زمانہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فضائل و کمالات کا احاطہ تاقیامت نہیں کر سکتا: ڈاکٹر محمد طاہرالقادری

Itikaf City Minhaj ul Quran 2017

شہر اعتکاف میں 21 رمضان المبارک 17 جون 2017ء کو شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے نماز تراویح کے بعد شب سوا بارہ بجے ہزاروں معتکفین اور معتکفات سے خطاب کیا۔ آپ نے سلسلہ وار خطابات کی سیریز ’’اخلاق حسنہ‘‘ کے موضوع انتہائی مدلل گفتگو کی۔ شہراعتکاف سے منہاج ٹی وی اور پاک نیوز نے آپ کے خطاب پر براہ راست نشریات پیش کیں۔

خطاب

شیخ الاسلام نے کہا کہ اللہ رب العزت نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو لامحدود فضائل و کمالات عطا کیے۔ اللہ تعالیٰ نے جو فضائل، عظمتیں، رفعتیں، سعادتیں اور برکتیں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عطا کیں، ان کا آج تک نہ کوئی شمار کر سکتا ہے اور نہ ہی قیامت تک کوئی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان و فضائل کا احاطہ کر سکے گا۔

اخلاق حسنہ

آقا علیہ السلام سراسر خوبیوں کے منبہ و سرچشمہ ہیں اور پورے قرآن میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تمام اوصاف حمیدہ کا ذکر ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ہر خوبی عطا کی اور تمام خوبیوں میں سے ’’اخلاق حسنہ‘‘ کے وصف کو ہی عظیم تر قرار دیا۔ اللہ تعالیٰ ہر شان سے بلند ہے لیکن وہ رب عظیم ہو کر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اخلاق حسنہ کی شان کو عظیم قرار دے رہا ہے۔ جس کو اللہ تعالیٰ خود عظیم کہہ رہا ہے تو اس کی عظمت کا عالم کیا ہوگا۔ اسی طرح ساری کائنات کا رب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جس وصف (اخلاق حسنہ) بارے خود گواہی دے رہا ہو کہ وہ عظیم ہے تو پھر اس وصف کا عالم کیا ہو گا۔

ادب

اخلاق حسنہ کے باب میں ’’ادب‘‘ اور ’’خلق‘‘ ایک ہی حقیقت کے دو نام ہیں۔ ہم نے اپنی زندگی میں ’’ادب‘‘ کو صرف اپنے سے بڑوں کے احترام تک محدود کر دیا لیکن ادب ہی انسان کا اصل حسن سیرت ہے۔ کسی بندے کے ساتھ اچھا برتاو کرنا حسن ادب بن جاتا ہے۔ خالق اور مخلوق کے ناطے میں بندے کا اللہ اور رسول کے ساتھ بھی ادب کا تعلق ہے۔ اس طرح معاشرے میں والدین کے ساتھ ادب، اولاد کے ساتھ ادب، دوستوں و احباب، عام لوگوں، نیک و کار اور بدکاروں کےساتھ ادب کا باہمی تعلق رہتا ہے، جسے اخلاق حسنہ ہی سے نکھارا جا سکتا ہے۔

سیرت و کردار کی خوبصورتی

خوبصورتی ایک ہمہ گیر توازن کا نام ہے۔ انسانی جسم میں کوئی ایک چیز خوبصورت نہیں کہلاتی بلکہ جسم کا ہر ہر حصہ اس خوبصورتی کا جزوی حصہ ہوتا ہے۔ انسانی جسم اور سیرت و کردار میں جب ہر شے مکمل توازن کےساتھ قائم ہوتی ہے تو پھر ہم کہتے کہ ’’کیا حسین چہرہ ہے‘‘۔ جس طرح انسانی چہرے میں تمام حصوں کے ملنے سے خوبصورتی بنتی ہے تو اس طرح انسان کی طبعیت میں موجود ہر پہلو توازن والا ہوگا تو پھر اسے اخلاق حسنہ کے باب میں انسان کو اعلیٰ ترین اخلاق والا خوبصورت انسان کہیں گے۔

جسم اور روح

انسان کا جسم زمین اور آسمان دونوں کا آئینہ دار ہے۔ انسان کا جسم مٹی اور سیاہ بودار گارے سے بنا لیکن اس کی روح معلی اعلی سے ہے اور عالم بالا کی نمائندہ ہے۔ روح کی خصلتیں معلی اعلی والی ہیں جبکہ جسم کی خصلتیں اس دنیا کی ہیں۔ انسان کا جسم مادی اور گھٹیا چیزوں سے بنا جبکہ روح پاک جہان سے آئی ہے۔ جسم کی پیدائش ایک ناپاک نطفہ سے ہوئی اور اس لیے جسم کی خصلتیں بھی ناپاک ہیں۔ انسان کے جسم کی خصلتوں میں تکبر، رعونت، غیبت کرنا، چغلی کرنا، دوسروں کو گالیاں دینا، عیاری و مکاری کرنا، خیانت کرنا، وعدہ خلافی کرنا، جھوٹ بولنا، قتل و فساد کرنا شامل ہیں۔ دوسری جانب اللہ تعالیٰ نے روح کی شکل میں آسمان کا نور جسم کی زمینی دنیا میں رکھ دیا۔ روح آسمان سے آئی اور جسمانی خصلتوں سے بھی پاک ہے۔ روح نے ہر وقت اللہ کی تسبیح دیکھی اور ہر وقت اللہ کی جنت اور اس کی رضا کے نظارے کیے۔

