اولیاءاللہ کی پہچان

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری

ترتیب و تدوین: محمد حسین آزاد
معاونت: نازیہ عبدالستار

بسم اللہ الرحمن الرحیم

فَوَجَدَا عَبْدًا مِّنْ عِبَادِنَآ اٰتَيْنٰهُ رَحْمَةً مِّنْ عِنْدِنَا وَعَلَّمْنٰهُ مِنْ لَّدُنَّا عِلْمًا.

(الکهف، 18: 65)

’’تو دونوں نے (وہاں) ہمارے بندوں میں سے ایک (خاص) بندے (خضر e) کو پا لیا جسے ہم نے اپنی بارگاہ سے (خصوصی) رحمت عطا کی تھی اور ہم نے اسے علمِ لدنی (یعنی اَسرار و معارف کا اِلہامی علم) سکھایا تھا‘‘۔

الحمدللہ تعالیٰ سلطان الاولیاء برہان الواصلین امام العارفین سیدنا داتا گنج بخش حضرت سید علی بن عثمان ہجویری رحمۃ اللہ علیہ کے عرس مبارک کی اس تقریب میں ہم سب کو حاضری کا شرف اور توفیق عطا ہوئی جو ایک نعمت ہے۔ میں چند ضروری باتیں سورۃ کہف کی آیت کریمہ کی روشنی میں عرض کرنا چاہتا ہوں اور اس کے بعد جو مضمون ہے وہ حدیث مبارکہ کی روشنی میں مکمل کروں گا۔ ہماری ایک نسبت ہے اور ہمارے عقیدے کا ایک بنیادی عنصر، بنیادی لازما اور بنیادی رکن ہے اور وہ ہے اللہ رب العزت کی توحید اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت و رسالت۔ ان کے حقوق کی ادائیگی کے بعد اہل بیت اطہار رضی اللہ عنہم اور خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی عزت و احترام، پھر اولیاء کرام کے ساتھ نسبت، عقیدت اور ان سے توسل اور ان سے اکتساب فیض کا تعلق۔ جبکہ اولیاء کرام کی نسبت میں اوپر کی چاروں نسبتیں جمع ہوجاتی ہیں۔ اس حوالے سے میں قرآن اور احادیث کی روشنی میں کچھ ضروری امور عرض کرنا چاہتا ہوں اور اس سے تصوف کی حقیقت بھی واضح ہوجائے گی۔

میں نے جو آیت مبارکہ تلاوت کی اس کا پس منظر یہ ہے کہ سیدنا موسیٰ علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے امر، اجازت اور اذن سے حضرت خضر علیہ السلام سے ملاقات اور ان کی تلاش میں نکلے۔ سیدنا خضر علیہ السلام قول مختار اور اہل علم کی اکثریت کے قول کے مطابق ولی ہیں۔ اب ایک بات توجہ طلب ہے۔ ولی اگر کوئی عمل کرے تو یاد رکھ لیں وہ باعث خیرو برکت ثابت ہوتا ہے مگر وہ شریعت میں حجت نہیں بنتا۔ شریعت میں حجت نبی کا عمل بنتا ہے۔ نبی کا عمل سنت نبوی ہوتی ہے اور وہ شریعت میں حجت ہوتا ہے۔ حضرت خضر علیہ السلام ایک ولی ہیں اور موسیٰ علیہ السلام جلیل القدر رسول اور نبی ہیں۔ ایک نبی ولی کی تلاش میں نکلا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ وحی کی تلاش میں جانا انبیاء کی سنت ہے۔ یہ ایک شرعی حجت ہے جو قرآن کی نص سے ثابت ہے کہ ولیوں کی تلاش میں جانا نبیوں کی سنت ہے۔ اب جو شخص اس نکتہ کا انکار کرے اسے نہ قرآن کی خبر ہے نہ انبیاء کی سنت کی خبر ہے۔

حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنے خلیفہ یوشع بن نون کو ساتھ لے لیا اور ایک مچھلی کاٹ کر بھون کر راستے کے کھانے کے لئے تیار کرکے رکھ لی اور چل پڑے۔ راستے میں ایک مقام آیا ’’مجمع البحرین‘‘ جہاں دو دریا آپس میں ملتے ہیں۔ تھوڑی دیر وہاں آرام فرمایا۔ اس کے بعد اٹھے آگے چل دیئے۔ آگے چلے تو راستے میں آپ کو کھانے کی طلب ہوئی۔ اس طلب کے پیش نظر آپ نے حضرت یوشع بن نون کو حکم فرمایا کہ ہمارا کھانا (جو مچھلی پکی ہوئی تھی) لائو تاکہ کھالیں۔ اس وقت حضرت یوشع بن نون عرض کرتے ہیں (یہ بات قرآن مجید کا متن ہے اور آیت قرآنی ہے۔ یہ تفسیر نہیں ہے بلکہ نص ہے) عرض کرتے ہیں یا حضرت اللہ نے مجھے بھلا دیا تھا۔ جس جگہ ہم رکے تھے جہاں دو دریا آپس میں ملے۔ اب دریا تو زمین پر تھے مگر عارفانہ اور صوفیانہ تفسیر کے مطابق جہاں اللہ کا ولی ملا۔ یہ وہ مقام تھا جہاں دو دریا آپس میں ملے۔ یہ اشارہ اس امر کی طرف تھا کہ ولی وہ ہوتا جہاں دریائے شریعت اور دریائے طریقت دونوں ملیں تو اس میں سے ولایت نکلتی ہے۔ یہ ایک اشارہ تھا جو ایک عرفانی تفسیر کے اصول کے تحت ہے۔ انہوں نے عرض کیا کہ وہاں جب رکے تو کٹی ہوئی بھنی ہوئی مچھلی زندہ ہوکر برتن سے نکل کر بھاگ گئی تھی۔ اور سرنگ بناکر پانی میں چلی گئی۔ مجھے بتانا یاد نہیں رہا۔

اب اس کی تفسیر اس مقام پر جو میں کررہا ہوں وہ یہ ہے کہ جب آپ نے یہ سنا تو سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے اپنا فتویٰ دیا اور فرمایا یوشع جہاں کٹی ہوئی بھنی ہوئی پکی ہوئی مردہ مچھلی جو زندہ ہوکر بھاگ گئی تھی۔

بس یہی وہ جگہ ہے جس کی تلاش میں ہم نکلے تھے۔ لہذا قرآن مجید نے اس بات کو ثابت کردیا کہ علامت ولایت یہ ہے جہاں موت کو حیات مل جائے وہاں ولایت کا قدم ہوتا ہے۔ میں نے ابتداء میں لفظ بولا تھا کہ ولی کی تلاش میں جانا نبی کی سنت ہے۔ اب وہ قرآن کی نص سے ثابت ہوگیا:

قَالَ ذٰلِکَ مَا کُنَّا نَبْغِ.

(الکهف: 18)

موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا: یہی وہ (مقام) ہے ہم جسے تلاش کررہے تھے۔

(یعنی خضر علیہ السلام کی تلاش جہاں مردہ مچھلی کو زندگی مل گئی اور موت حیات میں بدل گئی۔ پھر وہ وہاں پہنچے جہاں ولی عصر رہتا ہے۔) ایک بات یہ بھی ذہن میں رکھ لیں نہ خضر علیہ السلام نے کوئی پھونک ماری تھی۔ نہ خضر علیہ السلام نے دم کیا تھا۔ نہ خضر علیہ السلام نے مچھلی کو مَس کیا تھا بلکہ وہاں جس پانی سے خضر علیہ السلام وضو کرتے ہیں جس پانی کو مَس کرتے ہیں اس پانی کے چھینٹے اس مچھلی پر پڑے تھے۔ جس ہوا اور فضا میں خضر علیہ السلام سانس لیتے ہیں۔ وہ ہوا اس مچھلی کو لگی تھی۔ صرف اس پانی اور ہوا کے مَس ہونے سے مردہ کو زندگی مل گئی تو قرآن کی نص سے معلوم ہوا کہ ولی کی کرامات میں سے ہے کہ وہ مردوں کو زندہ کرتا ہے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اگر بنی اسرائیل کا ولی محض اپنی سانس کی برکت سے موت کو حیات میں بدلتا ہے تو امت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ولی کتنی ہی موتوں کو حیات میں بدل سکتا ہے۔ پھر آپ وہاں پہنچے اور جب پہنچے تو قرآن مجید میں آتا ہے فرمایا:

فَوَجَدَا عَبْدًا مِّنْ عِبَادِنَآ.

