز پوشیدہ نہیں تھی۔

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا تمام لوگوں میں سب سے زیادہ عالمہ تھیں، بڑے بڑے اکابر صحابہ رضی اللہ عنہا ان سے پوچھا کرتے تھے۔ حضرت عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کا قول ہے: قرآن، فرائض، حلال و حرام، فقہ، شاعری، طب، عرب کی تاریخ اور نسب کا عالم ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے بڑھ کر کسی کو نہیں دیکھا۔ ان کی علمیت کے بارے میں حضرت امام زہری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ’’اگر تمام مردوں کا اور امہات المؤمنین کا علم ایک جگہ جمع کیا جائے تو حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا علم وسیع تر ہوگا‘‘۔ حضرت موسیٰ بن طلحہ رضی اللہ عنہ کا قول ہے: ’’میں نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے زیادہ کسی کو فصیح نہیں دیکھا‘‘۔ حضرت عطاء بن ابی الرباع تابعی کا قول ہے: ’’ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سب سے زیادہ فقیہہ، سب سے زیادہ صاحب علم اور عوام میں سب سے زیادہ صائب الرائے تھیں‘‘۔ خطابت کے لحاظ سے سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سیدنا حضرت عمر فاروق اور سیدنا حضرت علی رضی اللہ عنہ کے سوا تمام صحابہ میں ممتاز تھیں۔

ام المؤمنین  رضی اللہ عنہا کا شمار محدثین کے طبقہ اول میں ہوتا ہے، آپ سے دو ہزار دو سو دس احادیث مروی ہیں، ان میں سے بخاری اور مسلم شریف میں 174 متفق علیہ ہیں، صرف بخاری شریف میں 154 اور صرف مسلم شریف میں 67 ہیں، بقیہ تمام کتابوں میں ہیں۔ مختلف احادیث میں آیا ہے۔ تم اپنے دو تہائی دین کو حمیرا یعنی سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے حاصل کرو۔

عورتوں پر عائشہ رضی اللہ عنہا کو فضیلت ایسے ہے جیسے تمام کھانوں پر ثرید کو فضیلت حاصل ہے۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں مجھے ازواج مطہرات  رضی اللہ عنہا پر دس وجہ سے فضیلت ہے۔

  1. میرے سوا حضور اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کسی کنواری عورت سے نکاح نہیں کیا۔
  2. میرے سوا کسی ایسے خاتون سے نکاح نہیں کیا جس کے ماں باپ مہاجر ہوں۔
  3. آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس حضرت جبرائیل رضی اللہ عنہا آسمان سے ایک ریشمی کپڑے میں میری تصویر لائے۔
  4. اللہ تعالیٰ نے آسمان سے میری برأت اتاری۔
  5. حضرت جبرائیل علیہ السلام نے حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کی ان سے نکاح کرلیں، یہ آپ کی اہلیہ ہیں۔
  6. میں اور آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک ہی برتن سے نہایا کرتے تھے۔
  7. آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے پاس ہوتے تو وحی آجایا کرتی تھی۔
  8. آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وصال میرے گلے اور سینے کے درمیان ہوا۔
  9. آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم میری باری کے دن اللہ سے واصل ہوئے۔
  10.  آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے حجرے میں مدفون ہیں۔

وقت چلتے چلتے رمضان المبارک 57سن ہجری میں داخل ہوا تو ام المؤمنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیمار پڑگئیں اس وقت ان کی عمر 57 سال تھی۔ انہوں نے سمجھ لیا کہ یہ مرض الموت ہے اور اس جہاں رنگ و بو سے رخصتی کا وقت قریب ہے۔ وصال سے پہلے وصیت فرمائی:

مجھے رات کو ہی جنت البقیع میں امہات المؤمنین کے قریب دفن کیا جائے۔ اور پھر سترہ رمضان المبارک 57ہجری کو رات نماز وتر کے بعد اپنے پیچھے ایک عالم کو سوگوار و افسردہ چھوڑ کر اس کا رگہ عالم سے رخصت ہوگئیں تو ان کے گھر سے رونے کی آواز فضا میں ابھری۔ ام المؤمنین سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے اپنی باندی کو بھیجا کہ خبر لائیں اس نے آکر کہا:

سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا داغ جدائی دے گئیں۔ اور آنکھوں سے آنسو گرنے لگے۔ سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا بھی رونے لگیں اور بولیں۔ اللہ تعالیٰ ان پر رحمت فرمائے۔ نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو وہ سب سے زیادہ محبوب تھیں۔

ماخوذ از ماہنامہ دخترانِ اسلام جون 2016

تبصرہ