صوفیانہ ملفوظاتی ادب اور طبقہ نسواں (قسط دوم)

فہمیدہ نسرین

  1. پڑوسن سے حسن سلوک

امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ نے احیاء العلوم میں ہمسائیوں کے حقوق اور ان کے ساتھ حسن اخلاق سے پیش آنے کواحادیث کی روشنی میں تفصیلاً بیان کیا ہے۔ ان احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمسایوں سے تند خوئی،درشت کلامی اورکسی بھی طرح کی بد اخلاقی فرمائی ہے۔ اسی طرح طبقہ نسواں کو بھی مخاطب فرما کر ہمسایوں کے ساتھ حسن سلوک کی تلقین فرمائی ہے۔جیساکہ حدیث مبارک ہے:

حضرت ابو ہریرہ فرماتے ہیں کہ نبی پاک صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایاکہ:

’’اے مسلمان عورتو!کوئی پڑوسن اپنی پڑوسن کی بھیجی ہوئی چیز کو حقیر نہ جانے اگرچہ بکری کا کھر ہی ہو‘‘۔

اسی طرح امام غزالی ایک اور حدیث پاک بیان فرماتے ہیں :

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کسی نے عرض کیا کہ فلاں عورت دن کو روزہ رکھتی ہے اور رات کو تہجد پڑھتی ہے (مگر بد خلق ہے) اور ہمسایوں کو اپنی زبان سے ایذا دیتی ہے۔ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

’’اس میں کوئی خیر نہیں وہ دوزخیوں میں سے ہے‘‘۔

اسی طرح امام غزالی نے حضرت ابو داؤد کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ :

’’حضرت ابو داؤد نے ایک عورت زبان دراز دیکھی۔فرمایا کہ اگر یہ گونگی ہوتی تو اس کے لئے اچھاہوتا‘‘۔

امام صاحب ان احادیث واقوال کی روشنی میں عورتوں کی اس طرح رہنمائی کرتے ہیں کہ ایسی عورتیں جو نماز ،روزہ وغیرہ کی بہت پابند ہوتی ہیں مگر ان کا اپنے ہمسایوں کے ساتھ برا سلوک ہوتا ہے یعنی وہ بد اخلاق اور زبان دراز ہوتی ہیں تو ان کی نمازیں اورباقی عبادات آخرت میں کسی کام نہ آئیں گی۔اس لئے ان کو چاہیے کہ وہ زندگی میں حسن اخلاق کو اپنائیں۔

  1. مذاق میں بھی تہمت سے پرہیز

حضرت خواجہ غلام فریدرحمۃ اللہ علیہ نے ایک مجلس میں ایک ایسا واقعہ سنایا جس سے یہ رہنمائی ملتی ہے کہ مذاق میں بھی تہمت سے بچنا چاہیے۔فرماتے ہیں:

ایک دن مدینہ طیبہ میں ایک عورت کا انتقال ہو گیا اور اس کو غسل دینے لگے، غسل دینے والی عورت اس کو غسل دے رہی تھی جب اس کا ہاتھ میت کے عضو مخصوص پر پڑا تو مذاق کے طور پر کہنے لگی کہ معلوم نہیں اس نے کیا کام کیے ہوں گے۔ یہ کہنا تھا کہ اس کا ہاتھ اسی جگہ چمٹ گیا اور وہ آہ و زاری کرنے لگی۔ سب لوگ حیران تھے کہ اب کیا کیا جائے۔کیونکہ جب تک اس کا ہاتھ نہ چھوٹتا غسل اور دفن نا ممکن تھا۔ یہ ایک عظیم حادثہ تھا اور مدینہ منورہ کے تمام علماء کو جمع کر کے پوچھا گیا کہ کیا کرنا چاہیے کسی نے کہا کہ غسل دینے والی عورت کا ہاتھ کاٹ دیا جائے۔کسی نے کہا کہ زندہ عورت کا ہاتھ کاٹنا باعثِ عذاب ہے مردہ عورت کا عضو کاٹ دیا جائے۔کسی نے کچھ کہا اور کسی نے کچھ کہا۔ امام مالک نے عرض کیا کہ میرے نزدیک اس مشکل کا ایک حل ہے۔علمائے مدینہ نے پوچھا کیا حل ہے؟آپ نے فرمایا کہ مردہ عورت محصنہ تھی یہ عورت قذف محصنہ کی مرتکب ہوئی ہے اس لئے اس پر حد لازم ہے۔ حد لگائی جائے تو مجھے یقین ہے کہ اس کا ہاتھ چھوٹ جائے گا۔ چنانچہ اس کو اَسّی (80) درے لگائے گئے اور اس سے اس کا ہاتھ آزاد ہو گیا۔

