شہدائے ماڈل ٹاؤن کے ورثاء کا جسٹس باقر نجفی کمشن کی رپورٹ کے حصول کیلئے مال روڈ پر دھرنا‎

باقر نجفی کمیشن رپورٹ کو شائع کیا جائے اور چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ کی نگرانی میں غیرجانبداربینچ تشکیل دیا جائے‎

مؤرخہ 16 اگست 2017ء کو شہدائے ماڈل ٹاون کے لواحقین نے جسٹس باقر نجفی کی رپورٹ کے حصول کیلئے لاہور میں استنبول چوک ناصر باغ مال روڈ پر دھرنا دیا، جس میں تمام سیاسی جماعتوں کے رہنماوں، قائدین نے بھرپور شرکت کی۔ سانحہ ماڈل ٹاون کے شہداء کے لواحقین، فیملیز اور اظہار ہمدردی کے لیے خواتین کی بڑی تعداد احتجاجی دھرنا میں شریک ہوئی۔ اس موقع پر سربراہ عوامی تحریک ڈاکٹر طاہرالقادری اور دیگر سیاسی جماعتوں کے قائدین نے خطابات کیا۔

معزز مہمانان گرامی

احتجاج میں تمام سیاسی جماعتوں سے قائدین نے بھی بھرپور شرکت کی۔ عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید احمد، تحریک انصاف کے وفد میں میاں محمود الرشید، فردوس عاشق اعوان، فواد چوھدری، میاں اسلم اقبال، ڈاکٹر یاسمین راشد، سعدیہ سہیل رانا، پاکستان پیپلز پارٹی سے سابق وزیراعلیٰ پنجاب میاں منظور وٹو، بے نظیر کی سابق سیکرٹری ناہید خان، جہاں آراء وٹو، سابق وفاقی وزیر ثمینہ خاور حیات کھرکی، قاف لیگ کی ایم پی اے خدیجہ عمر فاروقی، لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے نائب صدر راشد لودھی، عوامی ویمن ونگ کی سینئر نائب صدر سحر چوھدری، عوامی لیگ لاہور کی صدر محترمہ نگہت ہمایوں، سوشل ورکر دین محمد اسٹیج پر موجود تھے۔ اس موقع پر تمام معزز مہمانوں نے جسٹس باقر نجفی کمیشن کی رپورٹ شائع کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے سانحہ ماڈل ٹاون کے شہداء کے لواحقین کیساتھ اظہار یکجتی کیا۔

احتجاجی دھرنے میں تحریک منہاج القرآن و عوامی تحریک کی مرکزی قیادت نے بھی شرکت کی۔ عوامی تحریک کے سینئر رہنماء اور چیئرمین سپریم کونسل ڈاکٹر حسن محی الدین، صدر منہاج القرآن ڈاکٹر حسین محی الدین، ناظم اعلیٰ خرم نواز گنڈاپور سمیت دیگر مرکزی قائدین نے احتجاج میں شریک ہو کر شہداء کی فیملیز سے اظہار یکجہتی کیا۔

خطاب ڈاکٹر طاہرالقادری

سانحہ ماڈل ٹاؤن میں شہید ہونے والے مظلوم خاندانوں کی مائیں، بہنیں، بیٹیاں اور خاندان احتجاجی دھرنے میں بیٹھے ہیں۔ ہیومن رائٹس کے لوگ اور تمام سیاسی جماعتوں کے قائدین یہاں جمع ہیں۔ شہداء کے لواحقین آج بھی اپنی ایمان کی طاقت کیساتھ کھڑے ہیں۔ دنیا کی کوئی طاقت انہیں خرید نہیں سکی۔ ہم شہداء کو یقین دلاتے ہیں کہ دنیا کی کوئی طاقت آپ کو انصاف سے دور نہیں کر سکتی۔ ہم چاہیں تو شریف برادران کے گریبان پکڑ کر بھی انصاف لے سکتے ہیں لیکن امن اور قانون کا دامن نہیں چھوڑنا چاہتے۔ اگر انصاف نہ ملا تو احتجاج کی تحریک ختم نہیں ہوگی۔ عید کے بعد فیصل آباد، ملتان اور راولپنڈی میں احتجاجی ریلیاں اور دھرنے ہوں گے۔

ابھی چور پکڑا گیا، قاتل باقی ہے۔ وہ قاتل جس نے 17 جون کو 100 لوگوں کو گولیوں سے بھون ڈالا، اس کا نام شہباز شریف ہے۔ پانامہ کیس میں نواز شریف صرف وزیراعظم ہاوس سے نکلے، عنقریب ماڈل ٹاون کیس میں دونوں بھائی پھانسی لگنے والے ہیں۔ شہباز شریف اور نواز شریف کو آخر ایک دن لٹکنا ہی لٹکنا ہے اور شہیدوں کا خون انہیں تختہ دار پر لٹکائے گا۔ جب تک یہ دونوں اپنے آخری انجام تک نہیں پہنچتے تو اس ملک سے ظلم کی اندھیری رات کا خاتمہ نہیں ہوگا۔