حقیقت موت

جب انسان فوت ہو جائے تو اس میں صرف روح نکل جاتی ہے، باقی سارا جسم اس طرح ہوتا ہے لیکن موت کے فوری بعد وہ جسم میت کہلاتا ہے۔ موت کی ایک حالت نے اس انسان کی پہچان ختم کر کے اس کو میت بنا دیا۔ یہ اتنی بڑی تبدیلی کیسے آ گئی؟ وہ صرف ایک شے روح ہی تھی، جو نظر کسی کو نہیں آتی۔ جسم نظر آتا ہے اور اس کو قبر میں دفنا دیا جاتا ہے۔ جو نظر آتی ہے وہ حقیقت نہیں اور نظر نہ آئے وہ حقیقت ہے۔

تخلیق آدم

جب حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق کا وقت آیا تو اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو بتایا کہ میں اپنا نائب اور خلیفہ بنا رہا ہوں تو اس پر فرشتہ بول اٹھے کہ مولا کیا تو ایسے شخص کو اپنا نائب اور خلیفہ بنائے گا جو زمین پر فساد اور قتل و غارت اور خون خرابہ کرے گا۔ اللہ نے ابھی انسان کی تخلیق تو کی نہیں تھی تو فرشتوں کو یہ سب کیسے معلوم ہو گیا؟ فرشتوں نے انسان کے ظاہری اجزائے ترکیبی اور خصلتیں دیکھ کر یہ اعتراض کیا تھا، جو اپنی جگہ بالکل درست تھا۔

نماز اور زکوۃ

اللہ تعالیٰ نے نماز اور زکوۃ دونوں فرض قرار دیئے، لیکن نماز فرض کا مقصد بھی اخلاق سنوارنا ہے۔ نماز فرض اس لیے کی کہ انسان فحواشات اور منکرات سے رک جائے۔ نماز وہ ہے جس سے انسان کا تکبر ختم ہو جائے اور جسم جھک جائے۔ بندہ نماز پڑھے تو ساتھ مخلوق پر رحم کرے اور جبر و تشدد نہ کرے۔ بیواووں اور یتیموں پر رحم کرے۔ نماز جن لوگوں میں یہ تبدیلی پیدا نہیں کرتی تو اصل میں اللہ تعالیٰ ان کی نماز قبول نہیں کرتا۔ اسی طرح زکوۃ اس لیے فرض کی کہ بندوں کے مال پاک ہو جائیں اور ساتھ احوال بھی پاک ہو جائیں۔ آج ہم نے زکوۃ کی ادائیگی کی حد تک اسے محض اڑھائی پرسنٹ سمجھ لیا۔ زکوۃ کا یہ نصاب اپنی جگہ ہے لیکن زکوہ کی روح غریب کی تڑپ پیدا کرنا ہے۔ زکوۃ سے اگر غریبوں اور محتاجوں کی تڑپ پیدا نہ ہو تو پھر ایسی زکوۃ کا فائدہ نہیں۔

روزہ

روزہ صرف کھانا پینا چھوڑ دینے کا نام نہیں بلکہ ہر برے طرز عمل کو چھوڑنے کا نام روزہ ہے۔ سحری و افطاری کر کے سارا دن بھوک پیاس برداشت کرنا روزے کا ظاہری حسن ہے۔ اس دنیا میں وہ لوگ بھی ہیں جنہیں کھانا نہیں ملتا، اور ان کا کیا حال ہوگا۔ بھوکا پیاسا رہ کر محتاج اور ضرورت مند لوگوں کے ساتھ مل جانا تقویٰ ہے۔ ہر وہ شے اور رویہ جو اللہ کو ناپسند ہے، اس سے بچنا تقوی ہے۔

لمحہ فکریہ

جس اخلاق کیساتھ بندے کی طبعیت اور عمل بدل جائے تو وہ اخلاق حسنہ ہیں۔ جب انسان کے اندر حسن خلق پیدا ہو جائے تو اس کا جسم فرشی اور طبعیت عرشی بن جاتی ہے۔ ایک بشری پیکر انسان میں زمین پر’’عرش‘‘ چلتا پھرتا ہوگا۔ اس انسان کا انوار الہیہ سے تعلق ہوگا۔ اس انسانی پیکر میں احوال روحانی اور نورانی ہو جائیں گے۔ بدقسمتی سے آج ہم اپنی زندگی میں خلق کو نظر انداز کر چکے۔ ہم مادی جسم کے پچاری بن گئے اور روح کی آواز کو بھول گئے ہیں۔ ہمیں اپنی عبادات میں حسن اخلاق پیدا کر کے ایک انقلاب بپا کرنا ہے۔

تبصرہ