لہٰذا یہ واقعہ عوام الناس بالخصوص طبقہ نسواں کے لئے رہنمائی اور عبرت ہے کہ مذاق میں بھی کسی انسان (خواہ وہ زندہ ہو یا مردہ) پر تہمت نہیں لگانی چاہیے۔

  1. جھوٹ سے بچنے کی تلقین

امام غزالی احیاء العلوم میں اس روایت کو بیان کرتے ہیں کہ:

حضرت عبداللہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے مروی ہیں کہ ایک دفعہ حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارے گھر تشریف لائے۔اس وقت میں لڑکا تھا،کھیلنے چلا گیا۔میری ماں نے پکارا کہ ادھر آؤ اور لے جاؤ۔ آپ نے فرمایا کیا دینے کو بلایا ہے؟ عرض کیا خرما۔آپ نے فرمایا اگر کچھ نہ دیتیں تو تم پر جھوٹ لکھا جاتا۔

امام صاحب فرماتے ہیں ایسے ہی وہ جھوٹی باتیں جو خاوند کو عورتیں کہہ دیتی ہیں کہ اسے یقین ہو جائے مثلاً کہہ دیا جائے کہ مجھے اتنا زیور بنا دیا یاکپڑ ے بنا دیے وغیرہ ایسا جھوٹ حرام ہے۔

اور یہ بھی حدیث میں وارد ہے :

حضرت اسماء بنت ابو بکررضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک عورت نبی کریم کے پاس آئی پس اس نے عرض کیا یا رسول اللہ ! میری ایک سوکن ہے۔ کیا مجھ پر گناہ ہوگا اگر میں اس سے زیادہ نان و نفقہ بتایا کروں جو میرا خاوند مجھے دیتا ہے۔پس رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ ’’ جو چیز نہ ملے اور کہنا کہ ملی ہے یہ ایسا ہے جیسے کوئی مکرو فریب کا لباس پہن لے‘‘۔

حضرت مجاہد فرماتے ہیں:

’’اسماء بنت عمیس سے روایت ہے کہ شب زفاف میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے یہاں میں موجود تھی اور ان کو میں نے ہی بنایا سنوارا تھا اور میرے ساتھ کچھ اور عورتیں بھی تھیں۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو ہم جب حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس لے گئے اور آپ کے ہاں ایک پیالہ دودھ کے سوا اور کچھ موجود نہ تھا، اس میں سے کچھ آپ نے پیا اور پھر حضرت عائشہ کو دیا۔ وہ حیاء و شرم کر رہی تھیں تو میں نے کہا رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا تبرک ہے لے لو۔ انہوں نے شرم کی حالت میں لے کر پیا، پھر آپ نے فرمایا: اپنی ساتھیوں کو دے دو۔ عورتوں نے عرض کی، ہمیں بھوک نہیں۔ آپ نے فرمایا: کہ اپنے پیٹ میں جھوٹ اور بھوک دونوں کو نہ جمع کرو۔ میں نے عرض کی یا رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم اگر کسی چیز کو ہمارا دل چاہتا ہو اور ہم کہہ دیں کہ بھوک نہیں، کیا یہ بھی جھوٹ ہے؟ آپ نے فرمایا: ’’جھوٹ جھوٹ ہی لکھا جاتا ہے حتی کہ اگر تھوڑا سا جھوٹ ہو گا تو وہ تھوڑا لکھا جائے گا۔‘‘

امام غزالی احیاء العلوم میں حکایت بیان فرماتے ہیں:

’’حضرت تمیمی فرماتے ہیں کہ ربیع بن خثیمہ کی بہن میرے بیٹے کی عیادت کے لئے آئیں اور اس پر جھک پڑیں اور پوچھنے لگیں کہ بیٹا کیا حال ہے؟ ان کے بھائی ربیع نے ان سے پوچھا کہ تم نے اس لڑکے کو دودھ پلایا ہے۔انہوں نے کہا نہیں۔انہوں نے کہا پھر تمہارا بیٹا کیسے ہوا؟یوں کیوں نہ کہا کہ بھتیجے کیا حال ہے تو جھوٹ نہ ہوتا‘‘۔