’’تو دونوں نے (وہاں) ہمارے بندوں میں سے ایک (خاص) بندے (حضرت خضر علیہ السلام) کو پالیا‘‘۔

اٰتَيْنٰهُ رَحْمَةً مِّنْ عِنْدِنَا.

’’جسے ہم نے اپنی بارگاہ سے خصوسی رحمت عطا کی تھی‘‘۔

وَعَلَّمْنٰهُ مِنْ لَّدُنَّا عِلْمًا.

’’اور ہم نے اسے اپنا علم لدنی (یعنی اسرار و معارف کا الہامی علم) سکھایا تھا‘‘۔

یعنی اپنے خاص خزانے میں سے علم لدنی عطا کیا تھا۔ ولی کو اللہ کے خزانے میں سے خزانہ خاص سے رحمت خاص ملتی ہے اور اس کے خزانہ خاص سے علم لدنی ملتا ہے اور اس کی برکت اور علامت یہ ہے کہ موت حیات میں بدلتی ہے۔ مردہ دل زندہ ہوتے ہیں یہ اس کی برکت میں سے ہے۔ اب یہ جو میں نے عرض کیا: ’’من لدنا علما‘‘ اس کی تفسیر کے لئے حدیث پاک کی طرف رجوع کرتے ہیں:

صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی متفق علیہ حدیث ہے۔ اس مقام پر کتاب التفسیر میں آئی ہے۔ آقا علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا یہاں حضرت خضر علیہ السلام نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کہا جو وہ علم لدنی لینے آئے تھے۔ کہ اے موسیٰ علیہ السلام! ’’کچھ علم وہ ہے جو اللہ نے مجھ کو عطا کیا ہے ضروری نہیں کہ وہ علم آپ بھی لے لیں اور کچھ علم وہ ہے اللہ نے آپ عطا کیا ہے اور ضروری نہیں کہ وہ علم میں بھی لے لوں‘‘۔ اس حدیث پاک میں اس امر کی تصریح کردی گئی کہ نبی کو علم بالوحی نصیب ہوتا ہے۔ جو بذریعہ جبرائیل علیہ السلام اللہ کی طرف سے اترتا ہے۔ ا سکے علاوہ بھی ایک مصدر علم ہے جو بلاواسطہ جبرائیل عطا ہوتا ہے۔ وہ علم لدنی ہے۔ے۔

جس کا ظاہرو باطن کوئی ذریعہ نہ ہو بلکہ اللہ تعالیٰ براہ راست اپنے خزانہ خاص سے عطا فرماتا ہے۔علم بالوحی خاص ہے جو صرف انبیاء کو حاصل ہوتا ہے جبکہ علم لدنی نبی اور ولی ہر ایک کے لئے عام ہے۔

حضرت حذیفہ یمانی رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ آقا علیہ السلام نے فرمایا:

سالت جبريل عن علم باطن فقال ماهو.

’’میں نے جبرائیل علیہ السلام سے پوچھا کہ یہ علم باطن کیا ہے؟ انہوں نے عرض کیا یارسول اللہ! اللہ رب العزت نے یہ بتایا ہے کہ ’’علم باطن سر بينی وبين احبّاء‘‘ علم باطن (علم لدنی) ایک راز ہے جو میرے اور میرے دوستوں کے درمیان ہوتا ہے۔ (اس راز تک کسی غیر کی رسائی نہیں ہوتی)۔

ایک دوسری روایت میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً مروی ہے کہ آقا علیہ السلام نے فرمایا علم دو قسموں کا ہوتا ہے ایک علم وہ ہے جو زبان سے جاری ہوتا ہے۔ جو علم زبان سے ادا ہوتا ہے وہ علم شریعت نہیں احکام ظاہری کا علم ہے جو بنی آدم پر حجت ہے اس سے فرائض و واجبات اور سنتیں ثابت ہوتی ہیں۔ دوسرا علم جو دل سے جاری ہوتا ہے۔ وہ درحقیقت علم نافع ہے۔ اگر باطن کا نفع کسی کو نصیب ہوتا ہے تو علم بالقلب سے نصیب ہوتا ہے۔

