2016ء کے سانحات اور ہیپی نیو ایئر

ہم کیسے مسلمان ہیں جو غیر مسلموں کی نقل کرنے کے لیے ہر وقت تیار رہتے ہیں۔ پاکستان کا قومی لباس شلوار قمیض ہے مگر ہم پینٹ شرٹ پہننے کو ترجیح دیتے ہیں۔ قومی کھیل ہاکی ہے اور ہم کرکٹ پر جان دیتے ہیں۔ حکومت چلانے کے لیے اسلامی قوانین موجود ہیں مگر ہم غیر مسلموں کے قوانین کی پاسداری کرتے ہیں۔ آج پھر پوری دنیا میں ایک ہی آواز بلند ہے ’’ہیپی نیو ائیر‘‘

سوال یہ ہے کہ کیا کبھی غیر مسلموں کو مسلمانوں کے تہوار اس جوش و جذبہ سے مناتے دیکھا ہے؟ اب پھر نئے سال کی آمد آمد ہے اور ہرکوئی جشن کا ماحول بنا رہا ہے۔ ساری دنیا میں لوگ اس موقعے کو اپنے اپنے انداز سے منانے کی تیاریوں میں مصروف ہیں۔ اس تیاری میں اربوں کی فضول خرچی ہوگی۔ اگر ان فضول اخراجات کوجوڑا جائے تو اس سے کسی ایک ملک کی غریبی دور کی جاسکتی ہے۔ لیکن تاریخ میں ایسا نہ کبھی ہوا ہے اور نہ ہی اس کا امکان ہے۔ اس نئے سال کے جشن کے ماحول میں کوئی بھی انسانی مجبوریوں کونہیں سمجھتا ہے اورنہ کسی کو فکر ہے؟

جہاں تک نئے سال کے جشن کی بات ہے تو یہ بات سمجھ سے باہر ہے کہ نئے سال کے جشن کا کیا مطلب ہے۔ یہ تو محض ہم نے اپنے دنوں کو سمجھنے اور اس کے شمار کے لیے بنایا ہے۔ پھر ان دنوں میں ایسی کون سی خاص بات ہے جو ہم انہیں جشن میں تبدیل کر دیں؟ اگر جشن منانا ضروری ہے تو سب سے پہلے تو ہم مسلمان ہیں اور ہمارا اسلامی سال محرم الحرام سے شروع ہوتا ہے۔ مسلما ن ہونے کے ناطے ہمیں اپنا نیا سال محرم میں منانا چاہیے تھا مگر اس وقت تو ہمیں سانپ سونگھ جاتا ہے جب تو ہم جلدی سے کسی کوہیپی نیو ائیر کا ایس ایم ایس بھی نہیں کرتے۔ اب ہرمنٹ بعد اپنی پچھلے سال کی غلطیوں کی معافی کے لیے ایس ایم ایس بھیج رہے ہیں۔ کوئی نئے آنے والے سال کی مبارکباد دے رہا۔ ان کو یہ تو معلوم ہے کہ 2017 ء شروع ہورہا ہے اور2016ء ختم ہونے والا ہے مگر ایسے مسلمانوں سے پوچھاجائے کہ ان کو معلوم ہے کہ یہ کونسا ہجری سال ہے تو اکثر لوگوں کا جواب نہ میں ہوگا۔

جس وقت 2016ء شروع ہوا تھا تو اس بار بھی اسی طرح ’’ہیپی نیو ائیر‘‘ کے نعرے بلند ہورہے تھے مگر اب اس گزرے ہوئے سال کی طرف مڑ کردیکھیں تو اس سال میں ہم نے خوشیاں کم اور غم زیادہ اٹھائے ہیں۔ ایسی کونسی قوم ہے جو غم میں بھی جشن مناتی ہے؟ ہمیں تو دسمبر ہی ایسا رْلا گیاکہ قلم لکھنے سے قاصر ہے۔ کتنے سانحات ہوئے کیا انہیں معلوم تھا کہ یہ سال ان کے لیے آخری سال ہوگا؟ کیا 2016 ء میں ہونے والی دہشت گردی، ڈرون حملے، ایکسیڈنٹ، طیارہ حادثہ اور حالات سے تنگ آکر خودکشی کرنے والوں کو معلوم تھا کہ یہ سال ان کی زندگی کا آخری سال ہوگا؟ زندگی کے آخری لمحے کا کسی کو معلوم نہیں کہ کب آجائے جبکہ ہم سالوں کی باتیں کرتے ہیں۔