پس امام صاحب ان احادیث اور حکایات کو بیان کرکے طبقہ نسواں کی اصلاح فرماتے ہیں کہ ایسے جھوٹ جن کو وہ جھوٹ نہیں سمجھتیں ان سے بچیں کیونکہ احادیث میں ان کی سخت مذمت بیان ہوئی ہے۔

  1. غیبت سے پرہیزکی تلقین

امام غزالیرحمۃ اللہ علیہ نے احادیث کی روشنی میں غیبت کی مذمت کو واضح فرمایا ہے:

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ کسی کی غیبت نہ کیا کرو۔ میں نے ایک عورت کو حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے کہہ دیا تھا کہ اس کا دامن لمبا ہے۔آپ نے فرمایا کہ تھوک۔میں نے تھوکا تو منہ سے ایک گو شت کا لوتھڑا نکلا۔

اورحضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے ایک عورت کا ذکر حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے اس طرح کیا اور کہا کہ وہ چھوٹے قد والی ہے۔ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ تو نے اس کی غیبت کی۔

امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں یہ بھی غیبت ہے کہ کوئی لنگڑے کی نقل اتارتے ہوئے اس کی چال چلنے لگے بلکہ نقل کرنا غیبت سے بڑھ کر ہے۔حدیث میں ہے:

جب حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو دیکھا کہ ایک عورت کی نقل کی ہے تو آپ نے فرمایا:

’’مجھے خوش نہیں کرتا کہ میں کسی کی نقل اتاروں اور اس پر مجھے اچھا انعام ملے‘‘۔

حضرت انس فرماتے ہیں کہ حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک روز روزہ رکھنے کا ارشاد فرمایا اور یہ بھی فرمایا کہ جب تک میں اجازت نہ دوں، تب تک کوئی افطار نہ کرے۔ صحابہ نے روزہ رکھا اور جب شام ہوئی تو آپ کی خدمت میں ایک ایک صحابی نے آنا شروع کیا اور عرض کرتے گئے ،میں نے روزہ رکھا تھا ،مجھے افطار کی اجازت ہو۔ آپ اجازت دیتے گئے۔ ایک شخص نے عرض کیا یا رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم دو عورتیں ہیں ، انہوں نے بھی روزہ رکھا تھا۔ان کو آپ اجازت دیں تاکہ وہ افطار کریں۔ آپ نے منہ پھیر لیا۔اس نے دوبارہ عرض کیا، دوبارہ منہ پھیر لیا۔ اس نے پھر عرض کیا۔ آپ نے فرمایا کہ انہوں نے روزہ نہیں رکھا۔جو آدمی دن بھر لوگوں کا گوشت کھائے، اس کا روزہ کیسے ہو گا ، جا کر ان سے کہہ دو کہ تمہارا روزہ ہے تو قے کرو۔ اس نے ان عورتوں کو آپ کا حکم سنایا۔ انہوں نے قے کی تو اس پر ایک کے منہ سے جما ہوا خون نکلا۔ اس نے آپ کی خدمت میں واقعہ سنایا۔ آپ نے فرمایا :کہ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے۔ اگر یہ خون کے لوتھڑے ان کے پیٹوں میں رہ جاتے تو ان کو دوزخ کھا جاتی۔

امام غزالی لکھتے ہیں کہ ان دونوں نے جس چیز کو اللہ تعالیٰ نے حلال کیا ، اس سے تو روزہ رکھا اور جس کو حرام کیا تھا ،اس سے افطار کیا۔ ایک دوسرے کے پاس بیٹھ کر گوشت کھانا شروع کیا یعنی غیبت کی۔

امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ نے احادیث کو بیان فرما کر اس حقیقت کو واضح کیا ہے کہ کسی کے قد و قامت وغیرہ پر بات کرنا بھی غیبت ہے کیونکہ اکثر عورتیں دوسروں کے بارے میں ایسی ہی باتیں کرتی ہیں اور ان کے نزدیک یہ غیبت نہیں ہوتی حالانکہ وہ غیبت ہی ہوتی ہے۔ اسی طرح غیبت کی وجہ سے روزہ جیسی عبادت بھی زائل ہو جاتی ہے۔ امام صاحب ان احادیث کی روشنی میں ان کی اصلاح کرنے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ وہ اس غیر اخلاقی عادت سے بچ سکیں۔