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ نے قرآن کو سات حروف اور قرات میں نازل کیا۔ ہر ہر حرف کا ایک ظاہر ہے اور ایک باطن ہے۔ کسی کو ظاہر ملا اور کسی کو باطن ملا مگر سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کو دونوں علم عطا کئے اس لئے حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے انہیں باب مدینۃ العلم قرار دیا۔ ان کی جھولی میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سارا ظاہر بھی ڈال دیا اور سارا باطن بھی ڈال دیا اور ان سے باب ولایت کو فتح کیا۔ کھولا اور تمام طرق و سلاسل ان سے جاری کئے۔ یہ جو علم لدنی اور علم باطن ہے اس کے حامل اور وارث اولیاء ہوتے ہیں۔ وہ علم ظاہر جو علم وحی تھا۔ اس کا سلسلہ تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت کے بعد منقطع ہوگیا۔ اب ختم نبوت کے بعد باب نبوت و رسالت بند ہوگیا۔ آقا علیہ الصلوۃ والسلام کے بعد نہ کوئی وحی آئی اور نہ آسکتی ہے۔ اب قیامت تک علم الوحی وہی ہوگا جو تاجدار کائنات نے امت کو دیا اب اس علم الوحی کا فیض اللہ رب العزت نے امت کو علم لدنی کی شکل میں منتقل کردیا۔ اب علم ظاہر کا وہ فیض کیونکہ علم الوحی کا بھی ایک باطن ہے اور ایک ظاہر ہے۔ علماء مفسرین مجتہدین، محققین اساتذہ متکلمین قراء قرآن علم ظاہر کے حامل رہے جس کو قرآن نے کہا یتلوا علیکم ایتہ ’’کچھ تلاوت آیات کے وارث بنے کچھ‘‘ ویعلمو الکتاب والحکمۃ کچھ تعلیم کتاب کے وارث بنے۔ کچھ تعلیم حکمت کے وارث بنے۔ ویزکیہم یعنی رسول تمہارے میلے کچیلے قلب و باطن کا نگاہ سے تزکیہ فرماتے ہیں۔ جو تمہارے من کے اندھیرے دور کردیتا ہے۔ جو کسی ریاضت سے اندھیرا نہیں جاتا مگر نگاہ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے تمہارے باطن کی تاریکی دور ہوجاتی ہے۔ جو اس مصطفی کی مجلس میں بیٹھتا ہے وہ بلا ریاضت صاحب نور ہوجاتا ہے۔ جو مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نگاہ کا فیض پاتا ہے اس کا بغیر مجاہدہ کے ظاہرو باطن منور ہوجاتا ہے۔

لہذا وہ علم ظاہر جس میں پوشیدہ علم باطن ہے۔ اس کے حامل و وارث، تلاوت قرآن کے وارث قراء اور حفاظ بنے۔ تعلیم کتاب کے وارث علماء اور مفسرین، مجتہدین اور ائمہ بنے۔ جبکہ تعلیم حکمت کے وارث حکماء بنے فقہاء بنے زعما بنے اور تزکیہ کتاب کے تحت اس علم باطن کے حامل اور وارث حضور داتا گنج بخش علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ کا طبقہ بنا لہذا جو شخص شریعت کو مانے، علم ظاہر کو مانے مگر علم باطن اور علم تصوف کو نہ مانے اور اس کی نفی کرے تو اس نے تصوف کی اہل سنت کے علماء کی اور اولیاء کی اور صوفیاء کی نفی نہیں کی اس نے قرآن کی نفی کی ہے۔ اس نے علوم محمدی کی نفی کی ہے۔ ا س نے فرائض پیغمبرانہ کی نفی کی ہے۔

