یومِ اقبال اور قیام پاکستان

فلسطین میں یہودیوں بڑھتے ہوئے پْرتشدّد غلبے اور خاص طور پر مسجدِ اقصیٰ پر ان کے ناپاک قبضے کے خلاف ہندوستان بھر میں مسلمانوں کے احتجاجی جلسے ہورہے تھے، 7 ستمبر 1929ء کو اقبال کی صدارت میں ایسا ہی ایک عظیم الشان جلسہ ہوا۔ اقبال نے اپنے خطبے میں فرمایا: ’’یہ بات قطعاً غلط ہے کہ مسلمانوں کا ضمیر حبّ ِ وطن سے خالی ہے۔ البتہ یہ صحیح ہے کہ حبّ ِ وطن کے علاوہ مسلمانوں کے دل میں دینیت و محبّت اسلام کا جذبہ بھی برابر موجود رہتا ہے اور یہ وہی جذبہ ہے جو ملّت کے پریشان اور منتشر افراد کو اکٹھا کر دیتا ہے اور کر کے چھوڑے گا اور ہمیشہ کرتا رہے گا ... 1914ء میں انگریز مدبرّوں نے اپنے سیاسی اغراض و مقاصد کے لیے یہودیوں کو آلہ کار بنایا، صہیونی تحریک کو فروغ دیا اور اپنی غرض کی تکمیل کے لیے جو ذرائع استعمال کیے ان میں ایک کا نتیجہ آج ہمارے سامنے ہے۔ یہودی مسجدِ اقصیٰ کے ایک حصّے کے مالکانہ تصرّف کا دعوٰی کر رہے ہیں۔ انھوں نے آتشِ فساد مشتعل کر رکھی ہے۔ مسلمان، ان کی عورتیں اور بچّے بھیڑ بکریوں کی طرح ذبح کیے جارہے ہیں ... اب حکومتِ برطانیہ نے فلسطین میں تحقیقاتِ حالات کے لیے ایک کمیشن بھیجنا منظور کیا ہے مگر میں اعلان کر دینا چاہتا ہوں کہ مسلمانوں کو اس پر کوئی اعتماد نہیں۔‘‘1930ء کا سال پاکستان اور اقبال، دونوں حوالوں سے ایک تاریخی اہمیت کا حامل ہے۔ دسمبر کی انتیسویں تاریخ کو الٰہ آباد کے شہر میں آل انڈیا مسلم لیگ کا سالانہ اجلاس ہوا۔ قائداعظم پہلی گول میز کانفرنس میں شرکت کے لئے لندن گئے ہوئے تھے۔ آپ کے ارشاد کے مطابق اس اجلاس کی صدارت اقبال کو کرنی تھی۔ یہیں انھوں نے وہ تاریخ ساز خطبۂ صدارت دیا جو خطبۂ الہ آباد کے نام سے مشہور ہوا۔ اس خطبے میں پہلی مرتبہ ہندوستان کے اندر ایک آزاد مسلم ریاست کا ٹھوس اور غیر مبہم خاکہ پیش کیا گیا۔

برطانوی حکومت نے دوسری گول میز کانفرنس میں اقبال کو بھی مدعو کیا۔ لندن جانے کے لیے 8 ستمبر 1931ء کو لاہور سے روانہ ہوئے۔ اگلی صبح دہلی پہنچے۔ اسٹیشن کے پلیٹ فارم پر ہزاروں کا مجمع استقبال کے لئے موجود تھا۔ 10 ستمبر 1931ء کو بمبئی پہنچے۔ اگلے روز وہاں سے بحری جہاز کے ذریعے انگلستان کے لیے روانہ ہوگئے اور 27 ستمبر کو لندن پہنچ گئے۔ ویسے تو اقبال دوسری گول میز کانفرنس میں شریک ہونے گئے مگر انگلستان میں ان کی علمی اور ادبی شہرت نے جو سیاسی شہرت سے کہیں بڑھی ہوئی تھی، ان کی مصروفیات کو دو حصّوں میں بانٹ دیا۔ کانفرنس کی ابتداء ہی سے کچھ ایسے آثار رونما ہونے شروع ہوئے کہ اقبال بد دل ہوگئے۔ کچھ اجلاسوں میں ایک اندازِ لاتعلقی کے ساتھ شریک رہے مگر جب کسی بھی مثبت نتیجے سے بالکل مایوسی ہوگئی تو بالآخر 19 نومبر 1931ء کو مسلمان وفد سے الگ ہو کر اس کانفرنس سے اعلانیہ کنارہ کش ہوگئے۔ اب لندن میں ٹھہرنا بیکار تھا۔ مولانا غلام رسول مہر کو ساتھ لے کر 22 نومبر کی رات روم پہنچے۔