حاصل کلام

صوفیاء کرام کی تعلیمات وارشادات در حقیقت قرآن و سنت کا اطلاقی و عملی لائحہ عمل (نمونہ)ہوتی ہیں۔جن سے رہنمائی حاصل کر کے سالک حقیقی معنوں میں وصال الی المطلوب کی منزل پاسکتا ہے۔قرآن و سنت کی تعلیمات کی طرح ان نفوس قدسیہ کی تعلیمات و ارشادات بھی عمومیت کے حامل ہوتے ہیں جس میں ہر طبقہ انسانیت کے لئے رشدو ہدایت کا سامان موجود ہوتا ہے۔صوفیاء کرام کی تعلیمات میں طبقہ نسواں کو بھی خصوصی طور پر مدّ نظر رکھا گیا ہے۔ حضرت سید علی بن عثمان الہجویری المعروف بہ داتا گنج بخش لاہوری کی تصوف پر مستند کتاب ’’کشف المحجوب‘‘ میں طبقہ نسواں سے متعلق سب سے پہلے علم کی فرضیت کو قرآن و حدیث کی روشنی میں بیان کیا ہے،ایک عظیم روحانی شخصیت ابو حامد امام محمد غزالی نے ’’احیاء العلوم‘‘ میں عورتوں سے متعلق متعدد امور مثلاً عورتوں سے متعلق احکام حمام ، حائضہ کے لئے ہدایات، روزے کے احکام ، عقد کے آداب ، امر بالمعروف ونہی عن المنکرکی فرضیت ،عائلی و خاندانی زندگی سے متعلق ہدایات، پڑوسن سے حسن سلوک ،غیبت وجھوٹ سے پرہیز، غیر محرم مردوں سے کلام کرنے کے آداب،بچے کی ریاضت و تربیت اور حسن اخلاق کے بارے میں رہنمائی فرمائی ہے،ملفوظات حضرت خواجہ غلام فرید رحمۃ اللہ علیہ کا مکمل ومستند مجموعہ’’مقاییس المجالِس‘‘ میں بھی طبقہ نسواں کی انفرادی واجتماعی زندگی سے متعلق معاملات خصوصاً پردہ کے احکام، مذاق میں بھی تہمت سے پرہیز ،آداب سماع اور غیر شرعی رسومات کی مذمت بیان فرما کر اصلاح فرمائی گئی ہے اور ملفوظات حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء قدس سرہ العزیز کا مستند مجموعہ’’فوائد الفواد‘‘ میں بھی عورتوں سے متعلق متعدد امور بالخصوص سماع سے متعلق ضروری شرائط کے بارے میں رہنمائی ملتی ہے۔ مختصر یہ کہ عورتوں کے متعلق فقہی احکامات ہوں یا تربیتی و روحانی واردات، انفرادی زندگی کے مسائل ہوں یا اجتماعی زندگی کے آداب، نفس کی اصلاح ہو یا اصلاح معاشرہ کا تصور، عورتوں کو جملہ امور میں ملفوظات صوفیاء سے رہنمائی میسر ہے۔

دور حاضر میں معاشرتی بےراہ روی، نفسانیت، مادیت اور دنیا پرستی کے اثرات نے طبقہ نسواں کو بھی خاطر خواہ متاثر کیا ہے۔ صنف نازک کو اصلاح باطن اور قلب و روح کے تزکیہ کے لئے صوفیائےکرام کی تعلیمات سے استفادہ کی اشد ضرورت ہے، آج تحریری و تقریری طور پر ملفوظات صوفیاء کو طبقہ نسواں میں متعارف کرواکر خواتین کی روحانی تربیت کا اہتمام کیا جا سکتا ہے مثلاً:

  1. عملی و روحا نی تربیت کے لئے ضابطہ کا ر ترتیب دیتے ہوئے خواتین کے لئے تعلیمی و تربیتی مراکز قائم کئے جائیں۔
  2. ملفوظاتی ادب پر مشتمل نصاب تیار کیا جائے جس کے ذریعے خواتین کو تعلیمات صوفیاء سے روشناس کروایا جائے۔

در حقیقت اولاد،خاندان اور معاشرہ کی اصلاح کا دارومدار ایک عورت پر ہی ہو تا ہے۔

ماخوذ از ماہنامہ دختران اسلام، ستمبر 2016

تبصرہ