ایسے متوالے لوگ جو ہیپی نیو ائیر منا رہے ہیں ان سے پوچھا جائے کہ سال میں ہم نے ایسا کیا پا لیا جس کے لیے جشن منائیں یا پھر ہم کو ایسی ایڈوانس کیا خوشخبری مل گئی جو ہم آنے والے سال کا جشن منائیں؟دہشت گردی ، بجلی اور گیس سے محروم عوام، بیروزگاری سے تنگ آکر خودکشی کرنے والے لوگ، ریاستی دہشت گردی کا شکار سانحہ ماڈل ٹائون میں خواتین، جوانوں اور بوڑھوں کی چیخ و پکار، سانحہ پشاور میں اے پی ایس کے مسلتے پھولوں کو کیا ہم بھول گئے؟ ظلم و جبر کے اس ماحول میں بھلا جشن کیسے منائیں گے؟ جشن اور خوشی کا ماحول تو اس وقت بنتا ہے جب ہر طرف خوشحالی اور امن و امان ہو۔ لیکن یہاں تو بد حالی اور کرپشن نے لوگوں کو خودکشی پر مجبور کررکھا ہے۔ دہشت گرد چیونٹیوں کی طرح انسان کو مار رہے ہیں۔ سیاستدان اپنی کرسی بچانے یا اپنی کرسی بنانے کے چکر میں عوام کو بیوقوف بنانے میں مصروف ہیں۔ بھلا کیسے ہم نئے سال کا جشن منا سکتے ہیں؟ جبکہ مسلمان اقتصادی، سماجی اور تعلیمی اعتبار سے کمزروسے کمزور ہوتے جارہے ہیں۔ دہشت گردی کی چکی میں آج پوری دنیا میں مسلمان پس رہے ہیں۔ کسی کونے میں دہشت گردی ہوتو سب سے پہلے میلی نظر سے مسلمانوں کو دیکھا جاتا ہے۔ ہم کشمیرکو آج تک آزاد نہ کرا سکے اور جو آزاد ملک ہیں ان پر غیر مسلموں کو مسلط کروا رہے ہیں۔ فلسطین کے اندر بھی اسرائیل کی دہشت گردی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔

مسلمانو! اب بیدار ہوجاؤ۔ کب تک غیر مسلموں کی غلامی میں رہو گے؟ مسلمان ایک دلیر قوم تھی جو اب بزدل بنادی گئی ہے۔ تاریخ کا مطالعہ کریں تو پتہ چلتا ہے کہ جتنے بھی ملک آزاد کرائے وہ مسلمانوں نے کرائے ہیں۔ لیکن آج ہمارے نام نہاد کرپٹ حکمران ان کے متضاد چل رہے ہیں بجائے اسکے کہ ہم اپنے اسلامی ملکوں کو آزادی دلائیں بلکہ جو آزاد ہیں ان پر بھی غیر مسلموں کو حکمرانی کا موقع دے رہے ہیں۔ ہمارے پیارے نبی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پوری دنیا کے لیے ایک ماڈل کی حیثیت رکھتے ہیں اور ان کی سنت کو پورا کرتے ہوئے مسلمانوں کو غیر مسلموں کے تہوار منانے کی بجائے اپنے اسلامی تہوار وں کو منانے چاہیے۔ جس طرح تحریک منہاج القرآن اور اس کے قائد شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے روایت ڈالی ہے اور میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جشن کو عالمی سطح پر جس طرح منایا جاتا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔

ماخوذ از ماہنامہ دخترانِ اسلام، جنوری 2017

تبصرہ