ماڈل ٹاون میں جو لوگ قتل ہوئے کیا وہ انسان کے بچے نہیں تھے۔ نواز شریف کی پولیس ماڈل ٹاون میں بیریئر ہٹانے گئی تھی۔ میرے گھر پر گیٹ کے سامنے تنزیلہ بی بی جہاں شہید ہوئیں، وہاں کونسا بیرئیر تھا۔ گوشہ درود کے اندر کون سا بیرئیر تھا جہاں درویش درود پاک پڑھتے ہیں۔ منہاج القرآن کے دفاتر میں گھس کر گولیاں چلائی گئیں، وہاں کونسے بیرئیر تھے؟

عدلیہ کے معزز ججز، وکلاء اور پاکستان کے شہریوں سے پوچھتا ہوں کہ 17 جون کے شہداء کا قصور کیا تھا؟ کیا انہوں نے تخت رائیونڈ پر حملہ کر دیا تھا۔ کیا انہوں نے پارلیمنٹ پر حملہ کر دیا تھا؟ ان کا قصور یہ تھا کہ وہ قانون کی حکمرانی چاہتے تھے۔ وہ اپنا انسانی حق مانگتے تھے۔ وہ تعلیم، روزگار اور صحت مانگتے تھے۔ وہ پرامن طریقہ سے اپنا حق مانگ کر احتجاج کا اعلان کر رہے تھے۔

قتل عام کروانے کے بعد شہباز شریف نے جسٹس باقر نجفی انکوائری کمیشن بنا کر خود کو ذمہ دار ٹھہرانے پر فوری استعفیٰ دینے کا اعلان کیا تھا۔ اب وہ استعفیٰ کیوں نہیں دیتے؟ اگر باقر نجفی کمیشن کی رپورٹ آپ کے خلاف نہیں تو اسے پبلک کر دیں۔ جسٹس باقر نجفی نے اپنی رپورٹ میں جو لکھا وہ بیواوں اور شہداء کے لواحقین کو بتایا تو جائے؟ یہ ان کا آئینی حق ہے۔ کیا یتیم بچوں کا اتنا بھی حق نہیں کہ وہ پوچھیں کہ ان کے والدین کو کس نے قتل کیا؟ شہداء کے بچے معصومان کربلا اور شہیدان کربلا کے نام پر صدا کر کے کہتے ہیں کہ ہمیں ہمارے پیاروں کے قاتلوں کا بتایا جائے۔

چھانگا مانگا سیاست کا آغاز نواز شریف نے کیا، جہاں ضمیروں کا سودا کروا کر آپ نے جمہوریت کی بنیاد رکھی۔ نواز شریف نے 80 کی دہائی میں ممبران اسمبلی کی بولیاں لگائی۔ نواز شریف اپنے حواری ممبران پنجاب اسمبلی کو خریدنے کے لیے 3 لاکھ سے 12 لاکھ تک بولی لگاتے اور انہیں خریدتے۔ پھر جو بندہ 5 ایم پی اے ساتھ لائے تو اسے وزیر بناتے تھے۔ اگر میری یہ بات غلط ہے تو نواز شریف خود اس کا انکار کر دیں۔

نواز شریف 35 سال سے اقتدار میں رہے۔ نواز شریف نے 10 سال تک جنرل ضیاء الحق کی گود میں پرورش پائی۔ ضیاء الحق کا نامزد وزیر خزانہ اور غیر جماعتی وزیراعلیٰ کون تھا؟ اس جمہوریت کے تماشے کو نواز شریف نے پالا اور اسے فروغ دیا۔ آمریت کی گود میں پل کر جمہوریت کے خلاف سازشیں نواز شریف نے کرائیں۔ 1898ء میں جب بے نظیر بھٹو وزیراعظم بنیں تو ایک سال میں ان کی حکومت تڑوا دی۔ آج نواز شریف ووٹ کا تقدس بحال کروانے کے جعلی دعوے کر رہے ہیں، انہیں شرم نہیں آتی۔

پانامہ لیکس کی چوری میں پکڑے جانے والے نااہل نواز شریف آئین سے دیانت اور صداقت کی تمام شقیں یعنی 62 اور 63 ختم کرنا چاہتے ہیں، جس کے لیے نواز شریف انقلاب کا نعرہ لگا رہے ہیں۔ ماڈل ٹاون میں 14 لاشیں گرا کر 100 لوگوں کو گولیاں مارنے والے یہ انقلاب دشمن ہیں۔ کس منہ سے انقلاب کی باتیں کرتے ہیں، انقلاب کا نام لیتے ہوئے انہیں شرم کیوں نہیں آتی؟ ان کا انقلاب صرف سطلنت شریفیہ نواز شہباز بچاؤ کا نام ہے۔ تخت رائیونڈ بچاؤ کا نام انقلاب ہے۔ عدلیہ پر حملے کرنا انقلاب کا نام ہے۔

ڈاکٹر طاہرالقادری نے کہا کہ شہداء کے ورثاء کا مطالبہ ہے کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن پر جسٹس باقر نجفی کمیشن رپورٹ منظر عام پر لائی جائے اور چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ کی نگرانی میں غیر جانبدار بینچ تشکیل دیا جائے‎۔

تبصرہ