21 مارچ 1932ء کو لاہور میں اقبال کی زیر صدارت آل انڈیا مسلم کانفرنس کا اجلاس ہوا۔ اقبال نے خطبۂ صدارت پڑھا، جس میں انھوں نے دوسری گول میز کانفرنس کا ماجرا سنایا، اس زمانے کے اہم سیاسی مسائل کا گہرا جائزہ لیا اور مستقبل کی تعمیر کے امکانات پر نظر ڈالی۔ یہ خطبہ ہر لحاظ سے بہت اہم ہے۔ اسے نظر انداز کر کے برّصغیر کی مسلم تاریخ کے جوہر کو نہیں سمجھا جا سکتا۔

1932ء کے آخر میں برطانوی حکومت کی طرف سے لندن میں تیسری گول میز کانفرنس کا اہتمام کیا گیا۔ اقبال اس مرتبہ بھی بلائے گئے۔ 17 اکتوبر 1932ء کوانگلستان روانہ ہوئے۔ 30 دسمبر تک وہیں رہے۔ اقبال نے پھر کانفرنس میں کوئی دلچسپی نہ لی، کیوں کہ اس میں اْٹھائے گئے بیشتر مباحث وفاق سے متعلق تھے، جس سے اقبال کوئی سروکار نہ رکھتے تھے۔ وہ تو ہندوستان کے اندر صوبوں کی ایسی خودمختاری کے قائل تھے جس میں مرکزی حکومت نام کی کوئی شے موجود نہ ہو بلکہ صوبوں کا براہِ راست تعلق لندن میں بیٹھے ہوئے وزیرِ ہند سے ہو۔

برّصغیر میں مسلم سیاسی جماعتیں سخت انتشار اور افتراق میں مبتلا تھیں۔ اپنا اپنا راگ الاپا جا رہا تھا۔ مسلمانوں کے قومی مستقبل کا مسئلہ عملاً فراموش کیا جا چکا تھا۔ قائد اعظم مایوس ہو کر لندن جا چکے تھے، یہ سب دیکھنے اور کْڑھنے کو ایک اقبال رہ گئے تھے، لیکن قدرت کو مسلمانوں کی بہتری منظور تھی، اقبال اور دوسرے مخلصوں کے اصرار پر قائداعظم ہندوستان واپس آگئے اور 4 مارچ 1934ء کو مسلم لیگ کے صدر منتخب ہوئے۔ مسلم لیگ کے تن مردہ میں جان پڑ گئی اور برّصغیر کے مسلمانوں کے دن پھرنے کا آغاز ہوگیا۔

6 مئی 1936ء کو حضرت قائد اعظم رحمۃ اللہ علیہ اقبال سے ملنے ’’جاوید منزل‘‘ تشریف لائے۔ آپ نے اقبال کو مسلم لیگ کے مرکزی پارلیمانی بورڈ کا ممبر بننے کی دعوت دی جسے اقبال نے اپنی شدید علالت کے باوجود بخوشی قبول کرلیا۔

12 مئی کو اقبال دوبارہ پنجاب مسلم لیگ کے صدر مقرر ہوئے۔ آپ کی تعلیمات اور قائد اعظم کی ان تھک کوششوں سے ملک آزاد ہوگیا اور پاکستان معرض وجود میں آیا۔

ماخوذ از ماہنامہ دخترانِ اسلام، نومبر 2016

تبصرہ