میں آپ کو حق بتاتا ہوں کہ علماء بڑے ہوئے مگر اس طریق زہد طریق تصوف طریق سلوک طریق تزکیہ طریق ایصال کی وادیاں عبور کئے بغیر کوئی امام نہیں بنا سب اماموں کے امام جن کے در سے ہر ایک کو علم کی امامت ملی۔ جن کے علم کے فیض سے مذاہب نکلے وہ امام اعظم سیدنا ابوحنیفہ وہ حضور داتا گنج بخش کے بھی امام ہیں۔ پوری امت کے امام ہیں۔ اس علم تصوف اور علم باطن کی بات کررہا ہوں۔ آپ فرماتے ہیں وہ شیخ طریقت بھی تھے۔ امام اعظم ابوحنیفہ پہلے مرید ہوئے پھر شیخ اور مراد ہوئے پھر جس طرح امت کے امام علم تھے۔ اس طرح امام طریقت و معرفت بھی تھے۔ آپ کو یہ معلوم ہونا چاہئے کہ آپ کے چار ہزار اساتذہ اور شیوخ ہیں جن سے آپ نے پڑھا۔ ان ہزاروں اساتذہ میں ایک استاد بہلول مجذوب بھی ہے۔

باقی اساتذہ کرام سے تو آپ نے حدیث پڑھی، علم ظاہر پڑھا، سب کچھ پڑھا مگر میں پوچھتا ہوں کہ بہلول مجذوب سے کیا پڑھا؟ کیا اس سے اسانید پڑھتے تھے۔ ان سے علم فقہ پڑھتے تھے؟ علم الاحکام پڑھتے تھے؟ نہیں بلکہ وہ بہلول مجذوب دجلہ کے کنارے مکان بناتا تھا۔ وہ پڑھا سکتا ہے؟ امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ کے بھی شاگرد ہیں۔ امام اعظم سیدنا امام باقر رضی اللہ عنہ کے بھی شاگرد ہیں۔ سیدنا امام حسن رضی اللہ عنہ کے شاگرد ہیں، امام زید بن علی کے شاگرد ہیں۔ عبداللہ بن عصم بن معاذ کے شاگرد ہیں، امام الحسن الحنیفیہ کے شاگرد ہیں۔ وہ کل اہل بیت کا خزانہ ان کے پاس ہے لیکن میں جو نکتہ سمجھنا چاہتا ہوں ایک مجذوب کے بھی شاگرد ہیں یہ وہ مجذوب ہے جو دریائے دجلہ کے کنارے گھروندے بناتے تھے اور ہارون الرشید کی بیوی زبیدہ خاتون نے پوچھا کتنے کا بیچتے ہو فرمایا: دس درہم میں۔ دس درہم لے کر مکان گرادیا فرمایا: جائو جنت میں الاٹ ہوگیا۔ ہارون الرشید نے بیوی کا مذاق اڑایا اس طرح جنت میں مکان ملتے ہیں ایسے پیسے بربادکئے کسی غریب کو دیئے ہوتے تو کام آتے۔ہارون الرشید نے رات کو خواب دیکھا کہ جنت میں محل ہے جب وہ اندر داخل ہونے لگا تو فرشتوں نے روکا تو کہا یہ میری بیوی کا گھر ہے اندر جارہا ہوں۔ انہوں نے کہا یہ آپ کا نہیں جس کا گھر ہے وہی اس میں جائے گا۔ آنکھ کھل گئی تو بیوی کو اٹھایا اورکہنے لگا اسی مجذوب بابے کے پاس پھر سے چلو بہلول مجذوب کے پاس آئے۔ اب ہارون الرشید پوچھتا ہے بہلول مکان بیچتے ہو فرمایا: بیچتا ہوں۔ ہاں پوچھا!کتنے کا ہے۔ فرمایا: دس ہزار کا ہے۔ کہنے لگے اتنی مہنگائی کل تو 10 درہم کا بیچتا تھا آج دس ہزار درہم کا۔ حضرت بہلول رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کل کے گاہک بن دیکھے لے گئے آج کے گاہگ دیکھ کر آئے ہیں۔ ارے یہ بہلول مجذوب جس کا سودا دیکھنے دکھانے کا ہے۔ پڑھنے پڑھانے کا نہیں ہے۔ اب امام اعظم ہر کسی سے تو پڑھے ہیں مگر بہلول مجذوب سے کیا پڑھے۔ بہلول مجذوب سے سند عشق لی۔ سند طریقت لی۔ لہذا سند معارفت لی۔ انہوں نے مرید سے مراد بنادیا۔

ماخوذ از ماہنامہ دخترانِ اسلام، نومبر 2016

تبصرہ